بھارتی قومی ترانے سے سندھ کا نام نکالا جائے
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
جب بھی آپ نے بھارت کا قومی ترانہ سنا ہو تو اس کے تیسرے مصرعے کے دوسرے حرف سندھو پر غور کیا ہوگا۔ ہماری طرح آپ بھی سوچ رہے ہیں کہ سندھ کا بھارت سے کیا تعلق؟ سندھ تو پاکستان کا ایک صوبہ اور اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وادی سندھ ہمیشہ سے ہندوستان سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے، وادی سندھ کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے جس کا ہند یا ہندی تہذیب کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے اور سندھ وہ واحد خطہ ہے جو مسلم خلافت کا حصہ رہا ہے، جہاں برصغیر کی پہلی اسلامی حکومت قائم ہوئی تھی۔ محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ سندھ کی سرحدیں ملتان تک تھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کے قومی ترانے میں سندھ کے لفظ پر حکومت پاکستان نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟ اور یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ 23 اکتوبر 2023 کو اتر پردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے یہ بیان دیا کہ اگر شری رام جنم بھومی کو 500 سال بعد واپس لیا جاسکتا ہے تو بھارت سندھ کو جو اب پاکستان میں ہے کیوں واپس نہیں لے سکتا، یوگی ادتیہ ناتھ کا یہ بیان صرف پاکستان کے خلاف نہیں تھا بلکہ ساری مسلم امت کے خلاف تھا۔ اس لیے کہ یہودی اس بنیاد پر کہ 3 ہزار سال پہلے فلسطین میں ان کی حکومت تھی۔ آج فلسطین پر قبضہ کرنے کا بہانہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اگر یہودیوں کا یہ دعویٰ مان لیا جائے تو جاپان بدھ مت کا پیروکار ہونے کے ناتے بنارس، سانچی، سارناتھ بلکہ سارے اتر پردیش پر قبضے کا حق رکھتا ہے۔ بھارت کا رویہ ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف بلاوجہ دشمنی والا رہا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت پاکستان کے تاریخی آثار قدیمہ پر رال ٹپکائے بیٹھا ہے۔ خاص کر موہن جودڑو اور ہڑپا پر۔ ان دونوں آثار کا آج تک ہندو تہذیب کے ساتھ کوئی رشتہ ثابت نہیں ہوا ہے۔ بلکہ موہن جو دڑو کی زبان کے بارے میں کہا گیا کہ یہ نہیں پڑھی جاسکی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ 1950 کی دہائی میں برصغیر پاک وہند کے ماہر لسانیات مولانا ابوالجلال ندوی (مرحوم) جوکہ قدیم زبانوں کے ماہر تھے انہوں نے دعویٰ کیا کہ موہن جو دڑو کی زبان دراصل پرانی عبرانی ہے اور موہن جودڑو کی تہذیب کا تعلق سیدنا ابراہیم ؑ کے دور سے ہے۔ اپنے اس دعوے کو درست قرار دینے کے لیے انہوں نے موہن جو دڑو اور ہڑپا کی مُہروں کے حروف تہجی اور پرانی عبرانی کے حروف تہجی کا موازنہ کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہاں کے رہنے والے عبرانی زبان بولتے تھے جو کہ سیدنا ابراہیم ؑ کے زمانے کی زبان تھی، یہ انکشاف انہوں نے حکومت پاکستان کے سرکاری رسالے ’’ماہ نو‘‘ میں اور انجمن ترقی اردو پاکستان کے سہ ماہی رسالے ’’تاریخ وسیاسیات‘‘ کے نومبر 1953ء کے شماروں میں کیا تھا۔ ماہ نو کے1956ء کے اگست تا دسمبر کے شمارے میں اسی موضوع پر ان کے کئی مضامین شائع ہوئے اور انہوں نے مارچ تا دسمبر 1958 کے شماروں میں سندھی مہروں کے حوالے سے ایک سلسلہ وار مضمون لکھا تھا۔ خیر یہ تو ایک طویل اور تحقیق طلب موضوع ہے اس پر ساری دنیا میں بحث ہو رہی ہے۔ لیکن دنیا یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ موہن جو دڑو کی زبان اس خطے کے رہنے والے ایک مسلمان ماہر لسانیات نے پڑھ لی ہے۔
ہمیں شکوہ تو حکومت پاکستان سے ہے کہ موہن جودڑو کے آثار سے نکلنے والے نوادرات آج تک بھارت کے میوزیم میں پڑے ہوئے ہیں اور پاکستان ان پر دعویٰ کر سکتا ہے لیکن آج تک پاکستان نے ان پر اپنا دعویٰ دائر نہیں کیا۔ اسی طرح ہڑپا سے نکلنے والے نوادرات بھی دہلی میوزیم میں ہی موجود ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان پر بھی اپنے حق کا دعویٰ نہیں کیا ہے جبکہ بھارت موہن جودڑو پر فلمیں بھی بنا رہا ہے اور اسے اپنی تاریخ سے جوڑ بھی رہا ہے اور اپنا حق بھی جتا رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ لفظ انڈیا انڈس سے نکلا ہے انڈس ویلی یا وادی سندھ کا حق اس طرح پورے ہندوستان پر ثابت ہوتا ہے۔ سندھ ہند پر بھاری ہے۔ سندھ ہندوستان سے ہمیشہ ترقی یافتہ تھا کیونکہ دیبل کی بندرگاہ ہی سے دنیا کے ساتھ اس کا تجارتی رابطہ تھا یہ تجارت کی بہت بڑی منڈی ہے اور یہاں مختلف قسم کی تجارت ہوتی تھی۔ (سفرنامہ ابن حوقل، صفحہ: 230 یورپ)
ہم اہل سندھ ہمیشہ سے ہندوستان کو تہذیب سکھاتے رہے ہیں، پرانی تاریخ میں سندھ ہمیشہ ہند سے الگ رہا ہے اس کا کوئی تعلق ہندوستان کے ساتھ نہیں رہا، ہم یہاں تاریخ کے اوراق نہیں پلٹیں گے لیکن بی بی سی اور انڈیپنڈنٹ کے محققین سے گزارش کریں گے کہ وہ بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اپنی ساکھ کو داؤ پر نہ لگائیں تامل ناڈو کے اسکالر کا موہن جودڑو سے کیا تعلق۔۔؟ اور یوگی ادتیہ ناتھ اگر دریائے سندھ میں ڈبکی لگانا چاہتے ہیں تو حکومت پاکستان سے ویزے کی درخواست کریں اور جنوری اور دسمبر میں گلگت بلتستان میں بہتے ہوئے دریائے سندھ میں غوطہ لگائیں۔ حکومت پاکستان نے کبھی بھی موہن جودڑو اور ہڑپا کے نوادرات پر دعویٰ نہیں کیا۔ جبکہ عالمی قوانین کے تحت یہ پاکستان کا حق ہے۔ کیا حکومت پاکستان اس کے لیے تیار ہے؟ کہ وہ بھارت سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنا قومی ترانہ تبدیل کرے اور اس میں سے سندھ کا نام نکال دے، یاد رہے بھارت کا قومی ترانہ دراصل اس وقت کے برطانوی بادشاہ جارج پنجم کی شان میں لکھا گیا تھا۔ جو اب بھارت کا قومی ترانہ ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ آزاد کون ہوا پاکستان یا بھارت؟
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: حکومت پاکستان پاکستان نے پاکستان کے کہ موہن جو بھارت کا انہوں نے نہیں کیا کی زبان نہیں کی سندھ کا کے ساتھ رہا ہے دڑو کی ہے اور
پڑھیں:
سندھ میں نئی اجرک والی نمبرپلیٹس کے علاوہ کوئی قبول نہیں
کراچی (آن لائن)3 اپریل کے بعد سندھ بھر میں نئی اجرک والی نمبر پلیٹس والی گاڑی کے علاوہ کوئی نمبر پلیٹ قابل قبول نہیں ہوگی۔ وزیر ایکسائز، ٹیکسیشن و نارکوٹکس کنٹرول سندھ مکیش کمار چاولہ نے اعلان کردیا۔مکیش کمار چاولہ نے کہا کہ ون ونڈو آپریشن کے لیے ٹریفک پولیس کو سوک سینٹر و فیسیلیٹیشن سینٹرز پر کاؤنٹر فراہم کیا جائے۔ انہوںنے کہاکہ ٹریفک پولیس کی چیک پوسٹوں سے بھی گاڑیوں کی نئی نمبر پلیٹس کا مقررہ وقت میں حصول یقینی بنایا جائے۔وزیر ایکسائز نے کہا کہ واجب الادا چالان والی گاڑیوں کے ٹرانسفرز اور ٹیکس ادائیگیوں کو چالان کی ادائیگیوں سے مشروط کیا جائے گا۔