Jasarat News:
2025-01-27@16:49:42 GMT

پیشہ ور بھکاریوں کی بڑھتی تعداد

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

پیشہ ور بھکاریوں کی بڑھتی تعداد

پاکستان میں پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جن میں بچوں کی بھی قابل ذکر تعداد شامل ہے۔ کوئی شہر، چوراہا، یا محلہ ان کی موجودگی سے محفوظ نہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف معاشرتی اقدار کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بچوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔ لاہور میں حالیہ کارروائی کے دوران پولیس نے ڈیفنس کے علاقے میں بچوں سے بھیک منگوانے والے دو افراد کو گرفتار کیا۔ ملزمان کے قبضے سے 10 بچوں کو برآمد کیا گیا، جنہیں بعد میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کردیا گیا۔ یہ واقعہ ان گنت کہانیوں میں سے ایک ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پیشہ ور بھکاری گروہ معصوم بچوں کو زبردستی یا دھوکا دہی کے ذریعے بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پاکستان میں پیشہ ور بھکاریوں کی اصل تعداد کا تعین مشکل ہے، لیکن مختلف اندازوں کے مطابق صرف لاہور میں روزانہ سڑکوں پر موجود بھکاریوں کی تعداد تقریباً 20 ہزار ہے، جن میں ایک بڑا حصہ بچوں پر مشتمل ہے۔ کراچی میں پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب کے مطابق، صرف 2024 کے ابتدائی چھے ماہ میں 800 سے زائد بچے بھیک مانگتے ہوئے پکڑے گئے۔ یہ بھکاری بچوں کے اغوا سے لے کر کئی اور بھی کئی جرائم میں ملوث ہیں۔ یہ مسئلہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے حل نہیں ہوسکتا۔ عوام اور حکومت کو مشترکہ طور پر مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بچوں کو بھکاری مافیا سے بچانے کے لیے سخت قانونی کارروائی ضروری ہے۔ عوام کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں کو رقم دینا ان کے جرائم کو فروغ دیتا ہے۔ غریب بچوں کے لیے تعلیم اور ہنر سکھانے کے مراکز کا قیام۔ کے ساتھ حکومت کو روزگار کے مواقع پیدا کرکے غربت کے خاتمے کی کوشش کرنی ہوگی۔ بچوں سے بھیک منگوانا نہ صرف سماجی جرم بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سخت قوانین، موثر عمل درآمد، اور عوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس چیلنج سے نمٹنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ہم اپنے معاشرے کو بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کرسکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

رائٹ سائزنگ کے باوجود وفاقی حکومت کے اداروں میں ڈیڑھ لاکھ اسامیاں خالی

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 جنوری ۔2025 )رائٹ سائزنگ کے باوجود وفاقی حکومت کے اداروں میں ڈیڑھ لاکھ اسامیاں خالی ہیں رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کی ملازمین کے بارے میں تازہ ترین سالانہ شماریاتی رپورٹ برائے 2022-23 میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وفاقی حکومت اور اس سے منسلک محکموں اور خود مختار اداروں کی کل منظور شدہ تعداد 12 لاکھ 39 ہزار 619 سے زائد ہے لیکن مالی سال 23-2022 تک اس کے ملازمین کی تعداد 9 لاکھ 47 ہزار 610 تھی.

جن میں سے تقریبا آدھے عہدوں (زیادہ تر وفاقی حکومت میں ) کو حال ہی میں ختم کر دیا گیا تھا جب کہ کارپوریشنز اور خود مختار اداروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 7 لاکھ 10 ہزار 808 کے مقابلے میں 5 لاکھ 90 ہزار 585 ہے، اس طرح ایک لاکھ 20 ہزار 223 اسامیاں خالی ہیں دوسری جانب خودمختار اداروں میں 5 لاکھ 28 ہزار 811 منظور شدہ عہدوں کے مقابلے میں 3 لاکھ 57 ہزار 25 ملازمین کام کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک لاکھ 71 ہزار 786 عہدے خالی ہیں.

حالیہ برسوں میں کم بھرتیوں کو دیکھتے ہوئے مالی سال 23 کے بعد سے خالی اسامیوں میں اضافہ ہوا ہے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آبادی کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر وفاقی ملازمتوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے اگرچہ وفاقی روزگار کے پول میں پنجاب کا حصہ سب سے زیادہ ہے لیکن اس کی آبادی کے حصے سے نمایاں طور پر کم ہے، سندھ اور بلوچستان میں بھی وفاقی ملازمتوں میں ان کی آبادی کے مقابلے میں کم نمائندگی تھی.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے ڈومیسائل کے حامل ملازمین 28 فیصد سے زیادہ ہیں جب کہ وہاں کی آبادی کا حصہ 17 فیصد ہے، وفاقی ملازمتوں میں پنجاب کا حصہ 46 فیصد ہے، لیکن اس کی آبادی کا حصہ 53 فیصد ہے مجموعی اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 2 لاکھ 72 ہزار 773 ملازمین ہیں، جب کہ خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ 67 ہزار 25 ملازمین ہیں، اس کی بنیادی وجہ صوبے کے تقریبا ایک لاکھ 20 ہزار ملازمین ہیں، جو سول آرمڈ فورسز میں کام کرتے ہیں، جو ان فورسز کا 52 فیصد ہے، اس کے علاوہ وفاقی ملازمتوں میں سے24 ہزار 945 کا تعلق بھی خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع سے ہے جس سے اس کی مجموعی نمائندگی 32.5 فیصد ہوگئی ہے اس کے مقابلے میں سول آرمڈ فورسز میں پنجاب کا حصہ 26 فیصد، بلوچستان کا 5.36 فیصد اور سندھ کا 4.4 فیصد رہا، وفاقی ملازمتوں میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا حصہ بالترتیب 1.2 فیصد اور 1.3 فیصد ہے.

سندھ سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس مرکز میں 81 ہزار 619 اور بلوچستان میں 29 ہزار 479 سرکاری نوکریاں ہیں سندھ کی 23 فیصد آبادی کے مقابلے میں ملازمتوں کا شیئر 13.8 فیصد ہے، جب کہ بلوچستان کی 6.2 فیصد آبادی کے مقابلے میں ملازمتیں 4.99 فیصد ہیں تاہم صرف وفاقی سیکرٹریٹ جس میں کل 13 ہزار 503 اسامیاں ہیں میں بنیادی طور پر پنجاب کے ڈومیسائل والے ملازمین کی تعداد 66.6 فیصد ہے، اس کے بعد خیبر پختونخوا کے 14.2 فیصد ، سندھ کے 11.5 فیصد اور بلوچستان کے 2.8 فیصد منظور شدہ اسامیوں میں سے 83 فیصد پوسٹیں بھری ہوئی ہیں، جب کہ 17 فیصد خالی بتائی گئی ہیں.

کام کرنے والوں کی اصل تعداد کی بنیادی پیمانے کے لحاظ سے تقسیم سے پتا چلتا ہے کہ 4.6 فیصد کا ایک چھوٹا سا حصہ بنیادی اسکیل یعنی گریڈ 17 سے 22 میں کام کرنے والے افسران کے پاس ہے، جب کہ 95.4 فیصد بنیادی اسکیل یعنی گریڈ 1 سے 16 میں کام کرنے والے ملازمین ہیں وفاقی حکومت میں خواتین کی کل تعداد 30 ہزار 190 ہے، جن میں گریڈ 17 سے 22 تک کی 6 ہزار 715 خواتین بھی شامل ہیں 2022-23 کے دوران وفاقی حکومت کے 5 لاکھ 90 ہزار 585 ملازمین کی کل تعداد میں سے خواتین ملازمین کا حصہ 5.11 فیصد رہا، خواتین ملازمین کی اصل تعداد کی تقسیم سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ گریڈ 17سے 22 میں 22.2 فیصد عہدوں پر خواتین افسران موجود ہیں اور باقی 77.8 فیصد حصہ گریڈ 1 سے 16 تک کی خواتین ملازمین کے پاس ہے.

ملازمین کی کل ورکنگ فورس میں بی ایس 5 کے ملازمین کی تعداد سب سے زیادہ تھی جس کا حصہ 22.8 فیصد تھا بنیادی پیمانے کے لحاظ سے تجزیے سے مزید ظاہر ہوتا ہے کہ بی ایس 20 میں 1.3 فیصد کمی کا رجحان رہا، جب کہ بی ایس 22، بی ایس 21، بی ایس 19، بی ایس 18 اور بی ایس 17 میں بالترتیب 11 فیصد، 0.5 فیصد، 4.1 فیصد، 7.8 فیصد اور 2.5 فیصد اضافہ ہوا گریڈز 16، 13، 12، 9 اور 7 کی اصل تعداد میں بھی نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، جس کا حصہ بالترتیب 3.5 فیصد، 6.1 فیصد، 19.6 فیصد، 8.3 فیصد اور 2.3 فیصد ہے.

دوسری جانب گریڈ 15، 14، 11، 10، 8، 6 اور 1 سے 5 کی اصل تعداد میں بالترتیب 9.97 فیصد، 5.8 فیصد، 0.5 فیصد، 7.4 فیصد، 26.3 فیصد، 4.99 فیصد اور 4.5 فیصد اضافہ دیکھا گیا مالی سال 2023 میں گریڈ 17 سے 22 کے مقابلے میں مجموعی طور پر کام کرنے والوں کی تعداد میں 4 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ گریڈ 1 سے 16 کے مقابلے میں 2.58 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

(جاری ہے)

پنجاب (بشمول اسلام آباد) میں خواتین کی ملازمتوں کا حصہ 66.8 فیصد ہے، اس کے بعد سندھ کا حصہ 15.4 فیصد دیہی علاقوں میں 5.77 فیصد اور شہری علاقوں میں 9.63 فیصد ، خیبر پختونخوا میں 9.99 فیصد، بلوچستان میں 3.67 فیصد، جب کہ آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور سابق فاٹا کا حصہ بالترتیب 1.90 فیصد، 1.14 فیصد اور 1.12 فیصد ہے.

وفاقی حکومت میں کام کرنے والے مجموعی 5 لاکھ 90 ہزار 585 ملازمین میں سے 5 لاکھ 60 ہزار 395 مرد تھے، اس طرح ملازمتوں میں مردوں کا حصہ 94.89 فیصد، جب کہ خواتین ملازمین کا حصہ 5.11 فیصد ہے، جس کا مطلب ہے کہ خواتین اور مردوں کا روزگار کا تناسب تقریبا 1:19 ہے وفاقی ڈویژنز میں داخلہ ڈویژن سول آرمڈ فورسز کی وجہ سے سب سے بڑا انتظامی یونٹ تھا، جو اصل کام کرنے والی طاقت کا 42.83 فیصدنکلا.

دوسرا سب سے بڑا یونٹ ڈیفنس ڈویژن ہے جس کا حصہ 22.77 فیصد ہے، جب کہ ریلوے، مواصلات اور ریونیو ڈویژن 11.26 فیصد، 5.04 فیصد اور 3.26 فیصد کے ساتھ بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔گریڈ 17 سے 22 میں کام کرنے والے 27 ہزار 11 افسران کی اصل تعداد میں گریڈ 17، 18، 19، 20، 21 اور 22 کا حصہ بالترتیب 53.48 فیصد، 29.32 فیصد، 11.24 فیصد، 4.16 فیصد، 1.46 فیصد اور 0.34 فیصد رہا.

متعلقہ مضامین

  • رائٹ سائزنگ کے باوجود وفاقی حکومت کے اداروں میں ڈیڑھ لاکھ اسامیاں خالی
  • جنوبی لبنان میں صیہونی فوج کے حملوں کے نتیجے میں شہادتوں کی تعداد میں اضافہ
  • سلامتی کونسل: کانگو میں بڑھتی پرتشدد کارروائیوں پر تشویش
  • میرپور ماتھیلو:پولیس کی جرائم پیشہ عناصر کیخلاف کارروائیاں تیز
  • راولپنڈی: ریلوے ٹریک کے قریب قائم بڑی تعداد میں خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں
  • امریکی صدر کی تقریبِ حلف برداری ٹی وی پر دیکھنے والے گھٹ گئے
  • اسلامی نظریاتی کونسل میں تقرری کا عمل مکمل، اراکین کی تعداد 20 ہوگئی
  • نیا کیلاش سروے منظر عام پر: ’مستقبل میں کیلاش لڑکوں کو شادی کے لیے لڑکی نہیں ملے گی‘
  • معروف اداکارہ نے بالی ووڈ لیجنڈ شاہ رخ خان کو فالوورز کی تعداد میں پیچھے چھوڑ دیا