لاہور،شہری نیلا گنبد چوک میں لگے اسٹالز پر کتابیں دیکھ رہے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
لاہور،شہری نیلا گنبد چوک میں لگے اسٹالز پر کتابیں دیکھ رہے ہیں.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
جدید شہروں میں آگ تیزی سے کیوں پھیلتی ہے اور سدباب کیا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جنوری 2025ء) جس آگ نے کیلیفورنیا کے کئی علاقوں کو راکھ میں بدل دیا، وہ اس امریکی ریاست کی تاریخ کی سب سے زیادہ مہلک اور تباہ کن آگ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ آگ ایک اور افسوسناک پہچان رکھتی ہیں، کیوں کہ شہروں میں لگنے والی آگ جنگلات کی آگ سے مختلف ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ایسی آگ میں جو گھنی آبادی والے علاقوں میں لگتی ہیں، وہاں عمارتیں خود ایندھن میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔
لاس اینجلس کے علاقے میں یہ آگ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوتی چلی گئی اور چوں کہ یہ عمارتیں ایندھن کا کام انجام دے رہی تھیں، اس لیے آگ پھیلتی چلی گئی۔یونیورسٹی آف مشی گن سے وابستہ اسٹرکچرل انجینیئر اور آتش زدگی سے جڑے امور کی ماہر این جیفرسن کے مطابق، ''یہ فقط جنگلاتی آگ کا معاملہ نہیں بلکہ شہری آتش زدگی ہے۔
(جاری ہے)
اس آگ نے کم از کم 24 افراد کی جان لی جب کہ بارہ ہزار سے زائد عمارتیں تباہ کر دیں۔
تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ایسی شہری آتشزدگیاں آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زیادہ عام ہو سکتی ہیں۔ سائنسدان اب یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شہری آگ کس طرح پھیلتی ہے اور ان سے بچنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے مکینکل انجینیئر مائیکل گولنر کا کہنا ہے، ''یہاں بہت ساری باریکیاں ہیں، جو اہم ہیں۔
لاس اینجلس کا متاثرہ حصہ دوبارہ تعمیر کیا جائے تو کچھ چیزوں کا خیال رکھا جائے۔‘‘ موسمی اتار چڑھاؤلاس اینجلس کی جنگلاتی آگ کی شدت کو بڑھانے والے عوامل میں سے ایک تعمیر مکانات کا ارتکاز تھا جب کہ دوسرا اہم عنصر تیز ہوا تھی، جس نے شعلوں کو بھڑکایا اور مکانات چوں کہ ایک دوسرے کے بہت نزدیک تھے، اس لیے وہ آگ کی لپیٹ میں آتے چلے گئے۔
ایک حالیہ تحقیقی مقالے ''ہائیڈرو کلائمیٹ وایک اور عنصر وہ ہے جسے ایک حالیہ تحقیقی مقالے میں "ہائیڈروکلائمیٹ ویپلیش‘‘ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ نمی اور بہت خشک حالات کے درمیان اچانک تبدیلی جو زمین کے گرم ہونے کے ساتھ زیادہ کثرت سے ہو سکتی ہے، آگ کے پھیلاؤ میں معاونت دے سکتی ہے۔ لاس اینجلس کے علاقے میں 2023 اور 2024 کے اوائل میں غیر معمولی طور پر زیادہ بارش ہوئی تھی جس سے پودوں کی نشوونما ہوئی۔
لیکن یکم جولائی کے بعد سے اب تک ایک ملی میٹر سے بھی کم بارش ہوئی اور ساری جھاڑیاں اور گھاس خشک ایندھن میں تبدیل ہو گئے۔ یعنی پہلے زیادہ بارش کی وجہ سے ان کی علاقے میں تعداد بڑھی اور پھر زیادہ خشک سالی کی وجہ سے وہ سب سوکھ کر آگ کے لیے بہترین ایندھن میں بدل گئے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی عوامل انسانی کارگزاریوں کے ساتھ مل کر زیادہ شدت پکڑ رہے ہیں۔
کیوں کہ اب دنیا بھر میں بہت سے افراد وائلڈ لیند اربن انٹرفیس کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، جہاں شہری سہولیات بھی ہوں مگر قدرتی مناظر بھی ملیں، ایسے میں جنگلاتی آگ کا شہری علاقوں میں پھیل کر تباہ کن تنائج دینا آسان ہو سکتا ہے۔ سن دو ہزار تئیس میں ہوائی کے لہائنا اور دو ہزار چوبیس میں چلی کے والیاریسو کے علاقے میں جنگلاتی آگ نے شہری آبادی کو اسی انداز سے متاثر کیا تھا۔محققین کہتے ہیں کہ جگلات کے بالکل قریب آباد علاقے جنگلاتی آگ کے شہر کی جانب پھیلاؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔
مختلف آگ اور آگ کا رویہ
ایک تحقیقاتی میدان یہ ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ جب ایک عمارت میں آگ لگتی ہے تو اس سے نکلنے والی حرارت کس طرح قریب کی عمارتوں کو بھی جلا سکتی ہے۔ فلوریڈا کے شہر ٹامپا میں موجود انشورنس انسٹی ٹیوٹ فار بزنس اینڈ ہوم سیفٹی کے محققین تجرباتی گھروں کی تعمیر کرتے ہیں اور انہیں بھسم کرنے والی چنگاریاں اور دیواروں کو تیز آگ کے شعلوں سے دوچار کر کے یہ جاننے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ کس حالت میں آگ ایک عمارت سے دوسری عمارت کو متاثر کرتی ہے۔
ان تجربات میں یہ عمل بھی شامل ہے کہ دو عمارتوں کے درمیان کتنی دوری ہونی چاہیے تاکہ ایک عمارت میں لگنے والی آگ دوسری عمارت کو متاثر نہ کرے۔ ابتدائی تجربات کے مطابق ایک عمارت کے اسٹوریج شیڈز کو دوسری عمارت سے کم از کم چھ میٹر کی دوری پر ہونا چاہیے۔
عاطف توقیر (جرنل نیچر)