کندھکوٹ،نامورادیب پروفیسر عبدالخالق کی یاد میں تعزیتی ریفرنس
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
کندھکوٹ(نمائندہ جسارت)ایوان علم و ادب کی جانب سے نامور ادیب پروفیسر عبدالخالق کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد۔پروفیسر عبدالخالق کے علمی و ادبی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا: مقررین۔ ایوان علم و ادب کی جانب سے نامور علمی و ادبی شخصیت مرحوم پروفیسر عبدالخالق سہریانی کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا؛جس میں علمی و ادبی شخصیات سمیت سیاسی و سماجی رہنمائوں اور وکلا سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نامور سماجی رہنما اور پروفیسر عبدالخالق مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر امان اللہ بلوچ نے کہا کہ ہمارے مرحوم والد پورے سماج کیلیے ایک روشن چراغ تھے جس نے ہمیں ہمیشہ خدمت انسانیت کا درس دیا اور اس معاشرے میں اپنے قلم کی جنبش سے علم کا دیا جلا رکھا۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر پروفیسر نظام الدین میمن نے کہا کہ پروفیسر عبدالخالق علمی و ادبی شخصیت ہونے کے ساتھ اصلاح معاشرہ کیلے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے،نامور ادیب عذیر احمد علوی،حافظ سندھی ، نوید قمر اور عدیل مہر نے کہا کہ پروفیسر عبدالخالق کی علمی خدمات سے ہمیں اس معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کی نوید ملتی ہے وہ ایک ہمہ گیر شخصیت تھے جس نے ملک بھر میں علمی و ادبی خدمات سرانجام دیے؛اس موقع پر نامور سماجی شخصیت اور الخدمت اسپتال کشمور کے سرپرست ڈاکٹر عبدالرزاق کھوسہ، پریس کلب کندھ کوٹ کے سابق صدر نیک محمد خان سہریانی،جماعت اسلامی ضلع کشمور کے رہنما مولانا رفیع الدین چنا،سندھ بار کونسل کے ممبر و صدر ڈسٹرکٹ بار کشمور عبدالغنی بجارانی اور میونسپل کمیٹی کندھکوٹ کے سابق چیئرمین سردار میر ملگزار خان سہریانی نے کہا کہ پروفیسر عبدالخالق مرحوم علم و ادب کے حوالے سے اس شہر کی پہچان تھے جس کی رہنمائی سے ہم ہمیشہ مستفید ہوتے رہے،ان کی جدائی سے ایک نہ ختم ہونے والا خلا پیدا ہوا ہے جس کا بھرنا شاید ناممکن ہے مگر پھر بھی امید ہے کہ ان کے علمی و ادبی طالب اور فرزندگان پروفیسر عبدالخالق مرحوم کی علمی و سماجی خدمات کی تسلسل کو جاری رکھیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پروفیسر عبدالخالق نے کہا کہ
پڑھیں:
پروفیسر خورشید 93 برس کی عمر میں انتقال کر گئے
جماعت اسلامی پاکستان کے سابق نائب امیر اور سابق سینیٹر پروفیسر خورشید احمد 93 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
ترجمان جماعت اسلامی کے مطابق پروفیسر خورشید احمد کا انتقال برطانیہ کے شہر لیسٹر میں ہوا۔
پروفیسر خورشید 23 مارچ 1932ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے، وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں اسلامی نظریہ حیات، تذکرہ زندان، پاکستان بنگلادیش اور جنوبی ایشیا کی سیاست سمیت درجنوں اردو اور انگریزی کتابیں شامل ہیں۔
وہ سن 2002ء سے 2012ء تک پارلیمان کے ایوان بالا سینیٹ کے رکن رہے۔ اُن کی دنیا بھر میں شناخت ماہر اقتصادیات اور ماہر تعلیم کے طور پر رہی ہے۔
انہیں 23 مارچ 2011ء کو علمی خدمات پر پاکستان کا اعلیٰ سول ایوارڈ نشان امتیاز عطا کیا گیا جبکہ 1990ء میں انہیں اسلام کے خدمات کے اعتراف میں کنگ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے پروفیسر خورشید احمد کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا۔
سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق، مرکزی رہنما لیاقت بلوچ، امیر العظیم و دیگر نے بھی خورشید احمد کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔