Jasarat News:
2025-04-13@23:01:27 GMT

پشتونوں میں میراث کے مسائل زیادہ ہیں،چیف جسٹس پشاور

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

پشاور(آئی این پی )چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا خاص کر پشتونوں میں میراث کے مسائل سب سے زیادہ ہیں، ہم نماز ، روزہ، حج پر توجہ دیتے ہیں لیکن بہن کو وراثت میں اس کا حصہ نہیں دیتے۔ خیبرپختونخوا جوڈیشل اکیڈمی پشاور میں میراث کے مقدمات کی تیز رفتارطریقہ کار سماعت کے موضوع پر سہ روزہ خصوصی تربیتی پروگرام اختتام پذیر ہوگیا ۔ صوبہ کے مختلف اضلاع میں تعینات چوبیس سول ججز/علاقہ قاضیوں نے اس تربیتی پروگرام میں حصہ لیا۔تربیت کا بنیادی مقصد سول ججز/علاقہ قاضیوں کو وراثت کے تنازعات کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے ضروری مہارت، علم اور سمجھ سے آراستہ کرنا تھا تربیتی پروگرام کی اختتامی تقریب میں پشاور / اکیڈمی کے چیئرمین جسٹس اشتیاق ابراہیم نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔مہمان خصوصی چیف جسٹس جسٹس اشتیاق ابراہیم نے شرکائے تربیت کو میراث سے متعلق مقدمات کی تیز رفتار طریقہ کار سماعت کی سہ روزہ تربیت مکمل کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ججز کا عہدہ کوئی معمولی عہدہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جو انتہائی نازک ہے، دیانتداری، غیر جانب داری، امانت داری، شریفانہ رویہ اور اخلاص جیسی صفات، جج /قاضی میں بدرجہ اتم موجود ہونی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ میراث سے متعلق مسائل خیبر پختونخوا اور خاص کر پشتونوں میں سب سے زیادہ ہیں، ہم نماز، روزہ، حج اور دیگر اسلامی امور پر توجہ دیتے ہیں لیکن جب بات وراثت کی آتی ہے تو ہم بہن کو اس کا حصہ نہیں دیتے اور دین کے بجائے رواج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بطور چیف جسٹس تعیناتی کے بعد اپنے وژن کے مطابق انہوں نے دیوانی مقدمات، جیل ریفامز اور فیملی سے متعلق مقدمات میں مسائل کے بعد چوتھے بڑھے مسئلے وراثت سے متعلق مقدمات کی طرف توجہ دی۔ اس دوران ان کے پاس اکثر شکایات وراثت سے متعلق آئی اور ایک اندازے کے مطابق صوبہ بھر میں 18 ہزار سے 20 ہزار مقدمات وراثت یا میراث سے متعلق زیر التوا ہیں ،اب ہم کوشش کررہے ہیں کہ ان کو فوری نمٹانے کیلئے ڈویژنل سطح پر جائے۔چیف جسٹس عدالت عالیہ پشاور نے ججز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ محنت کریں اور وقت کی پابندی کے ساتھ ساتھ فیصلے قانون کے مطابق بلا خوف اور ایمانداری کے ساتھ کریں، ہائی کورٹ اس میں آپ کے ساتھ ہے جبکہ ان کے ویلفیئر کے منصوبوں جس میں انڈومنٹ فنڈ ز وغیرہ شامل ہیں اسے جلد حل کرلیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر میں موجودہ وقت میں 26 ارب روپے کے پراجیکٹ چل رہے ہیں جبکہ ججز کی کمی کو پورا کرنے کیلئے بھی کام ہو رہا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: چیف جسٹس کہا کہ

پڑھیں:

ٹریفک کے مسائل پر توجہ دیں

 قارئین ! آج جس موضوع پر اظہار خیال کرنے کی کوشش کی ہے ، وہ ٹریفک مسائل سے متعلق ہے جس کا اہل کراچی شکار ہیں بلکہ آجکل خاصے پریشان ہیں۔ ڈی آئی جی ٹریفک نے محکمے کے افسران کو ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہر بھر میں پرانی بوسیدہ اور ہیوی گاڑیوں کی سخت چیکنگ کی جائے۔

انھوں نے مزید کہا کہ موٹرسائیکل سواروں کے لیے ہیلمٹ کا استعمال لازمی قرار دیا، بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرنے والے افراد کے خلاف موقع پر چالان کیا جائے ، فینسی نمبر پلیٹس، کالے شیشے، نیلی لائٹس، ہوٹرز اور سائرن والی گاڑیوں کے خلاف بھی بھرپور کارروائی کی جائے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈی آئی جی ٹریفک نے اس شہر کے لیے خلوص دل سے مثبت رویہ اختیار کیا ہے۔

 یہاں میں کچھ مسائل پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں جن کا حل ہونا بہت ضروری ہے اگر ہماری پولیس ان مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہوتی ہے تو مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ پولیس کے بہتر اقدامات اٹھانے پر خوشی سے سرشار ہوں گے کیونکہ اس وقت لوگ بہت مایوس بلکہ زیادہ مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں۔

اس شہر میں چنگ چی والوں نے شہر کا ماحول خراب کر دیا ہے ادھر موٹرسائیکل سواروں نے قانون کی تمام حدیں پار کرلی ہیں یہ نہ تو اینٹی گیٹر کو اہمیت دیتے ہیں11 سال کے نوعمر موٹرسائیکل چلاتے ہیں اور ایک موٹرسائیکل پر 12 سال سے لے کر 16 سال کے لڑکے جن کی تعداد 3 تا چار ہوتی ہے وہ سوار ہوجاتے ہیں، انتہائی تیز رفتاری سے موٹرسائیکل چلاتے ہیں، ٹریفک کے قوانین کی قطعی پابندی نہیں کرتے ،گاڑیوں سے ٹکراتے ہیں جلدی کے چکر میں 30 لاکھ سے لے کر 90 لاکھ کی گاڑی میں اسکریچ ڈال دیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں موٹرسائیکل 16 سالہ لڑکا چلا رہا تھا پیچھے اس کی والدہ فخریہ بیٹھی تھیں کہ ان کا بیٹا جوان ہو گیا ہے اس نوجوان نے ایک کار کو ٹکر ماری جس کی وجہ سے موٹرسائیکل گر پڑی اور اس کی کہنی میں چوٹ لگ گئی، ماں نے کار والے کو پکڑ لیا اور بے تحاشا گندی زبان استعمال کی، اس دوران 30 موٹرسائیکل والے ان کی حمایت میں جمع ہو گئے۔

کار سوار نے کہا’’ محترمہ! میں نے اینٹی گیٹر دیا ہے۔ آپ دیکھیں جو اب تک آن ہے۔ آپ بلاوجہ گندی زبان استعمال کر رہی ہیں۔ اس کی والدہ نے کہا’’ اپنی گاڑی میں مجھے اور میرے بیٹے کو بٹھاؤ اور ہمیں اسپتال لے کر چلو‘‘اب یہ تو زیادتی کی بات ہے، نوجوان موٹرسائیکل مصروف روٹ پر چلاتے ہیں۔

صبح کا منظر کچھ یوں ہوتا ہے کہ ایک موٹرسائیکل پر تین طالب علم اسکول جاتے ہیں جب کہ ان کے والدین کو چاہیے کہ نوجوانوں کو موٹرسائیکل نہ دیں اس پر ڈی آئی جی ٹریفک کو سخت ایکشن لینا چاہیے۔ شرفا کے پاس لائسنس ہے اس کے باوجود ان داداگیروں نے اس شہر کی خوبصورتی کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ آج کل ایک نیا فیشن مارکیٹ میں آیا ہے نوجوانوں نے اپنی گاڑیوں میں سفید ہیڈ لائٹ لگا لی ہیں ،رات میں سامنے کچھ نظر نہیں آتا ،یہ المیہ ہے شریف شہری کی جان عذاب میں آگئی ہے۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہیوی گاڑیوں کی رفتار 30 کلو میٹر ہونی چاہیے۔ پانی کے ٹینکرز سے پانی رس رہا ہوتا ہے جس سے روڈ بربادی کی طرف جا رہے ہیں۔ 

انھوں نے مزید کہا کہ حادثات کی روک تھام ہونی چاہیے ،ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹریفک پولیس محنت سے ٹریفک کے نظام کو سیدھے راستے پر لانا چاہتی ہے سب سے پہلے موٹرسائیکل والوں کو اس بات کا پابند کیا جائے ، اینٹی گیٹر تمام موٹرسائیکل والوں کے چیک کیے جائیں، سائیڈ گلاس لگانے کے حوالے سے انھیں پابند کیا جائے ،معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ80 فی صد موٹرسائیکلوںکی نمبر پلیٹ ہی نہیں ہوتی، حادثے کی صورت میں پولیس بھی کچھ نہیں کر سکتی، نمبر پلیٹ کی ہی وجہ سے آپ حادثے کے ملزم کو پکڑ سکتے ہیں کہ اس کا ایڈریس مل جائے گا۔

رش کے دوران لوگوں کے چلنے والی فٹ پاتھوں پر آپ کو یہ موٹرسائیکل والے رواں دواں نظر آئیں گے، قوم فٹ پاتھ پر اپنی جان کی حفاظت کرے یا ان فٹ پاتھوں پر چلنے والے موٹرسائیکل سواروں کو چیک کرے پھر جاہل حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ کام پولیس کا ہے وہ انھیں پکڑیں ۔

اصل میں ہمارے معاشرے میں 20 فی صد پڑھے لکھے لوگ جاہلوں سے بہتر ہیں۔ بڑی کمرشل گاڑیاں ون وے کو خاطر میں نہیں لاتی ہیں جب تک گاڑیوں کے لائسنس اور کاغذات نہیں چیک کیے جائیں گے ، چند داداگیر قسم کے لوگ، پولیس کی محنت پر پانی پھیرتے رہیں گے ۔

سفید لائٹس جو منچلوں نے کاروں پر لگا رکھی ہیں اس سے سامنے والی گاڑی بالکل نظر نہیں آتی روز حادثات ہوتے ہیں قصوروار بے قصور کو ذلیل و رسوا کرتا ہے کیونکہ اکثر رات دس بجے کے بعد پولیس بہت کم جگہ دیکھی جاتی ہے۔

ظاہر ہے ان کی بھی ڈیوٹی کے اوقات مخصوص ہوتے ہیں۔ دراصل ٹریفک قوانین کو توڑنا ہم نے اپنا چلن بنا لیا ہے۔میں پھر یہی کہوں گا کہ 70 فیصد موٹرسائیکل سواروں کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہوتے، جب صوبائی حکومت سختی سے اعلان کرے گی تو صرف ایک ماہ میں عام شہری لائسنس اورکاغذات بنوائیں گے ہیلمٹ سے تو ایک شخص کی جان بچ سکتی ہے مگر ان موٹرسائیکل والوں کی وجہ سے ہر دوسرے شخص کی جان عذاب میں ہے ۔.

14 سال کے نوعمر موٹر سائیکل چلاتے پھر رہے ہیں حادثے کی صورت میں 14 سال کے بچے کے خلاف کیا قانونی کارروائی ہوگی ؟کیونکہ شہر میں ٹریفک بہت ہے اور اس میں 70 فیصد تو موٹرسائیکل والے ایسے ہیں جو سڑک کے کنارے کھڑی کار کے آگے پیچھے موٹرسائیکل لاک کرکے چلے جاتے ہیں ،وقت ضرورت گاڑی کے مالک راہ گیروں کی مدد لے کر موٹرسائیکلیں ہٹاتے ہیں۔

ذرا سوچیں! ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ موبائل پر ایس ایم ایس کرتے ہوئے یہ موٹرسائیکل چلا رہے ہوتے ہیں اگر انھیں آپ ہارن دے کر باور کرائیں کہ راستہ دیں تو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں اور گالیاں الگ دیتے ہیں تو پھر معزز شہری کی تو کوئی عزت نہ ہوئی۔ میں پھر لکھ رہا ہوں کہ موٹرسائیکل افراد ٹریفک قوانین کی پابندی کریں تو حادثات کی شرح میں نمایاں کمی آسکتی ہے، جب کہ محکمہ ٹریفک پولیس کے اہلکارں سے مودبانہ گزارش ہے کہ لائسنس، ٹیکس، لائٹ، اینٹی گیٹر (موٹرسائیکل کے حوالے سے) آپ سختی سے قانونی طور پر انھیں پابند کریں تاکہ شریف شہری قانون کی حکمرانی کو بہتر طریقے سے دیکھ کر آپ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
 

متعلقہ مضامین

  • حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں؛ مسرت جمشید چیمہ
  • ٹریفک کے مسائل پر توجہ دیں
  • پشاور، میٹرک امتحان میں بھٹو کی تعلیمی پالیسی سے متعلق سوال پر کے پی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس
  • کراچی کے مسائل پر ایم کیو ایم اور اے این پی ہم آواز، مسائل انتظامی مسئلہ قرار
  • جی ایچ کیو حملہ کیس میں سرکاری گواہ پیش نہیں ہوئے، جیل ٹرائل ٹل گیا
  • پی ایس ایل میں اب تک سب سے زیادہ رنز کس بلے باز نے بنائے؟جانیں
  • پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں، صدر لوکاشینکو
  • حکومت ایکسپورٹرز کے مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہے، ملک کے لئے سب سے زیادہ ڈالر کما نے والا ایکسپورٹر قومی ہیرو بنے گا، احسن اقبال
  • ایک ملازم ایسا بھی ہے جس کے انکریمنٹ لگ لگ کر مراعات جج کے برابر ہو چکیں،وکیل درخواستگزارکے ہائیکورٹ چیف جسٹسز کے اختیارات سے متعلق کیس میں دلائل 
  • ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات سے متعلق کیس کو لاہور ہائیکورٹ تک محدود رکھنے کی ہدایت