پریس کلب قاضی احمد کی نئی ٹیم کو مبارکباد
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
قاضی احمد(نمائندہ جسارت)پریس کلب قاضی احمد کی نومنتخب باڈی کو مبارکباد دینے کا سلسلہ جاری شہر کی سیاسی سماجی تنظیموں کے رہنمائوں سمیت سندھی ادبی سنگت یونٹ قاضی احمد کی مرکزی خزانچی شبیرسیال سیکرٹری اصغر ڈاھری خادم ممتاز میمن رمضان لاشاری ریاض مشوری نظیرڈاھری علی دوست خاصخیلی سماجی تنظیم JWC کے وفد کے مرکزی رہنما ذوالفقار خاصخیلی ولی محمد جوکھیو ظفر چانڈیو ملنگ جتوئی راجا ساجد انڑ رجب علی ممتازحسینی کاشف انڑ عاشق جتوئی وزیر جتوئی زاہد جتوئی نے پھولوں کے ہار، اجرک اور ٹوپی پہناکر مبارکباد دی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سماجی ابلاغ کے طوفان میں لرزتی سماجی روایات
موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ یہ تیز اور عجیب بھی ہے۔ اسکی طوفانی آمد نے سب کچھ بدل دیا ہے ۔ وقت بدل گیا ہے۔ رواج اور مزاج بدل گئے ہیں۔ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے سب کو موبائل فون کی ڈبیا میں بند کردیا ہے۔ اس ڈبیا کے دلفریبی نے اکثریت کو اسیر بنا لیا ہے۔ اس کے دامن کی رنگینی ،رونق اور روشنیوں نے چشم و اذہان کو جکڑ لیا ہے ۔بظاہر حقیقی دنیا میں موجود انسان دراصل ذہنی طور پر اک الگ دنیا میں رہنے لگا ہے۔حقیقی دنیا میں اس نے اک ورچوئل یا مصنوعی دنیا بنا لی ہے ۔ جس کی کشش اور گہرائی میں اکثریت غرقاب رہتی ہے۔ حقیقی ماحول پر مصنوعی ماحول چھا گیا ہے جس میں کھو کر انسان دنیا مافیہا سے بالکل بےخبر اورلاتعلق ہوجاتا ہے۔ گردش وقت کا احساس تک مٹ جاتا ہے۔ مجمع اور محفل میں موجود لوگوں میں آپسی ربط و ارتکاز نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ وجودحاضر جبکہ روح سوشل میڈیا کی وادیوں میں بھٹک رہی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے انہیں کئی بار پکارنا پڑتا ہے۔ ایسی دماغی عدم موجودگی اور عدم دلچسپی باہمی کلام کے حسن اور ادبی تقاضوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا کی لت اک لعنت بنتی جارہی ہے ۔ اک مہلک نشہ کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ اک خطرناک طوفان بن گیا ہے جس نے ہماری روایات اور سماجی اقدار کے شجر اکھاڑ دئیے ہیں۔ سماجی تقریبات اور میل جول کے خوبصورت پھول جھڑ گئے ہیں ۔گھر کے آنگن میں گونجنے والے قہقہے اور رات گئے تک گپ شپ کی خوبصورت رسم و ریت مٹتے جا رہے ہیں ۔ ستم تو یہ ہے کہ اس کے نقصانات کو جانتے ہوئے بھی ہم دھڑادھڑ اس کا استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث تیزی سے ہمارے صدیوں پرانے آداب اور سلیقے متاثر ہو رہے ہیں ۔
ڈیڑھ دہائی پہلے کے دور میں پاس بیٹھے شخص کی بات کو پوری توجہ سے نہ سننا انتہائی برا اورخلاف آداب سمجھا جاتا تھا۔ گھر میں مہمان کی آمد اور موجودگی کے دوران غیر ضروری مصروفیات چھوڑ کر اس کو توجہ دی جاتی تھی ۔ اس کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اس کو بھرپور وقت دیا جاتا تھا۔ گفت و شنید میں اسے انگیج رکھا جاتا تھا۔ بزم میں شامل ہر کوئی اپنے ہونے کااحساس دلاتاتھا ۔جب محفل میں کسی موضوع پہ بات ہوتی تو سب اس طرف متوجہ ہوجاتے تھے ۔ اس دوران آپسی کھسر پھسر کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔خلاف آداب عمل مانتے ہوئے اسکو ناپسند کیاجاتا تھا ۔ احترام محفل کی حالت یہ ہے کہ کوئی بھی ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس کرتا ہےاور نہ پرواہ۔ اب تو یہ چلن ہی معمول عام بن چکا ہے۔پرانی روایات اورتکلفات تقریباً غیر اہم اور غیر ضروری سمجھے جانے لگے ہیں ۔ مجھے ایک روز تین گھنٹوں پر محیط سفر پہ جانا تھا ۔ ڈرائیور کو کہا گاڑی باہر نکالو ۔ اسی اثنامیرا ایک نو عمر عزیز ملنے آ گیا۔ اس کی خواہش جان کر میں نے اس کو ساتھ لے لیا۔ سوچا گپ شپ میں سفر اچھا گزر جائے گا ۔ گاڑی چلنے کے ساتھ ہی موصوف کے موبائل پہ میسج کی اطلاعی گھنٹی بجنے لگی ۔ اک ایک بعد دوسرا میسج ۔ درمیان میں کبھی کال بھی آجاتی ۔میں صبر اورخاموشی سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرتا رہا ۔ اللہ اللہ کر کے کافی دیر کے بعد میسجز اور کالز کا سلسلہ کچھ تھما ۔ میں نے اس سے بات چیت کا آغاز کیا ۔ ابھی چند جملے ہی بولے تھے کہ پھر اس کے موبائل پہ کوئی میسج آ گیا ۔مجھ سے توجہ ہٹا کراس نے وہ پڑھنا شروع کردیا ۔ میں جاری گفتگو کا آدھا حصہ حلق میں روکے اس کا منہ تکنے لگا ۔ سارا سفر خیر سےہمارا ایسا ہی گزرا ۔مجال ہے تین گھنٹے کے سفر میں ہم نے کوئی گپ شپ کی ہو ۔ منزل پہ پہنچے تو گاڑی سے نکلتے ہوئے بڑی خوشی اور اطمینان سے کہتا ہےکہ سفر کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ بجائے کچھ ندامت محسوس کرنے کہ راستہ بھر اس نے مجھے وقت اور نہ وقعت دی اوپر سے کمال اطمینان سے سفر کے خوش گزرنے کا اظہار کر رہا تھا ۔
سکول سے بچے واپس آتے ہیں تو اکثر دل چاہتا ہے ان سے ان کے دن کا حال جانا جائے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ہیلو ہائے کے بعد کہیں سے موبائل یا ٹیبلٹ اٹھا لیتے ہیں ۔ یونیفارم اتارنے کی بھی تکلیف نہیں کرتےجس کے لئے ماں بار بار کہہ رہی ہوتی ہے ۔ کسی گیم یا کارٹون مووی میں اسقدر محو ہو جاتے ہیں کہ چیختی ماں کی آواز بھی ان کو سنائی نہیں دیتی ۔ مجبوراً بازو سے پکڑ کر یونیفارم بدلنے اور کھانا کھانے کےلئےانہیں اٹھانا پڑتا ہے۔اس دوران ان کا ردعمل انتہائی سست اور مزاحمتی ہوتا ہے ۔نظریں موبائل پر جمائے لڑکھڑاتے ، چیزوں سے ٹکراتےگھر کےاندر چل رہےہوتے ہیں۔ ان کی توجہ اور ارتکاز بری طرح متاثر ہو گیا ۔ اس سارے بگاڑ کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے ۔ خاص طور پر ماں جو دور شیر خواری سے ہی بچے کو چپ کرانے کے لئے اس کو موبائل دے دیتی ہے ۔ جب بچہ چار پانچ سال کا ہوتا ہے تو وہ موبائل کا پکا عادی بن چکا ہوتا ہے ۔ یہی وہ مرحلہ ہے جب بچے کی مزاج سازی میں خرابی ہوتی ہے۔ گردو پیش اور قریبی رشتوں سے بےخبر اور دور رہتا ہے ۔ ان کی اہمیت ، عزت اور احساس محبت سے نابلد اور محروم رہتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ خلا مزید بڑھ جاتا ہے ۔ ان میں اپنوں میں بیٹھنے اور مکالمہ کرنے کی خواہش اور نہ عادت پنپتی ہے ۔ روائتی اپنائیت اور چاہت کی چاشنی سے وہ بےخبر ہی رہتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے کا ہر فرد ساتھ رہتے ہوئے بھی الگ دنیا میں بس رہا ہوتا ہے ۔ حقیقی دنیا سے صرف اسکا ظاہری سا تعلق محسوس ہوتا ہے ۔ اس کی ذہنی تسکین اور تشفی مکمل طور پر سوشل میڈیا کے مواد سے مشروط ہے ۔ جس معاشرے میں سوشل میڈیا کا جادو اتنا بری طرح لوگوں کے ذہنوں، عادات اور طرز زندگی پہ اثرانداز ہو جائے پھر وہی ہوتا ہے جو سفر کے دوران میرے نو عمر عزیز نے مجھ سے کیا تھا ۔ اس روش کو روکا اور بدلا نہ گیا تو خاندانی نظام اور باہمی محبت اور مروت کے رشتے بکھر جائیں گے ۔ اس سے پہلے کہ یہ بھیانک صورتحال پیدا ہو نئی نسل کی پرورش اور تربیت کو اپنی شاندار اخلاقی، سماجی و مذہبی اقدارکی سطور پرکریں ۔ ترجیحات بدلیں ،بچے کو خوش کرنے کےچکر میں آسان لگنے والے مضر نفسیات طریقوں سے اجتناب کریں ۔ پھر نہ کہنا کسی نے بتایا نہیں۔