Express News:
2025-04-16@18:40:15 GMT

نجکاری کے عمل کے لیے جامع پالیسی فریم ورک کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

اسلام آباد:

وزیر اعظم کی جانب سے معاشی تبدیلی کے ایجنڈے کا بغور جائزہ لینے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بہت سے حکومتی ادارے جن میں کچھ انتہائی نقصان میں چل رہے ہیں وہ آج بھی سرکاری سرپرستی میں ہیں اور ان اداروں نے مالی سال 2021 میں سالانہ مجموعی طور پر 3 ارب 70 کروڑ ڈالر کے مساوی نقصان اٹھایا جو کہ مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد بنتا ہے۔

جبکہ مالی سال 2022 میں ان کا خسارہ 2 ارب 90 کروڑ ڈالر تھا جو مجموعی قومی پیداوار کا صفر اعشاریہ 9 فیصد تھا۔ 

یہ ادارے نہ صرف مالی بوجھ بنے ہوئے ہیں بلکہ معیشت کی مجموعی کارکردگی کو بھی نقصان پہنچارہے ہیں، کہتے ہیں کہ مسئلے کی درست نشاندہی سے نصف مسئلہ حل ہوجاتا ہے لہذا وزیر اعظم کے معاشی ایجنڈے کا اگر جائزہ لیں تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے تاہم دیگر نصف مسئلے کو حل کرنے کے لیے سیاسی عزم درکار ہے۔

وزیر اعظم کے معاشی ایجنڈے میں وہی پرانی بات دہرائی گئی ہے کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو پہلی ترجیح میں نجکاری کردی جائے تاہم پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نج کاری میں تاحال ناکامی سے اس پورے عمل کو دھچکا لگا ہے۔

نج کاری ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس بات کو سراہا جانا چاہیے کہ حکومت نے تمام مسائل کے باوجود نجکاری کا عمل جاری رکھنے کا عزم دہرایا ہے تاہم اس کے لیے ایک جامع پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔

ایک تجویز یہ ہے کہ نج کاری کے عمل کا آغاز ایسے اداروں کی فروخت سے کیا جائے جو منافع بخش ہیں اور اس سلسلے میں جار مختلف کیٹیگریز ہیں جن کی کمپنیوں کی نج کاری کی جاسکتی ہے کیونکہ ان کی نج کاری کے نتیجے دیگر مختلف کمپنیاں اور ادارے نج کاری کے عمل میں دلچسپی دکھائیں گے اور مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور یہ عمل تیز تر ہوگا۔

کچھ سرکاری ادارے ایسے ہیں جو اپنی عملی افادیت کھوچکے ہیں کاروباری لحاظ سے تاہم ان کی اہمیت ان کے اثاثہ جات کی وجہ سے ہے ایسے اداروں کی نج کاری کے وقت اس بات کو اجاگر کیا جانا چاہے کہ ان کے اثاثوں کو دیگر تجارتی مقاصد کے لیے بھی فروخت کیا جائے تاکہ حاصل ہونے والی رقم سے حکومت اپنے قرضہ جات کی ادائیگی میں صرف کرسکے۔

ایسے ادارے جو مکمل طور پر خسارے میں چل رہے ہوں انھیں آکشن کے ذریعے یا پھر بات چیت کے عمل کے ذریعے فوری فروخت کیا جانا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نج کاری کے کی نج کاری کے لیے کے عمل

پڑھیں:

پاکستان میں سفری تجربات کو تبدیل کرنے والے ڈیجیٹل رابطے میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے .ویلتھ پاک

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 اپریل ۔2025 )پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر آفتاب الرحمان رانا نے کہا ہے کہ شیئرنگ اکانومی میں اختراعی کاروباری ماڈلز پاکستان کے سیاحت کے شعبے میں پائیداری اور شمولیت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی اور صارفین کی ترجیحات میں اضافہ پاکستان میں لوگوں کے سفر کے تجربے کے انداز کو نئی شکل دے رہا ہے.

(جاری ہے)

ویلتھ پاک کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میںانہوں نے کہا کہ شیئرنگ اکانومی ایک ایسے معاشی ماڈل کی شکل اختیار کرتی ہے جہاں افراد براہ راست یا بالواسطہ طور پر اثاثے اور خدمات بانٹتے ہیں اس تصور نے سیاحت کے روایتی ماڈلز کو متاثر کیا ہے آن لائن خدمات، خاص طور پر ٹرانسپورٹ کے نظام سے متعلق نہ صرف مقامی کمیونٹیز کو فائدہ پہنچاتی ہیں بلکہ مسافروں کو سستا تجربہ بھی فراہم کرتی ہیں.

انہوں نے کہا کہ سیاحوں کو مقامی گائیڈز، کار شیئرنگ سروسز، ہوم اسٹے اور صحت کی دیکھ بھال کے ساتھ جوڑنے والے پلیٹ فارمز روزگار کی تخلیق اور کمیونٹی کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں پاکستان میں شیئرنگ اکانومی کا ایک اہم فائدہ اس کی شمولیت، معاشی بااختیار بنانے اور پسماندہ کمیونٹیز کے انضمام کو فروغ دینے کی صلاحیت ہے روایتی طور پر، سیاحت کی آمدنی قائم ہوٹل چینز اور ٹور آپریٹرز پر مرکوز تھی تاہم ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اب کاروباری افراد، خواتین اور دیہی گھرانوں کو ہدایت یافتہ تجربات، مقامی کھانوں اور مہمان نوازی کی خدمات پیش کرکے سیاحت کے شعبے میں حصہ لینے کے قابل بنا رہے ہیں ماحولیاتی اثرات کو کم کرکے، اشتراک کی معیشت پائیدار سیاحت میں حصہ ڈال رہی ہے.

انہوں نے کہاکہ نئی سہولیات کی تعمیر کے بجائے موجودہ بنیادی ڈھانچے کا استعمال جیسے کہ گھر، سواری، خوراک، اور دیگر خدمات سیاحت کے شعبے میں فضلہ کو کم سے کم اور وسائل کو محفوظ رکھتا ہے انہوں نے کہاکہ ماحولیاتی سیاحت کے اقدامات جن کی حمایت اکانومی ماڈلز کے اشتراک سے کی جا رہی ہے مقامی سطح پر کیمپنگ سائٹس، ایڈونچر ٹورازم، اور ثقافتی تبادلے کی سرگرمیاں کم اثر والے سفر کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پائیداری کی پیمائش اور شفاف سروس سسٹم فراہم کر کے ذمہ دارانہ سیاحت کو فروغ دیتے ہیں اپنی صلاحیتوں اور فوائد کے باوجودپاکستان کے سیاحت کے شعبے کو مشترکہ معیشت کے اندر کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سیکیورٹی خدشات، ناکافی انفراسٹرکچر، قانونی طور پر معاون سیاحتی پالیسیوں کی کمی، ٹیکس لگانے کے مسائل، سیاحوں کے تحفظ اور رابطے میں رکاوٹیں شامل ہیں.

انہوں نے کہاکہ سیاحت کے شعبے میں رسائی اور عوامی شرکت کو بڑھانے کے لیے، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، تربیتی پروگراموں، اور مہمان نوازی کے اقدامات بشمول ورکشاپس میں سرمایہ کاری ضروری ہے درست پالیسیوں اور باہمی تعاون کی کوششوں کے ساتھ پاکستان میں ٹیکنالوجی، کمیونٹی کی شمولیت اور پائیداری سے چلنے والے ایک اہم سیاحتی مقام کے طور پر ابھرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے.

انہوں نے کہا کہ سیاحت کے شعبے کو مضبوط بنانے کے لیے شیئرنگ اکانومی ماڈلز کو اپنانا بہت ضروری ہے جامع اور پائیدار سیاحت کو فروغ دینے میں معیشت کے کاروباری ماڈلز کے اشتراک کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے، بلتستان کے محکمہ سیاحت کے ڈپٹی ڈائریکٹر راحت کریم بیگ نے کہاکہ ان ماڈلز پر مبنی سیاحت کے تجربات براہ راست یا بالواسطہ طور پر کمیونٹیز اور افراد کو سیاحت کے شعبے سے منسلک کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان اور دیگر دور دراز سیاحتی مقامات میں ہوم اسٹے خدمات نے مقامی لوگوں کو سیاحوں سے براہ راست کمانے کی اجازت دے کر بااختیار بنایا ہے ان علاقوں میں رائیڈ شیئرنگ سروسز نہ صرف ڈرائیوروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہیں بلکہ دور دراز علاقوں میں رابطے کو بھی بہتر کرتی ہیں.

انہوں نے کہاکہ عالمی سطح پر، شیئرنگ اکانومی بزنس ماڈل کامیاب ثابت ہوئے ہیں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ، اور سہولیات کو بڑھانے کے لیے پاکستان کے سیاحت کے شعبے کو یکساں خطوط پر ترقی دینا ضروری ہے انہوں نے مزید مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے معیشت کے ماڈلز کا اشتراک کرنے میں حکومت کی طرف سے چلنے والی جدت کی ضرورت پر بھی زور دیا.

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں رہتےہوئےتمام سیاسی جماعتیں اپنےحقوق کی جنگ لڑسکتی ہیں، مولانافضل الرحمان
  • پاکستان میں سفری تجربات کو تبدیل کرنے والے ڈیجیٹل رابطے میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے .ویلتھ پاک
  • اسلام آباد: حکومتی ادارے قانون کی خلاف ورزی کیسے کر رہے ہیں؟
  • وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ اجلاس،اعلامیہ جاری
  • برطانیہ کو فوری طور پر 2 لاکھ غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت
  • مختلف ادارے آئیسکوکے  22 ارب 22 کروڑ کے مقروض،نوٹس جاری
  • عالمی ادارے فچ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کردی
  • وہاڑی کے قریب چھوٹاطیارہ گر کر تبا، پائلٹ محفوظ
  • اسرائیل کی غزہ میں بربریت کی انتہا، شدید بمباری، 6 بھائیوں سمیت 37 فلسطینی شہید
  •  سابق نائب امیرجماعت اسلامی و سینیٹر پروفیسر خورشید احمد کی غائبانہ نماز جنازہ منصورہ کی جامع مسجد میں ادا