پاکستان 2035ء تک ایک ہزار ارب ڈالر معیشت بن سکتا ہے،عالمی بینک
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اسلام آباد ( نمائندہ جسارت)عالمی بینک نے 2035ء تک پاکستان کے ایک ہزار ارب ڈالر کی معیشت بننے کی پیش گوئی کردی۔ اس حوالے سے عالمی بینک کے جنوبی ایشیاء کے لیے نائب صدر مارٹن ریزر نے کہا ہے کہ پاکستان 2035 تک ایک ہزار ارب ڈالر کی معیشت بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، تاہم اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو سالانہ 7 فیصد کی شرح نمو سے ترقی کرنا لازمی ہوگا، جس کے لیے معاشی اصلاحات پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا، پاکستان کو اپنے موجودہ وسائل پر توجہ دینی چاہئے، پاکستان کے پاس بہت سارے ایسے مواقع ہیں جن سے وہ مزید سرمایہ کاری کو راغب کر سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ورلڈ بینک کے پاس 2015ء کے بعد پاکستان کے ساتھ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (سی پی ایف) نہیں تھا، اس عرصے میں کورونا وبا اور پھر سیلاب آیا لہٰذا بینک نے اب 10 سال کی طویل مصروفیت پر غور کیا ہے،
عالمی بینک نے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت پاکستان کو 10 سال میں 20 ارب ڈالر کے قرضے یا مالی تعاون کی یقین دہانی کرانے سے قبل حزب اختلاف سمیت سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا ہے، کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت ورلڈ بینک نے پاکستان کو قرضے یا مالی تعاون کی جو یقین دہانی کرائی ہے وہ ایک تخمینہ ہے مگر پاکستان مختلف پروگرامز کے تحت رعایتی قرضے حاصل کر سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان بہتر معاشی ترقی اور خوشحالی کے حصول کیلئے وسیع پیمانے پر اصلاحات کرے کیوں کہ پاکستان کو درپیش بہت سے مسائل کے لیے توانائی، پانی اور محصولات کے شعبوں میں محدود اور دیرینہ اصلاحات کا فقدان بڑی وجہ ہے، پاکستان نے کچھ ابتدائی فیصلے کیے ہیں جو درست سمت میں گئے لیکن اب بھی بہت سے اچھے فیصلوں کی ضرورت ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ ان فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیئے۔
عالمی بینک
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عالمی بینک پاکستان کو ارب ڈالر کے لیے
پڑھیں:
آئی ایم ایف کے بعد عالمی بینک کا بھی پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے بعد ورلڈ بینک نے بھی پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کردیا۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا مارٹن رائسر کا کہنا ہے کہ پاکستان بہتر معاشی ترقی اور خوشحالی کے حصول کیلئے وسیع پیمانے پر اصلاحات کرے کیوں کہ پاکستان کو درپیش بہت سے مسائل کے لیے توانائی، پانی اور محصولات کے شعبوں میں محدود اور دیرینہ اصلاحات کا فقدان بڑی وجہ ہے، پاکستان نے کچھ ابتدائی فیصلے کیے ہیں جو درست سمت میں گئے لیکن اب بھی بہت سے اچھے فیصلوں کی ضرورت ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ ان فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے پاس 2015ء کے بعد پاکستان کے ساتھ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (سی پی ایف) نہیں تھا، اس عرصے میں کورونا وبا اور پھر سیلاب آیا لہٰذا بینک نے اب 10 سال کی طویل مصروفیت پر غور کیا ہے کیوں کہ کچھ مسائل بہت غیرمعمولی تھے جنہیں 3 سے 4 سالوں میں حل نہیں کیا جا سکتا تھا، آب و ہوا کی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں قیمتوں کا تعین کرنے والے آلات کی ضرورت ہے جو کاربن کے اخراج کی حوصلہ شکنی کریں۔ مارٹن رائسر نے بتایا کہ عالمی بینک کوپ 28 کے نتیجے میں خسارے اور نقصان کے فنڈ کی میزبانی کر رہا ہے لہٰذا بہت زیادہ فنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ آب و ہوا میں اس طرح کی سرمایہ کاری کا کم از کم 50 فیصد ان ممالک کی مدد کے لیے استعمال کیا جاسکے جو موسمیاتی بحران کے ذمے دار نہیں لیکن باقاعدگی سے متاثر ہوتے ہیں اور نتائج کی تیاری میں مدد کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں عالمی بینک نے زیادہ نتیجہ خیز بننے کا فیصلہ کیا ہے اور ورلڈ بینک گروپ کے آلات اور فنانسنگ ماڈلز کے امتزاج کے ذریعے مضبوط عمل کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ دونوں فریق ٹھوس اہداف پر توجہ مرکوز رکھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان توانائی کی بہت زیادہ قیمتیں ادا کر رہا ہے اور اسے توانائی کی قلت کا سامنا ہے جس نے معیشت کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا اور بجلی کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے، ہنگامی ضرورت کی وجہ سے پاکستان کو مہنگے معاہدے کرنا پڑے لیکن اُس وقت تک یہ مستحکم میکرو اکنامک صورتحال میں نہیں تھا، سسٹم اب بھی اس وراثت کو لے کر چل رہا ہ،ے پاکستان نے حال ہی میں کچھ پیش رفت کی ہے لیکن اسے اب بھی اضافی اصلاحات، ٹرانسمیشن انفرا اسٹرکچر میں اضافی سرمایہ کاری اور گرڈ استحکام کے امتزاج کے ذریعے نظام کی لاگت کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔