کوئٹہ میں 3روزہ پشتون قومی جرگہ مسائل،تشویشناک اور پشتون حقوق پر مباحثہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
کوئٹہ (نمائندہ جسارت) کوئٹہ میں 3روزہ پشتون قومی جرگے کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی اور قبائلی عمائدین نے بھرپور شرکت کی، جرگے میں پشتون بیلٹ کے مسائل اور پشتونوں کے حقوق پر بات چیت کی گئی۔ اس جرگے میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور جرگے کے سربراہ نواب ایاز جوگیزئی سمیت دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔جرگے کے مقررین نے پشتون بیلٹ میں جاری مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشتون وطن میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے علاقے کے عوام شدید متاثر ہو ¦ے ہیں۔مقررین نے کہا کہ پشتون علاقوں میں غیر مقامی افراد کو زمینیں الاٹ کی جا رہی ہیں جو مقامی باشندوں کے حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشتون علاقوں میں پشتون مفادات کے خلاف کسی بھی قسم کے
منصوبے کی حمایت نہیں کی جائے گی۔جرگے کے دوران پشتون بیلٹ میں درپیش سماجی، سیاسی اور اقتصادی مسائل پر کھل کر بات کی گئی اور ان مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
عالمی معاشی ترقی میں ایشیا الکاہل ممالک کا حصہ 60 فیصد، رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 اپریل 2025ء) گزشتہ سال عالمی معیشت کی ترقی میں ایشیائی الکاہل کا حصہ 60 فیصد رہا لیکن اب بھی خطے میں بہت سے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی دھچکوں اور ماحول دوست معیشت کی جانب تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
ایشیائی الکاہل کے لیے اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن (یو این ایسکیپ) کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق، خطے کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کے معاملے میں کئی طرح کی عدم مساوات کا سامنا ہے۔
بعض ممالک نے موسمیاتی مالیات کو متحرک کر کے ماحول دوست اقتصادی پالیسیاں اپنا لی ہیں لیکن متعدد ایسے بھی ہیں جنہیں اس معاملے میں دیگر کے علاوہ مالیاتی رکاوٹوں کمزور مالی نظام اور سرکاری سطح پر مالی انتظام کی محدود صلاحیت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔(جاری ہے)
Tweet URLرپورٹ میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ معیشت اور موسمیاتی مسائل کا آپس میں کیا تعلق ہے اور کون سے مسائل خطے کے معاشی استحکام کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں جن میں سست رو پیداواری ترقی، سرکاری قرضوں سے متعلق خدشات اور بڑھتا ہوا تجارتی تناؤ خاص طور پر نمایاں ہیں۔
معیشت اور موسم'یو این ایسکیپ' کی ایگزیکٹو سیکرٹری جنرل آرمیڈا علیشابانا نے کہا ہے کہ مالیاتی پالیسی سازوں کو مشکل مسائل درپیش ہیں کیونکہ دنیا کی معیشت کو غیریقینی حالات اور بڑھتے ہوئے موسمیاتی خطرات کا سامنا ہے۔
اس تبدیل ہوتے منظرنامے میں ترقی کے لیے ناصرف قومی سطح پر مضبوط پالیسیاں درکار ہیں بلکہ طویل مدتی معاشی امکانات کو تحفظ دینے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے علاقائی سطح پر اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
رپورٹ کی تیاری میں 30 ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں 11 کو موسمیاتی حوالے سے سنگین خطرات درپیش ہیں۔ ان ممالک میں افغانستان، کمبوڈیا، ایران، قازقستان، لاؤ، منگولیا، میانمار، نیپال، تاجکستان، ازبکستان اور ویت نام شامل ہیں۔
رپورٹ کے ذریعے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ممالک موسمیاتی تبدیلی سے متعلقہ متنوع معاشی مسائل پر قابو پانے کے لیے کون سی پالیسیاں اختیار کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، جمہوریہ کوریا میں موسمیاتی اہداف کو صنعتی ترقی سے جوڑا گیا ہے، لاؤ میں زراعت اور قازقسان میں معدنی ایندھن پر انحصار کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موسمیاتی مسائل پر قابو پانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جبکہ بنگلہ دیش اور وینوآتو جیسی ساحلی معیشتوں میں ترقی کے لیے موثر پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔
سست رو اقتصادی ترقیرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ ایشیائی الکاہل کی معاشی کارکردگی دیگر دنیا سے بہتر رہی ہے لیکن خطے کی ترقی پذیر معیشتوں میں اوسط معاشی نمو گزشتہ برس کم ہو کر 4.8 فیصد پر آ گئی جو کہ 2023 میں 5.2 فیصد تھی۔
کم ترین ترقی یافتہ ممالک میں گزشتہ برس اوسط معاشی ترقی 3.7 فیصد رہی جو کہ پائیدار ترقی کے حوالے سے 7 فیصد سالانہ کے ہدف سے کہیں کم ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد ایشیائی الکاہل میں افرادی قوت کی پیداواری ترقی میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ 2010 اور 2024 کے درمیان اس خطے کے 44 میں سے 19 ترقی پذیر ممالک امیر معیشتوں کے ساتھ آمدنی کا فرق کم کرنے کو تھے جبکہ 25 ممالک ابھی بہت پیچھے ہیں۔