نادرا کاشناختی کارڈ اورب فارم کی فیس برقرار رکھنے کافیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اسلام آباد( نمائندہ جسارت) سال 2025 کے پہلے ماہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے قومی شناختی کارڈ اور ’بی- فارم‘کی فیسیں بغیر کسی تبدیلی کے برقرار رکھی گئی ہیں۔تفصیلات کے مطابق کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC) پاکستان کے شہریوں کے لیے مختلف خدمات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے، جن میں ڈرائیونگ لائسنس، نیشنل ٹیکس نمبر (NTN) بینک اکاؤنٹ، پاسپورٹ، اور موبائل فون کنکشن شامل ہیں۔
تمام پاکستانی شہری جن کی عمر 18 سال یا اس سے زیادہ ہے، سی این آئی سی حاصل کرنے کے حقدار ہیں، شناختی کارڈ صحت کی سہولت کے لیے بھی اہم ہے، کیونکہ یہ طبی ریکارڈ سے منسلک ہوتا ہے اور تعلیم کے لیے بھی، کیونکہ یہ اسکول میں داخلے کے لیے شناخت کی تصدیق کرتا ہے۔ مزید برآں، یہ سم کارڈ حاصل کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔اہل افراد نادرا کے کسی بھی قریبی رجسٹریشن سینٹر میں مطلوبہ دستاویزات کے ساتھ شناختی کارڈ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والے نادرا نے نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی سی این آئی سی کی فیس میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔اسمارٹ قومی شناختی کارڈ (نارمل فیس) 750 روپے, ارجنٹ شناختی کارڈ کی فیس 1,500 روپے جبکہ ایگزیکٹو کیٹیگری کی فیس 2,500 روپے ہی ہے۔شناختی کارڈ بنوانے کیلئے ضروری دستاویزات: پیدائشی سرٹیفکیٹ یا میٹرک کا رزلٹ کارڈ، خاندان کے کسی رکن کے CNIC کی کاپی۔ علاوہ ازیں چائلڈ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ (CRC)، جسے عام طور پر ’بی فارم‘ کہا جاتا ہے، چائلڈ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نادرا سسٹم میں اندراج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یہ بچے کی قانونی شناخت کے طور پر کام کرتا ہے اور مختلف سرکاری خدمات کے لیے ضروری ہے۔بی فارم کے حصول کی عام فیس: 50 روپے جبکہ ایگزیکٹو سروسز فیس 500 روپے ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: شناختی کارڈ کے لیے کی فیس
پڑھیں:
آئو مذہب کارڈ کھیلیں
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جیب ک±ترا بہت مہارت سے ایک بازار میں ہاتھ کی صفائی دکھایا کرتا تھا، شومئی قسمت کہ ایک روز وہ پکڑا گیا، عوام نے پکڑ کر خوب دھلائی کی، تو وہ گھگھیا کر بولا کہ جی میں تو مسجد کی دریاں لینے کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا۔
ہمارے بھولے بھالے جذباتی عوام کو جہاں بیوقوف بنانے کے انگنت ٹوٹکے مارکیٹ میں موجود ہیں، وہیں مذہب کی آڑ میں جذبات سے کھلواڑ سرِ فہرست ہے۔ مذہب ہمارے معاشرے کی ایک ایسی د±کھتی رگ ہے کہ جس کے ذریعے عوام کو متحد یا منتشر کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ حال ہی میں تحریکِ انصاف کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے بیان دیا گیا کہ ”تاریخ شاہد رہے گی کہ ملک کے عظیم حکمران کو پہلے عوام کی محبت کی ناجائز سزا سنائی گئی اور اب رسول اللہ کی محبت کی پاداش میں سزا یافتہ قرار دیا گیا“ اب کس خوبصورتی سے 190 ملین پاو¿نڈ کی خ±رد برد شدہ رقم کو عشقِ نبی سے تشبیہ دے دی گئی اس کی داد دینا بنتی ہے۔
گزشتہ دنوں القادر ٹرسٹ کیس میں بانی پی ٹی آئی کو 14 سال اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات سال کی سزا سنائی گئی، جس کے نتیجے میں یہ ایمان افروز بیان دیا گیا۔
اب یہ 190 ملین پاو¿نڈ سکینڈل ایک تاریخ ساز بدعنوانی کا شاہکار ہے۔
کہانی کا آغاز برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے بحریہ ٹاو¿ن کے مالک ملک ریاض کی 190 پاو¿نڈ کی ریاضت سے شروع ہوا۔
2019 میں این سی اے نے اپنے جہنمی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے یہ رائے دی کہ وہ 190 ملین پاو¿نڈ ریاستِ پاکستان کو منتقل کی جانی ہے، اب ریاستِ مدینہ میں انصاف کا تقاضا تو یہی بنتا تھا کہ یہ رقم قومی خزانے میں جمع ہوتی لیکن یہ سپریم کورٹ کے اس اکاو¿نٹ میں جمع کرائی گئی جہاں ملک ریاض بحریہ ٹاو¿ن کراچی کے مقدمے میں 460 ارب
جرمانے کی ادائیگی کر رہے تھے، اور یوں اسلام کے ایک صادق اور امین مجاہد نے دین سے لازوال محبت کی عظیم داستان رقم کرتے ہوئے القادر ٹرسٹ کی بنیاد رکھی، ٹرسٹی کے طور پر بشریٰ بی بی اور فرح گوگی نے بھی اپنی خدمات سرانجام دینے کا بیڑا اٹھایا۔
یہاں چند گزارشات اور تلملاتے سوالات جنم لیتے ہیں، آپ کے ذہن میں سوال تو آیا ہوگا کہ آخر ملک ریاض اتنا بھاری جرمانہ کیوں دے رہے تھے؟ اور پھر آخر ملک کے خان صاحب کے ساتھ ایسے کون سے گٹھ جوڑ رہے ہیں؟ ۔
تو بات کچھ یوں ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاو¿ن کراچی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کے الزامات پر ملک ریاض کو 2019 میں بھاری جرمانہ عائد کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے غیر قانونی اراضی کے سلسلے میں 460 ارب کا جرمانہ ریاست کے خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا اور اور متنبہ کیا تھا کہ اس زمین کو قانونی طور پر اس جرمانے کی ادائیگی کے بعد ہی استعمال کر سکتے ہیں۔
اب یہاں آتا ہے کہانی میں ٹوئسٹ۔۔۔۔
بحریہ ٹاو¿ن نے 190 ملین پاو¿نڈ رقم کی واپسی کے بدلے القادر ٹرسٹ کو 458 کنال زمین منتقل کی جس کی مالیت 530 ملین کے لگ بھگ ہے، ثوابِ دارین کے حصول کے لیے فرح گوگی کو بھی 240 کنال زمین منتقل کی گئی۔
قومی احتساب بیورو نے تحقیقات کا آغاز کیا اور مذہب کے ان تمام مجاہدوں کو طلب کیا، کراماً کاتبین نے بار بار چکر لگائے اور بالآخر صادق اور امین لیڈر کو 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا، تب وقت اور حالات کے پیشِ نظر حب الوطنی اور حقیقی آزادی کا راگ الاپ کر ملک گیر توڑ پھوڑ کرائی گئی، املاک کو نقصان پہنچایا گیا ، حتیٰ کہ شہدا کی یادگاروں کی حرمت پامال کی گئی۔ عدالتِ عظمیٰ نے رہائی کا حکم سنایا اور پھر فروری 2024 میں فردِ جرم عائد کی گئی، عدالت نے 24 دسمبر 2024 کو فیصلہ محفوظ کیا اور وہ بارہا التوا کا شکار رہا، فیصلہ تیرہ جنوری کو سنایا جانا تھا لیکن یہ تین بار مو¿خر کیا گیا، اس کیس کی قریب سو سماعتیں ہوئیں، کوئی 50 بار وکیلوں نے التوا مانگا تو 8 بار وکیل تبدیل کیا گیا، 30 گواہ پیش کیے گئے اور ہزار قسم کے کاغذ جمع کرائے گئے۔ تحریک انصاف کے وکلا ڈھنگ کی جرح کر سکے نہ کسی کاغذ کو جھٹلا سکے، دوسری طرف خود پسندِ اعلیٰ نے دعویٰ کیا تھا کہ ایسا گواہ لاو¿ں گا کہ سب کے ہوش ا±ڑ جائیں گے، پھر ہوا کچھ یوں کہ سابق وزیرِ دفاع اور سابق پرنسپل سیکرٹری کو بطور گواہ پیش کیا گیا، اب فیصلہ آیا ہے تو ہاتھوں کے طوطے ا±ڑ گئے ہیں۔
17 جنوری 2025 کو اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت میں القادر ٹرسٹ گڑبڑ گھوٹالے میں جج ناصر جاوید رانا نے 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی۔ عدالت نے القادر یونیورسٹی کو بحقِ سرکار ضبط کرنے کا حکم بھی جاری کیا، ادھر عمر ایوب نے اس ساری کارروائی کو بھونڈا قرار دے کر کہا کہ عمران اور بشریٰ کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، سلمان اکرم راجہ نے اسے سیاسی کیس کہا لیکن ہمیشہ کی طرح حکم کا اکا کھیلنے کے شوقین حضرت نے سوچا اب جب سب کھل چکا ہے، اور ہر کارنامہ سامنے آ ہی چکا ہے تو چلو اب مذہب کارڈ کھیلتے ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک شخص بھرے مجمعے میں ”اوئے تمہارے باپ کا پیسہ ہے؟ تم سب چور ڈاکو لٹیرے ہو“ کہتے کہتے اربوں لپیٹ گیا، پھر دنیا جہان کی عیش و عشرت میں بدمست رہ کر عوام کے سامنے ریاستِ مدینہ کارڈ پلے کیا، گولڈ سمتھ خاندان کے پاس پلتی بیٹی کو پاِ پشت ڈال کر خود کو صادق اور امین کہا، اور اب جب بدعنوانی کے شاہکار کیس میں انصاف ہو چکا ہے تو اب اسے عشقِ نبی کا رنگ دے کر عوام کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی ہے، فرقہ بندی اور شدت پسندی کے پھن پھیلائے ناگ کی گرفت سے بمشکل بچی قوم کو اب ایک ہٹ دھرم شخص اپنی بدعنوانی کو چھپانے خاطر عشقِ نبی کی سزا قرار دے کر آخر کن مذموم مقاصد کو پورا کرنا چاہتا ہے اس کا فیصلہ آپ خود کیجیے۔