ڈاکٹر علی حماد‘ امریکا میں دل کے ڈاکٹر ہیں۔ تقریباً پینتس برس سے دل کی شریانوں میں اسٹنٹ ڈال رہے ہیں۔ آسودہ حال زندگی ہے۔ مگر اپنے اندر سے لاہور کو باہر نہیں نکال پائے۔ ان سے اسکول کے زمانے سے دوستی ہے۔ چند برس پہلے ڈاکٹر صاحب نے صوفی شاعری شروع کر دی ۔ مسلسل مشق سے انھوں نے اس شعبہ میں بھی مہارت حاصل کر لی۔ خیال ہے کہ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے۔ جسے روزگار زمانہ نے ڈاکٹر بنا ڈالا۔ لوگوں کی اکثریت کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔
قدرت نے ان کے اندر جوہنر رکھا ہوتا ہے، وہ فکر روزگار میں ماند پڑ جاتا ہے اور کبھی کبھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ختم ہو چکا ہے۔ مگر حقیقت میں اصل جوہر قدرت کبھی بھی ضایع نہیں ہونے دیتی۔ کبھی نہ کبھی زندگی کے کسی بھی زینے پر‘ انسان کے اندر جو خالص ہنر قدرت نے ودیعت کر رکھا ہے‘وہ باہر ضرورنکلتا ہے۔یہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے۔ بہر حال ڈاکٹر صاحب نے اپنا کلام چند برس سے مسلسل مجھے بھیجنا شروع کر دیا۔
پڑھنے کے لائق بھی تھا اور قابل ستائش بھی۔ دو ماہ پہلے‘ ایک غزل بھجوائی اور کہنے لگے کہ اس کو موسیقی میں ڈھالنے کے لیے‘ دھن بنوانی چاہیے۔ پھر ایک اچھے گلوکار سے گوائی جائے۔ اب یہ بارگراں میرے اوپر آن پڑا‘ کہ ایک ایسا قابل موسیقار تلاش کیا جا ئے جو صوفی طرز کی غزل کو موسیقی سے روشناس کرا سکے۔ مگر کون؟ اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ایک دو دوستوں سے مشورہ کیا۔ مگر ان کے بتائے ہوئے ناموں سے مطمئن نہ ہو پایا۔
ایک دن‘ اتفاق سے یوٹیوب پر اردو موسیقی سن رہا تھا کہ ایک سفید بالوں والے بزرگ شخص کو موسیقی ترتیب دیتے ہوئے سنا۔ میرے لیے ان کا نام بالکل اجنبی تھا، ذوالفقار عطرے۔ بہرحال یوٹیوب پر جب ان کی ترتیب شدہ موسیقی اور گانے سنے‘ تو ششدر رہ گیا۔ کمال سنجیدہ کام ۔بلکہ حیران کر دینے والا جید کام۔ فیصلہ کیا کہ یہ موسیقار ‘ ڈاکٹر صاحب کے صوفی کلام کو نبھا پائے گا۔ مگر دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ انھیں تلاش کیسے کیا جائے، یہ کراچی میں رہتے ہیں، لاہور میں یا کسی اور شہر میں ۔ ابتدائی معلومات لیں تو پتہ چلا کہ لاہور ہی کے باسی ہیں۔ لاہور آرٹس کونسل سے ٹیلیفون نمبر لیا۔
آج سے تقریباً چار ہفتے پہلے ‘ ان سے فون پر بات ہوئی۔ حددرجہ تہذیب یافتہ آواز ۔ ایسا لگا کہ کسی درویش سے بات کر رہا ہوں ۔ مدعا بیان کیا۔ تو فرمانے لگے کہ آپ کے دفتر خود آؤں گا۔ علامہ اقبال ٹاؤن میں رہتا ہوں۔ یہ ان کی انکساری تھی کہ خود چل کر میرے پاس آنے کا عندیہ دیا۔ ورنہ اصولاً مجھے ان کے پاس جانا چاہیے تھا۔ خیر میرا کاروباری دفتر‘ گلبرگ میں ہے۔ وقت مقررہ پر وہ تشریف لے آئے۔
اس موقع پر مرد صحرا‘ یعنی ڈاکٹر ارشد بٹ کو بھی مدعو کر لیا تھا۔ اس لیے کہ بٹ صاحب ‘ موسیقی کو سمجھ کر سنتے ہیں اور انھیں موسیقی سے دلی لگاؤ بھی ہے۔ دراصل مرد صحرا بھی ‘ گردش زمانہ کی بدولت میڈیکل کے مشکل شعبہ میں آ گیا۔ ورنہ اندر وہ ایک موسیقار کی روح لیے پھرتا ہے۔ حد درجہ ‘ بلند پایہ محقق بھی ہے۔ عطرے صاحب تشریف لائے۔ تو ایک بھرپور نشست ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ ذوالفقار عطرے بذات خود ‘ موسیقی کا ایک سمندر ہے۔ بلا کا کمال انسان۔ بے تکلفی سے بتانے لگے کہ کسی بھی نغمے کی موسیقی ‘ ترتیب دیتے ہوئے‘ وہ الفاظ پر غور کرتے ہیں۔
غزل یا نظم میں موجود ‘ استعمال شدہ الفاظ بذات خود بتاتے ہیں کہ انھیں کس راگ میں ڈھالا جا ئے۔ انھیں کس لے میں استعمال کیا جائے۔ ایسے لگتا تھا کہ عطرے صاحب کے سامنے‘ الفاظ اور موسیقی ‘ دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور پھر یہ ان کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ کس طرح دھن کوترتیب دیتے ہیں۔ کس طرح‘ موسیقی کے بت کو تراشتے ہوئے‘ الفاظ کے حساب سے راگ کو باہر نکالتے ہیں۔ اور پھر وہی الفاظ موسیقی کے ذریعے ‘ امر ہو جاتے ہیں۔ سننے والے سحر زدہ ہو جاتے ہیں۔ ذوالفقار صاحب بڑی دیر تک اپنے فنی سفر کی بابت بتاتے رہے۔
اوائل عمری میں ہی نور جہاں سے گانے گنواتے رہے۔ وہ عطائی نہیں تھے۔ ان کا تعلق اس گھرانے سے تھا جس کی رگوں میں موسیقی خون کی طرح گردش کرتی ہے۔ بتانے لگے کہ جب میڈم نور جہاں کے پاس اپنے پہلے پہلے گانوں کے لیے گئے تو میڈم حیران رہ گئی۔ کیونکہ وہ ان کا تقریباً لڑکپن تھا۔ میڈم کو یقین نہیں آیا کہ اتنی چھوٹی عمر کا لڑکا ان کے گانوں کی موسیقی ترتیب دے پائے گا۔ مگر جب‘ نور جہاں نے اس نوجوان کا کام دیکھا اور سنا‘ تو وہ بھی حیران رہ گئیں۔ ان کی پہلی فلم کے گانے بھی حددرجہ مشہور ہو گئے۔ اور ساتھ ہی ساتھ فلم انڈسٹری میں‘ ذوالفقار عطرے کا نام بھی گونجنے لگا۔ انھوں نے مجموعی طور پر تین سو سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ تین گھنٹے کی نشست میں بہت سی باتیں ہوئیں۔
ایسے محسوس ہوا کہ وہ تنہائی کا شکار ہیں۔ یہ اس طرح معلوم ہوا کہ میں نے پوچھا کہ دن کیسے گزارتے ہیں۔ فلموں کا کام تو پاکستان میں تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ جواب تھاکہ اپنے گھر کے ایک کمرے میں تقریباً مقید رہتا ہوں۔ باہر بہت ہی کم نکلنا ہوتا ہے۔ اور اپنے ماضی کو یاد کرتا رہتا ہوں۔ انھیں پرائڈ آف پرفارمنس بھی ملا تھا۔ مگر اس کے باوجود وہ شدید بے اعتنائی کا شکار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کی ہمارے معاشرے میں وہ قدر نہیں ہو پائی ‘ جس کے وہ مستحق تھے۔ زمانے سے گلہ تھا کہ کافی حد تک فراموش کر دیے گئے ہیں۔ یا شاید یوں کہہ لیجیے کہ ان کے پاس فن کا جو خزانہ تھا‘ وہ اسے پورا استعمال نہ کر پائے۔اور شومئی قسمت ‘ اسے آگے منتقل بھی نہیں کر پائے۔ یہ غم ان کی باتوں سے عیاں تھا۔ ویسے ہمارے جیسے سطحی ملک میں‘ اہل فن کی قدر ‘ کم ہی ہوتی ہے۔
بہت ہی کم نظر آیا ہے کہ کسی بھی شعبے کا مایہ ناز فنکار‘ واقعی اپنے بنیادی مسائل سے اوپر اٹھ پایا ہو۔ اکثریت صرف سفید پوشی نبھاتے نبھاتے ‘ زندگی کا سفر طے کر لیتی ہے۔ اور پھرتمام کوچہ ازل کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔ شاید عطرے صاحب بھی انھی لوگوں میں سے ایک تھے۔ بہرحال ان کے سر پر اپنی چھت ضرور تھی۔
طے یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب امریکا سے اپنی کوئی غزل بھجوائیں گے اور عطرے صاحب اس کی دھن ترتیب دیں گے۔ پھر دیکھا جائے گا کہ کس سے گوانی ہے۔ علی نے ایک غزل بھجوائی‘ جو میںنے عطرے صاحب کو بھجوائی ڈالی۔دو تین دن بعد ان کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب کو کہیں کہ وہ مزید پانچ چھ غزلیں بھجوا دیں تا کہ فیصلہ کر سکیں کہ کس غزل کا انتخاب کرنا ہے۔ میرے لیے یہ تعجب کی بات تھی کہ وہ ہر کلام کو گوانے کے حق میں نہیں تھے۔ دراصل وہ ایک عظیم موسیقار تھے۔ انھیںاپنے فن پر عبور حاصل تھا۔ معلوم تھا کہ کونسا کلام موسیقی کے اعتبار سے نبھایا جا سکتا ہے۔
بہر حال ڈاکٹر صاحب نے اپنی پانچ غزلیں‘ اور بھجوا دیں ۔ جو فوراً عطرے صاحب کو بھجوا دی گئیں۔ ان کا پھر فون آیا کہ اب معاملہ ٹھیک ہے۔ دس بارہ دن لیں گے۔ اور پھر سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے کہ کس غزل کی دھن بنائیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی بھی غزل کی ایک سے زیادہ دھنیں ترتیب کر دیں۔ خیر ایک ہفتہ گزر گیا۔ اسی اثنا ء میں ڈاکٹر صاحب بھی امریکا سے ایک ہفتے کے لیے لاہور آ گئے۔ پندرہ دن گزر چکے تھے۔
حسب وعدہ‘ عطرے صاحب کو فون کیا کہ پوچھ سکوں کہ کتنا کام مکمل ہو چکا ہے ۔فون کسی اجنبی نوجوان نے اٹھایا۔ گزارش کی کہ عطرے صاحب سے بات کرا دیں۔ تو اس نوجوان نے رونا شروع کر دیا۔ ان کا بیٹا بول رہا ہوں۔ میرے والد تو ایک دن قبل خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ گفتگو ختم ہو گئی۔ مجھے قطعاً یقین نہ آیا۔ زندگی سے بھرپور شخص سے میری چند دن قبل ایک خوشگوار ملاقات ہوئی تھی۔ اور آج وہ واقعی دنیا میں نہیں ہے۔ بہر حال دوبارہ فون کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے قل ہو رہے ہیں۔ اب یقین ہو چلا کہ موسیقی کے فن کا ایک عظیم نام منوں مٹی اوڑھ کر سو چکا ہے۔
کافی دیراکیلا بیٹھ کر سوچتا رہا کہ اسی جگہ پر عطرے صاحب سے ایک بھرپور نشست ہوئی تھی۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے صوفی کلام کے لیے موسقی بنائیںگے۔ اور پھریک دم‘ سب کچھ ختم ہو گیا۔ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ میری‘ ان سے پہلی اور آخری ملاقات ہو گی۔ دوستی کا ایک سلسلہ جو ابھی شروع ہوا ہی ہے‘ یک دم ‘ ٹوٹ جائے گا۔ واقعی ‘ موت ‘ ہم میں سے ہر ایک کے اردگرد منڈلاتی رہتی ہے۔ اور وقت آنے پر دبوچ لیتی ہے۔
سانس کی ڈور کب ‘ کہاں اور کس طرح ٹوٹ جائے‘ اس کے متعلق کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ذوالفقار عطرے کی زندگی کی تان ‘ چند دن پہلے ‘ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گئی۔اور ہم سب کو افسردہ کر گئی۔ موسیقی کا فقید المثال علم لیے‘ عطرے صاحب‘ کے نصیب میں بس اتنا ہی سفر تھا۔ جو چند دن پہلے اختتام پذیر ہو گیا! بس یہی زندگی ہے!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ذوالفقار عطرے ڈاکٹر صاحب موسیقی کے ہوتا ہے صاحب کو کسی بھی اور پھر تھا کہ ختم ہو کے لیے ہوا کہ
پڑھیں:
پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر عمر بابر انتقال کرگئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عمر بابراچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ۔ ڈاکٹر عمر بابر اپنے دفتر میں معمول کے کاموں میں مصروف تھے کہ اچانک انہیں دل کا دورہ پڑا، انہیں فوراً قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا مگر ان کی حالت سنبھل نہ سکی اور وہ انتقال کرگئے، ان کی وفات پر پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ڈاکٹر عمر بابر ایک باصلاحیت اور محنتی شخصیت کے مالک تھے، جنہوں نے اپنے کیریئر میں اہم عہدوں پر فائز رہ کر عوام کی خدمت کی۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، خاص طور پر بلوچستان میں پی ٹی آئی کے لئے ان کی سیاسی جدوجہد اور پارٹی کی تنظیم سازی میں ان کا کردار نمایاں تھا۔یاد رہے ڈاکٹر عمر بابر پی ٹی آئی کی سٹینڈنگ کمیٹی احتساب اور ڈسپلن کے صوبائی ہیڈ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے اور سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان بھی تھے۔