Express News:
2025-01-27@17:05:26 GMT

دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشنز

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں 24 اور 25 جنوری کو انٹیلی جنس بیسڈ تین کامیاب آپریشنز کیے ہیں۔ان کارروائیوں میں 30 دہشت گرد مارے گئے ہیں جب کہ 8 زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق خوارج کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر سیکیورٹی فورسز نے ضلع لکی مروت میں آپریشن کیا، اس کارروائی میں 18 خوارج جہنم واصل کیے گئے ہیں جب کہ 6 خوارج زخمی ہوئے ہیں۔

ضلع کرک میں ایک اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا،فائرنگ کے تبادلے کے دوران سیکیورٹی فورسز نے موثر طریقے سے 8 خوارج کو ہلاک کر دیا۔ضلع خیبر کے علاقے باغ میں کی گئی تیسری کارروائی میں فورسز نے کامیابی سے 4 خوارج کو ہلاک کر دیا جن میں خارجی سرغنہ عزیز الرحمن عرف قاری اسماعیل اور خارجی مخلص شامل ہیں جب کہ دو خوارج زخمی ہو ئے ہیں۔

مرنے والے دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کے ساتھ ساتھ معصوم شہریوں کے قتل میں بھی ملوث تھے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری ،وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے خیبر پختونخوا میں کامیاب کارروائیوں کے دوران 30 خوارج دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا۔

ادھر ڈیرہ اسماعیل کے  علاقے کلاچی میں دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے پولیس کانسٹیبل کو شہید کردیا ہے، ضلع ٹانک میں بھی پولیس کانسٹیبل کو گھر سے اغوا کیا گیا ہے اور اس کے مکان کو نذر آتش کر دیا گیا، بعد میں اس کی نعش قریبی کھیتوں سے برآمد ہو گئی ہے۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی مسلسل کارروائیاں جاری ہیں، ضلع کرم میں بھی آپریشن ہو رہا ہے جس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔

ادھرسی ٹی ڈی پنجاب کی مختلف کارروائیوں کے دوران کالعدم تنظیم کے 10 دہشت گرد گرفتار کیے گئے، خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ گرفتاریاں لاہور ،راولپنڈی،شیخوپورہ ،بہاول نگر ،میانوالی، سرگودھا اور فیصل آباد سے کی گئی ہیں ، دہشت گردوں نے اہم عمارتوں کو ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا ۔یوں دیکھا جائے تو سیکیورٹی ادارے جن میں پاک فوج، ایف سی، رینجرز اور سی ٹی ڈی شامل ہیں، مسلسل آپریشن میں مصروف ہیں جب کہ انٹیلی جنس ادارے بھی پوری تندہی سے اپنے فرائض ادا کررہے ہیں جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو خاصا نقصان ہورہا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کی بنیادی وجہ افغانستان ہے۔ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد‘ طالبان نے وہاں اقتدار سنبھالا ۔ابھی طالبان فورسز نے کابل پر قبضہ نہیں کیا تھا‘ باگرام جیل کو توڑ کر وہاں قید ایسے دہشت گردوں کو فرار قرار دیا گیا جو پاکستان کو مطلوب تھے اور جنھیں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت نے گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال رکھا تھا۔ اس سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ طالبان کے عزائم کیا ہیں۔

طالبان نے کابل کا اقتدار سنبھالا تو اس کے فوراً بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اب اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا ہے کہ افغان طالبان کی تائید و حمایت سے کالعدم ٹی ٹی پی نے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں پوری آزادی کے ساتھ کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان کی سرحد سے ملحق صوبہ جات سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستان آ کر کارروائیاں کرتے ہیں۔

ان میں سے کئی مارے جاتے ہیں جب کہ جو دہشت گرد بچ نکلتے ہیں وہ افغانستان فرار ہو جاتے ہیں جہاں ان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔طالبان نے دوحہ مذاکرات میں اس عہد نامے پر دستخط کیے ہیں کہ طالبان حکومت افغانستان میں موجود تمام دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کرے گی‘ کسی گروپ کو افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔ افغان طالبان نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ اس سلسلے میں فوری کام شروع کردیا جائے گا لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔

طالبان حکومت کی رٹ افغانستان میں کتنی موثر ہے‘ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ طالبان حکومت کو ابھی تک کسی بھی بین الاقوامی طاقت نے براہِ راست تسلیم نہیں کیا اور انھیں اندرونی چیلنجوں کا سامنا بھی ہے۔ طالبان کے اپنے رینک اینڈ فائل میں بھی اختلافات اور گروہ بندی نظر آتی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے کئی ہزار دہشت گرد بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے ملحق افغانستان کے صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں جو مختلف گروہوں کی شکل میں حملہ کر کے روپوش ہو جاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے پشاور کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران خیبرپختون خوا کی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمایندوں نے ان سے ملاقاتیں بھی کی تھیں‘ تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں نے دہشت گردی کے خلاف مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر متزلزل حمایت پر واضح موقف اپناتے ہوئے دہشت گرد گروپوں کے انتہا پسندانہ فلسفے کے خلاف ایک متحد محاذ کی ضرورت پر اتفاق کیا تھا۔ یہ ایک اچھی پیشرفت ہے بلاشبہ متحدہ سیاسی آواز اور قومی بیانیہ وقت کی اولین ضرورت بن چکا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف واضح عزم کا اظہار کرنا چاہیے اور ایک قومی موقف اختیار کر کے اس حوالے سے اپنا منشور سب سے سامنے رکھنا چاہیے۔

دہشت گردی کے خلاف ہماری سیکیورٹیز ایجنسیاں فرنٹ اور بیک لائن پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہیں، اس ناسور کی بیخ کنی کے لیے قوم اور سیاسی و مذہبی قیادت کو بھی متحد ہونا پڑے گا۔ درحقیقت دہشت گردوں کے سہولت کار ہمارے درمیان موجود ہیں۔ پاکستان کی سر زمین پر افغانستان سے لائے جانے والے غیر ملکی اسلحہ کے استعمال کے ثبوت کئی بار پھر منظرِ عام پر آئے ہیں، دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ دستیاب ہے۔ یہ ہتھیار افغانستان کی حکومت کی مرضی کے بغیر دہشت گردوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔اس کا اقرار ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے کئی اہم افراد بھی کرتے ہیں۔

کئی غیر ملکی جریدے بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے غیر ملکی ساخت کا اسلحہ استعمال کیا ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج انخلا کے وقت افغانستان کی نیشنل آرمی کے پاس بڑی تعداد میں امریکی ہتھیار موجود تھے۔ امریکا نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کو تقریباً اٹھارہ ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔ امریکی انخلا کے بعد ان ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی کو سرحد پار دہشت گرد حملوں میں مدد دی ہے۔ یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔

آج ہم دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کو اسٹرٹیجک ڈیپتھ فراہم کر دی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کو ایک نئی زندگی دے دی۔ ٹی ٹی پی نے طالبان کی فتح کو اپنی فتح کے طور پر منایا۔ ٹی ٹی پی اور طالبان کے درمیان طویل عرصے سے جنگی، سیاسی، نسلی اور نظریاتی روابط ہیں۔ اس لیے طالبان حکومت نے پاکستان کو کوئی مدد دینے کے بجائے ٹی ٹی پی کی مدد کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانستان دہشت گردی کی تربیت گاہ بنا ہوا ہے اور افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اس صورتحال میں افغان حکومت کو دوسروں پر بے بنیاد الزام تراشی کے بجائے اپنے معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے جس میں پہلی ترجیح اپنے ملک کو دہشت گردوں کے دباؤ اور اثر سے آزاد کرانا ہونا چاہیے۔

پاکستان اندرون ملک دہشت گردوں کے خلاف مسلسل جنگ لڑ رہا ہے۔ لیکن جب تک افغانستان میں طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری بند نہیں کرتے ‘ دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد صورت حال میں تبدیلی آنے کی توقع ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کا موقف بہت واضح ہے۔ افغانستان کی حکومت کو بدلتے ہوئے حالات میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے اور دہشت گردوں کے خلاف حقیقی آپریشن کر کے اقوام عالم میں اپنی ساکھ کو بہتر بنانا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے خلاف دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی فورسز افغانستان میں دہشت گردوں کو افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان میں ٹی ٹی پی کے ٹی ٹی پی کو طالبان کی طالبان نے ہیں جب کہ فورسز نے میں بھی ہیں کہ کے لیے کے بعد

پڑھیں:

وزیراعظم کا فتنہ خوارج کے خلاف کامیاب کارروائیوں پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین

وزیراعظم شہباز شریف نے ضلع لکی مروت، ضلع کرک اور ضلع خیبر میں فتنتہ الخوارج کے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین کیا ہے۔

وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے ان آپریشنز میں ان کارروائیوں میں مجموعی طور پر 30 خوارجی دہشت گردوں کو ہلاک کرنے پر سیکیورٹی فورسز کی ستائش کی۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے، ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے پر عزم ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا میں 3 علیحدہ علیحدہ کارروائیوں میں 30 خوارج کو ہلاک کردیا تھا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق 24 اور 25 جنوری کو خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں تین الگ الگ کارروائیوں کے دوران سیکیورٹی فورسز نے 30 خوارج کو ہلاک کر دیا۔

ضلع لکی مروت میں خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلیجنس کی بنیاد پر ایک آپریشن کیا گیا۔ جس کے دوران سیکیورٹی فورسز نے خوارج کے ٹھکانوں کو مؤثر انداز میں نشانہ بنایا اور 18 خوارج کو ہلاک جبکہ 6 کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا۔

دوسری انٹیلی جنس کارروائی ضلع کرک میں کی گئی جہاں فائرنگ کے تبادلے میں 8 خوارج ہلاک ہوئے اس کے علاوہ تیسری جھڑپ خیبر ضلع کے عمومی علاقے باغ میں ہوئی، جہاں سیکیورٹی فورسز نے 4 خوارج کو ہلاک کر دیا۔

باغ میں دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں خارجی رہنما عزیز الرحمن عرف قاری اسماعیل اور خارجی مخلص بھی شامل تھے، جبکہ 2 خوارج زخمی ہوئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونے والے خوارج کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا جبکہ مارے جانے والے دہشت گرد معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث تھے۔

اعلامیے کے مطابق علاقے میں کسی بھی باقی ماندہ خوارج کو ختم کرنے کے لیے کلیرنس آپریشن جاری ہیں، پاک فوج دہشت گردی کے ناسور کو ملک سے مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا میں کسی بھی چین مخالف تقریب میں شرکت نہیں کی،وفاقی وزیر داخلہ
  • وزیراعظم کا فتنہ خوارج کے خلاف کامیاب کارروائیوں پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
  • امریکی کانگریس کو پاکستان کے خلاف اکسایا جا رہا ہے، محسن نقوی
  • امریکی کانگریس کو پاکستان کے خلاف اکسایا جا رہا ہے، اسمحسن نقوی
  • سیکورٹی فورسز کے خفیہ اطلاع پر آپریشنز ،30 دہشت گرد ہلاک
  • تین آپریشنز میں 30 خارجی دہشتگرد ہلاک
  • دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رکھیں گے:وزیر اعظم
  • عالمی عدالت نے افغانستان پر 20 سالہ قبضے پر آنکھیں بند رکھیں،طالبان
  • افغان طالبان نے عالمی فوجداری عدالت سے وارنٹ گرفتاری کا مطالبہ سیاسی قرار دے کر مسترد کر دیا