سُوئے منتہٰی وہ چلے نبی ﷺ۔۔۔۔۔۔ !
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
معراج نبی کریمؐ کا عظیم معجزہ ہے۔ حضر ت سیّد احمد سعید شاہ کاظمی لکھتے ہیں: ’’حضور نبی اکرم نور مجسم سید عالم ﷺ کے اخص خصائص اور اشرف فضائل و کمالات اور روشن ترین معجزات و کرامات سے یہ امر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضورؐ کو فضیلت اسراء و معراج سے وہ خصوصیت و شرافت عطا فرمائی جس کے ساتھ کسی نبی اور رسول کو مشرف و مکرم نہیں فرمایا اور جہا ں اپنے محبوب ﷺ کو پہنچایا کسی کو وہاں تک پہنچنے کا شر ف نہیں بخشا اور اﷲ تعالیٰ نے اس عظیم و جلیل واقعہ کے بیان کو لفظ ’’سبحان‘‘ سے شروع فرمایا جس کا مفاد اﷲ کی تنزیہ اور ذات باری کا ہر عیب و نقص سے پاک ہونا ہے۔
اس میں یہ حکمت ہے کہ واقعات معراج جسمانی کی بناء پر منکرین کی طرف جس قدر اعتراضات ہوسکتے تھے ان سب کا جواب ہوجائے۔ مثلاً حضور نبی کریم ﷺ کا جسم اقدس کے ساتھ بیت المقدس یا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور وہاں سے ’’ثم دنی فتدلیٰ ‘‘ کی منزل تک پہنچ کر تھوڑی دیر میں واپس تشریف لے آنا منکرین کے نزدیک ناممکن اور محال تھا۔
اﷲتعالیٰ نے لفظ سبحان فرما کر یہ ظاہر فرمایا کہ یہ تمام کام میرے لیے ناممکن اور محال ہوں تو یہ میری عاجزی اور کم زوری ہوگی اور عجز و ضعف عیب ہے اور میں عیب سے پاک ہوں، اسی حکمت کی بناء پر اﷲ تعالیٰ نے ’’اسریٰ ‘‘ فرمایا جس کا فاعل اﷲ تعالیٰ ہے۔ حضور ﷺ کو جانے والا نہیں فرمایا، بل کہ اپنی ذات کو لے جانے والا فرمایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے لفظ ’’سبحان ‘‘ فرما کر معراج جسمانی پر ہر اعتراض کا جواب دیا ہے اور اس سے معلوم ہُوا، آیت اسریٰ کا پہلا لفظ ہی معراج جسمانی کی روشن دلیل ہے۔‘‘
نبی کریمؐ براق پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچے اور مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز ادا فرمائی پھر آپؐ باہر تشریف لائے، اس وقت حضرت جبریلؑ آپؐ کی خدمت میں ایک برتن شراب کا اور دوسرا برتن دودھ کا لائے، نبی کریم ﷺ نے دودھ کا برتن منتخب کیا، حضرت جبریلؑ نے عرض کیا: آپؐ نے فطرت کا انتخاب کیا۔ مزید عرض کیا کہ حضور ﷺ نے شراب منتخب کی ہوتی تو ان کی امت گم راہ ہوجاتی۔ نبی ﷺ نے اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہدایت کی توفیق بخشی۔
صحیح روایت میں ہے کہ جب نماز کا وقت آیا تو رسول اﷲ ﷺ نے انبیائے کرامؑ کی امامت فرمائی۔ ان حضرات نے آپؐ کی تشریف آوری پر مرحبا کہا اور مسرت و شادمانی کا مظاہرہ کیا، اس طرح آپؐ امام الانبیاء کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپؐ جب جبریلؑ کے ساتھ پہلے آسمان پر پہنچے تو حضرت جبریلؑ نے آسمان کے دروازے پر دستک دی، آواز آئی: آپ کے ساتھ کوئی اور ہے۔ حضرت جبریل نے عرض کیا: میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں۔
پھر آواز آئی: کیا ان کو بُلایا گیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں! اِن کو بُلایا گیا ہے۔ پھر دروازہ کھلا۔ حضرت آدمؑ نے اس پہلے آسمان پر آپؐ کو خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر جبریلؑ آپ ﷺ کو سدرۃ المنتہی تک لے گئے۔ آپؐ معراج میں مدارج رفعت طے کرتے قاب قوسین کے مرتبے کو پہنچے جو نہ کسی کو ملا اور نہ کسی نے اس کا قصد کیا۔ آپؐ پانچ نمازوں کا تحفہ لے کر آئے۔
آپؐ جسم و روح دونوں کے ساتھ آسمانوں کی بلندیوں پر پہنچے اور آپؐ کا یہ اوپر کا سفر ہر بلندی کے سفر سے بالاتر ہے۔ آپؐ اس مرکز سے بھی اوپر تشریف لے گئے جہاں خالق خلق اپنے قلم سے فیصلے جاری کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے معراج میں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کے سر پتھر سے توڑے جاتے ہیں اور جب ٹوٹ جاتے ہیں تو پھر پہلے کی طرح درست ہوجاتے ہیں اور سزا کی اس کارروائی میں کوئی کمی نہیں کی جاتی یعنی عذاب کا یہ سلسلہ پیہم جاری رہتا ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں حضرت جبریلؑ نے حضور ﷺ کو بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر فرض نماز سے بوجھل ہوجاتے تھے۔
اسی طرح نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے آگے پیچھے پیوند لگے ہوئے تھے ، وہ اس طرح چَر رہے تھے جیسے اونٹ اور بکریاں چرتی ہیں اور وہ جہنم کے پتھر کھا رہے تھے۔ نبی ﷺ نے حضرت جبریلؑ سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح کچھ ایسے لوگوں کا مشاہدہ کیا جن کے سامنے ہانڈی کا پکا ہوا گوشت تھا اور انہیں کے سامنے دوسری ہانڈی میں خبیث اور کچا گوشت تھا۔ یہ لوگ کچا اور خبیث گوشت کھا رہے تھے اور پاک پکا ہوا گوشت چھوڑ رہے تھے۔
حضرت جبریلؑ نے سیّد کائنات ﷺ کو ان کے بارے میں بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پاس جائز اور پاکیزہ عورتیں موجود تھیں مگر وہ خبیث عورتوں کے پاس جاکر زنا کی لعنت میں مبتلا ہوتے تھے، اسی طرح وہ عورت بھی جس کی شادی پاکیزہ مرد سے تھی مگر وہ خبیث مرد کے پاس جاکر زنا کی مرتکب ہوتی تھی اور نبی ﷺ کا گزر راستے میں ایک ایسی لکڑی کے پاس سے ہوا جس کے پاس اگر کوئی کپڑا گزرتا تو اسے وہ لکڑی چاک کردیتی یا کوئی شے گزرتی اسے بھی چاک کردیتی۔ حبیب ﷺ نے پوچھا! جبریلؑ یہ کیا ہے؟ حضرت جبریلؑ نے بتایا آپؐ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو راستوں پر بیٹھتے اور راستہ کاٹا کرتے ہیں۔
شب ِمعراج میں نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچی سے کاٹے جاتے تھے اور جب بھی کاٹ دیے جاتے پھر دوبارہ صحیح ہوجاتے۔ نبی ﷺ نے فرمایا، جبریلؑ! یہ کون ہیں۔ انھوں نے عرض کیا، یہ آپؐ کی امت کے مقررین ہیں، فتنہ پرور مقررین یہ جو کہتے تھے اس پر خود عمل نہ کرتے تھے۔ جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا: میں نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ اس میں زیادہ تر تعداد عورتوں کی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ ایسا کیوں ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: اپنی ناشکری کی وجہ سے۔ عرض کیا گیا کہ کیا وہ اﷲ کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: شوہر کی ناشکری کرتی ہیں، احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر تم کسی ایک کے ساتھ زمانہ بھر تک احسان کرتے رہو پھر اس نے ذرا سا بھی فر ق دیکھا تو کہہ اٹھی تم سے تو میں نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حضرت جبریل ایسے لوگوں نے عرض کیا نے فرمایا اﷲ تعالی کرتی ہیں کے ساتھ ہیں اور رہے تھے کے پاس
پڑھیں:
شان مسعود کے ساتھ اب یہ کمپنی نہیں چلے گی!
تو ویسٹ انڈیز بالآخر 35 سال بعد پاکستان میں ٹیسٹ میچ جیت گیا، آخری مرتبہ جب ویسٹ انڈیز نے کامیابی حاصل کی تھی تو شان مسعود اور نعمان علی کے علاوہ کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
تو پھر اس شاندار میزبانی پر ’کریڈٹ گوز تو آل دی بوائز‘ ہی ہونا چاہیے کہ ایک ایسی ٹیم سے ہم ہار گئے جس کا کوئی کھلاڑی ماضی میں پاکستان میں ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا اور یہاں کی کنڈیشن سے ناواقف تھا۔
دوسری طرف ہم ہیں کہ فل اسٹرینٹھ ٹیم میدان میں اتار دی، یعنی ہزیمت سے بچنے کے لیے اب ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ابھی تو ہمارے اہم کھلاڑی ٹیم میں نہیں تھے۔
سیریز جیتنے کے لیے ہم اتنے بے تاب تھے کہ پہلے ہی دن وکٹ اسپنرز کے لیے سازگار بنادی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ 1910 کے بعد 3 ایسے ٹیسٹ میچ کھیلے گئے جن میں بولنگ کا آغاز اسپنرز نے کیا اور یہ تینوں پاکستان میں کھیلے گئے۔ ایک انگلینڈ کے خلاف اور 2 ویسٹ انڈیز کے خلاف۔
یعنی ہوم کنڈیشنز کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہر طرح کے جتن کرلیے کہ کسی طرح کامیابیاں سمیٹ لیں مگر ایک سیریز جیتنے کے بعد اگلی برابر ہوگئی۔ اب آگے ہمارے کرتا دھرتا کیا حکمت عملی بناتے ہیں اس کا انتظار دلچسپ ہوگیا ہے۔
عاقب جاوید نے شاید ٹھیک ہی سوچا ہوگا کہ یار اپنے کھلاڑیوں کو فائدہ دینے کے لیے وکٹیں بناتے ہیں مگر شاید وہ اپنے بلے بازوں کو بھول گئے۔ شاید انہیں یاد نہیں رہا کہ اگر ویسٹ انڈیز کے بیٹسمین ناکام رہیں گے تو اپنوں میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں؟
بلے بازوں کی ناکامی پر تو بات ہوتی ہی رہتی ہے مگر شاید اب کپتان کے کردار پر بھی بات کرلینی چاہیے۔ بطور کپتان شان مسعود کی یہ 5ویں سیریز تھی۔ ابتدائی 2 بہت مشکل یعنی آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں تھیں جہاں ہارنا ہماری روایت ہے اور ناجانے یہ روایت کون توڑے گا، توڑے گا بھی یا نہیں، اس بارے میں بھی کچھ یقینی نہیں۔
لیکن اگلی 3 سیریز پاکستان میں کھیلی گئیں۔ سب سے پہلا جھٹکا ہمیں اس وقت لگا جب بنگلہ دیش نے ہمیں 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کیا، حالانکہ اس سے قبل بنگلہ دیشی ٹیم ہمارے خلاف کوئی ایک میچ بھی نہیں جیت سکی تھی۔
پھر ٹیم انتظامیہ میں تبدیلی ہوئی اور عاقب جاوید نے آتے ہی وکٹوں میں تبدیلی کا فیصلہ کیا جس کے بعد ہم نے انگلیںڈ کو سیریز میں شکست دی۔ اس کامیابی کے بعد ہمارا خیال تھا کہ ویسٹ انڈیز کو ہرانا تو کوئی مشکل نہیں ہوگا اور پہلا میچ جیتنے کے بعد یہ بات یقینی بھی ہوگئی تھی مگر دوسرے میچ میں سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔
دوسرے میچ میں کپتانی کا کردار کس قدر بھیانک تھا اسے سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ پہلی اننگز میں ہمارے بولرز نے محض 54 رنز پرمہمان ٹیم کے 8 کھلاڑیوں کو پویلین بھیج دیا تھا، مگر آخری 2 بلے بازوں نے اسکور کو 163 رنز تک پہنچا دیا۔
اب آپ یوٹیوب پر جائیے اور اس موقعے پر شان مسعود کی کپتانی دیکھیے کہ کس طرح رنز کے انبار لگوادیے۔ شان مسعود نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے پاس کپتان والا دماغ نہیں، وہ اچھا بول سکتے ہیں، presentable ہوسکتے ہیں مگر قومی ٹیم کی قیادت کے اہل نہیں۔ جس طرح بابر اعظم کے بارے میں یہ رائے ٹھیک ثابت ہوئی کہ وہ بلے باز تو اچھے ہوسکتے ہیں مگر کپتان نہیں بالکل یہی بات اب شان مسعود کے اوپر بھی لاگو ہوتی ہے۔
اس پورے سلسلے میں ایک اور بُری خبر یہ بھی سن لیجیے کہ اب تک 3 ٹیسٹ چیمیئن شپ منعقد ہوچکی ہیں، 2019 سے 2021 تک، 2021 سے 2023 تک اور پھر 2023 سے 2025 تک۔ فائنل تو دُور کی بات ہم ہر گزرتے سال کے ساتھ نیچے گر رہے ہیں۔ پہلی چیمپیئن شپ میں ہمارا نمبر 5واں تھا، پھر ہم 7ویں تک آئے اور اس بار ہمارا نمبر 9واں ہوچکا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ ہم نیچے گر رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹیسٹ پلیئنگ نیشن سے ہی ہم باہر ہوجائیں، اس لیے خبردار ہونا بنتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیسے اور ٹیم کے نتائج کو بہتر کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ سوال اچھا ہے مگر ایک اور اچھا پہلو یہ ہے کہ اگلے کچھ عرصے تک پاکستان کو ٹیسٹ میچ نہیں کھیلنا، اس لیے اگلا کپتان کس کو ہونا چاہیے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی بھی فیصلہ سودمند نہیں ہوگا۔ ہاں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ چونکہ محمد رضوان ایک روزہ اور ٹی20 ٹیم میں قیادت کررہے ہیں اس لیے ان پر اضافی بوجھ ڈالنے کے بجائے سعود شکیل پر غور کیا جاسکتا ہے، مگر بات وہی ہے کہ ابھی کوئی بھی فیصلہ جلد بازی تصور ہوگا لیکن یہ بات بہرحال اب ناگزیر ہوچکی ہے کہ شان مسعود کے ساتھ یہ کمپنی نہیں چل سکے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
فہیم پٹیلگزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔