Express News:
2025-01-27@17:13:34 GMT

تاریخِ تحریکِ پاکستان اور سیکولر یلغار

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

نظریۂ پاکستان ایک ایسی زمینی حقیقت ہے جس کو دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا محقق یا اسکالر رد نہیں کرسکتا تھا۔ لاکھوں مسلمانوں نے اس نظریے کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑے، اپنی جانیں قربان کیں اور کشت و خون کا طویل سمندر پار کرکے پاکستان کی دہلیز پر قدم رکھا گیا۔

اس قدر عظیم اور بے مثال قربانیاں کسی شوق، دنیوی لالچ یا کسی نسلی، لسانی، جغرافیائی مفاد کے لیے ہرگز نہ دی گئی تھیں بلکہ ہر قسم کی نسلی، لسانی، ثقافتی اور جغرافیائی تفاوت سے بالا تر ہو کر صرف مسلم قومیت کی بنیاد پر دی گئی تھیں، کیوںکہ ہندوؤں اور انگریزوں کا گٹھ جوڑ اور اس کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے ہندو مسلم فسادات اور تنازعات مسلمانوں کو شدت کے ساتھ یہ احساس دلا رہے تھے کہ بحیثیت مسلمان اب ان کی شناخت اور ان کا مستقبل علیحدہ وطن حاصل کیے بغیر ممکن نہ رہے گا۔

یہی زمینی حقیقت تھی جو نظریۂ پاکستان کے قلعے کو ناقابل تسخیر بناتی تھی مگر آج پاکستان کا سیکولر طبقہ اس قلعے کی دیواروں کو گرانے کے لیے اور مغرب کے سیکولر ایجنڈے کو پاکستانی معاشرے پر مسلط کرنے کے لیے ایک نیا بیانیہ بڑے زورشور کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے کہ پاکستان کسی مذہب کے نام پر نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اور اپنے اس بیانیے کو سچا ثابت کرنے کے لیے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کو دلیل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ اس قلابازی کا ایک پہلو تو مغربی معاشرتی نظام کا نفاذ ہے جو ہر صورت اسلامی بیانیے کی نفی چاہتا ہے اور قومی معاشی مجبوریاں نظریہ پاکستان پر سمجھوتا کرنے پر اشرافیہ کو اُکساتی ہیں۔

تاہم آج مغرب کا سیکولر ایجنڈا نظریہ پاکستان کی مضبوط دیواروں میں نقب لگانے میں اگر کام یاب ہورہا ہے اور اس کے مقابلے میں ہمارا مطالعہ پاکستان اور نظریے کے دفاع میں کوشاں طبقہ اپنا اثر اور یقین کھورہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ تاریخِ تحریکِ پاکستان کے اہم ترین ابواب کو اس کے حامی طبقے نے خود تاریخ کے صفحات سے نکال کر سیکولر طبقہ کا کام آسان کردیا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ نظریہ پاکستان کے دفاع میں کوشاں طبقے کی جانب سے کیا کیا غلطیاں دہرائی جارہی ہیں جس کی وجہ سے سیکولر بیانیہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ علم تاریخ کے اپنے اصول ہیں۔ جب کوئی قوم علم تاریخ کے بنیادی اصولوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے محض سیاسی، جماعتی، نسلی یا گروہی مفادات کے تحت پسندوناپسند کی بنیاد پر اپنی تاریخ مرتب کرنا شروع کردے تو ایک وقت آئے گا کہ اہل علم کے نزدیک وہ تاریخ مشکوک ہوجائے گی۔ کچھ ایسا ہی حشر تاریخِ تحریکِ پاکستان کے ساتھ مخصوص اشرافیہ نے بھی کیا ہے اور پاکستانی عوام تو جیسا کہ ہر معاملے میں اشرافیہ کے رحم و کرم پر ہی رہے ہیں لہٰذا تاریخ ِ تحریک ِ پاکستان کے معاملے میں بھی اشرافیہ کے بہکاوے میں آکر بہکنے میں دیر نہیں لگائی اور صرف اسی بیانیے کو تاریخ پاکستان سمجھا جس کا تعلق صرف مسلم لیگ سے تھا یا قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہونے والی جاگیردار اور سرمایہ دار اشرافیہ کے بیانیے سے تھا۔

پاکستان اکیلے مسلم لیگ کی کاوش نہ تھی، اس میں دیگر بہت سی جماعتوں، شخصیات اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی قربانیاں بھی شامل تھیں۔ اس میں ان بہاری مسلمانوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں جو پاکستان کی خاطر آج تک بے گھر ہیں، اس میں ہجرت کے دوران قتل اور بے گھر ہونے والے کروڑوں  مسلمانوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ صرف جموں میں ایک دن میں اڑھائی لاکھ کے قریب مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ لیکن جب تاریخِ پاکستان پر صرف ایک جماعت یا مخصوص گروہ کی تختی لگانے کے لیے حقائق کو مسخ کیا جائے گا تو پھر نظریہ پاکستان کی بنیادیں خودبخود کم زور ہوجائیں  گی۔ جب بنیاد ہی کھوکھلی ہوگی تو اس پر جو عمارت بنے گی وہ مخالف آندھیوں کا سامنا کیسے کر پائے گی؟

آج مطالعہ پاکستان میں جب تحریک پاکستان کا ذکر کیا جاتا ہے تو بات 1940ء کی قرارداد سے شروع کی جاتی ہے۔ حالاںکہ یہ غلطی کرکے ہم سیکولرز کو خود موقع دیتے ہیں کہ وہ نظریہ پاکستان کے بخیے اُدھیڑیں، کیوںکہ جب آپ ایسا کرتے ہیں توآپ تاریخ تحریک پاکستان کے اَن گنت تاریخی ابواب کو خود بخود مٹا دیتے ہیں جو نظریہ پاکستان کی اصل بنیاد تھے اور جن کا ایک تاریخی پس منظر بھی تھا جس میں دو قومی نظریہ پروان چڑھا، علیحدہ مسلم ریاست کی ضرورت محسوس کی گئی اور پھر تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

 مثال کے طور پر جنگ آزادی1857ء کے بعد بڑھتے ہوئے ہندومسلم تنازعات اور فساد ات کے تناظر میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ مستقبل میں یہ دونوں قومیں ایک ساتھ نہیں رہ سکیں گی اور اگر رہیں تو جمہوریت کی بنیاد پر ہندو غالب اور مسلمان کم زور ہو جائیں گے اور مسلمانوں کے حقوق اور مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس لیے سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو کانگریس میں جانے سے روکا۔ لہٰذا دوقومی نظریہ کے پیش رو سرسید احمد خان تھے۔

یہ بات علم تاریخ کے اصولوں کے عین مطابق تسلیم شدہ ہے۔ پھر یہ ہندو مسلم فسادات اور تنازعات بڑھتے ہوئے پہلی جنگ عظیم تک اس بات کے واضح الارم بن چکے تھے کہ انگریز کی پشت پناہی میں ہندو مسلمانوں کا اسی طرح قتل عام کریں گے جس طرح اسپین میں عیسائیوں نے کیا تھا۔ ہندو انتہاپسند جتھوں اور تنظیموں کی بنیادیں بھی رکھی جارہی تھیں۔ اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے چوہدری رحمت علیؒ نے 1915ء میں بزم شبلی میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا۔

جنگ عظیم اول کے صرف چند سال بعد ہی راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) جیسی ہندودہشت گرد تنظیموں کو باقاعدہ عسکری تربیت دی جانے لگی اور ان کا مسلم کش ایجنڈا بھی سامنے آنے لگا جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ چوہدری رحمت علیؒ کے خدشات بالکل درست تھے۔ بزم شبلی ایک زندہ حقیقت ہے جس کو تاریخی لحاظ سے جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے اور اس میں چوہدری رحمت علی ؒ نے الگ مسلم ریاست کے لیے جو جواز پیش کیا وہ بھی نظریہ پاکستان کے عین مطابق تھا۔ آپ نے فرمایا تھا:

’’شمالی ہند آبادی کے لحاظ سے مسلم ہے اور ہم اسے مسلم ہی برقرار رکھیں گے، یہی نہیں بلکہ ہم اسے مسلم ریاست بنائیں گے لیکن ہم ایسا تبھی کر سکتے ہیں جب کہ ہم خود اور ہمارا شمالی ہند ’ہندوستانی‘ نہ رہیں، کیوںکہ یہ پہلی شرط ہے۔ ہم جس قدر جلد ’ہندیت‘ اُتار پھینکیں گے اسی قدر یہ ہمارے لیے اور اسلام کے لیے بہتر ہوگا۔‘‘ (تحریک پاکستان: ص 328)

اگر تصورِ پاکستان کا یہ تاریخی اور حقیقی پہلو بھی ہمارے نصاب اور مروجہ تاریخ میں پڑھایا جاتا تو سیکولرز کو کبھی اعتراض کا موقع نہ ملتا کیوںکہ اس کا باقاعدہ ایک تاریخی پس منظر بھی تھا کیوںکہ برٹش بنیا گٹھ جوڑ RSSکا مسلم کش ایجنڈا تخلیق کرچکا تھا اور ان حالات میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور اُبھرنا ناگزیر تھا۔ اس کے بعد1930ء تک کئی لوگوں نے انتظامی اور مذہبی بنیادوں پر ہندوستان کی تقسیم کی تجاویز پیش کیں اور اسی سلسلے میں علامہ اقبال کے خطبۂ الہ آباد کی بھی تاریخی اہمیت ہے۔

اس کا ذکر تو ہمارے ہاں اکثر ہوتا ہے لیکن اس کے فوراً بعد جو اہم ترین تاریخی واقعات رونما ہوتے ہیں اور حقیقی معنوں میں تحریک پاکستان کی بنیاد بنتے ہیں ان کو ہم پھر چھوڑ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر تاریخِ تحریکِ پاکستان کے اہم ترین سنگ ہائے میل پاکستان ڈکلیریشن اور تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہیں۔

یہ وہ وقت تھا جب لندن میں گول میز کانفرنسز (نومبر 1930ء تا دسمبر 1932) ہورہی تھیں اور ان میں انڈین فیڈریشن کے لیے متفقہ آئین کی تیاری پر تبادلہ خیال ہورہا تھا۔ لیکن چوہدری رحمت علیؒ کے نزدیک متحدہ وفاق کے فارمولے کو قبول کرلینا اسپین کی طرح مسلمانوں کے خاتمے کو قبول کرنے کے مترادف تھا۔ چوہدری رحمت علیؒ نے گول میز کانفرنسز کے دوران مسلم مندوبین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور انہیں انڈین فیڈریشن کو مسترد کرنے اور الگ مسلم ریاست کا مطالبہ کرنے پر آمادہ کرنے کی پوری کوشش کی۔

حسین زبیری تحریر کرتے ہیں: ’’چودھری صاحب نے گول میز کانفرنسز کے دوران مسلم مندوبین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور ان پر یہ بات واضح کی کہ انڈین فیڈریشن کو قبول کر لینے سے مسلمانوں کی انفرادیت ختم ہو جائے گی اور آپ اللّہ اور رسول ﷺ کے سامنے جواب دہ ہوں گے، لہٰذا انڈین فیڈریشن کو مسترد کرکے شمال مغربی وطن کے لیے ایک الگ وفاق کا مطالبہ کریں۔ لیکن مسلم لیگ کا موقف انڈین فیڈریشن کے حق میں رہا۔

لہٰذا 28 جنوری 1933ء کو چوہدری رحمت علی ؒ نے خود آگے بڑھ کر پاکستان ڈکلیئریشن (Now or Never) پیش کردیا جس میں نہ صرف پاکستان کا نقشہ اور نام موجود تھا بلکہ مطالبۂ پاکستان کا بڑا مدلل اور دو ٹوک جواز بھی پیش کیا گیا تھا جو نظریہ پاکستان کی اسلامی تعبیر کے عین مطابق تھا کیوںکہ پاکستان ڈکلیریشن (Now or Never) میں انڈین فیڈریشن (اکھنڈ بھارت) کی تجویز کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے دنیا کو باور کرایا گیا کہ انڈین فیڈریشن کو قبول کرنا ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے خاتمے پر دستخط کے مترادف ہوگا:

This acceptness amounts to nothing less than signing the death-warrant of Islam and of Muslims in India.

پاکستان ڈکلیریشن کے یہ الفاظ نظریہ پاکستان کے خلاف سیکولر یلغار کا منہ توڑ جواب تھے۔ اگر تاریخِ تحریکِ پاکستان کے اس اہم ترین باب کو جماعتی، مسلکی، نسلی یا گروہی بنیادوں پرتاریخ سے نہ نکالا گیا ہوتا تو آج سیکولرز کو موقع ہی نہ ملتا کہ وہ تصور پاکستان کی کوئی خودساختہ تعبیر کریں، کیونکہ پاکستان ڈکلیریشن ایک زندہ اور تاریخی حقیقت ہے جس کو دنیا کا کوئی بھی شخص رد نہیں کر سکتا اور نہ کوئی بڑے سے بڑا مورخ ٹھکرا سکتا ہے۔ پاکستان ڈکلیریشن Now or Never  اپنی اصل حالت میں نہ صرف برطانوی اور انڈین آرکائیوز میں موجود ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے سفارت خانوں اور صحافیوں کے ریکارڈ میں بھی موجود ہے۔

1933ء میں چوہدری رحمت علیؒ نے پاکستان ڈکلیریشن پیش کیا اور اسی سال انہوں نے پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز بھی کردیا۔ اپنی محنت، کوشش اور جدوجہد سے انہوں نے تحریکِ پاکستان کو سفارتی محاذوں پر اس قدر اُجاگر کیا کہ خود برطانوی پارلیمنٹ کی جوائنٹ پارلیمینٹری سلیکٹ کمیٹی نے اگست 1933ء میں چودھری رحمت علیؒ کے مطالبہ پاکستان کا نوٹس لیتے ہوئے ہندوستانی وفد کے مسلم اراکین سے باقاعدہ سوالات کیے اور خود مسلم لیگی زعماء (ظفر اللہ خان، عبداللّہ یوسف علی اور خلیفہ شجاع الدین وغیرہ) نے جواباً تحریک پاکستان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ یہ ریکارڈ بھی برطانوی پارلیمنٹ میں موجود ہے اور اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ تحریک پاکستان 1940ء سے پہلے ہی بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنا چکی تھی۔

مشہور ترک ادیبہ خالدہ خانم کی مشہور کتاب Inside India  پیرس میں 1937ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا ایک پورا باب چوہدری رحمت علیؒ کے متعلق ہے۔ لکھا ہے: ’’پاکستان نیشنل موومنٹ کا منصوبہ فرقہ واریت سے الگ بات ہے۔ تحریک کے مطابق ہندوستان موجودہ حالت میں ایک ملک نہیں بلکہ برصغیر ہے جو دو ملکوں ہندوستان اور پاکستان پر مشتمل ہے۔

تحریک کا بانی چوہدری رحمت علی کو قرار دیا جاتا ہے، وہ قابل ترین قانون داں ہیں لیکن وکالت ترک کرکے انھوں نے پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت ان کی زندگی کا غالب مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل ہے۔ میں نے ملاقات کے دوران یہ محسوس کیا ہے کہ یہ تلخی جو ان کے دل میں ہے ہندوؤں کی متعصبانہ اور اسلام دشمن ذہنیت سے جوانی میں پیدا ہوگئی تھی ہرگز ان کے نظریہ پاکستان پر اثر انداز نہیں ہوئی اور وہ اس تحریک کی بنیاد ہندو عداوت پر نہیں رکھتے۔‘‘

مشہورانڈین مورخ ڈاکٹر راجندرپرشاد نے اپنی کتاب India Divided  انہیں دنوں میں لکھی جب ہندوستان تقسیم ہورہا تھا۔ اپنی اس کتاب میں وہ رقم طراز ہیں:’’جہاں تک مجھے علم ہے چوہدری رحمت علی پاکستان نیشنل موومنٹ کے بانی صدر ہیں۔ وہ واحد شخص ہیں جو ہندوستان کی وحدت کو تسلیم کیے جانے کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے مسلمانوں کو ظلم و بربریت میں مبتلا کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔‘‘

 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی اور اس کے بعد کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جس سے ایک طرف مسلمانوں میں متحدہ وفاق (انڈین فیڈریشن) سے مایوسی پیدا ہوئی اور دوسری طرف چوہدری رحمت علیؒ کی پاکستان اسکیم جو مسلمانوں کے دلوں میں پہلے ہی جگہ بناچکی تھی، کانگریسی وزارتوں کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں کے متعصبانہ رویے کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے مستقبل کی واحد امید بن گئی۔ تیسری طرف مسلم لیگ کے پاس بھی انتخابات میں کام یابی کے لیے مسلمانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل کرلینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ نواب سر محمد یامین خان جو قائداعظم کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ کے سنیئر راہ نما تھے وہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر مسلم لیگ کے ایک اہم فیصلہ کی گواہی خود اپنی کتاب نامۂ اعمال میں پیش کر تے ہیں:

’’یکم مارچ 1939ء کو ڈاکٹر ضیاء الدین نے مجھے، مسٹر جناح، مسٹر ظفراللّہ خان، سید محمد حسین کو الہ آباد بلایا۔ دوپہر کے کھانے پر سید محمد حسین نے چیخ چیخ کر، جیسے ان کی عادت ہے، کہنا شروع کردیا کہ چوہدری رحمت علی کی اسکیم ہے کہ پنجاب، کشمیر، صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان کو ملا کر بقیہ ہندوستان سے علیحدہ کردیے جائیں۔

ان سے پاکستان اس طرح بنتا ہے کہ پ سے پنجاب، الف سے افغانیہ یعنی صوبہ سرحد، ک سے کشمیر، س سے سندھ اور تان بلوچستان کا اخیر ہے۔ چوںکہ سید محمد حسین زور زور سے بول رہے تھے اس لیے مسٹرظفر اللّہ خان نے آہستہ سے مجھ سے کہا کہ اس شخص کا حلق بڑا ہے مگر دماغ چھوٹا ہے۔ مسٹر ظفر اللّہ خان ان کی مخالفت کر رہے تھے کہ یہ ناقابل عمل ہے، مسٹر جناح دونوں کے دلائل غور سے سنتے رہے اور پھر مجھ سے بولے کہ کیوں نہ ہم اس کو اپنالیں اور اس کو مسلم لیگ کا نعرہ بنالیں۔ ابھی تک ہماری عوام میں کوئی خاص مقبولیت نہیں ہے۔ اگر ہم اس کو اٹھائیں تو ہماری کانگریس سے مصالحت ہو سکے گی ورنہ وہ نہیں مانیں گے۔‘‘

اس اہم میٹنگ نے مسلم لیگ کے آئندہ سالانہ اجلاس مارچ 1940ء کے خدوخال پہلے سے طے کردیے تھے۔ چناںچہ 23 مارچ 1940 ء کو قراردادلاہور پاس ہوئی، اگر چہ اس مبہم قرارداد میں پاکستان کا لفظ بھی شامل نہیں تھا لیکن اس کے باوجود میڈیا میں قرارداد پاکستان کے نام سے شہرت پاگئی، 1944ء تک پاکستان کا مطلب کیا: لاالٰہ الا اللہ کا نعرہ مسلمانانِ ہند کا مقبول نعرہ بن گیا۔ اس طرح 1946ء میں مسلم لیگ انتخابات میں کام یابی حاصل کرکے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بن گئی اور قائداعظم کی قیادت میں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔

چوںکہ چوہدری رحمت علی کا تعلق مسلم لیگ سے نہ تھا اور مسلم لیگ 1933ء میں برطانوی پارلیمانی سلیکٹ کمیٹی کے سامنے تحریکِ پاکستان سے لاتعلقی کا اعلان کرچکی تھی اور 1940ء میں سیاسی بنیادوں پر اس کو اپنایا تھا اس لیے پاکستان بننے کے بعد جو تاریخ مرتب کی گئی اس میں تحریک پاکستان کا آغاز 1940ء سے بتایا گیا۔

یہ بہت بڑی غلطی تھی جس کی وجہ سے تحریک پاکستان کا وہ سارا تاریخی پس منظر اوجھل ہوگیا جس میں پاکستان ڈکلیریشن پیش ہوا تھا اور گول میز کانفرنسز کے متحدہ وفاق اور انڈین فیڈریشن کے ایجنڈے کے مقابلے میں مطالبۂ پاکستان کی توانا آوازNow or Never کی صورت میں اُبھری تھی، جس میں متحدہ وفاق کی قبولیت کو death-warrant of Islam and of Muslims  قرار دیا گیا تھا اور برطانوی پارلیمانی سلیکٹ کمیٹی میں مطالبہ پاکستان پر سوال جواب ہوئے تھے۔ جب یہ سارا تاریخی پس منظر جس میں تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا اور جو نظریہ پاکستان کی حقیقی ترجمانی کرتا تھا جان بوجھ کر تاریخ کے صفحات سے اوجھل کردیا گیا تو باقی جو تاریخِ پاکستان بچی وہ نظریہ پاکستان کا دفاع کرنے میں ناکام ناکافی رہی اور اس ادھوری تاریخ کو متنازع بنانے کے لیے سیکولرز کے 11 اگست جیسے حربے بھی موثر ہوگئے۔

یہاں تک کہ بعض مسلم لیگی پس منظر رکھنے والی شخصیات بھی یہ کہتی نظر آئیں کہ پاکستان تو ہندوؤں نے بنایا تھا کیوںکہ مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان قبول کرلیا تھا اور وہ ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتی تھی جب کہ ہندوؤں نے اس کو قبول نہ کیا۔ بجائے اس کے اگر تاریخِ تحریکِ پاکستان کو اس کے اصل اور حقیقی ابواب پر قائم رہنے دیا جاتا تو آج سیکولر ذہن کو کسی بھی صورت نظریۂ پاکستان کی عمارت میں نقب لگانے کا موقع ہی نہ ملتا اور نہ ہی 11 اگست کا حربہ موثر ثابت ہو سکتا۔

تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ آج جب تاریخ کا کوئی طالب علم کھوج لگاتا ہے تو وہ خود کنفیوز ہوجاتا ہے کہ جو تاریخ ہمیں پڑھائی جارہی ہے وہ تو علم تاریخ کے اصولوں پر پورا ہی نہیں اُترتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج کا نوجوان جہاں قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے کنفیوز ہے وہاں سیکولر اور اسلام مخالف قوتوں کے ہاتھ بھی یہ موقع آگیا ہے کہ وہ جس قدر چاہیں تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کو متنازع اور مشکوک بنائیں۔ دوسری طرف نظریہ پاکستان کے ماننے والے سیکولر یلغار کا قابل قبول جواب دینے میں ناکام ہیں کیوںکہ جواب دینے کے لیے ان کے پاس بھی اب صرف اشرافیہ کی مسخ شدہ تاریخ ہے اور اس مسخ شدہ ادھوری تاریخ کے ذریعے ایسا معقول جواب دیا ہی نہیں جا سکتا جو تاریخ کا علم رکھنے والے طبقات تسلیم کرلیں۔

لہٰذا جب تک تاریخِ تحریکِ پاکستان کو اس کے اصل اور حقیقی ابواب پر دوبارہ استوار نہ کیا جائے گا تب تک سیکولر یلغار نظریہ پاکستان کو مشکوک بنانے کا باعث بنتی رہے گی اور نظریہ پاکستان کے مشکوک بننے کا مطلب ہے کہ پاکستانی قوم نسلی، لسانی، علاقائی بنیادوں پر تقسیم ہوتی جائے گی جو کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے شدید خطرے کی علامت ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر اشرافیہ کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں آئے گا۔

لہٰذا بہتر یہی ہے کہ نظریۂ پاکستان کا حامی طبقہ اپنی تحریروتقریر میں تاریخِ تحریکِ پاکستان کے اصل اور حقیقی ابواب کو ہی پیش کرے تاکہ نظریہ پاکستان کو استحکام اور غیرمتزلزل طاقت مل سکے اور نظریہ پاکستان کا استحکام جہاں سیکولر یلغار کا موثر جواب ہوگا وہاں ہماری نسلوں کو بھی غیرمتزلزل عزم اور استقامت دے گا، پاکستانی قوم دوبارہ مضبوط نظریہ کی حامل قوم بن پائے گی جو ہر قسم کے بیرونی اور اندرونی فکری انتشار اور فتنوں کا مقابلہ کرسکے گی۔ ان شاء اللّہ!

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تحریک پاکستان کا باقاعدہ ا غاز نظریہ پاکستان کی نظریہ پاکستان کے چوہدری رحمت علی تاریخی پس منظر علم تاریخ کے پاکستان کے ا مسلمانوں کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے اشرافیہ کے پاکستان کو متحدہ وفاق مسلم ریاست کہ پاکستان پاکستان پر کو قبول کر اور حقیقی ہے اور اس جو نظریہ جو تاریخ کے دوران اور مسلم اہم ترین کی بنیاد ا کیوںکہ دیتے ہیں گئی تھی ہ تاریخ ہندوو ں کرنے کے تھا اور پیش کیا ہے کہ پ کے لیے گی اور اور ان کے بعد

پڑھیں:

پی ٹی آئی،جے یوآئی میں پھرقربتیں،مولانافضل الرحمان سے کل اسدقیصرکی سربراہی میں وفدملے گا

اسلام آباد: پی ٹی آئی  کا وفد اسد قیصر کی سربراہی میں کل سربراہ جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) مولانا فضل الرحمان سے ملے گا۔
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے پارٹی رہنماؤں کو اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بنانے کی ہدایت کی گئی تھی جس کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں کی مولانا فضل الرحمٰن سے کل ملاقات طے پاگئی ہے اور اسد قیصر کی سربراہی میں وفد ملاقات کرے گا۔
پی ٹی آئی کے وفد میں عمر ایوب اور صاحبزدہ حامد رضا سمیت دیگر رہنما شامل ہوں گے۔
وفد کی ملاقات سے قبل پی ٹی آئی رہنما حسین یوسفزئی نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کر کے بانی پی ٹی آئی کا پیغام بھی پہنچایا ہے۔
ملاقات کے دوران سیاسی و پارلیمانی امور اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کےایجنڈے پر بات ہوگی جبکہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے مشترکہ نکات کو آگے بڑھانے پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
اس حوالے سے صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شمولیت کی دعوت دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی،جے یوآئی میں پھرقربتیں،مولانافضل الرحمان سے کل اسدقیصرکی سربراہی میں وفدملے گا
  • تحریک انصاف کا 8 فروری کو صوابی میں احتجاج کا اعلان
  • قنبرعلی خان،پاکستان مسلم لیگ ن سندھ کے صدر بشیرمیمن عوامی جلسے سے خطاب کررہے ہیں
  • پاکستان مرکزی مسلم لیگ کا حقوق سندھ مارچ بدین پہنچ گیا
  • مختلف نظریات اور ان کا مفہوم
  • چوہدری سالک حسین یوتھ کے لیے خاص وژن رکھتے ہیں۔ خواجہ رمیض حسن
  • موجودہ حکومت کارکردگی میں پی ٹی آئی سے بھی بری ہے: شاہد خاقان عباسی
  • مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کا تجربہ مایوس کن ہے.گورنرپنجاب
  • موجودہ حکومت کی کارکردگی تحریک انصاف سے بھی بری ہے: شاہد خاقان عباسی