Express News:
2025-01-27@17:11:35 GMT

لوگ ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت کی بنا پر نقصان اُٹھاتے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

 محمد شہباز صدیقی، پاکستان میں Riches to Rags کی عملی مثال ہیں۔ بہت معمولی شروعات کے باوجود ، صبر، محنت ، سیکھنے کی لگن کے ساتھ ایک کامیاب کاروباری فرد بنے ہیں۔

ای کامرس کے ایک پلیٹ فارم کے سی ای او ہیں۔ آن لائن کمائی کے لیے درکار مختلف مہارتوں کی تربیت اور بزنس ٹو بزنس مشاورت بھی دیتے ہیں۔ چین کے ای کامرس کے ایک بڑے گروپ علی بابا کے پاکستان میں کاروباری شراکت دار ہیں۔

سوال: زندگی کی شروعات کیسے ہوئی۔

جواب۔ شروعات تو بہت ہی معمولی تھیں۔ میں کوئی زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ نہ ہی میرے والد صاحب یا بھائی پڑھے لکھے تھے۔ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ روزگار کی وجہ سے سیالکوٹ کے قصبے سمبڑیا ل شفٹ ہوئے۔ دو سال میرا ا سکول بھی متاثر ہوا۔ سرکاری اسکول میں ٹا ٹ پر بیٹھ کر پڑھا ہے۔

اچھے نمبروں سے میٹرک کرنے کے بعد صرف ایک کمپیوٹر کورس کیا۔ ان دنوں پاکستان میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی نئی نئی آ رہی تھی۔ تو میں نے بھی 6 ماہ کا ایک کورس کر لیا۔ کچھ ویب ڈیزائننگ کا سیکھا ، کچھ ویب سائٹ بنانے اور ویب ڈیویلپمینٹ کا سیکھا۔ اس زمانے میں تو بہت ابتدائی نوعیت کا کام ہوا کرتا تھا۔ ساتھ ساتھ اپنی پڑھا ئی کو بھی جاری رکھا اور ایک چھوٹی سی جاب گرافک ڈیزائننگ کی کر لی۔ مجھے اس سے 1800 روپے تنخواہ ملتی تھی۔

میرے اندر لگن تھی کہ میں نے سیکھنا ہے۔ اس جاب کا مقصد تھا کہ میں کچھ سیکھ لوں۔ میں نے جو چھ ماہ کا کورس کیا تھا اب اس کو استعمال کروں گا اور کچھ نیا بھی سیکھ لوں گا۔ اپنی سکل کو بہترکرلوں گا۔ اس دور میں کال لینڈ لائن پر ہوا کرتی تھی ا ور وائرلیس سیٹس کی شروعات تھی۔

انٹر نیٹ کا آغاز ہو رہا تھا۔ تو مجھے شوق تھا کہ میں اس کو سیکھوں۔ ان دنوں کمپنی کا ایک مینیجر جاب چھوڑ کر چلا گیا۔ وہ مارکیٹنگ اور سیلز کی جاب تھی۔ یہ کمپنی انٹرنیٹ کی سروسز بھی فراہم کیاکرتی تھی۔ صرف کاروباری لوگ یا کچھ طلباء اس کا استعمال کرتے تھے۔ میں نے اس کی مارکیٹنگ شروع کی۔ کمپنی نے مجھے کہا کہ آپ تین ماہ کے لیے مارکیٹنگ میں آ جائیں۔ محض سیکھنے کے لیے یہ کام بھی کیا۔ یہ کام بڑا سخت تھا۔ ایک دن میں موٹر سائیکل پر تقریباً ڈھائی ، تین سو کلومیٹر کا سفر طے کیا کرتا تھا۔

اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میری مارکیٹنگ سکل بہتر ہو گئی۔ ایک ماہ بعد میں نے کمپنی سے کہا کہ میں یہ کام نہیں کروں گا کیونکہ اس میں کوئی دلچسپی یا کشش نہیں ہے۔

مجھ سے پوچھا گیا کہ فروخت کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ کچھ پروموشنل میٹریل دیں۔ لوگوں کو پروموشنز دیں جو انہیں اپنی جانب مائل کرے۔ میری تجویز پر عمل سے ان کی سیل پانچ ، چھ لاکھ سے بڑھ کر بیس ، پچیس لاکھ تک پہنچ گئی۔ تو اب کمپنی مجھے اسی جاب پر رکھنا چاہتی تھی کیونکہ ان کو نظر آرہا تھا کہ ان کی سیل بڑھ گئی ہے۔ اس طرح میرے تین سال گزر گئے۔ پھر میں نے دیکھا کہ پی ٹی سی ایل نے بھی اپنا نیٹ لانچ کردیا ہے۔ میں نے محسوس کر لیا کہ اب یہ کام نہیں چلے گا۔کیونکہ جب حکومت اس کام میں آئے گی تو یہ سہولت مزید سستی ہو گی۔ بڑی مشکل سے میں اپنی اصل نوکری پر واپس آیا۔ تو میری مارکیٹنگ کی مہارت دیکھ کر انہوں نے مجھے آئی ٹی کی مارکیٹنگ پر رکھ لیا۔

سوال: کیا آپ کی جاب میں تبدیلی آپ کے لیے مفید ثابت ہوئی؟

جواب: میں یہ سمجھتا ہوں کہ شروع میں مجھے بہت سخت لگی۔ سردی ، گرمی میں مجھے بائیک پر سفر کرنا تھا۔ میں نے وہ جاب اس لیے کر لی تھی کہ مجھے سیکھنے کا موقع ملے گا۔ میرے لیے کچھ نیا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالی بندے کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایکسپلورکرے۔ تو میرے لیے بھی وہ ایسا ہی موقع تھا۔

سوال: عموماً زیادہ پڑھے لکھے لوگ نئی نئی ٹیکنالوجی کو سیکھتے ہیں۔ مگر آپ کی رسمی تعلیم اتنی زیادہ نہیں تھی مگر پھر بھی آپ چیزوں کو سیکھنے میں اپنے ذہن کا استعمال کرتے تھے۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟

جواب: میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر بندہ ہی سوچتا ہے ، لیکن اس پر فوکس نہیں کرتا۔ لوگ فوکسڈ نہیں رہتے۔ لیکن مثبت سوچ بہت ضروری ہے۔ ایمانداری بہت ضروری ہے۔ مثلاً جب میں اس کمپنی میں تھا تو میں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ میرا کام ہے یا نہیں۔ میں سوچتا تھا کہ یہ بہتر کیسے ہو سکتا ہے۔ تو چیزوں کو بہتر کرنے کے لیے بندہ مارکیٹ کا تجزیہ یا تقابل کر سکتا ہے۔ کچھ لوگ کیا کرتے ہیں کہ وہ صرف جاب کرتے ہیں۔

وہ سوچتے ہیں کہ میں آٹھ گھنٹے کام کرتا ہوں اور مجھے اس کے پیسے مل جاتے ہیں وہ کافی ہے۔ وہ اس سے زیادہ کا نہیں سوچتے۔ میں ایسا نہیں سوچتا تھا ، میں سوچتا تھا کہ یہ میری کمپنی ہے۔ میں اس کے لیے کام کرتا ہوں ، اگر میری کمپنی ترقی کرے گی تو میں ترقی کروں گا۔ تو میں سوچتا تھا کہ اس کی بہتری کے لیے کام کروں۔

سوال: آپ کو اپنی ای کامرس کمپنی بنانے کا خیال کیسے آیا؟

جواب: جب میرا بزنس بند ہوا تب مجھے اس کا خیال آیا۔ ان دنوں حالات ایسے ہو گئے تھے کہ میرے پاس پیسے بالکل نہیں تھے۔ بلکہ کافی مقروض تھا۔ فیکٹری بند ہو گئی تھی، جاب میں نے چھوڑ دی تھی۔ حالات اچھے نہیں تھے۔

ان دنوں میں اپنے ایک دوست کے پاس گیا اور ان سے ایسے ہی بات چیت ہوئی کہ میں کیا کروں ، کام بن نہیں رہا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ کام وہ کرنا چاہیے جو بندے کو آتا ہو، ان کی بات مجھے اچھی لگی۔ میں نے سوچا کہ میری فیلڈ آئی ٹی کی ہے ، میں نے اس میں چودہ سال لگائے ہیں۔ میں نے اس کوچھوڑ دیا ہے۔ تو پھر میں نے اس دوران اس ای کامرس کی کمپنی بنائی۔ ایک بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ بزنس ہمیشہ بڑے دل اور بڑی سوچ کے ساتھ ہوتا ہے۔

سوال: آپ جاب کے ساتھ ساتھ اپنا کاروباربھی کرتے تھے۔ اور دو ہزار چھ میں ہی ای کامرس کی طرف آ گئے تھے اس کی طرف کیسے مائل ہوئے اور کونسا کاروبار کیا؟

جواب: جی بالکل ، میں نے جاب کے ساتھ ہی اپنا ایکسپورٹ کا کام شروع کر لیا تھا۔ آفس ورک کا میرا تجربہ تھا اور پھر میرا مارکیٹنگ کا بھی تجربہ تھا۔ تو میں نے سوچا کہ اس کو استعمال کیا جائے۔ لیکن میں اپنی کمپنی والا کام نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ پھر اس کے اور میرے کلائنٹس ایک جیسے ہوتے۔ تو میں نے سوچا کہ مختلف کام کروں۔ تو پھر میں ایکسپورٹ کی طرف آیا۔ کیونکہ سیالکوٹ ایک ایسی جگہ ہے جہاں بندہ کام کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

اس کے پاس مواقع ہیں۔اس وقت میرے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔ تو میں نے کیا کیا ، میں نے دو ہزار پانچ چھ میں ای کامرس آن لائن بزنس شروع کیا۔ اس وقت گوگل نیا نیا آیا تھا۔ پھر فیس بک آیا، اس پر اکاؤنٹ بنایا، فیس بک پر کام شروع کیا۔ اس وقت یہ پہلی ویب سائٹ تھی جہاں آپ لوگوں سے کوئی کنکشن وغیرہ بنا سکتے تھے۔ یا گوگل پر تھوڑا بہت سرچ کر کے۔ اس سے میں نے بزنس شروع کیا۔ پہلے ایک سال مجھے کوئی کسٹمرنہ ملا۔ لیکن ڈیڑھ سال کے بعد مجھے فیس بک سے ا یک کسٹمر مل گیا۔ میں نے اس سے کاروبار شروع کیا۔ پھر کاروبار بڑھتا چلا گیا۔

میں نے کوئی دو ، ڈھائی سال میں ایک فیکٹری لگا لی۔ لیدر کی ایک پروڈکٹ شروع کی۔ اس پروڈکٹ کا مجھے کوئی آئیڈیا نہیں تھا۔ مجھے اس کا بہت نقصان ہوا۔ میری تو فیلڈ آئی ٹی کی تھی۔ ایک وقت آیا کہ میری فیکٹری بند ہو گئی۔ پھر اس کو دوبارہ بنانے میں مجھے دو سال لگ گئے۔ کیونکہ میرا ایک ہی کسٹمر تھا۔ اور وہ مجھ سے ہی پروڈکٹ لیتا تھا۔ پھر میں نے اپنے آپ کو دوبارہ اس کام میں لگایا۔ میں جاب بھی کر رہا تھا اور یہ کام بھی۔ الحمدللہ میرا پھر کاروبار چل پڑا۔

سوال: کسی ادارے کی ملازمت اور ساتھ میں اپنا کاروبار بھی جاری رکھا۔ ان دونوں میں توازن کیسے قائم رکھا؟

جواب: یہ مشکل کام تھا۔ میری جاب صبح نو سے شام چھ بجے تک ہوتی تھی۔ شروع میں جاب سے واپس آنے کے بعد میں انٹرنیٹ پر رات ایک بجے تک یہی کام کرتا تھا۔ پھر جب میری کمپنی کی پروڈکٹ کی سیل کم ہوئی تو میں نے سوچا کہ کیا وجہ ہے۔ تو معلوم ہواکہ کوالٹی کنٹرول والا بندہ اپنی ڈیوٹی صحیح نہیں کر رہا۔ پھر میں نے خود وہ کام کرنا شروع کر دیا۔ اور میں صبح چار بجے تک کام کیا کرتا تھا۔ سوال: آپ کی ایک بڑے چینی کاروباری گروپ کے ساتھ شراکت داری کیسے ہوئی؟

جواب: یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ میرے ایک کسٹمر تھے۔ان کا اکاؤنٹ نہیں تھا۔ جب میں نے کام شروع کیا تھا۔اس وقت علی بابا کو کوئی جانتا ہی نہیں تھا۔ تو چین اور پاکستان کے درمیان مسئلہ یہ تھا کہ وہ چائینیز بولتے ہیں۔ ہمارے اور ان کے درمیان کمیونیکیشن کا بڑا مسئلہ تھا۔ اب بہتر ہو گیا۔ میرے ایک کسٹمر تھے ، انہوں نے مجھے کہا کہ میرا اکاؤنٹ سٹڈی کردو۔ میں نے دیکھا ، اس کابزنس شروع ہو گیا۔ اس کو فائدہ ہوا۔ اس وقت مجھے آئیڈیا ملا کہ یہ بزنس بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے علی بابا کو ای میل کی کہ میں آپ کو اچھی سروس دے سکتا ہوں۔ اس طرح میرا کام بھی شروع ہو گیا۔ علی بابا والا کام بھی چل پڑا اور آئی ٹی والا بھی۔

سوال: آپ کے پلیٹ فارم پر کس طرح کی سروسز مہیا کی جاتی ہیں۔

جواب: ہم دوطرح کی خدمات دیتے ہیں۔ ایک تو ہم نوجوانوں کو تربیت دیتے ہیں۔ ای کامرس، گرافک ڈیزائننگ، ویب ڈیویلپمینٹ اور ایس ای او کی۔ دوسرا ہم کاورباری لوگوں کو بھی کاروبار کے پھیلاؤ کے حوالے سے خدمات فراہم کرتے ہیں۔ بزنس ٹو بزنس کی تربیت تو میں نے بہت پہلے شروع کر دی تھی۔ 'لوگوں کو اچھی جگہ بلانا، انہیں کھانا کھلانا، اور انہیں سکھانا لیکن لوگ پھر بھی نہیں آتے تھے۔ بڑی محنت سے چالیس، پچاس لوگوں کو اکٹھا کرنا، انہیں کھانا کھلانا، اس پر لاکھوں روپے لگ جاتے تھے۔ لوگوں کو بتانا کہ آپ اپنا بزنس کیسے ای کامرس پر کر سکتے ہیں۔

دو سال کے بعد اس میں کامیابی ملنی شروع ہوئی۔ جب لوگوں کو ای کامرس میں کامیابی ہوئی، پھر میں ٹیکنالوجی کی تربیت کی طرف آیا۔ کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ لوگ ٹیکنالوجی سے واقفیت نہ ہونے کی بنا پر نقصان اٹھا تے ہیں۔ ہر نوجوان راتوں رات امیر ہونا چاہتا ہے جو ممکن نہیں۔ پہلے آپ ٹیکنالوجی سیکھتے ہیں، سیکھنے کے بعد پریکٹس کرتے ہیں، پھر آپ کوئی پروڈکٹ بنانے کے قابل ہوتے ہیں۔ ہم تقریبا ً د س ہزار لوگوں کو تربیت دے چکے ہیں۔ اور بزنس کی بات کروں تو میں نے سیالکو ٹ میں پچاس ، ساٹھ ہزار لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔ ان کے ساتھ خاندان بھی جڑے ہوئے ہیں۔

سوال: آپ کے پلیٹ فارم اور علی بابا کے پلیٹ فارم پر ایک فرد کس طرح اور کتنے اکاؤنٹ بنا سکتا ہے؟

جواب: علی با با کے پلیٹ فارم پر دو طرح کے بزنس ہو رہے ہیں۔ ایک ہے بی ٹو سی (B2C) جیسے ای بے، ایمازون، وال مارٹ، دراز وغیرہ۔ یہ تمام بزنس کسٹمر یا صارف ماڈ ل ہے۔ یعنی کاروبار ی فرد براہ راست صارف کو یا گاہک کو فروخت کر رہا ہے۔ ان پر آپ ایک سنگل پروڈکٹ ہی فروخت کر سکتے ہیں۔ عام فہم الفا ظ میں سمجھ لیں کہ ایک کریانہ کی دکان ہے ،لوگ آتے ہیں اور اپنی پسند اورضرروت کی چیز لے جاتے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر لو گ گھر بیٹھ کر شاپنگ کر رہے ہیں۔ علی بابا ، ان سے مختلف پلیٹ فارم ہے۔ وہ بی ٹو بی(B2B) یعنی بزنس ٹو بزنس ہے۔

وہاں لوگ بلک (Bulk) میں ہی خریدتے ہیں اور Bulk میں ہی فروخت کر تے ہیں۔ وہ کیسے ہے۔ وہ جو شاپ کیپرز ہیں، بین الاقوامی کمپنیز ہیں، ای بے ، ایمازون، وال مارٹ پر فروخت کرتے ہیں، یا جیسے بین الاقوامی برینڈز ہیں مثلاً ایڈی ڈاس، پوما، نائیکے ہے، وہ سارے سارے کیا کرتے ہیں، وہ آن لائن، کسی فیکٹری ، یا مینو فیکچرر سے وہ پروڈکٹ لیتے ہیں، بنواتے ہیں، اپنے نام کے ساتھ ، اپنے برینڈ کے ساتھ فروخت کرتے ہیں۔ یہ بی ٹو بی بزنس ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو اس وقت دنیا میں سب سے بڑا بی ٹو بی پلیٹ فارم علی بابا ہے۔ ایمازون بی ٹو سی میں سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے، علی بابا پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ تین سو ملین سے زیادہ رجسٹرڈ خریدار ہیں۔ یہاں پر سنگل پروڈکٹ فروخت نہیں ہونی ہے۔ آپ کو بڑے خریدار ملیں گے۔

اس کاخیال مجھے ایسے آیا کہ جب میں نے یہ دیکھا کہ اس سے بڑے خریدار ملتے ہیں۔ میں نے اس کو سٹڈی کیا۔ مجھے فائدہ ہوا ، میں نے سوچاکہ لوگوں کو بھی اس سے فائدہ ہونا چاہیے۔ اس کو لوگوں کو پتہ نہیں اس کو کیسے استعمال کرنا ہے، اگر ہم علی بابا کے پلیٹ فارم پر کوئی پروڈکٹ لگاتے ہیں تو تقریباً دو سو ملکوں میں لوگ اس کودیکھتے اور سرچ کرتے ہیں۔ آپ کو کہیں جانا نہیں پڑتا، آپ گھر بیٹھے اپنی پروڈکٹ کو لانچ کر دیتے ہیں، پوری دنیا آپ کی پروڈکٹ کو دیکھ رہی ہوتی ہے، وہ ایک Click کرتی ہے، اور آپ سے اس کی پرائس لیتی ہے۔

آپ سے بات چیت کرتی ہے اور آپ کا کاروبار شروع ہو جاتا ہے، اور پروڈکٹ بھی سنگل نہیں ہے، Bulk میں ہے، یعنی ایک آرڈر مل جائے تو بندہ لاکھوں کما سکتا ہے۔ کروڑوں کما سکتا ہے ، یہ اس کا اصل فائدہ ہے۔ بی ٹو سی میں وقت زیادہ لگتا ہے، اس کا مطلب ہے آپ ایک دکان بناتے ہیں، کسی دن کوئی ایک پروڈکٹ بک گئی، کسی دن دو بک گئیں، کسی روز کچھ بھی نہ بکا، مگر یہ ہے کہ آپ کی شاپ بنی رہتی ہے۔ آپ کے اخراجات ویسے ہی رہتے ہیں، تو اس بی ٹو سی بزنس میں بڑھوتری کے لیے آپ کو وقت زیادہ لگتا ہے۔ جب کہ بی ٹو بی میں ہمارے پاس چونکہ آرڈر بڑا ہوتا ہے اس لیے ہمیں زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

سوال: اگر کوئی علی بابا کے پلیٹ فارم پر بزنس کرنا چاہتا ہے تو اس کا کیا طریقہ کار ہے؟

جواب: علی بابا پر اگر کوئی جائے گا تواس کااکاؤنٹ تو بن جائے گا۔ مگر وہ محض ایک بنیادی اکاؤنٹ ہو گا۔ آپ اس میں کچھ نہیں کر سکتے ۔ صرف اپنے آپ کو رجسٹر کرتے ہیں۔ اس میں آپ کوئی ایکٹوٹی نہیں کر سکتے ، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔دوسرا یہ ہے کہ آپ اگر وہاں اکاؤنٹ بناتے ہیں، تو اس کافائدہ کیسے اٹھا نا ہے، کیسے استعمال کرنا ہے ، اس کی فیس کیسے دینی ہے، اس کے لیے دستاویزات کو کیسے پورا کرنا ہے، رجسٹریشن ہوتی کیسے ہے، فری رجسٹریشن تو ہو گئی مگر گولڈ ممبر شپ ہے یا ویریفائیڈ ممبر شپ ہے ،اس کے لیے دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان دستاویزات کا یا اس رجسٹریشن کا عام آدمی کو علم نہیں۔ ویسے بھی "علی بابا " ایسے کرتا بھی نہیں ہے۔ جو بھی "علی بابا" کو معلومات درکار ہوتی ہیں، وہ ہم سے رابطہ کرتا ہے، ہم اس کو مقامی زبان میں گائیڈ بھی کریں گے، اس طرح ایک سسٹم بنتا ہے، وہ خود نہیں کرتا، ہمیں ریفر کرتا ہے۔ اس کا بہترین طریقہ ہے کہ لوگ ہم سے رابطہ کریں۔ اکاؤنٹ بنانا کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ بن جاتا ہے،اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو پیسے انویسٹ کیے ہیں ان کا ریٹرن کیسے لینا ہے۔ تو اس کے لیے آپ کو ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ ٹریننگ کے کوئی چارجز نہیں لئے جاتے۔

سوال: اگر "علی بابا" کے پلیٹ فارم پر دو افراد کوئی کاروباری ڈیل کرتے ہیں تو اس میں پیسوں کی ادائیگی کا کیا طریقہ کار ہے؟

جواب : پیسوں کی ادائیگی کے معاملے میں 'علی بابا' پاکستان میں شریک نہیں ہوتا۔ چین میں ہوتا ہے۔ اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ کاروباری روایت کے مطابق کوئی بھی آرڈر دینے سے پہلے کچھ نہ کچھ پیشگی رقم کی ادائیگی ہوتی ہے۔ جب " علی بابا" پر آپ دیکھتے ہیں کہ فلاں فرد تصدیق شدہ ممبرہے، گولڈ ممبر ہے، اس کی دستاویزات پوری ہیں۔ اس کی کمپنی حقیقی ہے تو پھر وہ آپ کو ایڈوانس ادائیگی بھی کرتا ہے۔ ہم پوری تربیت دیتے ہیں کہ ادائیگی کیسے کرنی ہے اور کتنی کرنی ہے۔ پروڈکٹ کو کیسے بھیجنا ہے، اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ادائیگی ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات اگر آرڈر بڑا ہو تو تین حصوں میں ادائیگی ہو جاتی ہے۔

سوال: یہ بتائیں کہ آپ کی وجہ سے کتنے کاروباری لوگ اس چینی پلیٹ فارم پر رجسٹر ہوئے ہیں

جواب: زیادہ تر سیالکوٹ کے کاروباری افراد اس پر رجسٹر ہوئے ہیں۔ تقریباً چھ ہزار کمپنیز ہیں جو یہاں آئی ہیں۔ان کے پاس کارخانے ہیں۔ کسی کے پاس 50 مشینیں ہیں، کسی کے پاس 100 یا اس سے زیادہ ہیں۔ اگر ہم ان پلیٹ فارمز پر جائیں گے، تو ڈالر پاکستان میں آئے گا اور پاکستان ترقی کرے گا۔ حالات بدلیں گے ،ویسے نہیں بدلیں گے۔

سوال: اب کتنے لوگ اور اندازاً کتنے ڈالر ز پاکستان کما چکا ہے

جواب: اس کا مکمل اندازہ تو نہیں ہے۔مگر ہرسال پاکستان میں ملین ڈالرز آتے ہیں ۔ مجھے سیالکوٹ میں اس کو بلڈ کرنے میں آٹھ سال لگ گئے ہیں۔ اب ہم لاہور، کراچی، فیصل آباد میں اس کو لے کر جا ر ہے ہیں۔ یہ لوگ بھی ای کامرس میں آئیں کیونکہ مستقبل ای کامرس کا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اب موبائل کے ذریعے خریداری کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ کلچر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ آپ کو ایک حیران کن بات بتاؤں۔ میں چین میں ایک تربیت کے لیے گیا تو انہوں نے پوچھا کہ پاکستان کا کل بجٹ کتنا ہوگا۔ پاکستان کا جتنا سال کا بجٹ ہے ،اتنا چین میں ایک ویب سائٹ ہے اس کی ایک دن کی سیل(Sale) اتنی ہے۔ یعنی ای کامرس اتنی مقبول ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم بہت پیچھے ہیں

سوال: کیاآپ بڑے شہروں کے علاوہ جو چھوٹے یا درمیانے درجے کے شہر ہیں ، وہاں بھی اس تربیت کو فروغ دیں گے

جواب: جی ضرورکریں گے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ کوئی چھ سال قبل میری ایک بندے سے ملاقات ہوئی ،وہ سرکاری جاب کر رہا تھا۔ باتوں باتوں میں پنک سالٹ کا ذکر چل پڑا۔ میں نے اسکو پنک سالٹ کا کاروبار شروع کروایا، اب وہ بندہ امریکہ میں ہے۔ بہت بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔

سوال: نوجوانوں کو کیا پیغام دیں گے

جواب: میں نوجوانوں کو یہ پیغام دنیا چاہوں گا کہ آئی ٹی کی فیلڈ ایسی ہے جس میں ہمارے پڑوسی ملک کی ایکسپورٹ ڈھائی سو بلین سے زیادہ ہے۔ اور پاکستان کی صرف دو بلین ہے۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آئی ٹی کے اندر کتنے مواقع ہیں۔ اسی طرح ای کامرس کے اندر بھی بہت مواقع ہیں۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

پلیز مجھے امیر بنادو! حرا مانی کی رجب بٹ سے اپیل

کراچی(نیوز ڈیسک)پاکستانی ڈراما انڈسٹری کی اداکارہ ، ماڈل اور گلوکارہ حرا مانی نے صف اول میں شمار ہونے والے یوٹیوبر رجب بٹ سے انوکھی درخواست کردی جس کے بعد رجب بٹ نے بھی اداکارہ کیلئے بڑا اعلان کردیا۔یوں تو ڈراما سیریل ’دو بول’ میں ناظرین حرا مانی کی معصومیت پر دل ہار بیٹھے اور پھر ایک یا دو نہیں بلکہ میرے پاس تم ہو اوریقین کا سفرسمیت کئی دیگر پراجیکٹس میں بھی انکی فنی صلاحیتوں سے لطف اندوز ہوتے نظر آئے۔تاہم چند عرصے بعد ہی مداحوں کو حرا مانی کا نیا چہرہ دیکھنے کو ملا جو گلوکاری کی صورت میں تھا کیونکہ حرا مانی کو گلوکاری کا بھی شوق ہے اور وہ ‘کشمیر بیٹس‘ کے ایک سیزن میں اپنے اس فن کا مظاہرہ بھی کرچکی ہیں۔

البتہ عوام کی جانب سے ان کی گلوکاری کو زیادہ پسند نہیں کیا گیا تھا اس کے باوجود حرا مانی کنسرٹس میں مشہور گانے گاتی نظر آتی ہیں۔اداکارہ کا شہرت حاصل کا جنون جب یہاں بھی کم نہ ہوسکا تو انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لے لیا اور وقفے وقفے سے اپنی ایسی تہلکہ خیز تصاویر جاری کیں جس نے نہ صرف انہیں تنقید کا نشانہ بنوایا بلکہ انکا نام بے جا توجہ سمیٹنے والی فنکاروں میں بھی لیا جانے لگا۔

حرا مانی کی رجب بٹ سے اہم درخواست:
حال ہی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ وائرل ہے جس میں اداکارہ حرا مانی اور رجب بٹ کی گفتگو شامل ہے۔مذکورہ کلپ میں حرا مانی میک اپ روم میں موجود ہیں جہاں رجب بٹ معمول کے مطابق اپنی ولاگنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اسی دوران ان دونوں شخصیات کی آپس میں سلام دعا اور خیر خیریت کا تبادلہ ہوتا ہے اور حرا مانی رجب بٹ کی تعریف میں انہیں ایک بڑی شخصیت قرار دیتی ہیں۔لگے ہاتھوں اداکارہ نے یوٹیوبر سے کہہ ڈالا کہ آب اتنی جانی مانی شخصیت ہیں پلیز میری رہنمائی کریں کہ میں بھی اپ اپنا یوٹیوب چینل بنالوں۔ پلیز مجھے امیر کردو۔

حرا مانی کی فرمائش پر رجب بٹ کا بڑا اعلان:
ابھی اداکارہ نے یوٹیوب چینل بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہی تھی کہ رجب بٹ نے اہم اعلان کرڈالا، رجب بٹ نے لائیو اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت میں پاکستان کا ٹاپ یوٹیوبر ہوں، دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ نے یوٹیوب چینل بنالیا تو آپ ایک ڈراما نہیں کریں گی۔رجب بٹ کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ،’جس دن آپ کا چینل بن جائے گا میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو ہاف ملین سبسکرائبرز گفٹ کردوں گا۔’رجب بٹ کے اس اعلان کے بعد حرا مانی خوشی سے سرشار نظر آئیں جبکہ سوشل میڈیا صارفین کمنٹ سیکشن میں متضاد تبصروں کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔

آئی سی سی نے مینز ایمرجنگ کرکٹر آف دی ایئر کا اعلان کر دیا

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ و گرد و نواح میں زلزلے کے جھٹکے
  • پلیز مجھے امیر بنادو! حرا مانی کی رجب بٹ سے اپیل
  • مجھے اپنی خوبصورتی کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا، احمد شہزاد
  • مریکی ایوان نمائندگی کو پاکستان کیخلاف اُکسایا جا رہا، اس حد تک نہ جائیں ملک کا نقصان ہو: وزیر داخلہ
  • ضمیر کی خلش
  • چیمپئینز ٹرافی؛ کیسا اسکواڈ منتخب کیا ہے! ہربھجن بھڑک اُٹھے
  • مجھے تو اب معلوم ہوا
  • دوسرے درویش کا قصہ
  • عمران خان کی مجھ سے ملاقات سے انکار کی خبر جھوٹ ہے، شیر افضل مروت