پشاور میں فائرنگ سے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
پشاور:
معروف عالم دین اور جمیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا قاضی ظہور احمد کو بڈھ بیر احمد خیل میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔
پشاور پولیس کےمطابق بڈھ بیر میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور معروف عالم دین مولانا قاضی ظہور احمد کو نامعلوم افراد نے گولیاں ما کر قتل کیا، مولانا نماز عشا کے بعد درس سے فارغ ہو کرگھر جا رہے تھے کہ انہیں شانہ بنایا گیا۔
پولیس نے بتایا کہ جائے وقوع سے 30 بور پستول کے 2 خول برآمد ہوئے ہیں اور واقعے کا مقدمہ مقتول کے بھائی عطا اللہ کی مدعیت میں درج کر دیا گیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام نے بیان میں کہا کہ مولانا قاضی ظہوراحمد طویل عرصے سے جے یو آئی سے وابستہ تھے، انہوں نےپارٹی کے لیے کافی جدوجہد کی اور پارٹی کے لیے ان کی قابل قدر خدمات ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ واقعے کے حوالے سے ابتدائی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
پشاور پولیس کے سنئیر افسر نے ایکسپریس کو بتایا کہ حتمی طور پر کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ قتل کی اصل وجہ کیا ہے تاہم ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے شواہد اکھٹے کیے جا رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علمائے اسلام
پڑھیں:
پشاور میں فائرنگ سے زخمی ہونے والی مذہبی شخصیت دوران علاج جاں بحق
پشاور کے علاقے پشتخرہ اچینی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے قاری شاہد بھی جاں بحق ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق گزشتہ ہفتے پشتخرہ اچینی میں مولانا اعجاز عابد کو ساتھی سمیت دو ملزمان نے فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں اعجاز عابد جاں بحق اور قاری شاہد شدید زخمی ہوئے تھے۔
قاری شاہد کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زیر علاج رہے اور دوران علاج چل بسے۔
قاری شاہد کی نماز جنازہ سفید ڈھیری جنازہ گاہ نوی کلی میں ادا کی گئی جس میں پشاور بھر سے اہل سنت والجماعت انٹرنیشنل ختم نبوت اور جے یو ائی کے کارکنوں مدارس کے طلبا سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اس موقع پر اہل سنت والجماعت کے رہنماؤں سمیت دیگر مذہبی شخصیات نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر امن لوگ ہیں علماء کے پے درپے جنازے کب تک اٹھاتے رہیں گے، ہم کسی صورت علماء کے خون کو رائیگاں جانے نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی ادارے علماء کے قاتلوں کو گرفتار کریں اور فوری طور پر ان کو کیفر کردار تک پہنچا کر سزائیں دیں تاکہ علماء کہ حلقوں میں پیدا ہونے والی تشویش کی لہر ختم ہو سکے۔