لندن:

بھارت کے 76ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر لندن میں خالصتان کے حامیوں نے ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کیا اور علیحدہ ملک کے قیام کے حق میں نعرے بازی کی۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں بھارت کے ہائی کمیشن نے ہندوستان کے 76 ویں یوم جمہوریہ لندن کے انڈیا ہاؤس میں شان و شوکت اور جوش و خروش کے ساتھ منایا۔

اس تقریب میں معززین، اراکین، اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کے ایک بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

جشن کا آغاز پر بھارت کا پرچم اور ترانہ چلایا گیا اور پھر ہائی کمشنر نے تقریر کی۔ اس دوران ہائی کمیشن کی عمارت کے باہر خالصتان کے حامی جمع ہوئے اور انہوں نے نعرے بازی کی۔

شرکا نے بھارتی حکومت پر سکھ رہنماؤں کے قتل کا الزام عائد کیا اور عالمی برادری سے خالصتان کے قیام میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

اس دوران بھارت کے حامی افراد اور خالصتان کے حامیوں کے درمیان کشیدگی ہوئی تاہم نوبت ایک دوسرے کے خلاف نعروں تک ہی محدود رہی۔

خالصتان کے رہنماؤں نے بھارتی پنجاب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا اور بھارت کی پالیسیوں اور خاص طور پر اقلیتوں کے ساتھ رواں رکھے گئے سلوک پر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خالصتان کے بھارت کے

پڑھیں:

چین کی عوامی مصنوعی ذہانت خواص کو چیلنج کر رہی ہے

چین کی مصنوعی ذہانت میں تیز رفتار ترقی نہ صرف اس کے اندرونی منظرنامے کو بدل رہی ہے، بلکہ عالمی اختراعی نمونوں کو بھی نئے سرے سے متعین کر رہی ہے۔

کھلے تعاون اور اخلاقی حکمرانی کو ترجیح دیتے ہوئے، چین مصنوعی ذہانت کو ایک مشترکہ عالمی وسائل کے طور پر پیش کر رہا ہے اور اس کو صرف ٹیک اشرافیہ کیلئے آلہ کار نہیں بننے دے رہا، یعنی یہ ٹیکنالوجی صرف خواص نہیں بلکہ عوام کیلئے ہے۔

چین کا یہی نقطہ نظر جغرافیائی سیاسی مقابلے کی روایات کو چیلنج کرتا ہے، اور اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعے  دنیا کیلئے ایک ایسا خاکہ پیش کر رہا ہے کہ جس میں  ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کانظام عدم مساوات کو دور کر سکتا ہے۔

عوامی رسائی: واقعی  مصنوعی ذہانت تک  پیدا ہونے والی  رکاوٹوں کو توڑتی ہے

چین کا  مصنوعی ذہانت کے فریم ورک پر زور ترقی پذیر ممالک کے لیے رکاوٹوں کو ختم کر رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت میں Alibaba اور  DeepSeek جیسی کمپنیاں اپنے جدید ترین مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو مفت ڈاؤن لوڈ کے لیے پیش کر رہی ہیں، جو ڈویلپرز کو API فیس ادا کیے بغیر مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز بنانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

پاکستانی قارئین کیلئے اگر صرف  اُردو کے ترجمے کی بات کی جائے تو Deep Seek  چیٹ جی پی ٹی کی نسبت بہتر مترجم ہے اور ساتھ یہ کہ شاعری کو بھی سمجھتی ہے اور استعمال میں بھی بالکل آسان ہے۔

اس کے علاوہ چین کی مصنوعی ذہانت پر مبنی حل ترقی پذیر آبادیوں کو ٹیکنالوجی کی رکاوٹوں کو توڑنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

اس کی ایک مثال Huawei کی TrackAI مہم ہے، جو بچوں میں بینائی کی خرابیوں کی تشخیص کے لیے مصنوعی ذہانت سے چلنے والی آنکھوں کی ٹریکنگ الگورتھم کا استعمال کرتا ہے۔

اخلاقی حکمرانی: عالمی مصنوعی ذہانت کے ضوابط کے لیے ایک درمیانی راستہ

جیسے جیسے مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات پر بحث شدت اختیار کر رہی ہے، تو  اس حوالے سے چین نے 2023 کے جنریٹو مصنوعی ذہانت کی حوالے سے عارضی ضوابط  کا ایک “ڈیٹا ڈی سنسٹائزیشن گریڈنگ سسٹم” متعارف کرایا، جو رازداری کے تحفظ اور اختراعی ترغیبات کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ یہ ضوابط مختلف نقطہ ہائے نظر کے درمیان ایک ممکنہ پل فراہم کرتے ہیں۔

EU کے GDPR – جو سخت ڈیٹا پابندیاں عائد کرتا ہے – یا Silicon Valley کی خود ضابطہ کاری کی ترجیح کے برعکس، چین کا فریم ورک ڈیٹا کی حساسیت کے حوالے سے مختلف سطحوں پر درجہ بندی کرتا ہے۔ جس سے ترقی کو روکے بغیر حسب ضرورت تحفظات کی اجازت ملتی ہے۔

یہ عملی ماڈل جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطی جیسے خطوں میں توجہ حاصل کر چکا ہے، جہاں پالیسی ساز مصنوعی ذہانت کی صنعتوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ غلط استعمال کے بارے میں عوامی خدشات کو دور کرنا چاہتے ہیں۔

قابل توسیع حکمرانی کے فریم ورک کو آزماتے ہوئے، چین عالمی معیارات کو متاثر کر رہا ہے، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ اخلاقی مصنوعی ذہانت تیز رفتار  کے ساتھ بقاء پا سکتی ہے۔

“لانگ ٹیل” کو بااختیار بنانا: چھوٹے کاروباروں اور ترقی پذیر منڈیوں کے لیے مصنوعی ذہانت

چینی مصنوعی ذہانت کے ٹولز چھوٹے پیمانے کی معیشتوں کو نئی زندگی دے رہے ہیں، جنہیں روایتی ٹیکنالوجی اکثر نظر انداز کر دیتی ہے۔

 Alibaba کے AliExpress جیسے کراس بارڈر ای کامرس پلیٹ فارمز اب مصنوعی ذہانت سے چلنے والے مارکیٹنگ ٹولز کو شامل کرتے ہیں، جو لاطینی امریکہ اور جنوبی ایشیا کے چھوٹے کاروباریوں کو قیمتوں کا تعین، ترجمہ اور گاہک کے ساتھ تعامل کو بہتر بنانے کے قابل بناتے ہیں۔

ویڈیو گیم تخلیق کار اب Tencent کے مصنوعی ذہانت کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے متن یا تصاویر سے براہ راست 3D اشیا تیار کر سکتے ہیں، جو آزاد ڈویلپرز کو ان کے خواب کی دنیا کو حقیقت بنانے اور تجارتی کامیابی حاصل کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

چین کا موبائل میں مصنوعی ذہانت  کا بڑھتا استعمال اور فروخت میں اضافہ

چینی میڈیا پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق 2024 میں عالمی سطح پر موبائل فون کی فروخت میں شیاؤمی صرف ایپل اور سام سنگ سے پیچھے تھا۔

جہاں ایپل کا مارکیٹ کا تقریبا 19 فیصد حصہ تھا اور سام سنگ 18 فیصد کے قریب تھا، وہیں شیاؤمی 14 فیصد تک بڑھ گیا۔ ہواوے اور ویوو نے بھی پچھلے سال چین میں اپیل کے مقابلے میں زیادہ فون فروخت کیے۔ اس کی ایک وجہ ان فونز میں مصنوعی ذہانت کو شامل کرنا ہے، چینی کمپنیاں اس طرف بہت زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔

چین تعلیم کے شعبے میں بھی مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بھرپور کام کر رہا ہے

چین  مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سوچ کر بڑھ کر کا م کر رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی تعلیم کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ، چینی یونیورسٹیاں صنعتوں اور کمپنیوں کے ساتھ تعاون پر بھی بہت زور دیتی ہیں۔

مثال کے طور پر، مشرقی چین کے صوبہ جیانگسو کی نانجنگ یونیورسٹی نے بائیڈو اور ہواوے جیسی معروف ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے تاکہ AI پر مبنی تدریس اور تشخیص کو سپورٹ کرنے والے ذیلی ٹولز تیار کیے جا سکیں۔

اسی طرح، چین کے جنوب مغربی صوبہ سیچوان میں واقع چینگڈو کی ساؤتھ ویسٹ جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی نے ایمیزون، جے ڈی ڈاٹ کام اور دیگر کمپنیوں کے ساتھ شراکت کر کے AI کورسز ڈیزائن کیے ہیں تاکہ طلباء کے عملی ہنر کو بڑھایا جا سکے۔

یونیورسٹی نے انڈرگریجویٹ سے ڈاکٹریٹ سطح تک مصنوعی ذہانت کے لیے اعلیٰ ترین صلاحیتوں کی تربیت کا نظام بھی قائم کیا ہے۔

جنوری میں چین کے تعلیمی شعبے کے طویل المدت وژن کو ایک ماسٹر پلان کے اجرا کے ذریعے مزید تقویت ملی، جس میں 2035 تک چین کو تعلیم کے میدان میں ایک اعلیٰ قوم بنانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

چین کے وزیر تعلیم ہوائی جن پینگ نے کہا، “ڈیپ سیک اور روبوٹکس چین کی ٹیکنالوجی کے میدان میں جدت اور صلاحیتوں کی تربیت میں کامیابیوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ یہ ہماری تعلیمی ترقی اور صلاحیتوں کی تربیت پر نئی ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہیں۔”

آن لائن بھرتی کے پلیٹ فارم ژاؤپن کے ایک سروے کے مطابق، فروری میں ڈرون انجینئرز، الگورتھم انجینئرز اور مشین لرننگ کی نوکریوں میں تقریباً 40 فیصد سالانہ اضافہ دیکھا گیا۔

صنعتی رپورٹس کے مطابق، 2030 تک چین میں مصنوعی ذہانت کے ماہرین کی 4 ملین کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سو کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ضرورت واضح ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یونیورسٹیوں اور صنعتوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا  افرادی صلاحیتوں کی تربیت اور صنعتی ضروریات کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کی تحقیق کو کمپنیوں کی ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑھانے کا اہم ذریعہ  فراہم کرے گا۔

چینی وزیر تعلیم ہوائی نے کہا کہ “کسی بھی ملک کی اعلیٰ تعلیم قومی حکمت عملی کا ایک قیمتی سرمایہ ہے،”  مصنوعی ذہانت اور بائیو ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں کو قومی حکمت عملی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وقار حیدر

چین مصنوعی ذہانت

متعلقہ مضامین

  • حکومت پنجاب کا سندھ کو زیادہ پانی دیے جانے کا الزام، ارسا نے الزامات مسترد کردیے
  • ججز کی نامزدگیوں کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب
  • چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کرلیا
  • آئینی بینچ میں مزید دو ججز شامل کرنے کیلیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب
  • نتیش کمار کو بی جے پی نے ہائی جیک کر لیا ہے، تیجسوی یادو
  • اسلامی جمہوریہ ایران کا سفارت خانہ ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں 8 پاکستانی شہریوں کے خلاف غیر انسانی اور بزدلانہ مسلح واقعے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ سفیر رضا امیری مقدم۔
  • چین کی عوامی مصنوعی ذہانت خواص کو چیلنج کر رہی ہے
  • رحیم یار خان: ڈاکوؤں کی سہولت کاری پر کچے کے تھانوں کے ایس ایچ اوز برطرف
  • کمسن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے الزام میں  پادری گرفتار 
  • گوجرانوالہ: بیوی سے جبری غیر فطری اختلاط پر شوہر کو 10 سال قید بامشقت کی سزا