نواز شریف سے کوئی ناراضی نہیں، نہ غلط فہمی ہے، شاہد خاقان
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
نواز شریف کو 8 فروری کو اللّٰہ نے موقع دیا، انہوں نے گنوا دیا، شاہد خاقان عباسی - فوٹو: فائل
عوام پاکستان پارٹی (اے پی پی) کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ نواز شریف سے کوئی ناراضی نہیں، نہ غلط فہمی ہے۔ ہم نے ن لیگ اصول کی بنیاد پر چھوڑی ہے۔ اگر نواز شریف 8 فروری کو الیکشن ہار تسلیم کر لیتے تو آج پاکستان کا نقشہ مختلف ہوتا۔
لندن میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل مفتاح اسماعیل کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی دوسرے ملک کی شہریت لے کر بھی پاکستان سے تعلق برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ زرمبادلہ پاکستان بھیجنے کی تعداد بڑھ رہی ہے، ہماری جماعت مسائل کی بات کم اور حل کی بات زیادہ کرتی ہے۔ پاکستان میں اصل اپوزیشن عوام پاکستان پارٹی ہے۔
لندن میں جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عوام پاکستان کو زبردست رسپانس ملا ہے، پارٹی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
کنوینر اے پی پی کہنا تھا کہ جب تک رول آف لاء نہیں ہوگا ملک ترقی نہیں کرے گا، اوورسیز پاکستانیوں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سرمایہ کاری محفوظ ہو تو مزید زرمبادلہ آئے گا، اوورسیز پاکستانی اگر عمارتیں بنانے کی بجائے کاروبار میں پیسہ لگائیں تو زیادہ فائدہ ہوگا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ افسوس ہے کہ پاکستان میں الیکشن چوری ہوتے ہیں، آئین کے مطابق ملک چلانا پڑے گا، اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئین واضح ہے، اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں، نواز شریف سے آخری ملاقات لندن میں ہوئی تھی، نواز شریف سے 35 سال کا تعلق ہے، لندن سے واپسی کے بعد ملاقات نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ نے اقتدار کا راستہ چنا، مجھے اتفاق نہیں تھا، شہباز شریف سے میرا کوئی رابطہ نہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا اتحاد انہونا ہے، پی پی اور ن لیگ کا اتحاد مفاد کا اتحاد ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جماعت عوام پاکستان کو رجسٹر کرلیا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ کوئی ناراضی نہیں، نہ کوئی غلط فہمی ہے، انکی سیاست کا عروج 2021 کا گوجرانوالہ جلسہ تھا، نواز شریف میرے لیڈر تھے، وہ ووٹ کو عزت دو سے ہٹ گئے۔
سابق وزیراعظم نے کہا ہم نے ن لیگ اصول کی بنیاد پر چھوڑی ہے، نواز شریف کو 8 فروری کو اللّٰہ نے موقع دیا، انہوں نے گنوا دیا، اگر نواز شریف 8 فروری کو الیکشن ہار تسلیم کر لیتے تو آج پاکستان کا نقشہ مختلف ہوتا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جو ملک انٹرنیٹ بند کر دیتا ہو وہاں ترقی نہیں ہو گی، پیکا کے ذریعے آزادیوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے، موجودہ حکومت نے ایک بھی قانون عوام کی فلاح کا نہیں بنایا۔
انہوں نے کہا کہ احسن اقبال کے اڑان پاکستان میں صرف حد دیے گئے ہیں، راستہ نہیں بتایا، اس حکومت نے آج تک ایک پالیسی نہیں بنائی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عوام پاکستان نواز شریف سے فروری کو انہوں نے
پڑھیں:
شیر اپنی کچھار سے باہر نکل آیا؟
محمد حنیف صاحب ہمارے ملک کے عالمی شہرت یافتہ ناول نگار ہیں۔ انھیں ادب میں بین الاقوامی شہرت اس لیے ملی ہے کیونکہ اُن کے ناول انگریزی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ ایک ناول تو اُن کا پاکستان میں ممنوع بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ موصوف ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے لیے اُردو میں کالم بھی لکھتے ہیں اور اسی ادارے کے لیے پنجابی زبان میں ویلاگ بھی کرتے ہیں۔
اُن کی پنجابی سُن کر ہمیں تو رشک آتا ہے کہ کاش ہم بھی اُن ایسی پنجابی لکھ اور بول سکتے !محمد حنیف صاحب نے گزشتہ روز غیر ملکی صحافتی ادارے کے لیے لکھے گئے اپنے کالم (بعنوان: منیر نیازی پر پیکا لگائیں) میں طنزیہ (Satirical) انداز میں یوں لکھا:’’اور وہ جو منیر نیازی کی ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہُوں‘‘ والی نظم ہے ۔اِس میں ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے بزرگ سیاستدان ، نواز شریف، کا مذاق نہیں اُڑایا گیا؟۔‘‘
مذکورہ صاحبِ کالم نے نواز شریف بارے ملفوف طنز کرتے ہُوئے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں۔‘‘دیر سے بولتے ہیں ۔ دیر سے سیاسی بیان دیتے ہیں ۔حالانکہ حقیقی طور پر ایسا نہیں ہے ۔ ویسے زیادہ بول کر اور ہر بات پر بول کر بانی پی ٹی آئی نے کیا کھٹ ، کما لیا ہے ؟نواز شریف کم بولتے ہیں ، مگر تول کر بولتے ہیں ۔
اُن کی زبان سے ادا ہونے والے کم الفاظ بھی قومی میڈیا میں شہ سرخیوں سے شایع اور نشر ہوتے ہیں ۔ اِسی سے ہم اُن کی شخصیت اور ادا کیے گئے الفاظ کی اہمیت اور حیثیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ وہ بانی پی ٹی آئی کے دَور میں، بیماری کی حالت میں، لندن جا براجے اور وہاں چند سال مقیم رہے ۔ تب بھی کم کم بولتے سنائی دیے۔ کبھی کبھار اپنے صاحبزادگان کے دفاتر میں داخل ہوتے اور وہاں سے نکلتے وقت مقامی لندنی پاکستانی صحافیوں سے چند الفاظ کا تبادلہ کر لیا کرتے تھے۔
نواز شریف فروری 2024کے انتخابات سے چند ماہ قبل پاکستان آئے تو بھی کم کم بولے۔ البتہ لاہور کے مینارِ پاکستان کے جلسے میں وہ خوب بولے۔ فروری کے انتخابات کے نتائج اُن کے حسبِ منشا برآمد نہ ہُوئے تو میاں محمد نواز شریف کو چُپ سی لگ گئی۔ وہ، اُن کے برادرِ خورد،اُن کی صاحبزادی اور اُن کا بھتیجا بھی ارکانِ اسمبلی منتخب ہو گئے تھے مگر نون لیگ بحیثیتِ مجموعی فاتح جماعت نہ بن سکی ۔یہ منظر نواز شریف کا دل توڑنے کے لیے کافی تھا ۔
وہ خود چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی آرزُو پوری نہ کر سکے ۔ انتخابات میں اُن کی پارٹی کو جو دھچکے پہنچے، یہ بھی اُن کی دلشکنی کے لیے کافی تھے۔ اُن کے برادرِ خورد وزیر اعظم بن گئے اور اُن کی صاحبزادی نے پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا پہلا اعزاز حاصل تو کر لیا مگر نواز شریف خاموشی کی کچھار اور غار میں پناہ گیر ہو گئے ۔اُن کے مخالفین اُن کی خاموشی کا مضحکہ اُڑاتے ہیں ، مگر اُن کے عشاق اُن کی خاموشی اور کم گوئی کو اُن کی بزرگی اور تدبر و تحمل سے موسوم و معنون کرتے ہیں۔ نون لیگ کے وابستگان توقع رکھتے ہیں کہ نواز شریف زیادہ بولیں اور لوگوں سے زیادہ سے زیادہ میل ملاقاتیں کریں تاکہ نون لیگ کو حیاتِ نَو ملے ۔ نواز شریف مگر بادشاہ ہیں ۔ اب بادشاہ کو بولنے اور لب کشائی پر کون مجبور کر سکتا ہے ؟
اپریل2025کے دوسرے ہفتے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ، ڈاکٹر عبدالمالک، نے اپنے بلوچ وفد کے ساتھ نوازشریف سے جاتی عمرہ میں تفصیلی ملاقات کی توگویا بعض حلقوں کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا۔ڈاکٹر مالک نے ملاقات (جس میں کئی سینئر نون لیگی قائدین بھی شامل تھے) کے بعد میڈیا سے جو بات چیت کی ، اِس کے مطابق: نون لیگی صدر، نوازشریف، بلوچستان کے بگڑے حالات کو سنوارنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر تیار ہوگئے ہیں ۔یہ کردار ادا کرنے کے لیے مبینہ طور پر نواز شریف نے بلوچستان کا دَورہ کرنا بھی قبول کرلیا ۔ اِس عندیے سے نون لیگیوں نے یہ جانا کہ شیر بالآخر اپنی کچھار سے باہر نکل آیا ہے۔ بلوچستان کے بگڑے حالات کو سنوارنے کے لیے سبھی لوگ نواز شریف سے مثبت کردار ادا کرنے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔
مبینہ وعدے کے مطابق نواز شریف بلوچستان جانے کے بجائے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ بیلا رُوس چلے گئے ۔ نواز شریف جس طرح اپنے ساتھ اپنی وزیر اعلیٰ صاحبزادی ، اپنے بیٹے اور اپنی نواسی کو بھی ساتھ بیلارُوس لے گئے ، اِسے پسند نہیں کیا گیا ۔ سوشل میڈیا پر اِس بارے سخت تنقیدات سامنے آئی ہیں ۔ حتیٰ کہ بی بی سی ایسے ادارے نے شہباز شریف اور نواز شریف کے اِس اقدام کو ’’ بیلارُوس کافیملی وزٹ‘‘ کا عنوان دے ڈالا ہے۔
بیلارُوس سے فارغ ہو کر دونوں شریف برادران تو لندن چلے گئے اور محترمہ مریم نواز شریف اناطولیہ (ترکیہ) پہنچ گئیں ۔ لندن میں نون لیگیوں نے نواز شریف کا شاندار استقبال کیا ، مگر پی ٹی آئی کے جنگجو نواز مخالف نعرے لگانے سے باز نہ آئے۔ لندن میں نواز شریف کے صاحبزادگان کے گھروں کے باہر ایک بار پھر تماشہ لگا ہے۔
اب خبر ہے کہ لندن میں نواز شریف اور شہباز شریف مل بیٹھ کر نئی سیاسی حکمت عملی طے کریں گے۔ یہ حکمتِ عملی کیا ہوگی، اتوار کی صبح جب یہ کالم لکھا جارہا ہے، یہ پُراسرار ’’حکمتِ عملی‘‘ منصہ شہود پر نہیں آ سکی ہے ۔مگر مخالفین سوال اُٹھا رہے ہیں کہ وہ کونسا خاص کام ہے جو انجام دینے کے لیے شریف برادران کو، پاکستان سے دُور، لندن میں اکٹھا ہونا پڑا ہے ؟نون لیگی مگر ایک بار پھر توقع لگا کر بیٹھ گئے ہیں کہ اُن کے بزرگ قائد،نواز شریف، لندن میں بیٹھ کر شاید کوئی اہم اعلان کریں۔ شاید اُن کا شیر لندن ہی میں دھاڑ اُٹھے ۔
محترمہ مریم نواز شریف نے البتہ بیلارُوس سے نکل کر اناطولیہ ( ترکیہ) میں12اور13اپریل کو منعقد ہونیوالے دو روزہ عالمی Diplomacy Forum میں خوب پرفارمنس کا مظاہرہ کیا ہے ۔ انھوں نے مذکورہ عالمی فورم میں پنجاب کے تعلیمی اداروں میں اپنے اصلاحاتی ایجنڈے اور متنوع خدمات کی پرچم کشائی کی ہے ۔ اُن کی پُر وقار شخصیت فورم پر چھائی رہی ۔ ترکیہ کے صدر، جناب طیب ایردوان، اور اُن کی اہلیہ و خاتونِ اوّل، محترمہ امینے ایردوان، کی جانب سے محترمہ مریم نواز شریف کا کھلے دل اور بازوؤں سے استقبال کیا گیا۔ اناطولیہ میں محترمہ مریم نواز شریف کی جن عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہُوئی ہیں، مستقبل قریب میں یہ اُن کے اور پاکستان کے لیے ثمر آور ثابت ہو سکتی ہیں ۔