وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ میں نے پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ چلنے کی پیش گوئی پہلے ہی کردی تھی، پی ٹی آئی کا مقصد مذاکرات نہیں، نہ ہی وہ مسائل کا حل نکالنا چاہتی، میں پی ٹی آئی کی نفسیات سمجھتا ہوں، پی ٹی آئی کا مقصد صرف ایک شخص کو ریلیف دلانا ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی مذاکرات نہیں چاہتی، یہ لوگ اپنے لیے ریلیف کا راستہ نکالنا چاہتے ہیں۔
 ان کاکہناتھا کہ میں بانی پی ٹی آئی کو اچھی طرح جانتا ہوں، پی ٹی آئی کی لیڈر شپ ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کے چکرمیں ہے، پی ٹی آئی میں ہرایک کے مفادات ہیں، ان کا کوئی نظریہ نہیں، صرف مفادات کے لئے اکھٹے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ خیبر پختونخوا کےعوام کو امن و ریلیف ملنا چاہیے، پی ٹی آئی حکومت اپنی بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کررہی، اسی طرح پاراچنار اور کرم کے لوگوں کو ریلیف ملنا چاہیے، کے پی حکومت اسلام آباد پر3 مرتبہ حملہ کر چکی ہے۔
 ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں بات کرنے کے لیے بہت سے موضوعات ہیں، تحریک انصاف کواس کے حالات پر چھوڑ دینا چاہیے، پی ٹی آئی مشروط مذاکرات چاہتی ہے، اس طرح کے مذاکرات ہمیشہ ناکام ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے، پی ٹی آئی نے ماضی میں بھی اسلام آباد تک مارچ کی دھمکی دی تھی، ان کا احتجاج کا نیا اعلان بھی گزر جائے گا۔
لیگی رہنما نے کہا کہ پی ٹی آئی کا مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ ”غیر متوقع“ نہیں تھا کیونکہ پی ٹی آئی کسی مسئلے کو حل کرنے پر کام نہیں کر رہی بلکہ ریلیف کی تلاش میں ہے۔

خواجہ آصف کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد کوئی بھی گرینڈ اپوزیشن الائنس ہمارے لئے تشویش کی بات نہیں ہوگی۔
 پروگرام میں پی ٹی آئی رہنماعلی احمد خان اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی بات چیت کی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کا خواجہ ا صف نے کہا کہ

پڑھیں:

مذاکرات دفن، کال کا انتظار، پیپلز پارٹی ناراض

مذاکرات دفن ہو گئے، انتقال، تجہیز، تکفین اور تدفین میں ڈیڑھ مہینہ لگ گیا، اشتعال کی خبریں پیدائش (آغاز) کے ساتھ ہی اس وقت آنا شروع ہو گئی تھیں جب پہلے رائونڈ میں پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم سے مطالبات تحریری شکل میں دینے کے لیے کہا گیا۔ ادھر سے اصرار، اڈیالہ جیل سے انکار، انکار کو اقرار میں بدلتے 42 دن لگ گئے گویا مذاکرات کومے میں چلے گئے تاہم مصنوعی سانس کے لیے آکسیجن ماسک لگا دیا گیا۔ رانا ثنا اللہ نے دبے لفظوں میں واضح کر دیا کہ حکومت سے اتنا ہی مانگو جتنا وہ دے سکتی ہے۔ عقل کے دشمنوں کو ’’معرفت کی رموز‘‘ سمجھ میں نہ آئیں کیسے آتیں ان کے اپنے رئوف حسن کے مطابق رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ خدا جنہیں تباہ کرنا چاہتا ہے انہیں عقل سے محروم کر دیتا ہے۔ تیسرے رائونڈ میں 42 دنوں میں 3 صفحات لکھنے والوں نے جواب کے لیے حکومت کو صرف سات دن دئیے لیکن سات دن پورے ہونے سے قبل ہی اڈیالہ جیل سے ’’حکم ان کا آیا محبت نہ کرنا‘‘ بیرسٹر گوہر نے حکم ملتے ہی 23 تاریخ کو کومے میں پڑے مذاکرات کے چہرے سے آکسیجن ماسک نوچ کر نہ صرف اشتعال کا اعلان بلکہ قومی اسمبلی کے احاطے ہی میں سپرد خاک کر دیا۔ حکومت قبر کشائی کے لیے تیار، مگر ’’ایک ناں سب کے جواب میں‘‘ حکومتی موقف واضح 9 مئی پر کمیشن رینج سے باہر، 26 نومبر پر کمیشن کمیشن کھیلا جا سکتا ہے۔ جس میں اس بات کی بھی تحقیقات کی جا سکتی ہے کہ ایک صوبہ کے وزیر اعلیٰ اور سابق خاتون اول ’’گھریلو اور دین دار‘‘ نے کس آئینی اختیار کے تحت مسلح جتھوں کے ساتھ وفاقی دارالحکومت پر حملہ کیا، مذاکرات پر بعد از مرگ واویلا کرنے اور سینہ کوبی کرنے والے قبر کشائی پر ہرگز رضا مند نہیں ہوں گے۔ کیوں؟ ترجیحات بدل گئی ہیں۔ دسمبر 2024ء میں حکومت کو مصروف رکھنے کی ضرورت تھی۔ 190 ملین پائونڈ کیس کا فیصلہ تین چار بار ملتوی ہوا تھا مزید التوا مقصود تھا۔ 20 جنوری کو صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد کال کا انتظار تھا (حلف برداری سے قبل کوئی دعوت نامہ اور بعد ازاں کوئی کال موصول نہ ہوئی) پشاور میں آرمی چیف اور بیرسٹر گوہر کے دو منٹ کے رسمی مکالموں کو مثبت مذاکرات کا آغاز قرار دیا گیا باہر بیٹھے یوتھیا بریگیڈ کے ڈالر خور اب تک اس کو اچھال رہے ہیں۔ ان ہی دنوں مبینہ طور پر ایک بڑے صنعت کار نے ایک بڑے افسر سے ملاقات کر کے خان کی گارنٹی لینے کی بات کی جواب پوری قوت سے سر ہلا کر نفی میں دیا گیا۔ ہر محاذ پر خاموشی ہر طرف سے کورا جواب خان اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے ایک دن میں پانچ بار طبی معائنہ کرنا پڑا۔ وہ 31 جنوری تک حکومت کو مصروف رکھنا چاہتے تھے۔ مگر انہیں ساکت پانیوں میں مسلسل پتھر پھینکنے کے باوجود مایوسی ہوئی تو انہوں نے مذاکرات کا چیپٹر کلوز کر کے 8 فروری کو اپنی قوم (قوم یوتھ) کو باہر نکلنے کا حکم دے دیا۔ پیارے سجیلے خان بھول گئے کہ 17 جنوری کو انہیں اور ان کی دین دار اہلیہ کو سزا سنائی گئی تو ان کی قوم گھروں تک محدود رہی۔ کوئی ایک نعرہ تک سنائی نہ دیا۔ صرف قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں گیڈروں جیسی آوازیں اور رہا کرو کے پلے کارڈ سننے اور دیکھنے کو ملے ککھ نہ ہلیا، مایوسی تو ہو گی۔ کمال کے انتظار پر شاعر مشرق یاد آ گئے انہوں نے ایک صدی قبل شاید خان کی روح کو ہی مخاطب کر کے کہا تھا ’’بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی، مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے‘‘۔

حالات نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے خان کب تک جیل میں رہیں گے؟ حالات کب اور کیسے بدلیں گے؟ خان کو اور کتنے عذاب بھگتنا ہوں گے؟ قوم یوتھ سڑکوں پر کیوں نہیں آ رہی؟ خان چالیں چلنے کے ماہر ہیں مگر ستاروں کی اپنی چالیں ہیں وہ راستہ بدلنے میں دیر نہیں کرتے، ایک سزا کی تکمیل، 2039ء بہت دور، کس نے دیکھا ہے ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘ اس کے باوجود خان امید کی ڈور سے بندھے ہیں۔ گزشتہ دنوں کہا کہ موجودہ حکمران کسی خوش فہمی میں نہ رہیں یہ رات کو سو رہے ہوں گے صبح اٹھیں گے تو پتا چلے گا کہ میں رہا ہو چکا ہوں۔ نئے سال کے آغاز پر ہی خان کو اتنے جھٹکے لگے ہیں کہ وہ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ تشویش کی بات تو ہے ادھر پارٹی کا شیرازہ بلکہ شیرہ بکھر رہا ہے۔ پارٹی پر قبضہ میکے والوں کا ہو گا یا سسرالیوں کا علیمہ باجی اور بشریٰ بی بی کی کوششیں ڈھکی چھپی نہیں پھر کالے کوٹوں والے بھی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔ شیر افضل مروت کے بعد نعیم حیدر پنجوتھہ کی ٹی وی شوز میں پٹائی افسوسناک لیکن کیا کیا جائے ’’لفظوں کے انتخاب نے رسوا کیا انہیں‘‘ قوم یوتھ بھی مایوس ہے وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ خان کے دور حکومت میں عام آدمی کو کیا ملا؟

ایک سال ہونے کو آیا جس دن سے موجودہ حکومت بنی ہے پیپلز پارٹی کے ماتھے کی شکنیں دور نہیں ہوئی۔ ’’ہر چند کہیں کہ حکومت میں نہیں ہیں مگر ہیں‘‘ تمام آئینی عہدے صدر، چیئرمین سینیٹ، دو صوبوں کے گورنر، دو صوبوں کی حکومتیں ان کے پاس ہیں مگر صاحبزادہ بلاول زرداری بھٹو مسلسل ایک سال سے ناراض چلے آتے ہیں۔ ن لیگ اب تک کابینہ میں لینے کو تیار مگر پیارے زرداری اور دلارے بلاول شرکت سے گریزاں ذمہ داری سر پر آن پڑے گی۔ سندھ میں چار نہریں نکالنے کے مسئلہ پر قربتیں دوریوں میں بدل رہی ہیں۔ حکومت چولستان اور بلوچستان کی ترقی کے لیے اقدامات کر رہی ہے پیپلز پارٹی سندھ میں اکثریتی پارٹی ہے سارے وڈیرے اس کے اپنے ہیں جو پارٹی سے نکلا پریشان ہوا یعنی ’’جو تیری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا‘‘ انہیں اپنی میلوں تک پھیلی زمینوں کے لیے پانی درکار ہے۔ دریائے سندھ ہر سال پنجاب اور سندھ میں تباہی مچاتا سمندر کی گود میں جا گرتا ہے۔ پانی کی کمی کی بنیادی وجہ ڈیمز کی عدم موجودگی ہے پڑوس کے ملکوں میں سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ڈیمز موجود ہیں ہم 70 سال میں کالا باغ ڈیم کے جادو سے باہر نہیں نکل سکے۔ سندھ میں کوئی بڑا ڈیم نہیں جہاں دریائے سندھ کا پانی سال بھر کے لیے جمع کیا جا سکے۔ حکومت کے اس اعلان سے پیپلز پارٹی مطمئن نہیں کہ پنجاب اپنے حصے کا پانی چولستان اور بلوچستان کو دے گا۔ بد قسمتی ہے ’’سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے‘‘۔ حد نظر تک پھیلی کینچھر جھیل بھی کراچی والوں کی پیاس نہیں بجھا سکی۔ کراچی کے تین ساڑھے تین کروڑ عوام تین چار ہزار روپے کے ٹینکروں سے گندہ پانی لینے پر مجبور، مجبوریاں اپنی جگہ ہیں نیتیں اپنی جگہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اوپر کی ڈور سے بندھی ہیں تو انہیں دور اندیشی اور تحمل سے کام لیتے ہوئے نہری مسئلہ کو مشترکہ مفادات کو نسل میں حل کرنا چاہیے، گزشتہ جمعہ کو پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی میں میاں نواز شریف سے رابطے کا فیصلہ کیا گیا ہے غیروں سے ہاتھ ملانے کی دھمکیوں کی بجائے اپنوں سے رابطے سود مند ثابت ہونگے۔

متعلقہ مضامین

  • عدت کیس ایک ایسی کالک ہے جو موجودہ حکومت بار بار اپنے منہ پر ملنا چاہتی ہے‘ مسرت جمشید چیمہ
  • مذاکرات دفن، کال کا انتظار، پیپلز پارٹی ناراض
  • حکومت تنقید ختم اور اختلافی آوازوں کو خاموش کرنا چاہتی ہے‘شاہد خاقان
  • پی ٹی آئی کا مقصد مذاکرات نہیں، صرف ایک شخص کو ریلیف دلانا ہے، خواجہ آصف
  • حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ جلد بازی میں نہیں کیا، شیخ وقاص اکرم
  • کیا تریپتی ڈمری نے فلموں میں مزید ’بولڈ کردار‘ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا؟
  • حکومت پی ٹی آئی مذاکرات، ٹائیں ٹائیں فش
  • آج کی نسل کل کی قوم۔کس کی ذمہ داری
  • مودی سرکار بھارتی مسلمانوں کی قیمتی وقف جائیدادیں ہڑپ کرنے کے لیے تیار