امریکہ کی سیاسی تاریخ میں سابق صدر جان ایف کینیڈی نے سفید اسٹیبلشمنٹ ( دجالی جنگی ادارہ) سے ٹکر لی تھی۔ پھر اس کا انجام پوری دنیا نے دیکھا۔ کہ کس طرح اسے پراسرار طریقے سے نومبر 1963 کو سرعام شاہراہِ پر قتل کر دیا گیا۔ اب ٹرمپ نے براہ راست دجالیوں (سفید اسٹیبلشمنٹ) سے پنگا لے لیا ہے۔ کیا 61 سال بعد سیاسی قتل کی تاریخ ایک دفعہ پھر دہرائی جانے والی ہے ؟۔
راقم کی رائے میں اس کے 2 پہلو ہو سکتے ہیں۔1- یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ کٹر یہود نواز ہے اور انہی کی مکمل سپورٹ سے ہی وائٹ ہاﺅس تک پہنچا۔ غزہ میں جاری جنگ میں یہودی یرغمالیوں کو چھڑانے میں جب اسرائیل ناکام ہو گیا۔ تو انہوں نے ٹرمپ کو لانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ٹرمپ ہی تھا جس کی دھمکیوں کی وجہ سے جنگ بندی کا معاہدہ ممکن ہو سکا۔ امریکی تاریخ میں یہ ٹرمپ ہی تھا جس نے اپنے پہلے دور حکومت میں بیت المقدس ( یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔ بھلا وہ اسرائیل کو کیوں مجبور کرے گا کہ وہ حماس کے ساتھ معاہدہ کرے ؟ جس طرح سے پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا میں بڑا شوروغل تھا کہ ٹرمپ نے اسرائیل کو معاہدے کے لیے مجبور کر دیا۔
دراصل اہل بصیرت کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ڈاکٹرائن کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسرائیل کو معاہدے کے لیے دبانا درحقیقت کٹر اسرائیل نواز ٹرمپ کا دکھاوا تھا۔ کیونکہ یرغمالیوں کی وجہ سے اسرائیل کی گوٹ پھنس چکی تھی اور نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ تب چالاک و عیار یہودیوں نے ٹرمپ کارڈ استعمال کیا۔ بہرحال یہ خدشہ اب بھی موجود ہے کہ وقت آنے پر خفیہ ہاتھ کوئی نہ کوئی ایسا فتنہ ضرور کھڑا کریں گے جس سے جنگ کے شعلے دوبارہ بھڑک اٹھے۔ لیکن اس دفعہ بھڑکنے والے شعلے ایسے ہولناک آتش فشاں میں بدل جائیں گے جو سعودی عرب سے لے کر پاکستان تک کو لپیٹ میں لے لے گا۔
خیال رہے کہ امریکہ میں صدارتی عہدہ ایک نمائشی ، کٹھ پ±تلی عہدہ ہوتا ہے۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون آ رہا ہے کون جا ہے ؟۔ سب سے اہم بنیادی محور یہ ہے کہ ان کی پالیسیوں کا تسلسل بغیر کسی رکاوٹ کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ چاہے اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ جیسے شاہ فیصل شہید ، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ، صدام حسین رحمہ اللہ، جان ایف کینیڈی کا قتل ، ضیاءالحق شہید رحمہ اللہ کے ساتھ اپنے سفیر کو مروا دینا۔اور اب بظاھر اسرائیل کو مجبور کر کے جنگ بندی کا معاہدہ کرانا۔ لہٰذا سیاسی تقلید کی حامل سادہ لوح پاکستانی قوم اور قوم پاکستان سے کئی دہائیوں سے غلط بیانیاں کرنے والے میڈیا کو فریب ، جھوٹ کی دنیا سے نکل کر تلخ سچائی پر مبنی حقائق کا سامنا کرنے کی اخلاقی جرا¿ت پیدا کرنی چاہیے۔
جب نیتن یاہو کہہ رہا تھا کہ ہماری اپروچ تمام مشرق وسطیٰ تک ہے تو وہ کوئی ہوا میں دھمکی نہیں دے رہا تھا بلکہ حقائق کی بنیاد پر اپنی ڈاکٹرائن کی عکاسی کر رہا تھا بحیثیت مسلمان ہونے کے ناتے قرآن و سنت سے رہنمائی لینی چاہیے۔
لہٰذا اختیارات کا جو اصل مالک ہے ، طاقت کا جو اصل منبع ہے وہWhite Anglo-Saxon Protestants or Wealthy Anglo-Saxon Protestants (WASP) Establishment.
مغرب و امریکہ کے انسانی بنیادی حقوق سے متعلق جتنے بھی نعرے ہیں ، وہ بھی ان کی پالیسیوں کے تابع ہیں۔ کیونکہ جب بھی اسلام و مسلمانوں کے حقوق کی بات آتی ہے تو چودہ صدیاں پرانا مذہبی تعصب ان کے نظریات ،سوچوں اور فکروں پر غالب آ جاتا ہے۔ جیسے نہتے و محصور بےگناہ اہل غزہ کی بدترین نسل کشی کے دوران ہوا۔ جب آئے روز امریکہ سمیت یورپ بھر میں غزہ کے معصوموں کے حق میں بھر پور احتجاج ہوتے رہے۔ لیکن WASP کے کرگسوں نے انہیں کوئی اہمیت نہ دی۔ کیونکہ یہ سفید اسٹیبلشمنٹ ( ورلڈ کنٹرول) کی بنیادی پالیسیوں کے متصادم تھا۔بہرحال جو WASP کے جنگی ہیڈ کوارٹر ( پینٹاگان) کے غلام امریکی قوم کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اسرائیل کو رہا تھا کے لیے
پڑھیں:
غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنے کا ٹرمپ کا پلان، مصر اور اردن سے عارضی یا مستقل تعاون کا مطالبہ
غزہ سے فلسطینیوں کو باہر کرنے کے اپنے منصوبے کے تحت امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مصر اور اردن سے فلسطینیوں کو اپنے ہاں رکھنے کا مطالبہ کردیا۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ اردن اور مصر غزہ کی پٹی سے مزید فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کریں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے فلسطینیوں کو نکال کر غزہ کو ’صاف‘ کرنے کا منصوبہ دے دیا
امریکی صدر نے میڈیا سے گفتگو میں غزہ میں تباہی کے حوالے سےکہا کہ یہ سب کچھ صاف کرنا چاہیے۔ انہوں نے اردن کے شاہ عبداللہ سے ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کے بعد غزہ کے حوالے سے کہا کہ وہ مسمار شدہ مقام ہے جہاں سب کچھ مسمار ہو چکا ہے اور وہاں لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
انہوں نے مصر اور اردن سے مطالبہ کیا کہ غزہ سے مزید فلسطینیوں کو عارضی یا مستقل طور پر قبول کریں۔
اردن نے منصوبہ مسترد کردیادریں اثنا انٹرنیشنل میڈیا رپورٹ کے مطابق اردن نے غزہ سے فلسطینیوں کی کسی بھی قسم کی بے دخلی کو مسترد کر دیا ہے۔
اردون کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اردن کا مؤقف مضبوط اور غیر متزلزل ہے۔
اردن نے امریکا سمیت اسرائیل پر واضح کر دیا کہ فلسطینیوں کی اپنی زمین پر موجودگی اس کی ترجیح ہے۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی منصوبہ مسترد، اردن غزہ کی حمایت میں ڈٹ گیا
صدر ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد بھی عندیہ دیا تھا کہ وہ غزہ میں الگ انداز سے تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں تاہم انہوں نے اس تعمیر نو اور ’فلسطینوں کی واپسی‘ کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں دی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اس بیان پر تا حال کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
پلان قابل قبول نہیں، حماسغزہ میں کا انتظام سنبھالنے والی فلسطینیوں کی تنظیم حماس کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ غزہ سے نقل مکانی کی کوئی پیش کش قابل قبول نہیں خواہ یہ پیش کش تعمیر نو کے نام ہی پر کیوں نہ کی جائے۔
اسرائیل کو بموں کی فراہمی بحالڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پیش رو جو بائیڈن کے دور میں ہونے والے اس فیصلے کو بھی معطل کر دیا جس کے تحت اسرائیل کو 2 ہزار پونڈز وزنی بموں کی فراہمی پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
دریں اثنا ہزاروں فلسطینی شمالی غزہ میں واپسی کے لیے بند راستوں پر انتظار کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے حماس پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرکے کراسنگ پوائنٹس کھولنے سے انکار کر دیا ہے۔
معاہدے کے تحت حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل کو فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا تھا اور مقامی آبادی کو شمالی غزہ کی جانب جانے کے لیے راستہ فراہم کرنا تھا۔
تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس نے یرغمالوں کی رہائی کے دوسرے مرحلے میں فراہم کردہ فہرست کے مطابق ایک یرغمال سویلین خاتون اربیل یہود کو رہا نہیں کیا جس کی وجہ سے چیک پوائنٹس نہیں کھولے گئے ۔
مزید پڑھیے: ’او وی خوب دیہاڑے سَن‘، خوشیاں لانے والی سردیاں اور بارشیں اب غزہ والوں کے دل کیوں دہلا دیتی ہیں؟
حماس کا کہنا ہے کہ اس نے ثالثوں کو آگاہ کردیا ہے کہ مذکورہ خاتون کو آئندہ ہفتے رہا کیا جائے گا۔
حماس نے الزام عائد کیا ہے کہ فلسطینیوں کو شمالی غزہ جانے سے روک کر اسرائیل معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔
دریں اثنا غزہ کے العودہ اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فائرنگ سے 4 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ فائر اس وقت ہوئے جب اسرائیلی اہلکار لوگوں کو اپنے قریب آنے سے روک رہے تھے۔
اسرائیلی فوج نے وارننگ جاری کی تھی کہ غزہ میں فلسطینی اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی پوزیشنز کے قریب آنے سے گریز کریں۔
مزید پڑھیں: صیہونی افواج کے ہاتھوں ماری جانے والی 10 سالہ راشا کی وصیت پر من و عن عمل کیوں نہ ہوسکا؟
اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت ہوا تھا۔ اس موقعے پر حماس کی جانب سے 1200 افراد ہلاک کردیے گئے تھے اور 250 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔ اسرائیل کاخیال ہے کہ غزہ میں اب بھی موجود لگ بھگ 90 یرغمالوں میں سے ایک تہائی کی موت ہو چکی ہے۔
اس کے بعد سے اسرائیلی فوج نے 46 ہزار فسلطینی شہید اور سوا لاکھ کے قریب زخمی کردیے تھے۔ غزہ میں واقع اکثریتی گھر اور دیگر عمارتیں اسرائیل کے فضائی حملوں میں تباہ ہوگئی تھیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اردن کا جواب ٹرمپ غزہ پلان حماس غزہ فلسطینی فلسطینیوں سے خالی غزہ