Nai Baat:
2025-04-15@08:06:14 GMT

کتاب، کتاب میلے ، عوام اور سرکار

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

کتاب، کتاب میلے ، عوام اور سرکار

کتاب دماغی میدان میں نئے نظریات کے فروغ میں ایک بیج کا کردار ادا کرتی ہیں ، ان سے جڑے رہنے سے دماغی صحت بہتر نشوونما حاصل کرتی ہے اور فرد نہ صرف اپنے لیے اپنے ملک و قوم کے لیے بھی فایدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
پاکستان ایک بھرپور ادبی ورثے کی حامل ریاست ہے لیکن بدقسمتی سے اب یہاں مطالعہ کا رواج اس حد تک کم ہو چکا ہے کہ اشاعتی ادارے زیادہ تر اب نئے پروجیکٹ پر کام نہیں کر رہے۔ کتابوں کی محدود اشاعت نے کاروبار کو جس طرح نقصان پہنچایا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ حکومتی پالیسیاں بھی کتاب دشمنی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ کاغذ کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ اور لوگوں کی قوت خرید اور غیر قانونی پی ڈی ایف کلچر نے بھی کتاب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ میرا چونکہ اشاعتی اداروں سے براہ راست تعلق رہا ہے اس لیے یہ جانتی ہوں کہ کتاب اشاعت سے پہلے اور بعد میں کن کن مراحل سے گزرتی ہے۔ آپ لکھاری سے پہلے اشاعتی ادارے کے سربراہ کی خوشی کا اندازہ لگائیں کہ جب کوئی نئی کتاب شائع ہو کر اس کے پاس آتی ہے اور وہ اسے کسی نومولود کی طرح ہاتھوں میں لیتا ہے ، اسے محسوس کرتا ہے جیسے اس نے دنیا فتح کر لی ہو، اسی احساس سے ایک لکھاری گزرتا ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان کے کئی شہروں میں بھی سالانہ بنیادوں پر کئی بڑی سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں ، اداروں اور ایکسپو سینٹر میں کتاب میلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جو بلاشبہ ایک متحرک اور دلچسپ ثقافتی رجحان ہے جہاں اشاعتی ادارے، پبلشرز اور مصنفین کتابوں کی نمائش اور فروخت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ یہ کتاب سے محبت کرنے والوں کے لیے نئے عنوانات دریافت کرنے، مصنفین سے ملنے اور ساتھی قارئین کے ساتھ جڑنے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔بلاشبہ یہ ایک ایسی سرگرمی ہے جس کی جتنی داد دی جائے کم ہے لیکن حکومت کو ان میلوں کی مکمل سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ کتب بینی کے کم ہوتے ہوئے رحجان کو فروغ دیا جا سکے۔
اگر ہم کتاب میلوں کی اہمیت کے بارے میں بات کریں تو کتاب میلے لوگوں کو پڑھنے اور ادب سے محبت پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ مصنفین اور ناشرین کو اپنے کام کو وسیع تر قارئین کے ساتھ اپنے تجربات شئیر کرنے کے لیے ایک بڑا اور محفوظ پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔کتاب میلے لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں، کتاب سے محبت کرنے والوں میں برادری کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔وہ مقامی مصنفین کو اپنے کام کی نمائش اور قارئین سے رابطہ قائم کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔یہ شاندار تقاریب علمی نصابی کتب سے لے کر فکشن ناولوں تک، متنوع دلچسپیوں اور ترجیحات کو پورا کرنے والی کتابوں کی ایک وسیع رینج کی نمائش کرتی ہیں۔
میں جب بھی کسی بک فیئر میں جاتی ہوں تو مجھے تازہ چھپی ہوئی کتابوں کی خوشبو سے بھرے ایک متحرک اور ہلچل سے بھرپور ماحول میں جی بھر کر سانس لینے کا موقع ملتا ہے۔ شرکائے بک فیئر نئی ریلیز، بیسٹ سیلرز، اور دیگر کتابوں کو تلاش کر سکتے ہیں۔ میلے میں کتاب پر دستخطوں، مصنفین کے ساتھ مذاکروں اور پینل مباحثوں کی بھی میزبانی کی جاتی ہے، جو ادب کے شائقین کو اپنے پسندیدہ مصنفین کے ساتھ مشغول ہونے کا ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ جبکہ کتاب میلہ خواندگی، تعلیم اور ثقافتی تبادلے کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پبلشرز، مصنفین اور قارئین کو اکٹھا کر کے، میلہ کمیونٹی اور فکری ترقی کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ یہ مکالمے، سیکھنے اور دریافت کرنے کے لیے ایک جگہ فراہم کرتا ہے، اسی لیے یہ شہری ثقافتی کیلنڈر میں ایک اہم واقعہ ہے۔
دنیا بھر میں کتاب میلے کی ثقافت پر نظر ڈالیں تو فرینکفرٹ بک فیئر (جرمنی) عالمی سطح پر سب سے بڑے اور باوقار کتاب میلوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اس کے علاو¿ہ لندن بک فیئر (برطانیہ) اشاعتی صنعت کے لیے ایک اہم تقریب شمار کی جاتی ہے۔ بیجنگ بین الاقوامی کتاب میلہ (چین) چینی پبلشرز اور مصنفین کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم گردانا جاتا ہے۔ ساو¿تھ ایشیا میں کولکتہ بک فیئر (انڈیا) ایشیا کے سب سے بڑے کتاب میلوں میں سے ایک ہے۔ جبکہ پاکستان میں بک فیئر اب ایک باقاعدہ سرگرمی میں ڈھل رہی ہے اور میلہ کلچر کی ثقافت فروغ پا رہی ہے ،جس میں سال بھر متعدد تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کچھ قابل ذکر کتاب میلوں میں کراچی بین الاقوامی کتاب میلہ جو ملک کے سب سے بڑے کتاب میلوں میں سے ایک ہے۔ لاہور بین الاقوامی کتاب میلہ ایک مقبول تقریب ہے جو پورے خطے سے کتاب کے شائقین کو راغب کرتی ہے اور پنجاب میں آباد کتاب کے قاری یہاں ضرور آتے ہیں۔اسلام آباد بین الاقوامی کتاب میلہ مصنفین، پبلشرز اور قارئین کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔
امام غزالی کہتے ہیں کہ بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے، لیکن تنہائی سے پریشان ہو جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے اچھی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے۔ کتاب میلے خواندگی کو فروغ دینے، ثقافتی تبادلے اور کمیونٹی کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کتاب سے محبت کرنے والوں کو اکٹھے ہونے اور ادب کے لیے اپنے مشترکہ جذبے کا جشن منانے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یہاں پر اب کچھ ذمہ داری حکومت کو بھی اٹھانی پڑے گی۔ کیونکہ ان کتاب میلوں میں عوامی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے اشاعتی اداروں کی جانب سے کتابوں کی قیمتوں میں کمی کر دی جاتی ہے تاہم حکومت کی جانب سے ناشرین کو اسٹال لگانے کے سلسلے میں کسی قسم کی پزیرائی نہیں ملتی۔ صرف پنجاب یونیورسٹی میں لگنے والے بک فیئر کی بات کریں تو وہاں ایک اسٹال ناشر کو 35 ہزار کا پڑتا ہے اور ایکسپو سینٹر لاہور میں یہ اسٹال ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ میں دیا جاتا ہے۔ اوپر سے ناشرین قیمتیں کم رکھنے پر بھی پابند ہیں۔ اگر حکومت تین چار دن کے لیے ایکسپو سینٹر فری کر دے تو کیا جاتا ہے ؟ شہریوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کی ذمہ داری اٹھانی ہے تو ساتھ ریاست بھی اپنا کردار ادا کرے اور سرکار تک یہ پیغام پہنچانے کے لیے قلم کار آگے بڑھیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے لیے ایک کتابوں کی پلیٹ فارم کرتے ہیں کے ساتھ ایک اہم جاتا ہے بک فیئر کو فروغ ہے اور سے ایک

پڑھیں:

عوام ریلیف سے محروم کیوں؟

مہنگائی کی شرح میں کمی ہو رہی ہے، لیکن اگر اعداد و شمار کا اثر عوام تک نہیں پہنچ رہا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے لاہور چیمبر آف کامرس میں خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ معاشی استحکام کے لیے مہنگائی کا کم ہونا لازمی تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر دالوں، چینی اور دیگر اشیا کی قیمتوں کو دیکھ رہے ہیں، افراط زر نیچے آنے کا فائدہ عام آدمی کو ہونا چاہیے۔

 وفاقی وزیر خزانہ نے آخرکار تسلیم کر لیا ہے کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ سرکاری میکنزم کی پیچیدگی اور سست روی ہے ۔ وفاقی سے صوبائی اور پھر ضلع سطح کی سرکاری مشینری زنگ آلود ہوچکی ہے۔گراس روٹ لیول پر اوور چارجنگ روکنے والی مشینری متحرک نہیں ہے۔ ضلع ، تحصیل اور یونین کونسل تک مہنگائی کو کنٹرول کرنے والا میکنزم فرسودہ اور ناکام ہوچکا ہے۔

 مہنگائی اور ناجائز منافع خوری زوروں پر ہے۔ تمام اشیائے خوردنی، پھلوں سبزیوں، گوشت وغیرہ کی قیمتوں اور کوالٹی چیک کرنے کے ذمے دار سرکاری افسر اور اہلکار کب کام کرتے ہیں اور کیسے کام کرتے ہیں ، کم از کم صارفین کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ زرعی اور صنعتی شعبے کی مجموعی پیداوار میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ٹیکسٹائل انڈسٹری اورمینو فیکچرنگ سیکٹر بھی ٹیکسوں کے کڑے نظام اور مہنگی بجلی کی وجہ سے کئی مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے بازار اسمگل شدہ غیر ملکی سامان سے اٹے پڑے ہیں۔

مہنگائی میں کمی کا فائدہ اگر عام آدمی تک نہیں پہنچتا تو اس کمی سے عام آدمی کی زندگی آسان نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ہاں یہ روایت موجود ہے کہ پٹرول اور بجلی کی قیمت بڑھتی ہے تو دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں، ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جاتے ہیں، بار برداری کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے، فیکٹری مالکان اس اضافے کو اپنی لاگت میں شامل کر کے مارکیٹ میں اشیاء فراہم کرتے ہیں، مگر جب کسی چیز کی قیمت کم ہوتی ہے تو بڑھی ہوئی قیمتیں اُس تناسب سے کم نہیں کی جاتیں۔

صوبائی حکومتیں جن کے پاس انتظامیہ کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے، اور ہر صوبائی حکومت کے ماتحت ان گنت محکمے کام کر رہے ہوتے ہیں جن کا بنیادی مقصد اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی لانا ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انتظامیہ چھوٹے چھوٹے دکانداروں پر چھاپے مارتی ہے اور انھیں جرمانے بھی کیے جاتے ہیں، لیکن تھوک مارکیٹوں میں جہاں سے اشیاء کی ترسیل ہوتی ہے، جاتے ہوئے ان کے پَر جلتے ہیں۔ ملک کے تمام اضلاع میں مارکیٹ کمیٹیاں قائم ہیں، جو ڈپٹی کمشنر کی زیر نگرانی کام کرتی ہیں۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ مارکیٹ کمیٹی روزانہ اشیائے ضروریہ کے نرخ تو جاری کردیتی ہے، مگر اُس پر عمل کرانے کے لیے کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا،جس کی وجہ سے اِن مارکیٹ کمیٹیوں کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اشیاء کے جو سرکاری نرخ مقرر کیے جائیں، بازار میں اُن کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہر ضلع میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹ موجود ہوتے ہیں، جن کا کام ہی یہ ہے کہ مصنوعی مہنگائی کو روکیں، لیکن اُن کی عدم فعالیت برقرار رہتی ہے۔ اربابِ اختیار کو اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں کام کرنے والے سرکاری افسران و اہلکار کو خود اتنا بااختیار نہ سمجھنے لگیں کہ انھیں قانون کی کوئی پروا ہی نہ رہے۔

 درحقیقت مصنوعی مہنگائی نے پنجے گاڑھ لیے ہیں سرکاری نرخ ناموں کو ہوا میں اڑا دیا گیا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ سبزی ، دالیں، پھل، گوشت سمیت دیگر اشیاء کی من مرضی قیمتیں وصول کی جا رہی ہیں۔ اگر حقائق جاننے کی کوشش کی جائے تو حقیقت میں انفرادی لوٹ مار کو مہنگائی کا نام دیدیا گیا ہے۔ سبزی ودیگر اشیائے خورونوش کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی پر منافع کی شرح لا محدود ہے۔ ان کی قیمتوں کے تعین پر کسی کنٹرول کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث ناجائز منافع خوری عام ہے۔

دراصل ہمارے مالیاتی اور انتظامی اخراجات بڑھ رہے ہیں جس پر کنٹرول کرنے کے لیے حکومت ہمیشہ عوام سے ہی قربانی مانگتی ہے جب کہ صدر، وزیرِ اعظم، وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور بیوروکریسی خود قربانی کیوں نہیں دیتے اور اپنے اخراجات اور مراعات کم کیوں نہیں کرتے؟ ایک جانب مشکل مالی حالات کا رونا رو کر حکومت کفایت شعاری اور سادگی کے بہانے سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو فارغ کر رہی ہے تو دوسری جانب اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اربوں روپے کا ہوشربا اضافہ کر کے اپنے ہی دعوؤں کی نفی بھی کر رہی ہے۔ ایسے میں وفاقی کابینہ میں وزراء اور مشیروں کی ایک نئی فوج ظفر موج کا اضافہ گویا مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہے۔

 جہاں تک ایک عام آدمی کا سوال ہے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے۔ ہر پاکستانی اس وقت مہنگی ترین بجلی، پٹرول اور گیس خرید رہا ہے جن کی قیمتیں وفاقی حکومت کے براہ راست کنٹرول میں ہیں۔ دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں بھی بالواسطہ یا براہ راست انھی تینوں اشیاء سے جڑی ہوئی ہے۔ ایک طرف گیس، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور دوسری جانب بلا واسطہ اور براہ راست ظالمانہ ٹیکسوں کے نظام نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے اس وقت دو وقت کی روٹی پورا کرنا ایک عام پاکستانی کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔ ایسے میں صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں بھی عام عوام کی پہنچ سے بہت دور نکل چکی ہیں۔

حقائق تو یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کے مزید قرضے کا مطلب عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ۔ حکومت یہ جان چکی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے چکانے کے لیے مزید قرضے لینا پڑیں گے۔ اس سارے عمل کا بوجھ پاکستانی عوام پر آئے گا بے دردی سے ان کی پیٹھوں پر مزید ٹیکسوں کی شکل میں مہنگائی کے تازیانے برسائے جائیں گے، پہلے ہی اس ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ لگ بھگ دو لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ جانیں آگے چل کر پھر کیا ہو گا۔

ہمارے ملک میں جہاں تک اشیائے ضروریہ کی طلب اور رسد میں توازن کا تعلق ہے، مرکز اور صوبوں میں منصوبہ بندی کے محکمہ جات موجود ہونے کے باوجود منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ مذکورہ محکمے عضو معطل کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ عملی طور پر ہوتا یہ ہے ہماری حکومتوں کے کرتا دھرتا، چند بیوروکریٹس کی ملی بھگت سے، پہلے تو اشیائے خورونوش کو برآمد کر کے مال بناتے ہیں۔ جب ملک میں ان اشیاء کی قلت پیدا ہو جاتی ہے تو وہی اشیاء درآمد کر کے اپنی حرام آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں۔

دوسرا مرحلہ قیمتوں کے تعین کا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا بھی کوئی مخصوص میکانزم موجود نہیں ہے۔ یہ اختیار ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرول کمیٹی کو دیا گیا ہے جس میں تاجر تنظیموں کو بھی نمایندگی دی جاتی ہے۔ قیمتیں مقرر کرنے کے لیے مذکورہ کمیٹی کا ایک اجلاس بلایا جاتا ہے۔ دوران میٹنگ تاجروں کے نام نہاد نمایندے انتظامیہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اشیائے ضروریہ کے جو نرخ کمیٹی مقرر کر رہی ہے اس پر انھیں فروخت کرنا تاجروں کے لیے ممکن نہیں ہو گا، وہ پھر بھی خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ تاجروں کے حقیقی نمایندے ہوتے ہی نہیں، بلکہ انتظامیہ کے من پسند اور چنیدہ احباب ہوتے ہیں۔

اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے عام طور پر ضلعی افسروں کے ذریعے سے ملحقہ اضلاع کے مقرر کردہ نرخ لے لیے جاتے ہیں۔ پھر ان کی روشنی میں مکھی پر مکھی ماری جاتی ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں کوئی شے کس قیمت پر مل رہی ہے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا، آ ج بھی کوئی ڈپٹی کمشنر وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی طرف سے مقرر کردہ نرخ پر گوشت، دودھ یا دہی مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں کمی کے اثرات منافع خوروں کے باعث عوام تک منتقل نہیں ہو پا رہے، جس کی ایک بڑی وجہ حکومتی سطح پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے والے نظام کا غیر فعال ہونا ہے۔ کم آمدنی والے طبقے کو تحفظ دینے کے لیے حکومت کو سوشل سیکیورٹی کے اقدامات کرنا ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • حکمران عوام کے زندہ بیدار ایمان پروَر جذبات کی قدر کریں، لیاقت بلوچ
  • کتاب ہدایت
  • فلسطینی عوام یمن کے باوقار موقف کو کبھی فراموش نہیں کرینگے، ابوعبیدہ
  • یہ حکمران نہیں جیب کترے ہیں, مونس الٰہی
  • نیپرا کو نظرثانی درخواست سے متعلق سخت پالیسی پر تنقید کا سامنا
  • عوام ریلیف سے محروم کیوں؟
  • عمر رواں، ایک عہد کی داستان
  •  وزیراعلی پنجاب خاتون ہیں، انھیں احتجاج کرنے والی خواتین کا کیوں خیال نہیں؟ حافظ نعیم الرحمن 
  • پی آئی اے طیارہ حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانیوالے ظفر مسعود نے حادثے کے بعد کے تجربات پر کتاب لکھ دی
  • غزہ میں پانی کا بحران سنگین، چند لٹر پانی کے لیے میلوں سفر