وادی پر خار میں پھول کھلنے کا وقت !
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
جنہیں موسم خزاں پسند ہے وہ چاہتے ہیں کہ نئی کونپلیں نہ نکلیں پھول پتے نمو دار نہ ہوں اور ان پر رنگ برنگی تتلیاں نہ منڈلائیں مگر فطرت ایسا نہیں چاہتی لہٰذا یہ خزاں ر±ت باقی نہیں رہے گی بہار میں بدل جائے گی پھر فضا خوشبووں سے رچ بس جائے گی ماحول میں تازگی اور خوشگواریت کا احساس ہوگا لہٰذا چہروں پر پھیلی ہوئی پژمردگی و اداسی دکھائی نہیں دے گی۔اسی طرح ہم پر امید ہیں کہ سیاست کی دنیا میں جو حزن و ملال کی لہر ابھری ہوئی ہے قہقہوں میں بدل جائے گی۔اگر چہ دوسروں کے د±کھوں کو محسوس نہ کرنے والے حالت موجود کو اِدھر ا±دھر نہیں ہونے دینا چاہتے اور ہر روز اس کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ” ویلے دی اکھ نے“ د±ور کہیں کسی روشن چراغ کو دیکھ لیا ہے لہذا روشنی پھیلنے کا آغاز ہو چکا ہے اور اب ہر شے واضح نظر آئے گی۔
اس نظام کو اس سوچ کو بدلنے کے لئے کوئی آئے بلکہ آرہا ہے یہ کیسی بات ہے کہ لوگ د±کھ جھیلتے چلے آئیں اور وہ طبقہ جسے اشرافیہ کہتے ہیں ان پر مسلسل حکمرانی کرتا چلا آئے اور اپنے لئے ہر آسانی اور راحت کا سامان پیدا کر لے۔غریبوں کے مسائل کو بھاری پتھر جان کر نظر انداز کردے اور وہ سوچوں میں گ±م ہو جائیں ان سے یہ نہ پوچھ سکیں کہ تم ہی کیوں ریاستی وسائل کے حق دار ہو تم ہی کیوں بار بار اقتدار میں آتے ہو کبھی کوئی کبھی کوئی ٹیکس لگاتے ہو مہنگائیوں کے سائیکلون برپا کرتے ہو اور اس تکلیف دہ نظام کا تحفظ کرتے ہو ؟ مگر اب یہ مشق جاری نہیں رہ سکتی کیونکہ بیداری نے ہر غریب کے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔پہلے وہ جو ہر حکمران سے کسی بہتر کی آس لگاتے تھے اب ان کے ہاتھ سے اس آس کا دامن چھوٹ چکا ہے لہٰذا وہ ماضی کی سیاست کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور جو ایک نیا چہرہ ابھر کران کے سامنے آیا ہے اس کے پیچھے چل پڑے ہیں ۔
جی ہاں !عمران خان کو عوام کی غالب اکثریت نے اپنا لیڈر مان لیا ہے وہ اس کی ہر ادا پر صدقے واری جا رہے ہیں اس نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ عوامی ہے اس نے پ±ر آسائش طرز بود و باش سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ لہٰذا وہ کوئی مطالبہ نہیں کر رہا اور کسی ڈیل کے ذریعے باہر نہیں آنا چاہتا کہ ویسے بھی وہ زنداں میں رہنے کا عادی ہو چکا ہے مگر کب تک آخر کار اسے باہر آنا ہی ہے کیونکہ جب وہ اس نظام کو تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اس کا زنداں میں تادیر رہنا ممکن نہیں۔
بہرحال عوامی امنگوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ستتر برس بیت گئے اور اشرافیہ اب بھی چاہتی ہے کہ یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھے مگر اس کے لئے وقت سازگار نہیں یہ سماں اور یہ ر±ت بدل کر رہے گی چاہے کوئی بھی بدلے مگر وہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ سب کچھ جوں کا توں رہے اس مقصد کے لئے وہ اپنے تئیں مختلف النوع حکمت عملیاں اختیار کر رہی ہے اور جاگے ہوئے ذہنوں کو سلانے کی سعی کر رہی ہے اِس میں ا±سے کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ خیر اب جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے باضابطہ نئے صدر بن چکے ہیں اور روایتی سیاست و پالیسیوں سے الگ ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں تو ہمارے اہل اختیار ان سے پہلی سی محبت کے خواہاں ہیں مگر انہیں کیوں یہ معلوم نہیں کہ وہ روایتی سیاست کو ترک کرنے جا رہے ہیں اس کا اظہار وہ باقاعدہ کر چکے ہیں وہ دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہی چاہتے ہیں امن و آشتی کی بات کر رہے ہیں عوامی مینڈیٹ کا احترام ان کے پیش نظر ہے اس پر ہمارے کرتا دھرتا کسی گہری سوچ میں پڑ گئے ہیں مگر یہ نظام یہ طرز عمل بدلنا ہی ہے ٹرمپ بدلیں یا نہ بدلیں عوام خود بدلیں گے ان کے صبر کا پیمانہ
لبریز ہوچکاہے اس کا ثبوت وہ آٹھ فروری کو دے چکے ہیں اس وقت بھی انتخابات ہو جائیں تو بھی پی ٹی آئی واضح اکثریت سے جیتے گی اس کا ادراک اہل حکومت کو بخوبی ہو گا۔ بات صاف اور سیدھی ہے کہ خان لوگوں کے اذہان کو اپنی مخصوص فکر سے گرفت میں لے چکا ہے لہٰذا وہ حکومت کی کسی منصوبے اور کسی بیان کو تحسین کی نگاہوں سے نہیں دیکھ رہے ان کا موقف ہے کہ جو حکومت ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اقتدار میں آئے اس کی کوئی بات بھی قابل قبول نہیں یہی وجہ ہے کہ اس کے چند ایک فلاحی پروگرام بھی ان کی توجہ حاصل نہیں کر پا رہے کہ انہیں تو اس نظام کو بدلنا ہے کہ جس میں مساوات ہو ان کے حقیقی نمائندے انہیں جواب دہ ہوں وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم پھر نہ رہے ہوں ان کی دولت میں اضافہ نہ ہوتا ہو اور اگر ہو بھی تو اسے بحق سرکار ضبط کر لیا جائے مگر ایسا بڑی جدوجہد سے ممکن ہو سکے گا کیونکہ یہ نظام بڑا ہی طاقتور ہے عمران خان اس نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش تو رکھتا ہے مگر اسے قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا ہے اور سلاخوں کے پیچھے بیٹھا ہے۔حیرانی ہوتی ہے کہ وہ ابھی تک اپنے نظریے پر ہی قائم ہے جبکہ ماضی میں بہت سے سیاست دان نیویں نیویں ہوکر باہر آگئے مگر اس میں اتنی جرات و ہمت کہاں سے آگئی ہے کہ وہ چودہ برس کی سزا پر بھی مسکرا رہا ہے شاید اسے یہ یقین ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں پھر اب تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس کی رہائی چاہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے حکومت کو کوئی فون نہیں کیا مگر ان کے بعض حکومتی عہدیدار خان کی رہائی کا کہہ رہے ہیں وہ حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں یا نہیں جلد معلوم ہو جائے گا ویسے کچھ کچھ لگ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ضرور کوئی بات ہو رہی ہو گی کیونکہ ہم قرضے لے کر جوان ہوئے ہیں آئندہ بھی اپنا ان پر ہی انحصار ہے کیونکہ جو دولت چھپائی گئی ہے اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتے کہنے والے کہتے ہیں کہ اسی لئے ہی موجودہ فرسودہ اور تکلیف دہ نظام کو بدلا نہیں جا رہا مگر وادی¿ پ±رخار میں زندگی کا پھولوں کی مہک میں گزرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے !
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اس نظام کو کرتے ہو چکے ہیں رہے ہیں ہیں کہ کے ہیں
پڑھیں:
کوچۂ سخن
غزل
جانے والے جا کر آنا بھول گئے
خوشبو ٹھہری، ہاتھوں آئے پھول گئے
کالے بادل ہم نے خود ہی تان لیے
اونٹوں والے چھوڑ کے اجلی دھول گئے
کیسے لوگوں کے پہلو میں بیٹھے تھے
لوگ وہ اجڑے، اپنے سب معمول گئے
تب تھا اس جانب کو تکنا بار تجھے
اب کیا ہو گا دن تھے وہ معقول، گئے
پیاسے تھے جو تم سے ملنے آئے تھے
ہم نے دیکھا تم جو ہو مشغول، گئے
پاگل کرنے والی رت ہے ساون کی
اپنی بانہیں، تیری جان کے جھول گئے
اس نے قتل کیا ہے پھر سے ارماں کا
دے کر وعدوں کو وہ اپنے طول گئے
اک اندر تھا، اک باہر سیلاب نہ پوچھ
جو تحویل میں نامے تھے منقول، گئے
حسرتؔ کتنے کچّے یار ہیں اب دیکھو
ایک ذرا سی بات ہوئی اور پھول گئے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)
...
غزل
چشم سے نکلے ہوئے ہیں کس طرح چشمہ و سیلاب دیکھ
اور ہر سیلاب میں اٹھتے ہوئے گرداب دیکھ
جو بھی نکلے سربکف نکلے، سحر دم شہر میں
اِس عجب شہرِ تمنا کے عجب آداب دیکھ
کیا خبر کیا ہو پسِ گل ہائے مہر و التفات
پردۂ شیریں دہن میں تلخیٔ زہراب دیکھ
اے مری شوریدگی مجھ کو ذرا سستانے دے
آ مرے پائے شکستہ، آ مرے اعصاب دیکھ
نیند بستہ آنکھ میں پھر سے نئی تعبیر ڈھونڈ
روزنِ چشمِ تصور میں سہانے خواب دیکھ
سوزؔ ایسے بھی سلجھتی ہیں کہاں یہ گتھیاں
عشق کے عنوان سے پہلا خودی کا باب دیکھ
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)
...
غزل
چھپا لی اپنی صورت کیوں دکھا کر
مریض عشق پر کچھ تو دیا کر
ملی آخر ہے بس اک گھونٹ نفرت
زباں پر سچ میں آیا تھا سجا کر
مسیحا عشق کو سمجھا ہے دل نے
مسیحا، درد کی میرے دوا کر
ملے گا خاک میں اک دن تو وہ بھی
جو خوش ہے، میری ہستی کو مٹا کر
کوئی تو عرش پہ، پہنچے گی آخر
دعا کر، بدگماں دل، بس دعا کر
چلے آئے ہیں لے کے درد پیہم
گئے تھے اس گلی، یہ دل منا کر
تپش یادوں کی گھٹتی ہی نہیں ہے
گیا تھا کوئی اپنے، خط جلا کر
(عامرمعانؔ۔ کوئٹہ)
...
غزل
اجنبی سے کب تحفے میں گلاب لیتے ہیں
اس طرح کی صورت ہو تو حجاب لیتے ہیں
خودکشی پہ مائل لگتے ہیں قافلے والے
تشنگی ہے تو کیوں راہِ سراب لیتے ہیں
ایک شخص مجھ کو ڈھیروں دعائیں دیتا ہے
فجر سے سویرے جب آفتاب لیتے ہیں
وہ زمانے کے خال و خد میں کام آئے گی
چل، امام سے اک مٹھی تراب لیتے ہیں
عشق چھوڑ کر تجھ سے صرف دوستی کر لوں؟
کب سمندروں کے عادی،چناب لیتے ہیں
یہ چراغ تو مدعو کرتے ہیں قزاقوں کو
اس لیے ہوا اکثر ہم رکاب لیتے ہیں
ہم نے آبلے بے توقیر کر لیے ساگرؔ
لوگ تو ارادے کا بھی ثواب لیتے ہیں
(ساگر حضورپوری۔ سرگودھا)
...
غزل
بہت تھوڑا سا اسبابِ سفر رکھے ہوئے ہے
جبھی وہ اپنی گاڑی تیز تر رکھے ہوئے ہے
میں دن ڈھلنے سے پہلے گھر پہنچنا چاہتا ہوں
یہی خواہش مجھے محوِ سفر رکھے ہوئے ہے
مرے دشمن، اسے سکھلا تعاقب کا سلیقہ
ترا جو آدمی مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے
وہ اچھا تیرنے والا ہے لیکن اُس بھنور میں
بمشکل خود کو سطحِ آب پر رکھے ہوئے ہے
ہمارے ساتھ چل سکتا ہے جو بھی چلنا چاہے
مگر وہ شخص جو راہ ِ مفر رکھے ہوئے ہے
پریشاں دیکھ کر عزت سے پیش آتی ہے دنیا
ترا غم مجھ کو کتنا معتبر رکھے ہوئے ہے
تمہی اذنِ سفر دینے سے کترانے لگے ہو
حسن تو اپنا ساماں باندھ کر رکھے ہوئے ہے
(وقار حسن۔ خوشاب)
...
غزل
اک کردار کہانی سے
بھاگ آیا آسانی سے
بات کروں کس سے آخر
ریت سے یا پھر پانی سے
تم انسان نہیں لگتے
آنکھوں کی ویرانی سے
جل پریوں نے گیت سنے
ریگستان کی رانی سے
بھول گیا وہ چہرہ بھی
کیسے خوش امکانی سے
ایک ستارہ جھانکتا ہے
نور بھری پیشانی سے
مٹی کے پُتلے ہیں آخر
بِکتے ہیں ارزانی سے
کوئی بات نہیں سنتا
کہہ دو گر حیرانی سے
( زاہد خان ۔تحصیل پہاڑپور، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان)
...
غزل
مصیبت آن پڑتی ہے کہ جب کوئی نہیں رہتا
تو پھر ایسے میں جینے کا سبب کوئی نہیں رہتا
یہ میرے جسم کا زنداں ہے خالی ایک مدت سے
یہاں رہتا تھا پہلے میں پر اب کوئی نہیں رہتا
ضرورت ہو دلاسے کی تو کاندھے روٹھ جاتے ہیں
دعا کی گر ضرورت ہو تو لب کوئی نہیں رہتا
مری آنکھیں اسے دیکھیں تو سجدے میں چلی جائیں
کہا کس نے محبت میں ادب کوئی نہیں رہتا؟
ارے ارباب چاہت میں نہیں مرتا کوئی مانا
مگر یہ بات ہے جینے کا ڈھب کوئی نہیں رہتا
(ارباب اقبال بریار۔واہنڈو، گوجرانوالہ)
...
غزل
حیراں ہوں پریشاں ہوں نہ ہاتھوں کو ملوں ہوں
اپنا ہی بدن لے کے سرِ دار چلوں ہوں
رہوار مری خاک ہے سوچیں ہیں علا تک
صدقے انہی سوچوں کے جہنم میں جلوں ہوں
کیوں دیکھوں کسی سمت میں اے جاذبِ ہستی
میں خود بھی تری یاد کے ٹکڑوں پہ پلوں ہوں
ہر سمت سے ہی رسوا ہوں وللہ میں کروں کیا
گر رنج کو بھایا ہوں تو خوشیوں کو کھلوں ہوں
ہووے نہ کسی اور سے جو میں نے کیا ہے
کیوں در پہ ترے بیٹھوں میں ٹالے نہ ٹلوں ہوں
(علی رقی۔ فیصل آباد)
...
غزل
تکتے رہتے ہیں لکیریں دست کی
ہم سے بنتی کیوں نہیں ہے بخت کی
ہم ہیں راضی با رضا ہر حال میں
دل میں حسرت کب ہے تاج و تخت کی
دل اچھل کر پھر حلق تک آگیا
اس نے یونہی بات چھیڑی رخت کی
جان سے پیارے تھے اس کو ہم کبھی
بات لیکن ہے یہ بیتے وقت کی
اس کا ملنا ہی مقدر میں نہ تھا
دیر سے ہم بات سمجھے بخت کی
اس کی آنکھیں اس قدر ویران تھیں
جیسے کوئی سرزمیں ہو دشت کی
ایرے غیرے کو سمجھ آتی نہیں
بات گہری ہے قلندر مست کی
وہ سمے کے ساتھ چلتا ہے میاں
جو سمجھتا ہو طبیعت وقت کی
گھر کی ساری برکتوں کو کھا گئی
تو تو، میں میں، ہرگھڑی، ہر وقت کی
دل ہجوم شہر سے اکتا گیا
پھر ڈگر راحلؔ پکارے دشت کی
(علی راحل۔ بورے والا، پنجاب)
...
غزل
مرا خیال دل بے ضمیر پر اگتا
یہ کوئی زخم نہ تھا جو سریر پر اگتا
تری توجہ کے دریا کہاں ضروری تھے
میں وہ شجر تھا جو آنکھوں کے نیر پر اگتا
تمھارے بعد بجھا ہوں سو کیسی حیرانی
میں دن نہیں تھا جو شب کے اخیر پر اگتا
یہ شکر ہے کوئی تہمت نہیں ملی ورنہ
یہ موتیا بھی مزارِ فقیر پر اگتا
یقیں کریں نہ کریں پر سبھی نے دیکھا تھا
کسی کے ہاتھ میں سورج غدیر پر اگتا
(حسیب الحسن۔ خوشاب)
...
غزل
میں تو محبوب تیرا غم بھی گوارا کرتا
کاش کہ تو بھی مجھے غم میں پکارا کرتا
یہ تیری شوخ ادائیں ہی تیری دشمن تھی
میں تو ہر وقت تیری نظر اتارا کرتا
میں نے جب ساتھ نبھانے کی قسم کھائی تھی
میں تو ہر حال سے اس دل کو گزارا کرتا
تم سے پہلے بھی بہت درد سہے ہیں میں نے
ہر نیا زخم پرانوں کو ابھارا کرتا
تب بھی ارسلؔ مجھے ان سے ہی جدا ہونا تھا
گر میں اس پیار کو ارسل جو دوبارہ کرتا
(ارسلان شیر ۔ کابل ریور ،نوشہرہ)
...
غزل
اس کو دل میں بسا دیا میں نے
یوں دل اپنا گنوا دیا میں نے
بااثر شخص بے وفا نکلا
دل جلا کر جلا دیا میں نے
اب میرے سر پہ چھڑ گیا پاگل
جس کو سر پر چڑھا دیا میں نے
مسکرا کر کسی سے یوں بولے
اس کو پاگل بنا دیا میں نے
بس یہی جھوٹ روز کہتا ہوں
اس کو سچ مچ بھلا دیا میں نے
( عاطف خان ۔ڈھکی خورہ آباد، ضلع چارسدہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی