یوں توحالات اور نظام پورے ملک کا ٹھیک نہیں، طبقاتی سسٹم, اقرباپروری اور لوٹ مار کی وجہ سے ہم ترقی اور خوشحالی کے بجائے آئے روز تنزلی اور تباہی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہر شخص اور فرد اپنی جگہ پریشان اور حالات سے بیزار ہے۔ غریبوں بالخصوص نچلے طبقے کا تو اب ہر چڑھتے سورج کے ساتھ جینا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے لیکن نئے پاکستان کے تخلیق کاروں کے صوبے میں حالات بد سے بھی بدتر ہیں۔ جب سے اس صوبے پر پی ٹی آئی مارکہ حکمرانوں کاسایہ پڑاہے تب سے صوبہ تباہ ہوکررہ گیاہے۔دس سال سے جاری اس بچگان حکمرانی کے کمالات و کرامات عالیہ کے باعث نہ صرف اکثر سرکاری محکمے اور ادارے بربادی کے سفر پر گامزن ہو چکے ہیں بلکہ ان اداروں و محکموں سے وابستہ اہلکار اور ملازمین بھی پی ٹی آئی کے ماہر معیشت دانوں، دانشوروں اور فلاسفروں کی کوکھ سے نکلنے والی نام نہاد اصلاحات کی بوریاں سر پر اٹھائے حال اور مستقبل دونوں سے ناامید و مایوس ہو کر آنسو بہا رہے ہیں۔ اصلاحاتی ڈراموں کے ذریعے اداروں اور محکموں کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد اب پنشن اصلاحات کے نام پر تمام سرکاری ملازمین کی امیدوں اور امنگوں کا ایک ہی بار جنازہ نکالنے کی کوششیں بھی شروع کردی گئی ہیں۔صوبے کے سرکاری ملازمین پی ٹی آئی حکمرانوں کی ان تازہ اداں اورحرکات نادانی پرسراپااحتجاج ہیں جن کی آوازسننے کے بجائے ان پرطاقت کااستعمال کرکے انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جو لوگ وفاقی حکومت اور اسلام آباد پر غیرقانونی چڑھائی کے دوران اپنے اوپر پڑنے والے ڈنڈوں کو ظلم اور بے انصافی سے تعبیر کر کے نہیں تھکتے تھے اب وہی لوگ جائز احتجاج پر بے گناہ اور نہتے سرکاری ملازمین پر ڈنڈوں کی بارش کو کوئی بڑا ثواب سمجھ رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین پر ڈنڈے برسانے والے حکمران یہ بھول رہے ہیں کہ اس ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس سرکاری ملازمین ہی دیتے ہیں باقی لوگ تواپنی مبارک زبانوں پرٹیکس کانام لینا بھی گوارہ نہیں کرتے۔اس ملک میں جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کے روپ وشکل میں بڑے بڑے مگرمچھ ہیں۔ ان مگرمچھوں کے پاس نہ صرف کل سرمایہ بلکہ ان کی ماہانہ وروزانہ کی آمدن بھی ان سرکاری ملازمین سے ایک نہیں کئی سوگناہ زیادہ اوربڑھ کرہے پر اس کے باوجودیہ بڑے بڑے مگرمچھ اتناٹیکس نہیں دیتے جتناٹیکس اس ملک میں سرکاری ملازمین دیتے ہیں لیکن پھربھی مجرم اورگناہ گاراس ملک کے سرکاری ملازمین ہی ہیں۔ملازمین سارے ججزاوربیوروکریٹ کی طرح نہ توبھاری تنخواہیں لیتے ہیں اورنہ ہی بادشاہوں جیسی مراعات بلکہ ملازمین میں اکثریت توایسوں کی ہے کہ جن کا گزر بسر ہی ماہانہ تنخواہ اورپنشن پر ہوتا ہے۔ ملازمین مہینے بھرکی محنت اور مشقت اسی تنخواہ اور زندگی بھر کی جدوجہد پنشن کےلئے تو کرتے ہیں۔ زندگی کے قیمتی سال یہ ملازمین سرکاری محکموں اور اداروں کےلئے اس لئے قربان کرتے ہیں کہ انہیں عمر کے آخری حصے کےلئے پنشن کی امید ہوتی ہے۔ پنشن ہی تو سرکاری ملازمین کا آخری اور واحد سہارا ہے۔ اکثر سرکاری ملازم اس قابل نہیں ہوتے کہ نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد بقایا زندگی کےلئے ان کے پاس سرچھپانے کےلئے اپنی جگہ,بچوں کو کھلانے کےلئے روٹی اور بدن ڈھانپنے کےلئے کپڑا ہو۔ جاگیرداروں، سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کی طرح سونے، چاندی اور ڈالروں سے بھری تجوریاں تو ان کے پاس ہوتی نہیں کہ ان پر پھر یہ مرنے تک عیش و عشرت کرتے پھریں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہی پنشن ہی تو سرکاری ملازمین کے جینے کا ایک ذریعہ ہے جس پرملازمین زندگی کے باقی شب وروزآرام وعزت سے گزاردیتے ہیں۔ان سے اگریہ ذریعہ بھی چھیناجائے توپھرسرکاری نوکریوں میں زندگی کھپانے کی کیاضرورت یاکیافائدہ۔۔؟سن کوٹے والے درتوپہلے ہی انصاف پسندوں کوبندکردیاہے۔لوگ سرکاری نوکری کےلئے محنت، کوشش اور جدوجہد ہی تو پنشن کےلئے کرتے ہیں ورنہ باہر تو سرکار سے اچھی تنخواہوں پر کام اور نوکریاں ملتی ہیں۔ کیا اندرون و بیرون ممالک پرائیوٹ نوکریوں کے ذریعے لوگوں نے اپنے ذاتی مکان، دکانیں، مارکیٹ اورپلازے نہیں بنائے۔؟جن لوگوں نے جی بھرکراس ملک کولوٹااب وہ کہہ رہے ہیں کہ سرکاری ملازمین،ان کی تنخواہیں اور پنشن خزانے پر بوجھ ہے۔ یہ ہر دوسرے دن وزیروں،مشیروں اورممبران اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں جو دو سو اور تین سو فیصد اضافہ ہوتاہے کیایہ خزانے پربوجھ نہیں۔؟سرکاری نوکریوں اورپنشن کوکسی اورنے نہیں انہی لوگوں نے جوآج اسے بوجھ قراردے رہے ہیں خودبوجھ بنایا ہوا ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کے بارے میں کوئی یکساں نظام اور پالیسی نہیں۔ ہر محکمے اور ادارے میں تنخواہوں اور پنشن کا الگ قانون، الگ نظام اور مختلف پالیسی ہے۔ ایک ہی سکیل کا ایک ملازم ایک محکمے اورادارے سے چالیس پچاس ہزارتنخواہ لے رہاہے تواسی سکیل میں دوسرے محکمے کے ملازم کو ستراسی ہزارتنخواہ مل رہی ہوتی ہے یہی حال تنخواہوں کے ساتھ پنشن اورمراعات کابھی ہے۔ خزانے پر اصل بوجھ تنخواہوں، مراعات اور پنشن میں یہ تفریق ہے لیکن یہ ظلم کسی کونظرنہیں آرہا۔غریب کے منہ میں روٹی کاخشک نوالہ توسب کونظرآرہاہے پربڑے مگرمچھوں کے پیٹ میں جانے والے بڑے بڑے بکرے کسی کو نظر نہیں آ رہے۔ ڈبل پنشن پر ایک نہیں ہزار بار پابندی لگانی چاہئیے کہ یہ ظلم ہے لیکن پنشن اصلاحات کی آڑمیں غریب ملازمین کی پنشن سے کٹوتی،بیواؤں اوریتیموں پرپنشن کی بندش یہ کوئی انصاف نہیں بلکہ یہ ظلم سے بھی بڑاظلم ہے۔ہمارے حکمرانوں کوغریبوں کے خشک نوالے پرنظررکھنے کے بجائے اپنے گریبان میں بھی ذرا جھانکنا چاہئے۔ پنشن سے بہت سارے گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔اب ریٹائرمنٹ کے بعدجولوگ کام کاج کے قابل ہی نہ ہوںان کی پنشن اگربند یاکم کی جائے توپھران کا گزاراکیسے ہوگا۔پنشن یہ نہ صرف غریب سرکاری ملازمین بلکہ بے بس اورمحتاج بزرگوں کابھی آخری سہارا ہے۔ اس لئے حکمرانوں کو پنشن اصلاحات کے ذریعے سرکاری ملازمین کو ٹینشن دینے سے گریز کرنا چاہئے بلکہ پنشن کے ساتھ سرکاری ملازمین کےلئے ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد غریب سرکاری ملازمین بھی حکمرانوں، سیاستدانوں، ججز اور بیوروکریٹ کی طرح زندگی کے باقی شب وروز آرام وسکون سے گزارسکیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری ملازمین زندگی کے اور پنشن رہے ہیں پنشن کے اس ملک ہیں کہ
پڑھیں:
اداروں سے ملازمین کی چھانٹیاں اور ملکی ذرائع ابلاغ کی بے حسی
میڈیا کو محنت کشوں سے مطلب نہیں، رپورٹنگ یکم مئی تک محدود ہے کے عنوان سے ایک رپورٹ قاضی سراج (مرحوم) نے شائع کی تھی۔ مرحوم نے لکھا تھا کہ پاکستان کے بڑے روزنامے جن کی اشاعت لاکھوں میں بتائی جاتی ہے‘ میں محنت کشوں کی خبروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے‘ بڑے روزنامے مزدوروں کی خبریں جب ہی شائع کرتے ہیں کہ جب بڑا حادثہ ہوجائے۔ روزنامہ جسارت اول روز سے مظلوم طبقوں کی نمائندگی کرتا ہے‘ روزنامہ جسارت 1991ء سے صفحہ محنت شائع کررہا ہے جس میں محنت کش برادری کی خبریں بلاامتیاز شائع کی جاتی ہیں‘ برصغیر میں صرف روزنامہ جسارت ہی صفحہ محنت شائع کرتا ہے۔ قاضی سراج کو اللہ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ مرحوم ہمیشہ ملکی میڈیا کا محنت کشوں کے ساتھ رویوں پرلکھتے تھے۔ ملک کے چوتھے ستون میڈیا کے ایک بڑے پرنٹ اور الیکٹرانک چینل حکومت کی آشیرواد سے روزانہ کی بنیاد پروفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پالیسی کی خبریں شہ سرخیوں میں شایع/نشر کرتا ہے۔ سوائے یوم مئی کے مجال ہے جو ملازمین کے حقوق کے بارے میں خبر جاری کرے۔ جن حکمرانوں سے ملک کے دوچار چھوٹے چھوٹے ادارے نہیں چل سکتے وہ ملک چلانے کا دعوی کیونکر کرسکتے ہیں لیکن ایسا تو برسہا برس سے ہورہا ہے، پاکستان اسٹیل کو تباہ کردیا گیا، شپ یارڈ تباہی کے قریب ہے کے ای ایس سی نہیں چل سکی ، پی ٹی سی ایل نہیں چلا سکے بیچ دی ، ریلوے بیچنے کی باتیں ہوتی رہیں اور پی آئی اے کو تو بیچنے کے لیے رکھ ہی دیا۔ لیکن اب پتا چلا کہ ان حکمرانوں کے بس میں تو کوئی ادارہ چلانا یا اسے بیچنا بھی نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ متعلق کمیٹی نے چوتھے مرحلہ میں وزارت مواصلات، ریلوے، تخفیف غربت و سماجی تحفظ، ریونیو ڈویژن، پٹرولیم ڈویژن اور ان سے منسلک محکموں کی رائٹ سائزنگ کا جائزہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پالیسی تحت وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں اور ان کے محکموں میں گریڈ ایک سے 22تک کی 4816 پوسٹوں کو ختم (Abolished) اور 1954پوسٹوں کو متروک (dying) قرار دے دیا گیا۔ مجموعی طور پر 6770پوسٹیں ختم کی گئی ہیں۔ پاکستان پوسٹ میں گریڈ ایک تا 15 کی مزید 1511 پوسٹوں کو ختم (Abolish) کر دیا گیا۔ ادارے کے ہیڈکوارٹر سے جاری سرکلر کے مطابق قبل ازیں 2000 پوسٹوں کو ختم اور 105پوسٹوں کو متروک ( dying) قرار دیا جا چکا ہے۔ اس طرح اب تک مجموعی طور پر ادارے سے 3616 پوسٹیں ختم کی جا چکی ہیں۔ وزارت صنعت و پیداوار کے مطابق حکومت 16 اداروں کی بندش یا نجکاری پر غور کر رہی ہے، جس میں نیشنل فرٹیلائزر کمپنی (NFC)، پاکستان آٹوموبائل کارپوریشن (PACO)، اور نیشنل پروڈکٹیویٹی آرگنائزیش (NPO) اور یوٹیلیٹی اسٹورز آرگنائزیشن جیسے اہم ادارے شامل ہیں۔ مزید یہ کہ ’’ہم آئندہ 6 ماہ میں ان اداروں کی کارکردگی کو قریب سے مانیٹر کرتے رہیں گے۔ اگر وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تو ہم انہیں بند کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے،‘‘ وزارت ہا ئوسنگ و تعمیرات کے ذ یلی ادارے نیشنل کنسٹر کشن کمپنی(NCL)کو بند کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ آئندہ یہ ادارہ کوئی نیا پراجیکٹ شروع نہیں کرے گا۔ پاک انوائر مینٹل پلاننگ اینڈ آرکیٹکچرل کنسلٹنگ (PEPAC) کو بھی بند کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ ادارہ بھی آئندہ کوئی نیا پراجیکٹ شروع نہیں کرے گا۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کو 30 جون 2025 تک بند کرنے منظوری دی گئی۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے 4 اداروں کونسل فار ورکس اینڈ ہاوسنگ ریسرچ (سی ڈبلیو ایچ آر)، پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (پی سی ایس ٹی)، سائینٹیفک ٹیکنالوجیکل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (سٹیڈک) اور کاسمیٹک اتھارٹی آف پاکستان کو بند کرنے اور پوسٹیں ختم کرنے کا کہا گیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے ڈیڑھ لاکھ خالی اسامیاں ختم کر دی ہیں، پہلے مرحلے میں 80 اداروں کو کم کر کے 40کر دیاگیا، وزارت امور کشمیر وگلگت بلتستان اور وزارت سیفران کو ضم کر دیاگیا اور وزارت کیڈ کو ختم کر دیا، مجموعی طور پر 43 وزارتوں اور ان کے ماتحت 400 اداروں میں رائٹ سائزنگ 30 جون 2025 تک مرحلہ وار مکمل کر لی جائے گی، رائٹ سائزنگ کے پہلے 3 مراحل مکمل کر لیے اور ان پر عملدرآمد جاری ہے، اس سے 900ارب روپے کے سالانہ حکومتی اخراجات میں خاطر خواہ کمی ہو گی، ایس او ایز اصلاحات میں کسی بھی وزارت کو استثنیٰ حاصل نہیں، ہمارے فیصلوں کے اثرات آئندہ مالی سال میں دکھائی دیں گے۔ اس وقت وفاقی حکومت کے سول ملازمین کی کل تعداد 5 لاکھ 90 ہزار 585 ہے جن میں سے گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین کی تعداد 5 لاکھ 63 ہزار 574 ہے جبکہ گریڈ 17 سے 22تک کے افسران کی تعداد27ہزار 11 ہے۔ وزارت خزانہ کی طرف سے وفاقی سرکاری اداروں میں مستقل پوسٹوں کو ختم کرنے کا مراسلہ جاری کیا گیا ہے۔ 2014 میں جب میاں نوازشریف وزیر اعظم تھے تو ایک خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمارا کام ادارے چلانا نہیں ہے۔ اب ان کے بھائی وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ادارے بیچنے ہیں۔ مقصد یہ ہوا کہ ن لیگ بے روزگاری کی بادشاہ ہے۔ ایک طرف اسامیاں ختم کرنے سے نوجوانوں کے لیے روزگار کے دروازے بند ہو جائیں گے تو دوسری جانب جو روزگار سے لگے ہوئے ہیں ان کی روزی روٹی چھینی جا رہی ہے۔ سیکڑوں ملکی اخبارات اور سوشل میڈیا ہونے کے باوجود کوئی بھی محنت کشوں کی خبروں کو شائع کرنے کو تیار نہیں ہے۔ قاضی صاحب مرحوم کی رپورٹ میں میرے بھی تاثرات تھے کہ صفحہ محنت نے سماج کے ایک آئینہ کے طور پر خدمات انجام دیں‘ محنت کشوں کے اصل مسائل اور خبروں کو بالکل صحیح انداز میں پیش کرتا ہے۔ جسارت چونکہ محنت کشوں کا ترجمان ہے، اس لیے ٹریڈ یونینز اور اس کے قائدین کے بارے میں معلومات کا ایک اہم ماخذ و ذریعہ تصور ہوتا ہے اور اس کی یہ اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ روزنامہ جسارت کا صفحہ محنت اور محنت کش طبقہ لازم و ملزوم ہیں جس طرح صفحہ محنت کو اس تاریخ سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح مزدور تحریک کو جسارت کے بغیر مکمل تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس بڑے کام کی انجام دہی کے لیے انچارج صفحہ محنت اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔