Nai Baat:
2025-04-15@09:07:51 GMT

عدلیہ کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

عدلیہ کا کردار

تاریخ کاسبق یہی ہے کہ اس سے کوئی کوئی ہی سبق سیکھتا ہے۔ہم تو بالکل بھی نہیں سیکھتے کہ ہم جو ٹھہرے دائروں کے مسافر۔نہ آگے بڑھنے کی لگن نہ چاہ اور نہ ہی راہ۔تھوڑے وقفے کے بعد اسی مقام پر کھڑے ہوتے ہیں یہاں سے مشکل سے گزرہوا تھا۔آج سپریم کورٹ اور حکومت کے حالات دیکھ کرانیس سو ستانوے یاد آگیا۔یہی کچھ تھاجو آج ہے بس اس وقت حکمران نوازشریف تھے آج ان کے بھائی ہیں۔
فروری 1997میں عام انتخابات میں مسلم لیگ ن دوتہائی اکثریت کے ساتھ حکومت میں آگئی ۔ نوازشریف وزیراعظم بنے جوایک بار آٹھویں ترمیم سے خود اوردوبار بے نظیر کواسی صدارتی اختیار کا شکار ہوتے دیکھ چکے تھے۔اب تہیہ کیا کہ اس اختیار کو ختم کریں گے تاکہ قصر صدارت سے جو خطرہ ہر وقت لب بام رہتا ہے اس سے تو چھٹکارا پایا جائے ۔اختیار بھی پاس تھا کہ دوتہائی اکثریت کی حکومت تھی۔موقع بھی تھا کہ فاروق لغاری صدر تھے اورایک حکومت کو شکار کرچکے تھے۔منہ کو خون تو لگ ہی چکا تھا ۔نوازشریف پیچھاچھڑانا چاہتے تھے کہ جس صدر نے اپنی پارٹی کی وزیراعظم کا خیال نہ کیا اورحکومت توڑ کر گھر بھیج دیا وہ نوازشریف کو کیونکر بخشیں گے۔اصل کشمش یہ تھی کہ اگر فاروق لغاری کوہٹانے کا کام فی الحال نہ بھی ہو لیکن کم از کم ان سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار فوری چھین لیا جائے۔نوازشریف نے حکم کیا ۔آئین کی تیرھویں ترمیم تیار ہوئی اوراسمبلی سے پاس ہوکر قانون بن گیا ۔فاروق لغاری نہتے صدر بن کر رہ گئے۔
اس نقطے سے عدلیہ کی انٹری ہوگئی۔ جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے۔وہ تین سال سے اس عہدے پر تھے لیکن حکومتی معاملات میں ٹانگ اڑانے کا ٹریک ریکارڈ بالکل بھی نہیں تھا بلکہ یہاں تک ایک فیصلے میں کہہ چکے تھے کہ آٹھویں ترمیم ایک ڈکٹیٹرنے آئین میں ڈالی تھی اس کو ختم ہونا چاہئے لیکن اس کو ختم کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے ۔اسمبلی کو قانون سازی کے ذریعے اس ترمیم کوختم کرنا چاہئے۔ نوازشریف کے سامنے چیف جسٹس کایہ فیصلہ تھا اس لیے انہیں ذرا بھی خطرہ نہیں تھا کہ عدلیہ اس سیاسی معاملے میں دخل دے گی لیکن پاکستان میں کبھی کچھ بھی مستقل کہاں رہتا ہے۔
ایک طرف ایوان صدر تھا تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے حکومت سے اختلافات ہوگئے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں پانچ جج تعینات کرنے کے لیے بھجوائے تو وزیراعظم نوازشریف نے ان میں سے دونام مسترد کردیے بلکہ یہ تک کہا کہ سپریم کورٹ میں مزید ججز کی ضرورت ہی کیا ہے۔انہوں نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کم کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان اقدامات نے جسٹس سجاد علی شاہ کو طیش دلایا انہوں نے نوازشریف کو توہین عدالت میں سپریم کوٹ بلوالیاوزیراعظم نے توہین عدالت میں غیرمشروط معافی مانگ لی لیکن سجاد علی شاہ نے ان کی معافی قبول کرنے سے انکارکردیا۔اس بات پر حکمران جماعت نے شدید ردعمل دیا اورسپریم کورٹ پر حملہ ہی کردیا۔
اس وقت سیاسی افراتفری یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ سب کو مارشل لا ءلگنے کا یقین ہوگیا تھا۔ آرمی چیف جہانگیر کرامت نے حکومت مخالف قوتوں کا ساتھ دینے سے انکارکردیا کہ ابھی ملک میں الیکشن کو ہوئے نو ماہ بھی نہیں گزرے ہیں تو اتنی جلدی ایک اور الیکشن کیسے ہوسکتا ہے۔اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ سب جانتے تھے کہ اس وقت نوازشریف اپنی مقبولیت کے عروج پر ہے اسمبلی تحلیل بھی ہوگئی تو وہ دوبارہ جیت جائیں گے اس لیے اسمبلی توڑمہم ناکام ہوگئی ۔اس مہم کے ناکام ہونے کے بعد صدر فاروق لغاری کو استعفیٰ دینے پر رضامند کرلیا گیا۔فاروق لغاری راستے سے ہٹ گئے۔ وسیم سجاد جو چیئرمین سینیٹ تھے قائم مقام صدر بن گئے۔
اس کے بعد نوازشریف حکومت چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے نمٹنے کے لیے تیار ہوگئی۔سپریم کورٹ مکمل تقسیم ہوچکی تھی۔ سپریم کورٹ کے دس ججوں نے اپنے چیف جسٹس کو ان کی تقرری کے کیس میں بینچ کے سامنے بلوالیا۔اس کیس میں سپریم کورٹ کے باغی ججز نے اپنے ہی چیف جسٹس کو کام کرنے سے روک دیا۔یہ دسمبر 1997کا پاکستان تھا۔چیف اور صدر کو گھر بھیجنے کے بعد نوازشریف نے جسٹس اجمل میاں کو چیف جسٹس اور رفیق تارڑ کوصدربنادیا اورحکومت کرنے لگے۔انہوں نے آئین میں چودھویں ترمیم کی جس میں فلورکراسنگ پر پابندی لگادی گئی ۔تمام اختیارات صدرسے لے کر وزیراعظم کو دے دیے گئے۔آٹھویں ترمیم کا خاتمہ ہوا۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی نوازشریف کی حکومت مدت پوری کرنے میں ناکام رہی اور انجام مشرف کے مارشل لاپر ہوا۔
آج کی سپریم کورٹ میں بھی ستانوے جیسی صورت حال نظر آ رہی ہے۔ ملک میں جاری سیاسی تقسیم نے پاکستان کے سب سے بڑے عدل کے فورم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مسئلہ کسی اصولی مو¿قف سے جڑا ہوا نہ کل تھا نہ آج ہے۔ مسئلہ طاقت اور عہدے ہیں۔حکومت نے بندیال کی سپریم کورٹ اور اس سے پہلے ثاقب نثار کے ہاتھوں ”کمبل کُٹ“ کھانے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آئینی مقدمات جن سے براہ راست حکومت کے مفلوج ہونے کا خطرہ منڈلاتا ہے اس کا بندوبست کرنے کےلئے آئینی ترمیم لائی جائے۔ حکومت نے چھبیسویں آئینی ترمیم تو کرلی لیکن معزز مائی لارڈز میں جن کو اس ترمیم کا ”فیض“ باہم نہیں مل سکا وہ اب غصے میں ہیں۔جناب معزز مائی لارڈ منصور علی شاہ صاحب جنہوں نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرتے وقت آئین اور قانون کو نیپال بھیج کر آئین کی تشریح کی بجائے دوبارہ آئین تحریراس لیے کردیا کہ کہیں حکومت کو دوتہائی اکثریت نہ مل جائے کہ وہ آئین میں کوئی ترمیم کرسکے۔
حکومت تو حکومت ہوتی ہے اس نے آئینی ترمیم کا پھر بھی بندوبست کر لیا۔ چیف جسٹس بننے کے لیے ہر حد تک جانے کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے یحییٰ آفریدی کو منتخب کرلیا۔اوپر سے منصور علی شاہ صاحب کو آئینی بینچ سے بھی دورکردیا گیا۔ اب بھلے وہ قاضی ہیں جس کا کام آنکھوں پر پٹی باندھ کر انصاف کرنا ہے لیکن وہ ایک انسان بھی توہیں۔ یہ انسانی وصف ان کو چین ہی نہیں لینے دے رہا۔وہ ہر صورت اس ترمیم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات کو لپیٹنا چاہتے ہیں۔تازہ واردات سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹررارکیخلاف توہین عدالت کیس ہے جس کافیصلہ محفوظ ہے لیکن سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ اس ملک کے عوام کا بھی کوئی بھلا کبھی کرے گی یا طاقت کی لڑائی کا مہرہ ہی بنی رہے گی؟

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے فاروق لغاری انہوں نے چیف جسٹس کے لیے کے بعد

پڑھیں:

سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے ان ہی صوبوں سے نئے جج تعینات کیوں نہیں کیے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے اور قائم مقام چیف جسٹس کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی جس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے۔ دلائل کے آغاز میں وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو آرٹیکل 175 کے ساتھ دیکھنا چاہیے، ججز ٹرانسفر، فیڈرل ازم اور انتظامی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق دلائل دوں گا، اس پر جسٹس علی مظہر نے کہا ججز ٹرانسفر آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی، بہتر ہے دلائل کا آغاز بھی یہیں سے کریں، ہم ججز کو سول سرونٹ کے طور پر تو نہیں دیکھ سکتے۔ جسٹس علی مظہر  نے کہا کہ ایک جج کا ٹرانسفر 4 درجات پر رضامندی کے اظہار کے بعد ہوتا ہے، جس جج نے ٹرانسفر ہونا ہوتا ہے اس کی رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہونا ہوتی ہے اس کے چیف جسٹس سے رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ میں آناہوتا ہے اس ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی لی جاتی ہے، آخر میں چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی کے بعد صدر مملکت ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں، آپ کو اعتراض ٹرانسفر پر ہے یا سینارٹی پر؟ اس پر منیر اے ملک نےجواب دیا ہمارا اعتراض دونوں پر ہے۔

جسٹس علی مظہر نے کہا آپ نئے الفاظ آئین میں شامل کروانے کی بات کر رہے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی کیس میں آئین میں نئے الفاظ شامل کر کے نااہلی تاحیات کر دی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں تبدیل کیا گیا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے ان ہی صوبوں سے نئے جج تعینات کیوں نہیں کیے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ اس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے" اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری" کا ذکر آتا ہے۔ بعد ازاں آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنےکی استدعا مسترد کر دی، اس کے علاوہ ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کر دی گئی۔ بعد ازاں عدالت نے 5 ججز کی درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین، جسٹس محمد آصف اور جوڈیشل کمیشن سمیت اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 17 اپریل تک ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ 3 ججوں کی دوسرے ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبالے اور انہیں کام سے روکنے کے لیے 7 آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ درخواستوں میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے کی سینارٹی لسٹ کو بھی چیلنج کیا گیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی سمیت 5 ججوں نے سینارٹی لسٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ: سپر ٹیکس کا ایک روپیہ بھی بے گھر افراد کی بحالی پر خرچ نہیں ہوا، وکیل مخدوم علی خان کا دعویٰ
  • چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کرلیا
  • سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد
  • جنگلات اراضی کیس، تمام صوبوں اور وفاقی حکومت سے تفصیلی رپورٹس طلب
  • سپریم کورٹ: وفاقی حکومت اور تمام صوبوں سے جنگلات سے متعلق تفصیلی رپورٹس طلب
  • 9 مئی کے واقعات سے متعلق کیسز :سپریم کورٹ کا بڑا حکم
  • سپریم کورٹ نے جنگلات اراضی کیس میں واگزار کروائی گئی اراضی کی تفصیلات طلب کر لیں
  • جنگلات اراضی کیس: سپریم کورٹ نے تمام صوبوں اور وفاقی حکومت سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی
  • جنگلات اراضی کیس: درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل
  • 26 ویں ترمیم کی خوبصورتی عدلیہ کا احتساب، جو ججز کیسز نہیں سن سکتے گھر جائیں: وزیر قانون