Nai Baat:
2025-01-27@16:50:33 GMT

مدینہ منورہ یاد آتا ہے….!

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

مدینہ منورہ یاد آتا ہے….!

(گزشتہ سے پیوستہ)
مدینہ منورہ سے وابستہ یادوں، باتوں ، جگہوں اور مقامات کا خیال آتا ہے تو سچی بات ہے کہ نبی پاک کا مقدس شہر بہت یاد آتا ہے۔ دل میں کسی حد تک محرومی کا احساس ابھرتا ہے اور یہ فکر دامن گیر ہونے لگتی ہے کہ مدینہ منورہ کے قیام کے دواران مسجد نبوی میں جس طرح حاضری دینی اور روضہِ اقدس پر ہدیہ درود و سلام پیش کرنا چاہیے تھا، اس میں شاید کچھ کمی رہی ہے۔ خیال آتا ہے کہ مدینہ منورہ کی نورانی فضاﺅں اور پر کیف ہواﺅں کے جَلو میں مسجد نبوی کے اندر کے دور دور تک پھیلے محراب در محراب حسن و جمال اور زیبائش و آرائش کے پیکر بر آمدوں اور باہر کے وسیع و عریض صحنوں اور احاطوں جن میں فقید المثال ستونوں پر آویزاں خود کار چھتریاں کھلتی اور بند ہوتی ہیں میں گھوم پھر کر روحانی بالیدگی اور نورِ بصیرت کو سیمٹنا چاہیے تھا، اس میں بھی کمی رہی ہے ۔ دل کرتا ہے کہ ایک بار پھر نبی پاک کے مقدس شہر میں جانے کا موقع مل جائے تو مسجد نبوی ﷺ کے بلند و بالا میناروں اور پر نور گنبد خضرا کو دیکھ کر اپنے مقدر پر رشک کروں۔ مسجد نبوی میں نمازِ تہجد کے ساتھ پنجگانہ نمازیں اد ا کرنے کی سعادت حاصل ہو تو رو رو کر اپنی ، اپنے مرحوم والدین ، اپنے اہل و عیال ، عزیرواقارب ، دوست احباب کی بخشش اور مغفرت کی دعاﺅں کے ساتھ پاکستان کی سلامتی، تحفظ اور اس پر چھائے ادبار کے بادلوں کے چھٹ جانے کی التجائیں کروں۔ روضہِ اقدس پر حاضری نصیب ہو تو لڑ کھڑاتی آواز میں درودِ ابراھیمی کے ساتھ السلام علیک یا نبی کے کلمات ہی زبان پر جاری نہ ہوں بلکہ رو رو کر قلب و روح کی گہرائیوں سے حضورِ اقدس میں روزِ محشر اپنی شفاعت کی درخواست کروں۔ ریاض الجنتہ میں ایک بار پھر نوافل کا موقع ملے کہ اب سال میں صرف ایک بار یہاں داخلے کی پابندی ختم ہو چکی ہے تو وہاں بھی بخشش اور مغفرت کی دعائیں جاری نہ رہیں بلکہ یہاں کے بے مثال ستونوں کے حسن و جمال کو اپنے دل و دماغ میں اس طرح سمیٹوں کے ان کے خوبصورت نقش ونگار ہمیشہ نگاہوں کے سا منے رہیں۔ باہر کونے میں اصحابِ صُفہ کے چبوترے کا نظارہ، نصیب ہو تو ساڑھے چودہ سو سال قبل کے وقت کو اپنے تصور میں لاﺅں کہ کس طرح کچھ بے گھر اور نادار مگر پاکیزہ ہستیاں یہاں قیام کرتی تھیں اور حضورِ اقدس سے دین حاصل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے ہمہ وقت مصروف رہا کرتی تھیں اور پھر ان میں سے کتنے ایسے بھی تھے جو دوسرے قبائل تک دین کی تعلیمات پہنچانے اور تبلیغ کرنے کے دوران شہادت کے رتبے سے سرفراز ہوتے رہے۔
سچی بات ہے مدینہ منورہ یاد آتا ہے تو وہاں کے تاریخی مقامات ، مقدس جگہیں اور ان سے جُڑے واقعات ایک ایک کر کے یاد آنے لگتے ہیں تو اس اس کے ساتھ وہاں کے پُر نور نظارے اور وہاں کی عمارات، گلیاں، بازار سبھی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ کبھی شوال سن3 ہجری میں لڑے جانے والے غزوہِ اُحد کے مقام جبلِ اُحد کا خیال آتا ہے تو اس کا نقشہ اور محلِ وقوع ہی نگاہوں کے سامنے نہیںگھومنے لگتا بلکہ اس سے ملحق تیر اندازوں کے ٹیلے کا سراپا بھی آنکھوں میں جھلملانے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ قدِ آدم جنگلے کے اندر کا وہ احاطہ بھی یاد آنے لگتا ہے جس میں عم رسول سیدالشہدا حضرت حمزہؓ ، حضرت مصعب بن عمیر ؓ اور دوسرے شہدائے اُحد کی قبریں ہیں۔ پھر غزوہِ اُحد کی رِیل نگاہوں کے سامنے ایسے چلتی ہے کہ کفار کے تین ہزار جری لشکر جس میں سات سو آہن پوش گھڑ سوار بھی تھے کے مقابلے میں سات سو فرزندانِ توحید کی دلیری، بہادری اور جانثاری کے واقعات بھی ذہن کے نہاں خانے میں تازہ ہونے لگتے ہیں۔ جبلِ اُحد کا خیال آئے تو اس کے بارے میں نبی پاک کے فرمان مبارک © کہ "احد کا پہاڑ مجھ سے محبت رکھتا ہے اور میں اُحد سے محبت کرتا ہوں” کے ساتھ اور کئی باتیں بھی یاد آ جاتی ہیں۔ اس کے دامن میں اس چھوٹی سی گھاٹی یا غار نما جگہ کا ہیولہ بھی ابھر کر سامنے آ جاتا ہے جہاں غزوہِ اُحد کے موقع پر کفار کے لشکر کی پسپائی کے بعد نبیِ رحمت ﷺ نے زخمی حالت میں کچھ دیر تک آرام کیا تھا۔
مدینہ منورہ کی یاد آئے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ غزوہِ خندق کا مقام اور جگہ اور واقعات یاد نہ آئیں۔ شوال سن 5 ہجری میں ابوسفیان کی قیادت میں مشرکینِ مکہ کے لشکر سمیت عرب کے بعض دوسرے قبائل جن میں یہودی قبائل بھی شامل تھے کے دس ہزار نفوس پر مشتمل بھاری لشکر کی مدینہ منورہ پر چڑھائی کی خبر ملی تو صحابیِ ِ رسول حضرت سلمان فارسی ؓ کے مشورے پر مدینہ منورہ کی شمال مغربی سمت میں جبلِ سلع کو پُشت پر رکھ کر کوہِ عبید اور کوہِ ارتج کے درمیان تقریباً 5 کلومیٹر طویل خندق کھودی گئی۔ اس خندق کے آثار تو اب موجود نہیں ہیں لیکن وہاں بنائی گئی سبع مساجد میں اب بھی موجودہ تین مساجد مسجد فتح، مسجد علیؓ اور مسجد سلمان فارسیؓ غزوہِ خندق کے حالات و واقعات کی یاد دلاتی ہیں۔ مسجد فتح جبلِ سلع کے دامن میں ذرا اونچائی پر اُس جگہ بنی ہوئی ہے جہاں غزوہِ خندق کے موقع پر کفار کے لشکر کے محاصرے کے دوران نبی پاک کا خیمہ تھا۔ مسجد سلمان فارسی ؓ ذرا نیچی جگہ پر ہے تو اُس سے آگے ذرا اونچائی پر مسجدِ علی ؓ اُس جگہ بنی ہوئی ہے جہاں کفار کے لشکر کے ایک سالار عرب کے نامی گرامی پہلوان عمرو بن عبدود کے خندق کو پھلانگ کر اسلامی لشکر کی طرف آنے پر حضرت علیؓ نے جہنم واصل کیا تھا۔
مدینہ منورہ یاد آئے تو مسجد قبا، مسجد جمعہ اور مسجد قبلتین اپنے بلند و بالا میناروں ، اپنے گنبدوں، محرابوں اور قبوں سمیت اپنی نو تعمیر کردہ عمارتوں سمیت نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی ہیں تو اس کے ساتھ ان کے بلند مقام و مرتبے ، ان کی تاریخی حیثیت اور یہاں عبادت کی فضیلت کے بارے میں روایات بھی ذہن کے نہاں خانے میں تازہ ہو جاتی ہیں۔ مسجد قبا جسے اسلام کی پہلی مسجد کادرجہ حاصل ہے اور نبی پاک کی حدیث ِ مبارکہ کے مطابق اس میں دو رکعت نماز پڑھنے کا عمرے کے برابر ثواب ہے تو اسی طرح مسجد جمعہ جو اس کے قریب ہی واقع ہے، وہ مسجد ہے جہاں ہجرت کے بعد نبی پاک نے جمعہ کی پہلی نماز ادا کی تھی۔ مسجد قبلتین جو ان سے ہٹ کر دوسری سمت میں واقع ہے کا بھی بڑا مقام اور تاریخی حیثیت ہے کہ یہاں رجب یا شوال سن 2ہجری میں نبی پاک پر سورة البقرہ کی تحویلِ قبلہ کی آیات نازل ہوئیں اور آپ نے نماز کے دوران ہی اپنا رُخ مسجد اقصیٰ بیت المقدس سے پھیر کر مسجد الحرام مکہ مکرمہ کی طرف کرلیا۔
سچی بات ہے مدینہ منورہ کو یاد کرتے ہوئے وہاں کی گلیوں، بازاروں، سڑکوں ، بلند و بالا عمارات، دکانوں اورشاپنگ مالز کا بھی خیال آتا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہاں کے لوگوں کا حسنِ سلوک اور اندازِ میزبانی و مہمانداری بھی دل کے اندر احساسِ ممنونیت اور سپاس ِ تشکر کو ابھارتا ہے۔ رمضان کا مہینہ نہیں تھا لیکن پھر بھی مسجد نبوی کے قدیمی حصے میں افطاری کے لیے اشیائے خورونوش کے پھیلائے وسیع و عریض دستر خوان یاد آتے ہیں تو مسجد نبوی میں آتے جاتے راستے میں روک کر پانی کی ٹھنڈی بوتلیں اور بریانی سمیت کھانے پینے کی دیگر اشیاءتقسیم کرنے والے بھی یاد آتے ہیں۔ ان کے ساتھ مسجد نبوی کے کھلے بیرونی صحنوں اور احاطوں میں کھجوروں کے ڈبے اٹھائے کھانے کے لیے کھجوریں پیش کرنے والے بھی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ یہ سب منظر ایسے ہیں جو رہ رہ کر یاد آتے ہیں۔ دل کرتا ہے کہ ایک بار پھر عمرے پر جانا نصیب ہو۔ مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کا طواف، حجرِ اسود کو بوسہ، صفا اور مروہ کی سعی، مقامِ ابراہیم پر نوافل اور جی بھر کر آبِ زم زم پینا اور مسجد الحرام کے بلند و بالا اور پر شکوہ میناروں کو دیکھنا نصیب ہو تو نبی پاک کے مقدس شہر مدینہ منورہ کا سفر بھی حاصلِ زندگی بنے۔ دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ کی عنایت اور حضورﷺ کی نظر و کرم سے ان شاءاللہ ایسا ضرور ہو گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: نگاہوں کے سامنے بلند و بالا مسجد نبوی ہے جہاں کے لشکر نبی پاک کے ساتھ ایک بار نصیب ہو

پڑھیں:

غیر ملکیوں کو مکہ اور مدینہ میں سرمایہ کاری کی اجازت دیدی گئی

سعودی عرب کی حکومت نے غیر ملکیوں کو مکہ اور مدینہ میں رئیل سٹیٹ کمپنیوں کے حصص میں سرمایہ کاری کی اجازت دیدی۔

عرب میڈیا کے مطابق اس بات کا اعلان کیپٹل مارکیٹ اتھارٹی نے کیا جس نے غیر ملکیوں کی سرمایہ کاری کے لیے ضوابط پر عمل درآمد کو لازمی قرار دیا ہے۔

ان ضوابط کے تحت غیر ملکی افراد اور اداروں کی ملکیت مجموعی طور پر کمپنی کے شیئرز کا 49 فیصد سے زیادہ کی سرمایہ کاری نہیں کرسکیں گے۔

علاوہ ازیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سعودی کمپنیوں کے شیئرز میں سرمایہ کاری کرنے کی بھی اجازت ہوگی جو سعودی مالیاتی مارکیٹ میں رجسٹرڈ ہیں۔

سرمایہ کاری کی اجازت دینا سعودی عرب کی اقتصادی حکمت عملی اور ولی عہد کے وژن 2030 کا حصہ ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری سے رئیل سٹیٹ کے شعبے کو مزید استحکام ملے گا۔

سعودی عرب مستقبل میں قریب میں سرمایہ کاروں کو مزید پرکشش مراعات بھی دے گا جس میں سیاحت کے شعبے بھی شامل ہیں۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • غیر ملکیوں کو مکہ اور مدینہ میں سرمایہ کاری کی اجازت دیدی گئی
  • نبی کریم ﷺ کا واقعہ معراج‘ عظیم روحانی سفر
  • بھر م بلندی کا…..
  • اشرف طائی….حکومت سے مدد کی اپیل
  • ریاست مدینہ کاسب سے بڑا چور
  • حالات نہیں نیت خراب ہے….؟
  • جائیں تو جائیں کہاں ….(2)
  • لیاری آگرہ تاج کالونی مسجد روڈپرسیوریج کانظام عرصہ دراز سے درہم برہم ہے
  • مسجد الحرام میں افطارکرانے کے خواہشمندوں کے لیے ضوابط جاری