مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کی قیمت کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
مشرق وسطیٰ میں جاری ظلم و بربریت، انسانیت سوز کارروائیوں، عالمی قوتوں کے دوہرے معیار، مسلم ممالک کی بے حسی اور بے بسی کی تصویر جہاں باعث تشویش و الم ہے وہیں حماس اور ناپاک وجود رکھنے والی صیہونی ریاست کے درمیان جنگ بندی کی خبر اور اتوار سے معاہدے پر عملدرآمد غزہ کے بے یار و مددگار مظلوم فلسطینیوں کیلئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی ہے۔ قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبد الرحمن الثانی کے دوحہ میں جنگ بندی اعلان اور ثالثی کردار سے کوئی بھی منحرف نہیں تو دوسری جانب واشنگٹن کی فیس سیونگ، بائیڈن کی رخصتی اور ٹرمپ کی آمد ے ثمرات جیسے تانے بانے جوڑنے اور امیج بلڈنگ پر کام کیا جارہا ہے۔ معاہدے کے چیدہ چیدہ نکات میں 6-7 ہفتے کی فائربندی، 33 اسرائیلیوں کا 2 ہزار فلسطینیوں سے تبادلہ، مصر، غزہ سرحد فلاڈیلفیا اور نتساریم راہداریوں سے اسرائیلی فوج کے فوری مکمل انخلاء، روزانہ 6 سو امدادی ٹرکوں کے غزہ میں داخلہ شامل ہیں جبکہ جنگ بندی معاہدے کی نگرانی قطر، مصر اور امریکہ بہادر کریں گے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین، مصر، قطر، ایران اور پاکستان سمیت عالمی برادی کی جانب سے جنگ بندی معاہدے اور غزہ میں انسانی قتل عام کے جاری سلسلے کے رکنے کا خیر مقدم کیا جا رہاہے یہ سوال الگ ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اور نیتن یاہو کس حد تک اس معاہدے کی پاسداری کریں گے۔
7 اکتوبر 2023 سے اب تک 15 ماہ سے زائد عرصے میں جنگ بندی کی قیمت کم و بیش 50 ہزار فلسطینی شہید، 1 لاکھ 10 ہزار زخمی، 1 لاکھ سے زائد فلسطینی لاپتہ، 17 لاکھ کے قریب بے سرو سامانی کے عالم میں دربدر، 70 فیصد غزہ ملبے کا ڈھیر، گھر و مکانات، عبادت گاہیں و ہسپتال، کاروباری و تجارتی مراکز، فلاحی تنظیموں و اقوام متحدہ کے دفاتر نشانہ بنائے گئے تو دوسری جانب مزاحمتی گروپوں کی کارروائیوں میں 405 صیہونی فوجی جبکہ 1200 سے زائد اسرائیلی شہری جہنم واصل ہوئے۔ اس تناظر میں اشیائے خورونوش، ایندھن، بجلی، خوراک، طبی سامان، علاج معالجہ و ادویات جیسی بنیادی ضرورت عدم دستیاب ہیں تو دوسری جانب غزہ میں غربت، پسماندگی، کسمپرسی اور وباو¿ں نے گھر کرلیا ہے۔ اسرائیل نے جس سفاکیت اور بے رحمی سے مشرق وسطیٰ بالخصوص غزہ میں خون کی ہولی کھیلی ہے اس نے فلسطینیوں کی نسلیں اجاڑ ڈالی اور خطے کے امن کو تہس نہس کر دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی کارروائیوں سے جہاں معصوم شہری خالق حقیقی کو جاملے وہیں حماس اور حزب اللہ کو بھی شدید نقصان پہنچا جبکہ حسن نصر اللہ، اسماعیل ہنیہ، قاسم سلیمانی، یحییٰ سنوار، صالح العاروری، مروان عیسیٰ، محمد دائف، ابراہیم رئیسی اور عباس نیلفروشن جیسے بہادر بھی اپنی سرزمین پر قربان ہوئے ہیں۔
حماس کے مرکزی رہنما خلیل الحیا کے یہ الفاظ وزن رکھتے ہیں کہ جنگ بندی فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور مزاحمت کا نتیجہ ہے جبکہ یمنی حوثیوں نے جنگ بندی پر مزاحمتی گروپوں کو سلیوٹ پیش کیا ہے، اس وقت فلسطینیوں سمیت عالم اسلام کو جن چیلنجز کا سامنا ہے اس تناظر میں یہ وقت کی عین ضرورت ہے کہ مسلم امہ او آئی سی کو زیادہ مو¿ثر بنائیں اور عالمی سفارتکاری کے ذریعے صیہونی سفاکیوں کا اعادہ روکنے کی تدابیر کی جائیں۔ غزہ کی حالیہ صورتحال یہ ہے کہ لوگ شدید سردی کے باوجود کھلے آسان تلے کیمپوں میں رہنے پر مجبور جبکہ سخت سردی کے باعث بچے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ غزہ میں ہونے والی تباہیوں کے بعد انفراسٹرکچر کی بحالی مکمل جنگ بندی کی صورت میں ہی ممکن ہے جس کیلئے کئی عشرے درکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کو پروان چڑھانے کیلئے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری یقینی بنانا ہوگی، مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر عالمی قوتوں بالخصوص مسلم امہ کے شدید تحفظات ہیں۔ اگر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی جاری رہتی ہے تو دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے گا، غزہ جنگ کے تناظر میں لبنان، شام، یمن اور ایران براہِ راست متاثر ہوچکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی تیاری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ اگر مشرق وسطیٰ میں حالات مزید بگڑے تو اسلامی ممالک کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس آگ میں کودنا پڑے گا اور اس کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہ ہوگا، جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔
مشرقِ وسطیٰ میں جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کیلئے اسرائیل پر دباو¿ ڈالنے کیلئے سپرپاور امریکہ کی ذمہ داری اور بھی بڑھتی ہے جس کے ہاتھ میں ناجائز بچے اسرائیل کی ڈوریں ہیں اور جو ہمہ وقت اس کی پشت پناہی کیلئے تیار رہتا ہے اور یہی اس کے مفاد میں بھی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں نیتن یاہو سرکار کی من مانیاں اور جنگ صرف شطرنج کی ایک بساط بچھائی گئی جس پر مہرے آگے اور پیچھے ہٹائے گئے اور جاتے رہیں گے۔ جنگ بندی اس لئے بھی ضروری تھی کہ جس طرح صیہونی ریاست نے غزہ کو عملاً انسانی خون میں نہلایا کہ جہاں انسانیت اپنی بے بسی کا ماتم کررہی ہے اور جو اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں ننگ انسانیت وحشت وبربریت کے جو مناظر سامنے آئے اس پر انسانیت نوحہ کناں ہے۔ عالمی منظرنامے پر گہری نظر رکھنے والے ایک سوچ یہ بھی رکھتے ہیں کہ امریکہ بھلے سپر پاور ہے لیکن اسرائیل امریکہ حکمرانوں کو بھی اپنے قابو میں رکھتا ہے، فلسطین ایک پیچیدہ مسئلہ ہونے کے ساتھ مسلم امہ کیلئے اس لئے بھی مقدس ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جس وجہ سے مسلمانوں کے دل فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پچھلی ایک صدی سے فلسطینی عوام اپنی زمین اور حقوق کیلئے جدودجہد کررہے ہیں لیکن اسرائیل کی فوجی طاقت اور حاصل بین الاقوامی حمایت کی بدولت غزہ کو قبرستان میں تبدیل کر چکا ہے یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی اور بھی اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ نہتے فلسطینیوں کو کوئی سکون کا لمحہ تو میسر ہو، اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ بھلے غزہ 70 فیصد تباہ، حماس اور حزب اللہ شدید زخمی ہیں لیکن فلسطینی عوام نے مزاحمت نہیں چھوڑی۔ فلسطینیوں نے ظالم کے آگے سر نہیں جھکایا، انہوں نے لاشے اٹھائے اور شہادتیں حاصل کی لیکن اپنی خودداری اور آزادی کا سودا نہیں کیا، تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ ثابت قدم رہے ہیں فتح ان کا مقدر بنی ہے، ان شاءاللہ ہم بیت المقدس اور پیغمبروں کی سرزمین کو ناپاک صیہونی ریاست کے تسلط سے جلد آزاد ہوتا دیکھی گے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدے صیہونی ریاست جنگ بندی کی
پڑھیں:
لبنان: 15 افراد کی ہلاکت پر یو این حکام کا جنگ بندی پر عملدرآمد کا مطالبہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 27 جنوری 2025ء) لبنان میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 15 افراد کی ہلاکت کے بعد اقوام متحدہ کے حکام نے جنگ بندی پر عملدرآمد جاری رکھنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کو محفوظ واپسی کی ضمانت ملنی چاہیے۔
ملک کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار جینائن ہینز پلاشرٹ اور ادارے کی امن فورس (یونیفیل) کے کمانڈر آرولڈو لازارو کے مطابق، نومبر میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو رہا اور جنوبی لبنان سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی واپسی کے لیے حالات تاحال سازگار نہیں ہیں۔
Tweet URLگزشتہ روز اس علاقے میں قائم بفرزون (بلیولائنمیں اسرائیلی فوج نے فائرنگ کر کے لبنان کی فوج کے ایک سپاہی اور 14 شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
(جاری ہے)
معاہدے کی رو سے علاقے میں اسرائیلی فوج کی موجودگی نہیں ہونی چاہیے۔دوسری جانب، اسرایل نے لبنان کے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ جنوبی علاقے میں واپس نہ آئیں۔ جنگ بندی معاہدے کی شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس کی فوج واپس نہیں جائے گی۔
قرارداد 1701 کی روزانہ پامالیرابطہ کار نے کہا ہے کہ جنوبی لبنان میں سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کی روزانہ خلاف ورزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ کے بعد منظور کردہ اس قرارداد میں دونوں مملک کے مابین بفر زون قائم کرنے اور اسرائیلی فوج کی واپسی کے لیے کہا گیا تھا۔ یہ بفر زون 'بلیو لائن' بھی کہلاتا ہے جس پر اقوام متحدہ کی امن فورس تعینات ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کی شرائط کے مطابق اسرائیل کی فوج کو کو آج یہ علاقہ خالی کرنا تھا۔
یونیفیل نے اسرائیل کی فوج پر زور دیا ہے کہ وہ لبنان کی سرزمین پر شہریوں کو فائرنگ کا نشانہ نہ بنائے کیونکہ تناؤ بڑھنے سے سلامتی کی صورتحال بگڑ سکتی ہے۔
مشن نے قرارداد 1701 پر مکمل عملدرآمد اور مخصوص طریقہ کار کے تحت کشیدگی کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا ہے جس میں لبنان سے اسرائیلی فوج کی مکمل واپسی، لبنان میں دریائے لیطانی کے جنوبی علاقے کو ہر طرح کے غیرقانونی ہتھیاروں سے پاک کرنا اور وہاں لبنانی فوج کی تعیناتی اور بلیو لائن کے آر پار نقل مکانی کرنے والے شہریوں کی محفوظ اور باوقار واپسی کی ضمانت دینا بھی شامل ہے۔
تنازع ختم کرنے کا 'واحد' راستہیونیفیل کے کمانڈر اور اقوام متحدہ کی رابطہ کار نےفریقین پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے اور قرارداد 1701 پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں کیونکہ یہ حالیہ تنازع کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔ بلیو لائن کے آر پار سلامتی، استحکام اور خوشحالی اسی صورت ہی ممکن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اس مقصد کے لیے تمام فریقین سے رابطے میں رہے گا اور قرارداد کی مطابقت سے قیام امن میں ہر طرح کی مدد دینے کو تیار ہے۔
امن میں ہی لبنان اور اسرائیل کا مفاد ہے اور اسی لیے تمام فریقین کی جانب سے اس معاہدے کی تعمیل کے حوالے سے نئے عزم کی فوری ضرورت ہے۔دونوں حکام نے کہا ہے کہ لبنان کی مسلح افواج کی درخواست پر جنوبی علاقے میں یونیفیل کے اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں تاکہ علاقے کی صورتحال پر نظر رکھی جائے اور کشیدگی کو روکا جا سکے۔
تاہم، یونیفیل کا کہنا ہے کہ واپس آنے والے لوگوں کے ہجوم کو سنبھالنا اس کی ذمہ داری نہیں اور اس کے لیے لبنان کے حکام کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
لبنان کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی فوج کے احکامات پر عمل کریں جس کا مقصد ان کی زندگیوں کو تحفظ دینا اور جنوبی لبنان میں کشیدگی کو روکنا ہے۔لبنان میں مثبت پیش رفتاقوام متحدہ کے دونوں حکام نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے بعد لبنان میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ تشدد میں غیرمعمولی کمی آئی ہے اور جنوبی لبنان کے بہت سےعلاقوں میں ہزاروں لوگ اپنے دیہات اور گھروں کو واپس آ گئے ہیں۔
لبنان کی مسلح افواج نے اسرائیلی فوج کی خالی کردہ پوزیشنیں سنبھالنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔یونیفیل کی مدد سے ملکی فوج جنگ سے بری طرح متاثر ہونے والے علاقوں میں خدمات کی بحالی اور انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت دے رہی ہے۔
ملک کے نئے صدر کے انتخاب اور وزیراعظم کی نامزدگی لبنان کے شہریوں اور ریاست میں اعتماد کی بحالی کی جانب اہم قدم ہے۔ ان پیش ہائے رفت کی بدولت ملک بھر میں ریاستی اختیار بحال ہونے اور ملکی تعمیرنو اور ترقی کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔