Nai Baat:
2025-01-27@17:04:08 GMT

سفر حجاز: روضہ رسول پر

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

سفر حجاز: روضہ رسول پر

جب بھی ہم حج یا عمرہ کیلئے سعودی عرب جاتے ہیں، نبی کے شہر مدینہ میں جانے اور مسجد نبوی میں حاضری کیلئے ہمارا دل کھینچا جاتا ہے۔ مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہی دل میں خواہش ابھرتی ہے کہ روضہ رسول پر حاضر ہو کر حضور کی خدمت میں درود و سلام پیش کریں۔دنیا کے ہر مسلمان کے دل میں یہ آرزو ہوتی ہے کہ اسے حضور کی خدمت اقدس میں حاضری نصیب ہو سکے۔تاہم یہ حاضری بھی خوش قسمتی سے نصیب ہوتی ہے۔ اکثر احباب جنہیں عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی، انہیں میں نے یہ کہتے بھی سنا ہے کہ روضہ رسول پر حاضری نصیب نہیں ہو سکی۔
روضہ رسول کا وہ حصہ جو مردوں کیلئے مخصوص ہے، اس کا مجھے علم نہیں۔ البتہ خواتین کیلئے روضہ مبارک جانے کے اوقات مقرر ہیں۔ عمومی طور پر نماز فجر اور نماز عشاءکے بعد روضہ مبارک پر حاضری کیلئے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ سینکڑوں ، ہزاروںخواتین ایک مخصوص جگہ بیٹھ کر دروازہ کھلنے کا انتظار کرتی ہیں۔ بسا اوقات یہ انتظار کئی گھنٹوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ تاہم اس انتظار کا بھی اپنا لطف اور برکت ہے۔ مدینہ شریف میں قیام کے دوران مجھے بھی چار مرتبہ روضہ مبارک پر حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ فجر یا عشاءکی نماز سے فراغت کے بعد میں بھی دروازہ کھلنے کے منتظر ہجوم کا حصہ بن جاتی۔ ہزاروں خواتین کے ساتھ انتظار گاہ میں بیٹھنا مجھے بہت اچھا لگتا۔ میں ارد گرد نگاہ ڈالتی تو دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والی مختلف رنگ و نسل کی خواتین دکھائی دیتیں۔ یہ سب حضور کی محبت میں گھنٹوں انتظار کرتیں۔وہ منظر بھی دیکھنے والا ہوتا ہے جب نگران لڑکیوں کی طرف سے اندر جانے کی اجازت ملنے پر منتظر خواتین بے اختیار اندر کی طرف دوڑ لگا دیتی ہیں۔ سب کی خواہش ہوتی ہے کہ جلد از جلد حضور کی خدمت میں حاضر ہو سکے۔ اندر جا کر ایک مرتبہ پھر ، انہیں روضہ مبارک سے کچھ فاصلے پر انتظار گاہ میں بٹھایا جاتا ہے۔ اس دوران یہ مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کچھ خواتین نگرانوں کی نظر بچا کر ان کے حصار سے نکل جاتی ہیں اور بھاگ کر روضہ مبارک میں داخل ہو جاتی ہیں۔ عشق محمد سے سرشار کچھ خواتین وہاں لگے ٹینٹ کے درمیان سے گزر کر دوسری طرف جا نکلتی ہیں۔ اگرچہ مسجد نبوی اور روضہ مبارک پر حاضری کے آداب مقرر ہیں۔ جنہیں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ تاہم محبت کسی بھی ضابطے کو کہاں مانتی ہے۔
میں اگرچہ اپنی روزمرہ زندگی میں قواعد و ضوابط کی پابندی کرتی ہوں۔ بطور استاد اپنے مرتبے کا خیال بھی مجھے ملحوظ رہتا ہے۔ تاہم روضہ مبارک تک جلد پہنچنے کے لئے میں بھی اصول و ضوابط کو بالائے طاق پر رکھ دیتی ہوں۔ ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی روضہ مبارک پر معمور نگران لڑکیوں کی نگاہوںسے بچ کر میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ رو ضہ مبارک پر بیٹھی رہتی۔ نوافل پڑھتی۔ عزیر و اقارب کے سلام حضور کی خدمت میں پیش کرتی۔ حضور کے توسط سے، ان کے وسیلے سے اپنے والدین کیلئے دعا کرتی ۔ دعاوں کے نام پر میں نے کچھ قرآنی آیات یاد کر رکھی ہیں۔ یا حضور کی کچھ عربی دعائیں۔ جب بھی دعا مانگنی ہو، میںانہیں پڑھ لیتی ہوں۔ خیال آتا ہے کہ میرے رب اور میرے نبی سے بھلا کیا چھپا ہے۔ وہ دلوں کے بھید سے بخوبی واقف ہیں۔ دعامانگنے کے بعد میں کسی ستون سے ٹیک لگاکر خاموش بیٹھ رہتی۔ گر و پیش کو بھلائے بس یہ خیال میرے پیش نظر رہتا کہ میں اس وقت نہایت مبارک جگہ پر موجود ہوں ۔ نبی کے گھر کے باہر بیٹھی ہوں۔ چند فٹ کے فاصلے پر میرے حضور کی قبر اطہر ہے۔ میرے حضور کا گھر ہے۔یہ گھر جو حضرت عائشہ ؓ کا حجرہ تھا۔ اسی جگہ حضور کا وصال ہوا۔آپ کے وصال کے بعد صحابہ کرام یہ مشورہ کر رہے تھے کہ حضور کو کہاں دفن کیا جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ایک حدیث بیان فرمائی کہ نبی کا مدفن وہی مقام ہے، جہان اسکی روح قبض کی جاتی ہے۔ سو آپ کی تدفین اس حجرہ مبارک میں ہوئی۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ بیمار ہوئے تو انہوں نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ ؓ سے اجازت طلب کی کہ وہ انتقال کے بعد اس حجرے میں حضور اقدس کے پہلو میں دفن ہو نا چاہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓکے انتقال کے بعد ان کی تدفین یہیں ہوئی۔ حضرت عمر ؓ کی درخواست اور حضرت عائشہ ؓکی اجازت سے حضرت عمر ؓ کی تدفین بھی اس حجرے میں ہوئی۔ حضور اور حضرت ابوبکر ؓکی قبروں اور حضرت عائشہ ؓ کے رہائشی حصہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ تاہم حضرت عمر ؓ کی تدفین کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے قبروں اور رہائشی حصے کے مابین پردے کا انتظام کر لیا۔ مسجد نبوی میں ہمیں جو سبز گنبد دکھائی دیتا ہے اور جس گنبد حضری کا ذکر شاعر نہایت محبت اور عقیدت سے اپنے نعتیہ کلام میں کرتے ہیں، وہ اس حجرے کے عین اوپر بنایا گیاہے۔
روضہ مبارک پر بیٹھے ، کچھ احادیث میرے ذہن میں آتیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ حضور نے فرمایا کہ اللہ پاک نے زمین کے لئے انبیاءکرام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور رزق دیا جاتا ہے۔ یہ حدیث بھی مجھے یاد آتی ، جس کا مفہوم ہے کہ کوئی بھی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو میں اسے سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔اور یہ حدیث بھی کہ جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی۔ روضہ مبارک کے ستون سے ٹیک لگائے میں بس یہ سوچتی کہ میرے حضور قریب ہی موجود ہیں اور مجھے سن رہے ہیں۔ میری اس بابرکت جگہ بیٹھ کر سوچتی کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی نے اپنی زندگی کے ماہ سال بسر کئے۔ یہاںوہ صحابہ کرام ؓ کو دین کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ یہیں ان کا منبر تھا، جس پر وہ خطبہ دیتے تھے۔ یہیں حضرت جبرائیل ؑ ان کے لئے وحی لےکر حاضر ہوتے۔
کیا خاص جگہ ہے ۔ جہاں میرے رب کا حبیب موجود ہے۔ انہی سوچوں میں رہتے میں یہاں طویل وقت تک بیٹھی رہتی۔ اور پھر واپسی کی راہ لیتی۔
اس مرتبہ لیکن میں سبز جالیوں کو چھو نہیں سکی۔ سبز جالیوں اور میرے درمیان ایک پردہ حائل تھا۔ ٹینٹ لگا کر اس حصے کو الگ کر دیا گیا ہے۔ وہ حصہ جسے ریاض الجنہ کہتے ہیں۔ وہ جس کے بارے میں حضور نے فرمایا ہے کہ میرے گھر اور منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغ کا ٹکڑا ہے۔ اپنے پہلے اور دوسرے عمرے کے دوران میں نے وہا ں بھی طویل وقت گزارا۔ لیکن اب پابندی لگا دی گئی ہے کہ آپ نوسک کی آن ۔ لائن ایپلی کیشن کے زریعے اپوانمنٹ لے کر ریاض الجنہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ میں نے بہت کوشش کی تاہم میں یہ اپوائنمنٹ لینے میں ناکام رہی۔ اس بات پر میں نہایت دکھی رہی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب آنے سے چند دن پہلے کوشش کرکے ریاض الجنہ کی آن ۔لائن اپوائنمنٹ لے لی جائے۔ بہرحال مدینہ سے رخصت ہوئی تب بھی میں دکھی تھی کہ ریاض الجنہ تک رسائی نہیں ہو سکی۔ خیال آیا کہ یہ بلاوا میری قسمت میں نہیں تھا۔ سوچا کہ انشااللہ اگلی مرتبہ ضرور حاضری ہو جائے گی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: حضور کی خدمت ریاض الجنہ روضہ رسول مسجد نبوی کی تدفین جاتا ہے کے بعد

پڑھیں:

فاتح خیبر، شیر خدا حضرت علیؓ

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔ بچوں میں سب سے پہلے آپ ایمان لائے۔ عشرہ و مبشرہ، بیعت رضوان، اصحاب بدر و احد کے ساتھ غزوہ ’’تبوک‘‘ کے علاوہ غزوات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیش پیش رہے۔ حضرت علیؓ کی پوری زندگی آپ ﷺ کے سایہ عاطفت میں گزری۔ آپ ﷺ کی تربیت اور شفقت نے حضرت علیؓ کو علم کی معراج بخشی، ان کی فضیلت میں بے شمار احادیث موجود ہیں، آپ ﷺ نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور انھیں جنت اور شہادت کی خوش خبری سنائی۔

 امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ بنی ہاشم کے چشم و چراغ تھے، یہ خاندان حرمِ کعبہ کی خدمات کے نتیجے میں مکہ کا ممتاز خاندان تھا، حضرت علیؓ کے والد محترم جو پیارے نبی ﷺ کے چچا تھے ان کا نام ابو طالب تھا اور والدہ فاطمہ بنت اسد دونوں ہاشمی تھے، حضرت علیؓ نجیب الطرفین ہاشمی پیدا ہوئے۔ بعض علما کے نزدیک حضرت علیؓ کی ولادت مکہ شریف میں عام الفیل کے سات سال بعد ہوئی۔

بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی پیدائش کے تیس برس بعد حضرت علیؓ اس دنیا میں تشریف لائے، حضرت علیؓ کو ابتدا ہی سے رسول پاکؐ کا ساتھ نصیب ہوا۔ حضور پاک ﷺ نے اپنے چچا کے حالات کو دیکھتے ہوئے حضرت علیؓ کو اپنی کفالت میں لے لیا تھا اور چچا کی معاشی مدد کے طور پر ان کا ساتھ دیا اور حضرت علیؓ کی پرورش و تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔

جب حضرت محمد ﷺ نے اللہ کے حکم سے اسلام کی دعوت دینے کا آغاز کیا اور اپنے عزیز و اقارب کو کوہ صفا پر بلایا۔ تمام لوگوں میں حضرت علیؓ عمر کے اعتبار سے کم سن تھے۔ انھوں نے اٹھ کر کہا کہ ’’گو میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے اور میری ٹانگیں دبلی پتلی ہیں، تاہم میں آپ کا ساتھی اور دست و بازو بنوں گا۔‘‘ حضور پاک ﷺ نے حضرت علی کی جرأت و بہادری اور محبت کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ’’بیٹھ جاؤ، تُو میرا بھائی اور وارث ہے۔‘‘

حضرت علیؓ کو اللہ نے بہت سی خوبیوں اور اوصاف سے نوازا تھا۔ حضرت سعد ابن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: تم میری طرف سے اس مرتبے پر ہو جس مرتبے پر حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے تھے مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)

نبی ﷺ نے فرمایا ’’جس کا میں مولیٰ ہوں، علیؓ بھی اس کا مولیٰ ہے۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے علیؓ سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی اور جس شخص نے بھی حضرت علیؓ سے بغض رکھا ، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ رب العزت سے بغض رکھا۔‘‘

حضرت علیؓ علمی اعتبار سے ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ کی علم و فراست کے بارے میں فرمایا کہ ’’میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس شہر کا دروازہ ہیں۔‘‘ ایک دوسرے فرمان کے مطابق ’’میں حکمت کا گھر ہوں علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔‘‘ حضرت سیدنا حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم خاتم النبین رحمت اللعالمین نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ’’اے اللہ! علی کے سینے کو علم، عقل اور دانائی و حکمت اور نور سے بھر دے۔‘‘

حضرت علیؓ کو قرآن پاک کی ہر آیت کے بارے میں علم تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ بے شک میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ حضرت علیؓ ایسے عالم ہیں کہ جن کے پاس قرآن پاک کے ظاہر و باطن دونوں کے علوم ہیں، حضرت علیؓ کا علم سمندر جیسا تھا، تمام مسائل کا حل بخوبی جانتے تھے۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ نبی محمد ﷺ نے مجھے علم کے ایک ہزار باب سکھائے اور میں نے ان میں سے ہر باب میں سے مزید ایک ہزار باب نکالے، درس و تدریس، علمیت و قابلیت کے حوالے سے آپؓ کی مثال نہیں ملتی ہے۔حضرت علیؓ فاتح خیبر تھے، ان کی ساری زندگی حضور پاک ﷺ کے ساتھ رہتے ہوئے گزری، تمام جنگوں میں انھوں نے حصہ لیا اور بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ کفار بڑی تعداد میں مارے گئے، ان کے علم و تقویٰ اور ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث موجود ہیں خیبر کی فتح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شجاعت اور بہادری کی بدولت حاصل ہوئی، اس جنگ اور فتح کا پس منظر یہ ہے۔

خیبر کا علاقہ اور اس کے کئی قلعے یہودی فوجیوں کے مرکز تھے اور یہ مسلمانوں کے خلاف خود بھی سازشیں کرتے اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ مل کر ساز باز کرتے خیبر کے یہودیوں نے قبیلہ بنی نضیر کو بھی اپنی پناہ میں رکھا۔ خیبر میں بے شمار یہودی آباد تھے اور یہ بڑا شہر تھا۔

بنو قریظہ نے غزوہ خندق میں مسلمانوں سے عہد شکنی کرکے مشکلات کا شکار کر دیا تھا خیبر کے یہودیوں نے نجد کے قبیلے کے ساتھ بھی معاہدے کیے تھے جن کی رو سے وہ مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کے در پر تھے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے پیارے نبی 1600 کی فوج کے ساتھ جن میں سے 100 سے زائد گھڑ سوار بھی شامل تھے جنگ کی نیت سے روانہ ہوئے اور پانچ چھوٹے قلعے فتح کر لیے اور اس کے ساتھ ہی خیبر کا محاصرہ کر لیا یہ قلعہ ایک اونچی پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔

یہودیوں نے اپنا ساز و سامان اور خواتین و بچوں کو علیحدہ علیحدہ قلعوں میں حفاظت کے لیے پہنچا دیا، باقی دو قلعوں کو جن میں قلعہ قموص بھی شامل تھا ایک پہاڑی پر بنایا گیا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کی قیادت میں افواج بھیجیں، مگر مسلمان کامیاب نہ ہو سکے۔

اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا ’’کل میں علم اس کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ اسے شکست ہوگی اور نہ وہ میدان چھوڑے گا‘‘ یہ سن کر صحابہ کرام خواہش کرنے لگے کہ یہ سعادت ان کے نصیب میں ہو۔

دوسرے دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو طلب کیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! علیؓ آشوب چشم میں مبتلا ہیں‘‘ لیکن حضرت علیؓ کو پتا چلا کہ بارگاہ نبوی ﷺ سے بلاوا آیا ہے تو آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھوں پر لگایا، آپؓ اسی وقت صحت مند ہوگئے اور پھر پوری زندگی آشوب چشم میں مبتلا نہ ہوئے۔

جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ قلعہ کو فتح کرنے کے لیے پہنچے تو یہودیوں میں سے ایک شخص جوکہ پہلوان تھا اس کا نام مرحب تھا، اس کی جوانمردی کی بہت شہرت تھی، عرب میں ایک سو سواروں کے لیے اکیلا ہی کافی تھا، اس کے ساتھ جنگ شروع ہوئی، حضرت علیؓ نے ایسا وار کیا کہ اس کا سر درمیان سے دو ٹکڑے ہو گیا اور تلوار مرحب کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی، اور اس وار کی گونج دور تک گئی۔

7 ہجری محرم الحرام سے شروع ہونیوالے اس معرکہ کا اختتام صفرالمظفرمیں ہوا۔ اور یہ جنگ حضرت علیؓ کے ہاتھوں کامیابی تک پہنچی۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت چیئرمین پی اے سی کیلئے میرے نام پر راضی نہیں تھی، ڈیڈلاک ختم کرنے میں اسپیکر نے کردار ادا کیا.جنیداکبرخان
  • خلیل الرحمٰن قمر نے فیصل قریشی کی سابقہ اہلیہ سے دوسری شادی کی داستان سنا دی
  • سُوئے منتہٰی وہ چلے نبی ﷺ۔۔۔۔۔۔ !
  • میں کراچی میں ہوں اور مجھ پر قتل کا الزام لگا ہے، پی پی ایم این اے علاؤالدین جونیجو
  • غزہ کو فتح مبارک، اگلا پڑاﺅ تل ابیب
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  • دوسرے درویش کا قصہ
  • فاتح خیبر، شیر خدا حضرت علیؓ
  • محسن اسلام حضرت ابو طالب علیہ السلام کی زندگانی پر ایک اجمالی نظر