جب بھی ہم حج یا عمرہ کیلئے سعودی عرب جاتے ہیں، نبی کے شہر مدینہ میں جانے اور مسجد نبوی میں حاضری کیلئے ہمارا دل کھینچا جاتا ہے۔ مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہی دل میں خواہش ابھرتی ہے کہ روضہ رسول پر حاضر ہو کر حضور کی خدمت میں درود و سلام پیش کریں۔دنیا کے ہر مسلمان کے دل میں یہ آرزو ہوتی ہے کہ اسے حضور کی خدمت اقدس میں حاضری نصیب ہو سکے۔تاہم یہ حاضری بھی خوش قسمتی سے نصیب ہوتی ہے۔ اکثر احباب جنہیں عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی، انہیں میں نے یہ کہتے بھی سنا ہے کہ روضہ رسول پر حاضری نصیب نہیں ہو سکی۔
روضہ رسول کا وہ حصہ جو مردوں کیلئے مخصوص ہے، اس کا مجھے علم نہیں۔ البتہ خواتین کیلئے روضہ مبارک جانے کے اوقات مقرر ہیں۔ عمومی طور پر نماز فجر اور نماز عشاءکے بعد روضہ مبارک پر حاضری کیلئے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ سینکڑوں ، ہزاروںخواتین ایک مخصوص جگہ بیٹھ کر دروازہ کھلنے کا انتظار کرتی ہیں۔ بسا اوقات یہ انتظار کئی گھنٹوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ تاہم اس انتظار کا بھی اپنا لطف اور برکت ہے۔ مدینہ شریف میں قیام کے دوران مجھے بھی چار مرتبہ روضہ مبارک پر حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ فجر یا عشاءکی نماز سے فراغت کے بعد میں بھی دروازہ کھلنے کے منتظر ہجوم کا حصہ بن جاتی۔ ہزاروں خواتین کے ساتھ انتظار گاہ میں بیٹھنا مجھے بہت اچھا لگتا۔ میں ارد گرد نگاہ ڈالتی تو دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والی مختلف رنگ و نسل کی خواتین دکھائی دیتیں۔ یہ سب حضور کی محبت میں گھنٹوں انتظار کرتیں۔وہ منظر بھی دیکھنے والا ہوتا ہے جب نگران لڑکیوں کی طرف سے اندر جانے کی اجازت ملنے پر منتظر خواتین بے اختیار اندر کی طرف دوڑ لگا دیتی ہیں۔ سب کی خواہش ہوتی ہے کہ جلد از جلد حضور کی خدمت میں حاضر ہو سکے۔ اندر جا کر ایک مرتبہ پھر ، انہیں روضہ مبارک سے کچھ فاصلے پر انتظار گاہ میں بٹھایا جاتا ہے۔ اس دوران یہ مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کچھ خواتین نگرانوں کی نظر بچا کر ان کے حصار سے نکل جاتی ہیں اور بھاگ کر روضہ مبارک میں داخل ہو جاتی ہیں۔ عشق محمد سے سرشار کچھ خواتین وہاں لگے ٹینٹ کے درمیان سے گزر کر دوسری طرف جا نکلتی ہیں۔ اگرچہ مسجد نبوی اور روضہ مبارک پر حاضری کے آداب مقرر ہیں۔ جنہیں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ تاہم محبت کسی بھی ضابطے کو کہاں مانتی ہے۔
میں اگرچہ اپنی روزمرہ زندگی میں قواعد و ضوابط کی پابندی کرتی ہوں۔ بطور استاد اپنے مرتبے کا خیال بھی مجھے ملحوظ رہتا ہے۔ تاہم روضہ مبارک تک جلد پہنچنے کے لئے میں بھی اصول و ضوابط کو بالائے طاق پر رکھ دیتی ہوں۔ ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی روضہ مبارک پر معمور نگران لڑکیوں کی نگاہوںسے بچ کر میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ رو ضہ مبارک پر بیٹھی رہتی۔ نوافل پڑھتی۔ عزیر و اقارب کے سلام حضور کی خدمت میں پیش کرتی۔ حضور کے توسط سے، ان کے وسیلے سے اپنے والدین کیلئے دعا کرتی ۔ دعاوں کے نام پر میں نے کچھ قرآنی آیات یاد کر رکھی ہیں۔ یا حضور کی کچھ عربی دعائیں۔ جب بھی دعا مانگنی ہو، میںانہیں پڑھ لیتی ہوں۔ خیال آتا ہے کہ میرے رب اور میرے نبی سے بھلا کیا چھپا ہے۔ وہ دلوں کے بھید سے بخوبی واقف ہیں۔ دعامانگنے کے بعد میں کسی ستون سے ٹیک لگاکر خاموش بیٹھ رہتی۔ گر و پیش کو بھلائے بس یہ خیال میرے پیش نظر رہتا کہ میں اس وقت نہایت مبارک جگہ پر موجود ہوں ۔ نبی کے گھر کے باہر بیٹھی ہوں۔ چند فٹ کے فاصلے پر میرے حضور کی قبر اطہر ہے۔ میرے حضور کا گھر ہے۔یہ گھر جو حضرت عائشہ ؓ کا حجرہ تھا۔ اسی جگہ حضور کا وصال ہوا۔آپ کے وصال کے بعد صحابہ کرام یہ مشورہ کر رہے تھے کہ حضور کو کہاں دفن کیا جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ایک حدیث بیان فرمائی کہ نبی کا مدفن وہی مقام ہے، جہان اسکی روح قبض کی جاتی ہے۔ سو آپ کی تدفین اس حجرہ مبارک میں ہوئی۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ بیمار ہوئے تو انہوں نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ ؓ سے اجازت طلب کی کہ وہ انتقال کے بعد اس حجرے میں حضور اقدس کے پہلو میں دفن ہو نا چاہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓکے انتقال کے بعد ان کی تدفین یہیں ہوئی۔ حضرت عمر ؓ کی درخواست اور حضرت عائشہ ؓکی اجازت سے حضرت عمر ؓ کی تدفین بھی اس حجرے میں ہوئی۔ حضور اور حضرت ابوبکر ؓکی قبروں اور حضرت عائشہ ؓ کے رہائشی حصہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ تاہم حضرت عمر ؓ کی تدفین کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے قبروں اور رہائشی حصے کے مابین پردے کا انتظام کر لیا۔ مسجد نبوی میں ہمیں جو سبز گنبد دکھائی دیتا ہے اور جس گنبد حضری کا ذکر شاعر نہایت محبت اور عقیدت سے اپنے نعتیہ کلام میں کرتے ہیں، وہ اس حجرے کے عین اوپر بنایا گیاہے۔
روضہ مبارک پر بیٹھے ، کچھ احادیث میرے ذہن میں آتیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ حضور نے فرمایا کہ اللہ پاک نے زمین کے لئے انبیاءکرام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور رزق دیا جاتا ہے۔ یہ حدیث بھی مجھے یاد آتی ، جس کا مفہوم ہے کہ کوئی بھی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو میں اسے سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔اور یہ حدیث بھی کہ جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی۔ روضہ مبارک کے ستون سے ٹیک لگائے میں بس یہ سوچتی کہ میرے حضور قریب ہی موجود ہیں اور مجھے سن رہے ہیں۔ میری اس بابرکت جگہ بیٹھ کر سوچتی کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی نے اپنی زندگی کے ماہ سال بسر کئے۔ یہاںوہ صحابہ کرام ؓ کو دین کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ یہیں ان کا منبر تھا، جس پر وہ خطبہ دیتے تھے۔ یہیں حضرت جبرائیل ؑ ان کے لئے وحی لےکر حاضر ہوتے۔
کیا خاص جگہ ہے ۔ جہاں میرے رب کا حبیب موجود ہے۔ انہی سوچوں میں رہتے میں یہاں طویل وقت تک بیٹھی رہتی۔ اور پھر واپسی کی راہ لیتی۔
اس مرتبہ لیکن میں سبز جالیوں کو چھو نہیں سکی۔ سبز جالیوں اور میرے درمیان ایک پردہ حائل تھا۔ ٹینٹ لگا کر اس حصے کو الگ کر دیا گیا ہے۔ وہ حصہ جسے ریاض الجنہ کہتے ہیں۔ وہ جس کے بارے میں حضور نے فرمایا ہے کہ میرے گھر اور منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغ کا ٹکڑا ہے۔ اپنے پہلے اور دوسرے عمرے کے دوران میں نے وہا ں بھی طویل وقت گزارا۔ لیکن اب پابندی لگا دی گئی ہے کہ آپ نوسک کی آن ۔ لائن ایپلی کیشن کے زریعے اپوانمنٹ لے کر ریاض الجنہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ میں نے بہت کوشش کی تاہم میں یہ اپوائنمنٹ لینے میں ناکام رہی۔ اس بات پر میں نہایت دکھی رہی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب آنے سے چند دن پہلے کوشش کرکے ریاض الجنہ کی آن ۔لائن اپوائنمنٹ لے لی جائے۔ بہرحال مدینہ سے رخصت ہوئی تب بھی میں دکھی تھی کہ ریاض الجنہ تک رسائی نہیں ہو سکی۔ خیال آیا کہ یہ بلاوا میری قسمت میں نہیں تھا۔ سوچا کہ انشااللہ اگلی مرتبہ ضرور حاضری ہو جائے گی۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: حضور کی خدمت ریاض الجنہ روضہ رسول مسجد نبوی کی تدفین جاتا ہے کے بعد
پڑھیں:
امریکی وفد سے ملاقات کے حوالے سے میرے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا، بیرسٹر گوہر
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ ملکی مفادات پر اتفاق ہونا چاہئے، بانی پی ٹی ائی نے واضح کیا کہ دوست ممالک کے سربراہان یا وفود آئیں تو آپ نے ساتھ دینا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ آج سپیکر آفس سے پوچھوں گا کہ امریکی وفد سے ملاقات کے حوالے سے میرے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ ملاقات کے لیے نہ ہی کوئی کارڈ آیا، نہ ہی واٹس ایپ پر رابطہ کیا گیا، میرے ساتھ وفود سے ملاقات کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ ملکی مفادات پر اتفاق ہونا چاہئے، بانی پی ٹی ائی نے واضح کیا کہ دوست ممالک کے سربراہان یا وفود آئیں تو آپ نے ساتھ دینا ہے۔
بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ سفارت خانے کی جانب سے ہم سے رابطہ کیا گیا ہے، جہاں تک میرے علم میں ہے مجھے کوئی ٹیلی فون کال یا میسج نہیں آیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ امریکی سفارت خانے کی جانب سے کوئی کارڈ یا انوی ٹیشن میں نے نہیں دیکھا، اگر ہمارے ساتھ کوئی رابطہ ہوتا تو ہم ضرور جاتے۔