شہرِ وفا بہاول نگر ، کوئی محرم راز نہ ملدا”
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
دھوپ بستوں میں مضافات کی بھر لانے میں
دیر لگ جاتی ہے اسکول سے گھر آنے میں
بہاول نگر کے شاعر عامر سہیل کا شعر ستلج کے گیلے ساحلوں پر امید کے بستے اٹھائے ہوئے بچوں کی کیفیت بیان کرتا ہے۔ مضافات میں کچھ اور بھلے نہ ملتا ہو امید ضرور ملتی ہے اسی امید کے سہارے زندگی کی سانس ہمکتی ہے۔
بہاول نگر، پنجاب کے جنوبی علاقے میں واقع پانچ تحصیلوں پر مشتمل ایک خوبصورت اور تاریخی ضلع ہے ہے جو نہ صرف اپنی قدیم تہذیب بلکہ قدرتی وسائل اور ثقافتی ورثے کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ یہ شہر ماضی میں ریاست بہاولپور کا حصہ تھا اور اس کی بنیاد نواب آف بہاولپور کے دور میں رکھی گئی۔اس شہر کی سب سے بڑی پہچان یہاں کے ادیب اور شاعر ہیں۔ یہاں کے لوگ اپنی مہمان نوازی، ثقافتی روایتوں اور زراعت سے وابستگی کے لیے مشہور ہیں۔گزشتہ دنوں بہاول نگر کے ایم پی اے سہیل خان نے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شہر کی ٹرانسپورٹ کی خستہ حالی اور صحت کے میدان میں وسائل کی کمی کا ذکر کیا۔ سہیل خان کو نظر انداز کیے گئے شہر کے لوگوں کے لیے کام کرنے کا موقع ملا ہے انھیں حکومت کی توجہ یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر کرنے کی طرف مرکوز کروانی چاہیے۔ بہاول نگر ایک بڑا ضلع ہے جس میں انڈسٹری لگانے کے وسیع تر امکانات موجود ہیں۔ یہاں پر قائم شدہ یونیورسٹی کیمپس کو خود مختار یونیورسٹی بنانے کا عمل تیز کرنا چاہیے جس سے حکومتی پزیرائی میں اضافہ ہو گا اور یہاں کے ماحول اور ضروریات کے مطابق شعبہ جات کا قیام ممکن ہو سکے گا۔ اس یونیورسٹی کی انرولمنٹ ملک کی کسی بھی یونیورسٹی سے زیادہ ہو گی۔ یہ بہاول نگر ، چشتیاں ، ہارون آباد ، منچن آباد ، فورٹ عباس اور عارف والا جیسے شہروں کے لیے واحد یونیورسٹی ہو گی جو ان سے براہ راست جڑی ہو گی۔ اس ضلع میں یونیورسٹی اور میڈیکل کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کے ذریعے اکیڈمیاں انڈسٹری کو لنک کیا جانا چاہیے جس سے روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے اور لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہو گا۔ یہاں کی سیاسی قیادت چیمبر آف کامرس کے قیام کی کوشش بھی ثمر بار ہو سکتی ہے۔ اگر ریلوے کا نظام بحال کر دیا جائے اور بہاول پور تک اچھی ریل سروس بحال کر دی جائے تو بہاول نگر کی تمام تحصیلوں سمیت کئی دوسرے ڈسٹرکٹ کی تحصیلوں کو بھی سستی سفری سہولیات میسر آئیں گی۔ ایسے اقدامات عوامی پزیرائی حاصل کریں گے اور حکومت کے لیے کئی سیاسی اہداف کو حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔ اگر مستقبل میں بین الاقوامی تجارت کے لیے ہمسایہ ملک سے تجارتی راستہ کھولا جائے تو اس سلسلے میں بھی بہاول نگر سب سے بہترین شہر ثابت ہو گا۔ یہ ٹرانسپورٹیشن کے کم اخراجات سے منڈیاتی معیشت میں اہم سہولیات فراہم کر سکتا ہے۔
بہاول نگر کی زمین زرخیز ہے اور یہاں کپاس، گندم اور گنا جیسی فصلیں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہیں۔ زراعت اس علاقے کی معیشت کا بنیادی ستون ہے، لیکن جدید زرعی ٹیکنالوجی اور پانی کی قلت جیسے مسائل کے باعث کسانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، انڈسٹری کے فقدان نے روزگار کے مواقع کو محدود کر دیا ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو بڑے شہروں کی طرف ہجرت کرنا پڑتی ہے۔ شہر کی بنیادی سہولیات جیسے صحت، تعلیم اور صاف پانی کی فراہمی میں بھی کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مقامی ہسپتال میں جدید سہولیات کی کمی ہے اور معیاری تعلیمی ادارے بھی ضرورت سے بہت کم ہیں اس کے باوجود یہاں کے لوگ تعلیم کے حصول میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور نوجوان نسل کے اندر کچھ کر گزرنے کا جذبہ نمایاں ہے۔
بہاول نگر کے قدرتی وسائل اور جغرافیائی محلِ وقوع میں بڑے امکانات پوشیدہ ہیں۔ اگر یہاں پر حکومت اور نجی شعبہ مل کر سرمایہ کاری کرے تو یہ شہر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر زرعی صنعتوں کا قیام، پانی کے ذخائر کی بہتری اور جدید تعلیم و صحت کی سہولیات کا آغاز اس خطے کے مستقبل کو روشن کر سکتا ہے۔ ابھی اس ضلع میں صحت کی سہولیات کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی اور عملے کی قلت کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بے روزگاری اور معاشی تنگ دستی اس زرخیز علاقے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے 2017ءسے 2019ءتک، بہاولپور ڈویڑن میں 9,721 افراد نے خودکشی کی کوشش کی، جن میں سے 685 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ یہ اعداد و شمار ذہنی صحت کی خدمات کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔
بہاولنگر میڈیکل کالج کے منصوبے کا 2014 میں ا±س وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب، میاں محمد شہباز شریف، نے اعلان کیا تھا، جس کا مقصد بہاولنگر میں طبی تعلیم اور سہولیات کو فروغ دینا تھا۔ ابتدائی تخمینہ کے مطابق، اس منصوبے کی لاگت ایک ارب 70 کروڑ روپے مقرر کی گئی تھی، اور اس میں ایک سو طلبا و طالبات کو تعلیم دینے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ منصوبے کے تحت انتظامی عمارات، عملے کی رہائش گاہیں، اور بیشتر ہاسٹلوں کی تعمیر 2016 تک مکمل ہو چکی تھیں، لیکن کالج کی مرکزی عمارت کی تعمیر تاحال شروع نہیں ہو سکی۔ اس تاخیر کی وجوہات میں تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں اضافہ اور افراطِ زر شامل ہیں، جس کی وجہ سے تخمینہ لاگت میں تقریباً 60 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
مارچ 2024 میں، سیکرٹری پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ پنجاب نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بہاولنگر کے دورے کے دوران اعلان کیا کہ میڈیکل کالج کا منصوبہ ایک سال میں مکمل ہو جائے گا۔ تاہم، مئی 2024 میں اطلاعات کے مطابق، میڈیکل کالج کی تعمیر دس سال گزر جانے کے باوجود مکمل نہیں ہو سکی اور اس کی لاگت میں 100 فیصد اضافہ ہو چکاہے۔ مضافات کے بچوں نے بڑی مشکل سے دھوپ بستوں میں سمیٹی ہے اور وہ اسی دھوپ سے اپنے گھروں میں روشنی کرنا چاہتے ہیں۔ سہیل خان صاحب کو چاہیے کہ دور حاضر میں جس قدر ممکن ہو سکے اس شہر کی محبت کا قرض ادا کریں کم از کم موجووہ حکومت کے دور میں ریلوے اسٹیشن کی بحالی، میڈیکل کالج کی تکمیل اور خود مختار یونیورسٹی کے قیام کی طرف توجہ ضرور دیں۔ یہاں کی اکثریت نوجوانوں کی ہے یہ نوجوان جدید دور کے نوجوان ہیں جو تعلیمی اداروں اور انڈسٹریز سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر ہمارے لیڈر ان کو اپنا فین بنانا چاہتے ہیں تو انھیں نوجوانوں کے لیے روشن مستقبل کے امکانات پیدا کرنا ہوں گے۔
مستقبل میں بہاول نگر ایک ترقی یافتہ اور خود کفیل شہر بن سکتا ہے، بشرطیکہ اس کی موجودہ مسائل پر توجہ دی جائے اور ان کے حل کے لیے مربوط حکمت عملی اپنائی جائے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: میڈیکل کالج کی وجہ سے یہاں کے سکتا ہے کے لیے شہر کی کی کمی کے دور نگر کے
پڑھیں:
سرد جنگ؛ ملتان سلطانز کے مالک نے پھر بورڈ پر “سنگین الزامات” لگادیے
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی معروف فرنچائز ملتان سلطانز نے مالک علی ترین نے ایک مرتبہ پھر بورڈ کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔
کراچی میں جاری ملتان سطانز کے پریکٹس سیشن کے دوران ایک صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایس ایل کی سابق چیمپئین ٹیم ملتان سلطانز کے مالک علی ترین نے کہا کہ میرا مقصد پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) پر تنقید کرنا نہیں بلکہ انہیں نیند سے جگانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے معاملات کو جس انداز سے چلایا جارہا ہے، اس سے ہم نیچے کی طرف جائیں گے، اگر ہم نہیں مانیں گے تو لیگ کو اُوپر کیسے لیکر جائیں گے؟۔
علی ترین کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل منتظمین کو لگتا ہے کہ کمنٹری بہتر کرنے، زیادہ سے نیوٹرل امپائرز کی موجودگی سے لیگ زیادہ مقبولیت حاصل کرے گی تو ایسا نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ایل لیگ کا جب آغاز ہوا اور پھر لیگ جب پاکستان واپس آئی تو کراچی میں میچز کے دوران سیٹیں فُل ہوتی تھیں لیکن اب تعداد میں نمایاں کمی آئی کیوں، اسکا جواب تلاش کرنے کیلئے بیٹھیں بات کریں، کراچی کی کمیونٹی کو کیسے بلائیں، جب بورڈ بات نہیں کرے گا اور کوئی میٹنگ نہیں کرے گا تو کیسے تحفظات دور ہوں گے۔
علی ترین نے دعویٰ کیا کہ پی ایس ایل9 کے اختتام کے بعد سے 10ویں ایڈیشن کے آغاز تک کوئی میٹنگ نہیں ہوئی جس میں یہ مدعا اٹھایا جائے کہ کراچی میں شائقین کو کیسے اپنی طرف راغب کیا جائے بلکہ اسکے برعکس بورڈ نے حل یہ نکالا ہے کہ کراچی میں پی ایس ایل میچز کی تعداد کم کردی۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل؛ “ہمیں فرنچائزز کے کوئی مالکانہ حقوق حاصل نہیں” انکشاف
قبل ازیں ملتان سلطانز کے اونر علی ترین نے بورڈ کے فرنچائز ریٹین کے رینٹل ماڈل پر شدید تنقید کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم سال فرنچائز اونرز ٹیموں کو اپنے پاس رکھنے کیلئے رینٹ (یعنی کرایا) ادا کرتے ہیں، اگر نہ دیں تو ہمیں کوئی مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہیں جبکہ انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) کی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری کے مواقع بھی موجود نہیں۔
دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے اعلیٰ عہدیدار نے پی ایس ایل کی معروف فرنچائز ملتان سلطانز کے اونر علی ترین کے بیانات پر سخت موقف اپناتے ہوئے کہا کہ انکے بیانات سے ٹورنامنٹ کو متنازع بنانے کی کوشش ہے۔
اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل ضابطہ اخلاق کے مطابق ہمیں فرنچائز مالکان کے خلاف ڈسپلن کی کارروائی کا اختیار ہے لیکن اس موقع پر ہم نے ردعمل دکھایا تو اس سے لیگ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، کسی کو شکایت ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرے۔ بدقسمتی سے شکایت وہ شخص کر رہا ہے جو نہ میٹنگ میں شرکت کرتا ہے اگر میٹنگ میں آجائے تو وہاں اس قسم کی کوئی بات نہیں کی جاتی۔
Post Views: 3