Nai Baat:
2025-01-27@17:16:34 GMT

پیکا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

پیکا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم

پچھلے کچھ روز سے سوشل میڈیا پہ موجود کچھ لوگوں کے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پہ موجود اکاﺅنٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ان میں سابقہ ٹویٹر موجودہ ایکس، فیس بک، ٹک ٹاک اور یو ٹیوب شامل ہیں۔ یقین کیجئے کہ کچھ حضرات تو جانتے بوجھتے جھوٹ بولنے اور پھیلانے، ملک میں فساد پیدا کرنے اور غیر یقینی صورتحال اور بے چینی پھیلانے میں یکتا نظر آئے۔ کیونکہ ایسا کرنے کی وجہ ہی سے ان کا مواد دیکھا اور پڑھا جا رہا تھا اور بدلے میں انہیں ڈالر مل رہے تھے۔ ان کا کنٹینٹ سراسر جھوٹ، بہتان بازی پہ مبنی تھا اور تھمب نیل ایسے تھے کہ جیسے ملک میں انارکی پھیل چکی ہے اور ملک کا انتظامی، عدالتی و سکیورٹی نظام مکمل طور پہ مفلوج ہو چکا ہے۔ کئی ایک نے تو مختلف قومی اداروں کے سربراہان و ممبران کو تختہ مشق بنا رکھا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم نا تو قوم ہیں اور نا ہی ہمارا کوئی آزاد ادارہ یا خاکم بدہن کوئی ملک ہے۔ ان کے نزدیک نا تو قوم محب وطن تھی اور نا ہی قومی اداروں کے سربراہان۔
یہ صوتحال انتہائی پریشان کن تھی۔ پھر غور کیا تو ایک ہی وجہ سامنے آئی کہ ملک میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لئے نا تو کوئی اتھارٹی ہے اور نا ملک و قوم دشمن مواد کو ہٹانے کے لئے کوئی طریقہ کار۔ لہٰذا ایسے کسی ریگولیٹری فریم ورک کی غیر موجودگی میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ذاتی پسند و نا پسند کی بنیاد پہ عام لوگوں سمیت قومی اداروں اور ان کے سربراہان کی عزتیں اچھالنے، ان پہ بغیر ثبوت جھوٹے الزامات لگانے اور بدلے میں اندھا دھند ڈالر کمانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ یہاں پاکستانی حکمران چھوڑ, باہر سے آئے دوسرے دوست ممالک کے سربراہان بھی محفوظ نہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے غلط استعمال سے خواتین کی عزت بھی محفوظ نا رہ سکی ہے۔ یقینا” ریگو لیٹری فریم ورک کی غیر موجودگی میں ان سب کذابوں کو پکڑنا ناممکن ہی نظر آیا۔ اندازہ ہوا کہ زیادہ سے زیادہ ڈالر کمانے کی حرس نے ان لوگوں کو مذہب سے بیزار, عقل و شعور سے عاری اور ریت و روایات اور اخلاقی قدروں کی پامالی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ لوگ پیسوں کی خاطر ملک اور قوم دشمن بننے سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔ اب جب صورتحال حد سے بڑھنے لگی اور قومی رہنماﺅں، باہر سے آئے مہمانوں اور ملکی اداروں کے سربراہان کو مسلسل نشانہ بنایا جانے لگا تو حکومت نے آنکھ کھولی اور اس طرف توجہ کی۔
میں موجودہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ جو بڑے بھائی، دوست اور عزیز بھی ہیں ان کی بندیال کے ساتھ مل کر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ایک خاص سوچ کے حامل جج صاحبان کی تقرریوں پہ ان کا ناقد رہا ہوں۔ لیکن آج میں انکی طرف سے وقت کی ضرورت کے مطابق قومی اسمبلی میں ( دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ ) جسے عام زبان میں پیکا ایکٹ بھی کہا جاتا ہے، اس میں ترامیم کا بل پیش کرنے کے اس تاریخی اقدام پہ
ان کا معترف ہوں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اس بل کے پاس ہونے سے ملک میں حکمرانوں سمیت تمام خاص و عام باسیوں کی عزت و ناموس کی حفاظت یقینی بنے گی، جھوٹ اور بے چینی و ہیجانی کیفیت کا بڑی حد تک خاتمہ ہو گا۔ ملکی اداروں اور ان کے سربراہان کا تقدس بحال ہو گا۔ کیونکہ اس ترامیمی بل کے ذریعے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پہ ہتک عزت اور جھوٹی و بے بنیاد سنسنی خیز خبروں سے متعلق اہم قانون سازی کی جا رہی ہے۔
پیکا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کا احاطہ کریں تو مندرجہ ذیل نقات قابل غور ہیں۔
1۔ ملک میں پہلی دفعہ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی یا ڈی آر پی اے قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور اس اتھارٹی یعنی ڈی آر پی اے کو غیر مصدقہ آن لائن مواد ہٹانے کا اختیار، ممنوعہ یا فحش مواد تک رسائی حاصل کرنے کا اختیار اور ممنوعہ مواد شیئر کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔ مجوزہ ترمیم میں غیر قانونی مواد کی تعریف میں بھی وقت کی ضرورت کے مطابق توسیع کردی گئی ہے، پیکا ایکٹ کے سیکشن 37 میں موجودہ ’غیر قانونی آن لائن مواد‘ کی تعریف میں اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد شامل ہے۔ اسی طرح اب غیر قانونی مواد کی تعریف میں امن عامہ، غیر شائستگی، غیر اخلاقی مواد، توہین عدالت یا اس ایکٹ کے تحت کسی جرم کے لیے اکسانا شامل کئے گئے ہیں، پیکا ایکٹ میں مجوزہ ترمیم میں غیر قانونی مواد کی 16 اقسام کے مواد کی فہرست دی گئی ہے جس میں گستاخانہ مواد، تشدد، فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا، فحش مواد، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی, جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف ’الزام تراشی‘، بلیک میلنگ اور ہتک عزت قابل ذکر ہیں۔
3۔ مجوزہ ترامیم میں ’سوشل میڈیا پلیٹ فارم‘ کی نا صرف نئی تعریف شامل کی گئی ہے بلکہ مجوزہ تعریف میں سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز اور سافٹ ویئر کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔
4۔ پیکا ایکٹ کے سیکشن 2 میں ایک نئی شق کی تجویز بھی شامل ہے۔ مجوزہ ترمیم میں قانون میں بیان کردہ اصطلاحات کی تعریف شامل ہے۔ ’سوشل میڈیا تک رسائی کی اجازت دینے والے نظام کو چلانے والے کسی بھی شخص‘ کو بھی نئی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔
5۔ مجوزہ ترمیم میں کی گئی تعریف میں ’ویب سائٹ‘، ’ایپلی کیشن‘ یا ’مواصلاتی چینل‘ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
6۔ ڈی آر پی اے اپنے قیام کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ’ڈیجیٹل اخلاقیات سمیت متعلقہ شعبوں‘ میں تجاویز دینے، تعلیم، تحقیق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی اور انہیں سہولت فراہم کرنے کی مجاز ہو گی۔
7۔ ڈی آر پی اے کو سوشل میڈیا مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کا اختیار ہوگا، اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو ’بلاک‘ یا ‘محدود’ کرنے کی بھی مجاز ہوگی، اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم کا تعین بھی کرے گی۔ نءمجوزہ اتھارٹی ملکی وغیر ملکی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے بہم سہولت بھی فراہم کرنے کی مجاز ہو گی۔
8۔ اتھارٹی صارفین کے آن لائن تحفظ کو بھی یقینی بنائے گی۔
9۔ترمیمی ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نئی تحقیقاتی ایجنسی نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کا قیام بھی عمل میں لائے گی اور یہ این سی سی آئی اے سائبر کرائم سے متعلق شکایات و مقدمات کی تحقیقات کیا کرے گی۔
10۔ مجوزہ ترامیم میں بتایا گیا ہے کہ جھوٹی خبر پھیلانے اور قومی اسمبلی سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں حذف شدہ مواد کو سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر بھی کارروائی ہو گی، سپیکرز و چیئرمین سینیٹ کی طرف سے حذف مواد نشر کرنے پر تین سال قید اور بیس لاکھ روپے جرمانہ کیا جاسکے گا۔
11۔ ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کیا جائے گا، وفاقی حکومت تین سال کیلئے ٹربیونل ممبران تعینات کرے گی، سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل 90 روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔ مجوزہ مسودے کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی جاسکے گی، متاثرہ فریق ٹربیونل فیصلے کیخلاف 60 روز کے اندر اپیل سپریم کورٹ میں دائر کرنے کا پابند ہوگا۔
یاد رہے کہ کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی میں اس کے قوانین اور انکی پاسداری سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے آئین کے تحت بھی ملک کے ہر شہری کی جان, مال اور عزت کی حفاظت کا ذمہ حکومت کے سر ہے اور یقینا” حکومت نے یہ ترمیمی بل پیش کر کے جان ، مال اور عزت کے تقدس و حرمت کو برقرار رکھنے کے لئے صحیح سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ اس سے صرف ان لوگوں کو تکلیف ہو گی جو ڈالر خور بن چکے ہیں اور ڈالروں کی حوس و حرس میں ملک و قوم کے مفاد کے خلاف جانے سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔ اس سے ان لوگوں کو بھی تکلیف ہو گی جو ملک و ملت کی سالمیت کی پرواہ کئے بغیر صرف جھوٹ بیچ رہے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کو بھی تکلیف ہو گی جو ملک دشمنوں کے آلہ کار بن کر ملک میں انارکی پھیلانے اور ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت کو ان سب کی بلیک میلنگ کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے اور ان مادر پدر آزاد، صحافیوں کے لبادے میں چھپی اور ملک و قوم کا خون پیتی جونکوں کو مسل کر رکھ دینا چاہئے۔ ان شاءاللہ اس ترمیمی بل کی منظوری کے بعد حالات یکسر بدل جائیں گے۔ اس قانون کے لاگو ہوتے ہی ملک کے باسیوں کو سکون ملے گا، ان کی عزت محفوظ ہو گی اور ڈالر خور، منہ پھٹ، ملک دشمن خود ساختہ صحافی و یوٹیوبر منہ کے بل جا گرینگے۔ بے شک دیر آئید درست آئید، کیونکہ پوری قوم کو سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے اس ترمیمی بل کا شدت سے انتظار تھا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے سربراہان ان لوگوں کو ایکٹ کے تحت ڈی آر پی اے کا اختیار پیکا ایکٹ تعریف میں تک رسائی کی تعریف کے خلاف اور قوم کرنے کا مواد کی کرنے کی ملک میں کرنے کے کو بھی گئی ہے ہے اور اور ان کی عزت گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

پیکا ترمیمی بل, سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سے بھی منظور، کچھ ترامیم پر اتفاق

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی۔فیصل سلیم رحمن کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا۔بل پر بحث کے دوران جے یو آئی( ف )اور صحافتی تنظیموں نے مخالفت کی۔ جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضی نے کہا ہے کہ پیکا ترمیمی بل اتنی جلدی میں کیوں منظور کیا جا رہا ہے، اس کم وقت میں تو قانون پڑھا ہی نہیں جاسکتا، مشاورت کیا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بل میں بہت سی کمزوریاں ہیں، فیک نیوز کی تشریح نہیں ہے، کیسے فیصلہ ہو گا کہ فیک نیوز کیا ہے؟۔چیئرمین کمیٹی نے صحافتی تنظیموں سے تحریری سفارشات نہ دینے پر سوالات کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافتی تنظیموں کو چاہیے تھا کہ اپنی تحریری سفارشات کمیٹی میں رکھتے۔انہوں نے کہا کہ میں خود بھی فیک نیوز کا متاثر رہا ہوں، روانہ فیک نیوز کے خلاف مقدمات کریں تو صرف وکیلوں کو ہی ادائیگیاں کرتے رہیں گے۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ بل کی روح سے ہمیں اتفاق ہے، سوشل میڈیا کی صورت فیک نیوز کی بیماری کا علاج ضروری ہے، میرے نام سے میرے کالم چھپ رہے ہیں، ایف آئی اے کو کئی درخواستیں دیں لیکن سلسلہ نہیں رکا، ہمیں صحافیوں کا تحفظ بھی کرنا ہے، بہت اچھا ہوتا کہ بل سے پہلے صحافیوں سے مشاورت کی جاتی، اگر قانون کا رخ صحافیوں کی طرف آئے گا تو ہم صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ یہ قانون لوگوں کے تحفظ کے لیے ہے، حکومت کچھ ترامیم بھی لائی ہے تاکہ اس قانون کا بہتر اطلاق ہو سکے، قومی اسمبلی سے منظور کردہ بل کو اسی صورت میں منظور کیا جائے۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ وزیرِ اطلاعات کے ساتھ صحافیوں کی ملاقات میں کچھ ترامیم پر اتفاق ہوا ہے، کیا وزارت داخلہ قومی اسمبلی سے منظور بل میں نئی ترامیم چاہتی ہے۔عرفان صدیقی نے کہا کہ اس ملک میں کسی کو ہتھکڑیاں لگانے کے لئے ضروری نہیں کہ کسی قانون کی ضرورت ہو، مجھے خود کرایہ داری کے قانون کے تحت پکڑا گیا تھا۔ دوسری جانب سینیٹ قائمہ کمیٹی آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 منظور کر لیا۔بل کے حق میں 4 ووٹ اور مخالفت میں 2 ووٹ آئے۔سینیٹر کامران مرتضی اور سیف اللہ نیازی نے بل کی مخالفت کی۔سینیٹر کامران مرتضی کی ترامیم کے حق میں 4 ممبرز نے ووٹ دیئے ۔سینیٹر ندیم بھٹو نے کہا کہ میں تھوڑا سا کنفیوژن کا شکار ہو گیا، اس سیکشن کے حق میں نہیں ہوں۔سینیٹر کامران مرتضیٰ کی سیکشن 7 میں ترامیم منظور نہ ہو سکی۔

متعلقہ مضامین

  • سوشل میڈیا پرمقامی قوانین کا   غلط استعمال، 7دوست ممالک میں 210 پاکستانی پابندسلاسل
  • سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا مجبوری ہے، بل صحافیوں کے خلاف نہیں، طلال چوہدری
  • متنازعہ پیکا ایکٹ: پی ایف یو جے کا ملک بھر میں کل احتجاج کا اعلان،افضل بٹ کا مشاورت نہ کرنے کا الزام
  • پیکا ایکٹ میں ترامیم کیخلاف صحافیوں نے ملک گیر احتجاج کی کال دیدی
  • پیکا ایکٹ میں ترامیم کے خلاف صحافیوں نے ملک گیر احتجاج کی کال دیدی
  • پیکا ترمیمی بل, سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سے بھی منظور، کچھ ترامیم پر اتفاق
  • پیکا ایکٹ: دفاع یا دبائو؟
  • پیپلز پارٹی کا ن لیگ کی اتحادی ہونے کا تجربہ مایوس کن رہا: گورنر پنجاب
  • میرواعظ عمر فاروق نے مجوزہ وقف ایکٹ میں ترامیم پر تشویش کا اظہار کیا