پاکستان میری پہلی محبت ہے، اس کی خوشی اور غم میری خوشی، غم ہے۔ گزشتہ دنوں میں بہت خوش تھا، خوشی یہ تھی کہ ہمارے شریکوں کو ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ بیس جنوری سے میں حالت غم میں ہوں اس لئے کہ ہمارے شریک تو وہاں موجود تھے، ہماری نمائندگی کرنے والا کوئی نظر نہ آیا۔ بھارتی وزیر خارجہ شنکر صف اول میں بیٹھے تھے، کیمرے نے کئی مرتبہ ان کا کلوز دکھایا، ہمارے وزیر خارجہ بھی امریکہ جا سکتے تھے لیکن وہ چین کے مقابلے میں امریکہ کو زیادہ لفٹ نہیں کراتے۔ میں نے اسی دن کے تصور سے آج تک مونچھیں نہیں رکھیں کیونکہ ایسے موقعوں پر مونچھ نیچی ہو جائے تو دنیا دیکھ لیتی ہے، کلین شیو ہونے کے اور کئی فائدے بھی ہیں۔
میرے ایک ملکی دوست نے مجھے تنگ کرنے کے لئے فون کیا اور کہا کہ صدر ٹرمپ نے تمہارے صدر کو کیوں دعوت نہیں دی؟ میں نے اپنی عزت بچانے کے لئے اسے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ انہوں نے دعوت دی اس کے لئے آپریٹر کو فون ملانے کیلئے کہا تو امریکی ٹیلیفون آپریٹر نے غلطی سے کال چین کے صدر کو ملا دی۔ امریکی صدر نے دعوت دی اور فون بند کر دیا۔ اسے پتہ ہی نہ چل سکا کہ اس کی بات صدر پاکستان کی بجائے غلط کال ملنے کی وجہ سے چین کے صدر جناب شی پنگ سے ہو گئی ہے کیونکہ چینی صدر بہت کم گو ہیں انہوں نے دعوت کے جواب میں صرف ”اوکے“ کہا اور فون بند کر دیا۔ یوں امریکی صدر مطمئن ہو گئے کہ انہوں نے نیوکلیئر پاکستان اور اپنے دیرینہ اتحادی، دکھ سکھ کے ساتھی ملک پاکستان کے صدر کو دعوت دے ڈالی ہے جبکہ ہم اس دعوت کا انتظار ہی کرتے رہے لیکن ہم نے اس خیال کے تحت جناب بلاول بھٹو کو بروقت جہاز چڑھا دیا تھا کہ دعوت نامہ اگر کوریئر کی غلطی سے یا سستی سے عین تقریب کے روز پہنچے تو بھی ہماری طرف سے کوئی تو امریکہ پہنچ چکا ہو، غلط کال ملنے کا بھانڈا اس وقت پھوٹا جب امریکیوں نے ہمارے صدر کو وہاں نہ پایا۔ میرے ایک برطانوی دوست نے بھی میرا دل جلانے کے لئے مجھے ویڈیو کال کی اور طعنہ دیا کہ کوئی پاکستانی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب میں نظر نہیں آیا۔ اگر تمہاری پی آئی اے مکمل طور پر بیٹھ چکی ہے تو اپنی نمائندگی کیلئے کسی اور ایئرلائن کا ٹکٹ لے دیتے۔ میں نے اپنی کھوئی ہوئی عزت بچانے کی کوششیں کرتے ہوئے اسے ایویں کہا کہ دنیا کے ہر ملک کی نمائندگی کرنے کیلئے ایک شخص امریکہ پہنچی جبکہ ہماری نمائندگی کیلئے دو شخصیات امریکہ میں موجود تھیں۔ ایک بلاول بھٹو دوسرے جناب محسن نقوی وزیرداخلہ، میرے دوست نے ویڈیو کال پر منہ بناتے ہوئے کہا لیکن دونوں نظر تو نہیں آئے، وہ کہاں تھے۔ میں نے کہا وہ دونوں بھائی وزیر خارجہ شنکر سے آگے والی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے دوست نے درشت لہجے میں کہا بھارتی وزیر خارجہ پہلی صف میں تھے، ان کے آگے کرسیوں کی کوئی قطار نہیں تھی۔ میں پورا لاہوریا بنا ہوا تھا۔ میں نے پروں پر پانی نہ پڑنے دیا اور اپنے دوست سے کہا جب کیمرہ ان کی طرف گیا تو وہ دونوں اس وقت چند منٹ کے لئے سگریٹ پینے کے لئے باہر گئے تھے۔ میرے دوست نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا وہ دونوں انتہائی شریف آدمی ہیں، وہ سگریٹ نہیں پیتے۔ میں نے پینترا بدلا، شاید وہ پان لینے کے لئے باہر گئے ہوں۔ میرا دوست پھر بھی نہ مانا کہنے لگا وہ دونوں پان بھی نہیں کھاتے۔ میں نے تنگ آ کر اپنی چیچی انگلی اٹھا کر اسے دکھائی اور کہا پھر ہو سکتا ہے وہ یہ کرنے باہر گئے ہوں۔ میرے دوست نے میری اس بات سے اتفاق کیا اور کہا ہاں یہ تو عین ممکن ہے۔ امریکہ میں سردی بہت پڑ رہی تھی اور چیچی انگلی والا معاملہ تو ہر شخص کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ میرا دوست میری بات مان گیا تو میں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں سابق صدر کلنٹن روبوٹ کی مانند آہستہ آہستہ کھسکتے نظر آئے جبکہ بیگم صاحبہ ہیلری کلنٹن نٹ کھٹ سٹائل میں تھیں۔ سابق صدر جارج ڈبلیو بش بھی کافی عمررسیدہ ہو چکے ہیں۔ یوں لگا جیسے ان کا منہ سوجھا ہوا ہے۔ بیگم لارا بش کافی متحرک تھیں۔ سابق صدر اوباما اکیلے تھے وہ ”گواچی گاں“ کی طرح ادھر ادھر دیکھتے ہال میں داخل ہوئے۔
ذاکر نائیک صاحب دورہ پاکستان پر آئے تو انہوں نے ایک انٹرویو میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا امریکی عورت زندگی میں تو مردوں کی شریک حیات بنتی ہے۔ وہ کس کے ساتھ دل سے بستی ہے، کوئی نہیں جان سکا۔
ڈونلڈ ٹرمپ حلف برداری سے بہت جلد فارغ ہو گئے۔ 35الفاظ پر مشتمل حلف تھا جس کے بعد وہ اپنے نائب صدر جے ڈی وینس کے ہمراہ ایک تقریب میں شریک ہوئے۔ دونوں کی بیگمات ان کے ہمراہ تھیں۔ دونوں نے لائیو گانے پر رقص کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے گلوکار کی آواز میں آواز ملا کر گانے کے دو بول گائے جس کے بعد ان کے بیٹے، بیٹی، بہو اور غیر شادی شدہ بچے بھی سٹیج پر ان سے آ ملے۔ لبرٹی ہال روم میں ہونے والی اس تقریب میں انہوں نے نہایت محبت سے ہمیشہ کی طرح اپنے بچوں، ایونکا، جیرڈ، ٹیمنی، ایرک، لارا اور بیرن کا تعارف شرکاءتقریب سے کرایا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی سپیچ نے وہ سب کچھ واضح کر دیا جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ بیشتر باتیں ان کی الیکشن کیمپین میں کئے گئے وعدوں کے حوالے سے تھیں۔ انہوں نے یہی باتیں لبرٹی ہال روم کی تقریب میں دہراتے ہوئے کہا کہ امریکی عوام کیلئے گھر، تعلیم اور ٹیکسوں میں کمی ان کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہیں۔ حیرت ہے زبوں حال امریکی معیشت کے باوجود انہوں نے یہ نہیں کہا کہ امریکہ ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، ہمیں سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔
انہوں نے امریکہ اور امریکیوں کو عظیم ملک کی عظیم قوم بنانے کی بات کی، ان کی باتوں میں اخلاص نظر آیا، گمان نہیں یقین ہے کہ وہ عوام سے کئے گئے کسی وعدے کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ نہیں کہیں گے کہ فلاں بات تو میرا سیاسی بیان تھا۔ امریکی معاشرے امریکی سیاست میں سربراہ مملکت کو اپنے ہر وعدے اپنی ہر بات کا حساب دینا پڑتا ہے۔ حقیقی جمہوریت یہی ہے جہاں جمہور کی اہمیت ہے، انسان کی عزت اور قدر ہے، وہ جانوروں سے بدتر نہیں۔ اہم اعلان اور سب سے خوبصورت بات امریکہ میں مرد اور عورت ہوں گے کھسروں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب انہوں نے ہوئے کہا وہ دونوں ٹرمپ کی کہا کہ صدر کو کے لئے
پڑھیں:
امریکہ کی جانب سے مغرب سے شمال یمن تک نئے فضائی حملے
جب کہ یمن پر امریکی فضائی اور میزائلی جارحیت کے آغاز کو ایک ماہ گزر چکا ہے، جارح امریکی جنگی طیاروں نے ایک بار پھر ملک کے کئی علاقوں پر بمباری کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایک مہینہ گزر چکا ہے جب سے امریکہ نے یمن پر وسیع پیمانے پر فضائی اور میزائل حملے شروع کیے، اور اب ایک بار پھر امریکی جنگی طیاروں نے اس ملک کے کئی علاقوں پر بمباری کی ہے۔ فارس نیوز کے مطابق، یمنی ذرائع نے اتوار کی صبح (13 اپریل 2025) اطلاع دی ہے کہ امریکی جنگی طیارے ایک بار پھر یمن کی فضا میں پرواز کر رہے ہیں اور کئی علاقوں پر شدید بمباری کی گئی ہے۔ المسیرہ چینل نے خبر دی ہے کہ امریکی جنگی طیاروں نے البیضاء صوبے کے علاقے الصومعہ میں واقع ایک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ پر پانچ بار بمباری کی۔
اسی طرح شمالی یمن کے شہر صعدہ کے قریب السهلین نامی علاقے کو تین بار فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ مغربی یمن کے ساحلی صوبے الحدیدہ میں بھی المنیرہ کے علاقے کو دو بار بمباری کا سامنا کرنا پڑا۔ یمنی ذرائع کے مطابق، امریکی جنگی طیاروں اور جاسوس ڈرونز کی پروازیں یمن کے مختلف صوبوں کی فضا میں اب بھی جاری ہیں۔ امریکہ کی یہ وسیع فضائی اور میزائل جارحیت 15 مارچ 2025 کو اسرائیل کی حمایت میں شروع ہوئی تھی، اور ایک ماہ گزرنے کے باوجود، امریکی کمانڈر کھل کر اپنی ناکامیوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔
کچھ دن پہلے سی این این نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اگرچہ امریکہ نے صرف تین ہفتوں میں اس آپریشن پر تقریباً ایک ارب ڈالر خرچ کیے، لیکن ان حملوں کا اثر محدود رہا ہے۔ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اگرچہ ان فضائی حملوں سے کچھ عمارتیں اور بنیادی ڈھانچے تباہ ہوئے ہیں، لیکن حوثیوں کی بحر احمر میں حملے جاری رکھنے کی صلاحیت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ امریکی ذرائع کے مطابق ہم اپنا تمام تر زور، ہتھیار، ایندھن اور آپریشن کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔