Nai Baat:
2025-04-15@09:34:12 GMT

غزہ کو فتح مبارک، اگلا پڑاﺅ تل ابیب

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

غزہ کو فتح مبارک، اگلا پڑاﺅ تل ابیب

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اللہ نے صبر کرنے والے غزہ کے مظلوم عوام کو ظالم و سفاک وحشی اللہ کے دھتکارے ہوئے اسرائیل پر فتح فرمائی۔ اللہ نے دیکھا دیا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پچاس ہزار شہادتوں لاکھ سے زیادہ زخمیوں، سیکڑوں ملبے تلے دبے ہوﺅں، لاکھوں بے یارو مددگار سڑکوں پر پڑے ہوﺅں، سیکڑوں گم شدہ، ٹوٹے پھوٹے خیموں پناہ گزیں، لاکھوں اسرائیل جیلوں میں بند فلسطینیوں کی قربانیاں رگ لائیں ۔ اللہ نے انہیں فتح عطافرمائی۔ اسرائیل غزہ کو اپنے تکبر کے زور پر مٹانے نکلا تھا۔ مگر ذلیل ہو کر اور شکست فاش کھا کر واپس اپنے خول میں جا چھپا۔ اس کا نظارہ دنیا نے اسرائیل کی دفاعی کمیٹی میں دیکھا کہ متعصب وزیر دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ اسرائیلی دجالی ریڈیو کی خبر کے مطابق، موساد کاچیف یہ کہتا ہوا نظر آیا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ نہایت ہی کڑوا گھونٹ ہے جو اسرائیل کو پیناپڑا۔ اسرائیل اس حال تک پہنچ چکاہے کہ اسے پیئے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ 33 یرغمالیوں کے بدلے 90 فلسطینی خواتیں اور بچے رہاہو گئے ہیں۔ اسرائیلی باقی قیدیوں کے بدلے 2000 فلسطینی قیدی رہا کرے گا۔ غزہ میں عوام جشن منا رہے ہیں۔ دنیا کے امن پسند عوام بھی خوشیاں منا رہے ہیں۔نیتن یاہو اب اپنی حکومت نہیں بچا سکتے۔ جلد اس کے حکومت بھی ختم ہوجائے گا۔
دنیا کی یہ واحد اور منفردجنگ ہے، کس طرح اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں کوکئی عشروں سے غزہ کی پٹی میں قید کیاہوا تھا ۔ باہر کی دنیا سے کوئی چیز ان تک پہنچنے نہیں دی جاتی تھی۔غزہ کے قید بستی کے مظلوموں کی امداد کے لیے ایک دفعہ ترکی کے اردوان نے ایک بحری جہاز میں انسانی ہمدردری کے تحت ضرورت کی اشیا ءپہنچانے کی کوشش کی تو اسرائیل فوج نے بین الاقوامی سمندر میں اس جہاز پر حملہ کیا۔ جہاز کے کئی امدادی کارکنوں جن میں انٹر نیشنل برادری کے صحافی بھی شامل تھے، فوجی کارروائی کر کے شہیدکیا۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لائی گئی امداد کو غزہ تک نہیں پہنچنے دیا۔
ظلم کی انتہا کہ فلسطینیوں کو غزہ کی زمین پر رہنے ، اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت سفاک یہود نے نہیں دی ہوئی تھی ۔ بہادر فلسطینیوں نے پھر زیر زمیں سرنگوں کاو ہ جال بچھایا۔ جسے جدید دنیا دیکھ کر دنگ ہو گئی۔ان ہی سرنگوں میں اسلحہ کی فیکٹریاں قائم کیں۔ ان کے اندر ایسے جدید یاسین۔ 5 میزائل تیار کئے، جو دنیا کے میزائلوں سے سو گناسستے اور کارکردگی میں سو گنا زیادہ ہیں۔ یہ وہی یاسین۔5 میزائل ہیںجن کی مار کی وجہ سے غزہ کی گلیوں میں جگہ جگہ اسرائیل کے جلے اور تباہ شدہ ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے مرکاوا ٹینک اور فوجی گاڑیاں اسرائیل کی شکست کا ثبوت پیش کر رہی ہیں ۔ ان جلے ہوئے تباہ شدہ ٹینکوں کی باقیات پر غزہ کی خواتین کپڑے سکھانے کے لیے ڈالتی نظر آئی۔ جنگ بندی کے بعد ان تباہ مرکاوانکوں پر غزہ کے مظلوم فتح کی خوشیاںمناتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
472 دنوں تک مسلسل دن رات غزہ کے مظلوم شہریوں پر اسرائیل بمباری جاری رہی۔ غزہ کی اسی فی صد رہائشی عمارتیں ملبے کاڈھیربنا دی گئیں۔ سکولوں ہسپتالوں کو بمباری کر کے ملبے میں بدل دیا۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق نوے لاکھ ٹن بارود برسایا گیا۔ جو دو ایٹم بموں کے برابر ہے۔ غزہ کے ملبے کو اُٹھانے کے سو ٹرک بیس سال میں اس ملبے کو ٹھکانے لگا پائیں گے، اس میں اربوں ڈالر خرچ ہوں گے۔
معاہدے کے مطابق اسرائیل فوج غزہ سے نامراد ہو کر نکل گئی۔ جنگ بندی کے بعدفلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے سربکف مجاہدین نے جب غزہ کی سڑکوں پر پریڈ کی تو غزہ کے مرد، خواتین، بچے بوڑھے ان کے استقبال کے لیے غول کے غول باہر نکل آئے۔ دشمن نے دیکھا یہ تو پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور اور با ہمت ہیں۔ غزہ کے لوگ فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ فتح کی خوشی سے اللہ کے سامنے سجدے کر رہے ہیں۔ مرکزی سڑکوں پر فلسطین کے جھنڈے لہرا دیئے گئے ہیں۔ غزہ میں پھرسے زندگی لوٹ آئی ہے۔ معاہدے کے مطابق چھ سو امدادی ٹرک شمالی غزہ کے لیے رفح کراسنگ سے داخل ہوئے ہیں۔ یہ سپلائی روزانہ کی بنیاد پر جاری رہے گی۔ غزہ کے تین انٹری پوئنٹ سے ٹرک امدادی سامان لے کر غزہ میں داخل ہو نگے۔
پنجابی کی کہاوت سنتے رہے ہیں ” ڈریے رب قادر کولوں جیہڑا چڑیاں توں باز مراندہ ہے“ طوفا ن اقصٰی کیا ہے۔ مومن کی ایک یلغار ہے۔ آئیں اس پر بات کریں۔1948 ءسے باہرسے فلسطین پر آکر دہشت گرد یہودیوں نے فلسطینیوں کے گھروں پر قبضہ کر لیا۔ ڈھائی ہزار سال سے آباد فلسطینیوں کو کہا کہ فلسطین تمھارا نہیں یہ تویہودیوں کاہے۔ جبکہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ یہود آٹھ سو سال سے زیادہ فلسطین میں کبھی نہیں رہے۔ فلسطینی اُسی دن سے قابض یہودیوں سے فلسطین آزاد کرانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔شہید یحییٰ السنوار جس کو اسرائیل نے عمر قید کیا ہوا تھا۔ ایک یہودی یرغمالی کے بدلے رہائی پائی تھی۔ یحییٰ السنوار نے ایک پلاننگ سے جنگی منصوبہ بنایا۔حماس کے مجاہدین کہر بن کر ہوائی، بحری، بری راستوں سے ساری رکاوٹیں توڑ کر اسرائیل کے اندر داخل ہوئے۔ اسرائیل ناقابل شکست ہونے کا تکبر زمیں بوس کر دیا۔ اس کا ڈوم سکیورٹی نظام دھرے کادھرا رہ گیا۔ اسرائیل کے ڈھائی سو کے قریب نوجی اور سویلین کو یرغمال بنا کر غزہ کی سرنگوں میں قید کر لیا۔ اور کہا کہ اسرائیلی جیلوں میں برسوں سے قید فلسطینی مرد و خواتین کو جب تک اسرائیل رہا نہ کرے ، ان یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا جائے گا۔
اسرائیل، امریکا، مغرب اور بھارت سب مل کر 472 دن مسلسل بمباری اور جدید خفیہ ذرائع استعمال کرنے کے باوجود حماس سے یرغمالی رہا نہ کرا سکے۔ پھر اللہ نے اپنی تدبیر اور مظلوموں کو فتح نصیب کرانے کے لیے دشمن کو دشمن سے ہی شکست کاسامان کیا۔ وہی ٹرمپ جو حماس کو دھمکیوں پر دھمکیاں دیتا تھا کہ یرغمالی چھوڑ دو ورنہ غزہ پر قیامت ڈھا دوں گا۔ مجبورہو گیا اور وحشی بنجمن نیتن یاہو وزیر اعظم اسرائیل کو غزہ کی جنگ کو 20 جنوری اقتدار سنبھالنے سے پہلے جنگ بند کرنے پر مجبور کیا۔آج غزہ آزاد ہے۔ اگر دشمن نے مکر کیا ۔ جنگ بندی معاہدہ توڑا۔ تو پھر حماس نے تل ابیب فتح کر کے اس پر فلسطینی جھنڈے لہرانے ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت حماس نہیںروک سکے گی۔ ان شاءاللہ ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے مظلوم کے مطابق اللہ نے رہے ہیں غزہ کے غزہ کی کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل کیخلاف جہاد میں حصہ لیں

ﷰامریکا کی مکمل حمایت سے غزہ پر نہ رکنے والے اسرائیلی ظلم و ستم کو روکنے کیلئے کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ ظالم اپنے ظلم میں روز بروز بڑھتا جا رہا ہے لیکن دنیا کا ضمیر سویا ہوا ہے۔ ماسوائے زبانی جمع خرچ کے کوئی بھی مظلوم فلسطینیوں کو ظالم اسرائیل سے بچانے کیلئےآگے نہیں بڑھ رہا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوس مسلمانوں اور مسلمان ممالک پر ہوتا ہے جو فلسطینیوں کی اس نسل کشی کو بڑی سرد مہری کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے اگر بیانات سے آگے کوئی بات نہیں بڑھتی تو عمومی طور پر عام مسلمانوں کو بھی جو کرنا چاہیے وہ نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان کے بڑے عالم دین اور اسکالر محترم مفتی تقی عثمانی نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں غزہ پر اسرائیلی ظلم و ستم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں پر فلسطینیوں کو اسرائیل کے ظلم و ستم سے بچانےکے لیے جہاد فرض ہو چکا۔ محترم مفتی صاحب کی اس بات کا پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر کتنا اثر ہوتا ہے اس بارے میں مجھے کوئی خوش فہمی نہیں لیکن اگر عام مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اس صورتحال میں ساری ذمہ داری صرف مسلمان ممالک کی حکومتوں کی ہے تو یہ بات بھی درست نہیں۔ اگر مسلمانوں کے حکمراں فلسطینیوں کی مدد کرنے اور اسرائیل کے خلاف جہاد کرنے کیلئےتیار نہیں تو پھر کیا عام مسلمان بھی خاموش ہو کر بیٹھ جائیں؟ اپنے آپ کو بے بس ثابت کر کے اور مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر ساری ذمہ داری ڈال کر عام مسلمانوں کا وہ کچھ بھی نہ کرنا جو اُن کے بس میں ہے کیا اس ظلم میں اسرائیل کا ساتھ دینے کے مترادف نہیں۔ ایک عام مسلمان چاہے اُس کا تعلق پاکستان سے ہو، سعودی عرب یا ترکی سے یا وہ امریکا اور یورپ کے کسی ملک میں بیٹھا ہو اوہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے ایک ایسے جہاد کا حصہ نہیں بن سکتا جس کا اسرائیل کو نقصان بھی ہو اور اپنے آپ کویہ احساس بھی کہ کم از کم میرے بس میں جو ہے وہ میں عملی طور پر کر رہا ہوں۔ اسرائیل کے غزہ پر حملوں اور بچوں، عورتوں، بوڑھوں سمیت ہزاروں فلسطینیوں کو نشانہ بنانے پر اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائی گئی۔ پاکستان میں بھی یہ مہم چلائی گئی اور اسرائیلی مصنوعات کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ اس پر عوام کے ایک خاطر خواہ طبقہ نے اسرائیلی مصنوعات،برینڈز، فرین چائزز، فوڈ چینز وغیرہ کا بائیکاٹ کیا لیکن بعد میں اس احتجاج میںحصہ لینے والوں کی شرح میں بدستور کمی ہوتی گئی اس سلسلے میں کچھ عوامی سروے میں بھی یہ حقیقت سامنے آئی۔اسرائیلی فوڈ چینز میں وہی رش لوٹ آیا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ اب جب کہ اسرائیل کا ظلم تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور مسلمان ممالک کے حکمراں بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں تو عام مسلمان اسرائیل کو مالی طور پر نقصان پہنچانے کیلئے اسرائیلی و یہودی مصنوعات، اشیاء، فوڈ چینز، کولڈ ڈرنکس وغیرہ کا بائیکاٹ کر کے جہاد کی اس صورت میں اپنا حصہ کیوں نہیں ڈالتے۔ اگر ہم اسرائیلی اور یہودی مصنوعات وغیرہ کا بائیکاٹ نہیں کرتے اور اُنہیں خریدتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اُس اسرائیل کو مالی طور پر مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جو مظلوم فلسطینیوں کا خون بہانے سے رکنے کا نام نہیں لے رہا۔کچھ عرصہ قبل جب اسرائیلی مصنوعات کے حوالے سے تفصیلات سامنے آئیں تو پتا چلا کہ ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والی اکثر اشیاء کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ یعنی اگر ہم ان اشیاء کو خریدنے سے نہیں رکتے تو ہم عملی طور پر ظالم اسرائیل کو مضبوط اور مظلوم فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس ظلم کو روکنے کیلئے ہمیں اسرائیل کے خلاف اس جہاد میں حصہ لینا چاہیے۔اگر مسلمان ممالک کے حکمراں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی وہ کام نہ کریں جو ہمارے بس میں ہے اور جس کا ایک اثر بھی ہے۔
انصار عباسی

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • میرا نام ہے فلسطین، میں مٹنے والا نہیں
  • چین کا امریکا کو کھلا چیلنج: دنیا امریکا پر ختم نہیں ہوتی، ہم آخری دم تک لڑیں گے
  • اسرائیل کیخلاف جہاد میں حصہ لیں
  • دنیا امریکا پر آ کر ختم نہیں ہو جاتی، وکٹر گاؤ
  • دنیا امریکا پر آکر ختم نہیں ہوجاتی، وکٹر گاؤ
  • ٹرمپ ٹیرف عالمی معاشی جنگ...گلوبل اکنامک آرڈر تبدیل ہوگا؟؟
  • پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ مبارک ہو، اس کے ساتھ بات کرتے رہیں،کامران مرتضیٰ
  • انمول بلوچ کا فلمی دنیا میں قدم رکھنے کا عندیہ شادی کی افواہوں کی بھی وضاحت کر دی
  • پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں واٹس ایپ سروس متاثر
  • واٹس ایپ سروس میں تعطل، صارفین دنیا بھر میں مشکلات کا شکار