Nai Baat:
2025-01-27@16:48:42 GMT

غزہ کو فتح مبارک، اگلا پڑاﺅ تل ابیب

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

غزہ کو فتح مبارک، اگلا پڑاﺅ تل ابیب

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اللہ نے صبر کرنے والے غزہ کے مظلوم عوام کو ظالم و سفاک وحشی اللہ کے دھتکارے ہوئے اسرائیل پر فتح فرمائی۔ اللہ نے دیکھا دیا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پچاس ہزار شہادتوں لاکھ سے زیادہ زخمیوں، سیکڑوں ملبے تلے دبے ہوﺅں، لاکھوں بے یارو مددگار سڑکوں پر پڑے ہوﺅں، سیکڑوں گم شدہ، ٹوٹے پھوٹے خیموں پناہ گزیں، لاکھوں اسرائیل جیلوں میں بند فلسطینیوں کی قربانیاں رگ لائیں ۔ اللہ نے انہیں فتح عطافرمائی۔ اسرائیل غزہ کو اپنے تکبر کے زور پر مٹانے نکلا تھا۔ مگر ذلیل ہو کر اور شکست فاش کھا کر واپس اپنے خول میں جا چھپا۔ اس کا نظارہ دنیا نے اسرائیل کی دفاعی کمیٹی میں دیکھا کہ متعصب وزیر دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ اسرائیلی دجالی ریڈیو کی خبر کے مطابق، موساد کاچیف یہ کہتا ہوا نظر آیا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ نہایت ہی کڑوا گھونٹ ہے جو اسرائیل کو پیناپڑا۔ اسرائیل اس حال تک پہنچ چکاہے کہ اسے پیئے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ 33 یرغمالیوں کے بدلے 90 فلسطینی خواتیں اور بچے رہاہو گئے ہیں۔ اسرائیلی باقی قیدیوں کے بدلے 2000 فلسطینی قیدی رہا کرے گا۔ غزہ میں عوام جشن منا رہے ہیں۔ دنیا کے امن پسند عوام بھی خوشیاں منا رہے ہیں۔نیتن یاہو اب اپنی حکومت نہیں بچا سکتے۔ جلد اس کے حکومت بھی ختم ہوجائے گا۔
دنیا کی یہ واحد اور منفردجنگ ہے، کس طرح اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں کوکئی عشروں سے غزہ کی پٹی میں قید کیاہوا تھا ۔ باہر کی دنیا سے کوئی چیز ان تک پہنچنے نہیں دی جاتی تھی۔غزہ کے قید بستی کے مظلوموں کی امداد کے لیے ایک دفعہ ترکی کے اردوان نے ایک بحری جہاز میں انسانی ہمدردری کے تحت ضرورت کی اشیا ءپہنچانے کی کوشش کی تو اسرائیل فوج نے بین الاقوامی سمندر میں اس جہاز پر حملہ کیا۔ جہاز کے کئی امدادی کارکنوں جن میں انٹر نیشنل برادری کے صحافی بھی شامل تھے، فوجی کارروائی کر کے شہیدکیا۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لائی گئی امداد کو غزہ تک نہیں پہنچنے دیا۔
ظلم کی انتہا کہ فلسطینیوں کو غزہ کی زمین پر رہنے ، اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت سفاک یہود نے نہیں دی ہوئی تھی ۔ بہادر فلسطینیوں نے پھر زیر زمیں سرنگوں کاو ہ جال بچھایا۔ جسے جدید دنیا دیکھ کر دنگ ہو گئی۔ان ہی سرنگوں میں اسلحہ کی فیکٹریاں قائم کیں۔ ان کے اندر ایسے جدید یاسین۔ 5 میزائل تیار کئے، جو دنیا کے میزائلوں سے سو گناسستے اور کارکردگی میں سو گنا زیادہ ہیں۔ یہ وہی یاسین۔5 میزائل ہیںجن کی مار کی وجہ سے غزہ کی گلیوں میں جگہ جگہ اسرائیل کے جلے اور تباہ شدہ ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے مرکاوا ٹینک اور فوجی گاڑیاں اسرائیل کی شکست کا ثبوت پیش کر رہی ہیں ۔ ان جلے ہوئے تباہ شدہ ٹینکوں کی باقیات پر غزہ کی خواتین کپڑے سکھانے کے لیے ڈالتی نظر آئی۔ جنگ بندی کے بعد ان تباہ مرکاوانکوں پر غزہ کے مظلوم فتح کی خوشیاںمناتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
472 دنوں تک مسلسل دن رات غزہ کے مظلوم شہریوں پر اسرائیل بمباری جاری رہی۔ غزہ کی اسی فی صد رہائشی عمارتیں ملبے کاڈھیربنا دی گئیں۔ سکولوں ہسپتالوں کو بمباری کر کے ملبے میں بدل دیا۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق نوے لاکھ ٹن بارود برسایا گیا۔ جو دو ایٹم بموں کے برابر ہے۔ غزہ کے ملبے کو اُٹھانے کے سو ٹرک بیس سال میں اس ملبے کو ٹھکانے لگا پائیں گے، اس میں اربوں ڈالر خرچ ہوں گے۔
معاہدے کے مطابق اسرائیل فوج غزہ سے نامراد ہو کر نکل گئی۔ جنگ بندی کے بعدفلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے سربکف مجاہدین نے جب غزہ کی سڑکوں پر پریڈ کی تو غزہ کے مرد، خواتین، بچے بوڑھے ان کے استقبال کے لیے غول کے غول باہر نکل آئے۔ دشمن نے دیکھا یہ تو پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور اور با ہمت ہیں۔ غزہ کے لوگ فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ فتح کی خوشی سے اللہ کے سامنے سجدے کر رہے ہیں۔ مرکزی سڑکوں پر فلسطین کے جھنڈے لہرا دیئے گئے ہیں۔ غزہ میں پھرسے زندگی لوٹ آئی ہے۔ معاہدے کے مطابق چھ سو امدادی ٹرک شمالی غزہ کے لیے رفح کراسنگ سے داخل ہوئے ہیں۔ یہ سپلائی روزانہ کی بنیاد پر جاری رہے گی۔ غزہ کے تین انٹری پوئنٹ سے ٹرک امدادی سامان لے کر غزہ میں داخل ہو نگے۔
پنجابی کی کہاوت سنتے رہے ہیں ” ڈریے رب قادر کولوں جیہڑا چڑیاں توں باز مراندہ ہے“ طوفا ن اقصٰی کیا ہے۔ مومن کی ایک یلغار ہے۔ آئیں اس پر بات کریں۔1948 ءسے باہرسے فلسطین پر آکر دہشت گرد یہودیوں نے فلسطینیوں کے گھروں پر قبضہ کر لیا۔ ڈھائی ہزار سال سے آباد فلسطینیوں کو کہا کہ فلسطین تمھارا نہیں یہ تویہودیوں کاہے۔ جبکہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ یہود آٹھ سو سال سے زیادہ فلسطین میں کبھی نہیں رہے۔ فلسطینی اُسی دن سے قابض یہودیوں سے فلسطین آزاد کرانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔شہید یحییٰ السنوار جس کو اسرائیل نے عمر قید کیا ہوا تھا۔ ایک یہودی یرغمالی کے بدلے رہائی پائی تھی۔ یحییٰ السنوار نے ایک پلاننگ سے جنگی منصوبہ بنایا۔حماس کے مجاہدین کہر بن کر ہوائی، بحری، بری راستوں سے ساری رکاوٹیں توڑ کر اسرائیل کے اندر داخل ہوئے۔ اسرائیل ناقابل شکست ہونے کا تکبر زمیں بوس کر دیا۔ اس کا ڈوم سکیورٹی نظام دھرے کادھرا رہ گیا۔ اسرائیل کے ڈھائی سو کے قریب نوجی اور سویلین کو یرغمال بنا کر غزہ کی سرنگوں میں قید کر لیا۔ اور کہا کہ اسرائیلی جیلوں میں برسوں سے قید فلسطینی مرد و خواتین کو جب تک اسرائیل رہا نہ کرے ، ان یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا جائے گا۔
اسرائیل، امریکا، مغرب اور بھارت سب مل کر 472 دن مسلسل بمباری اور جدید خفیہ ذرائع استعمال کرنے کے باوجود حماس سے یرغمالی رہا نہ کرا سکے۔ پھر اللہ نے اپنی تدبیر اور مظلوموں کو فتح نصیب کرانے کے لیے دشمن کو دشمن سے ہی شکست کاسامان کیا۔ وہی ٹرمپ جو حماس کو دھمکیوں پر دھمکیاں دیتا تھا کہ یرغمالی چھوڑ دو ورنہ غزہ پر قیامت ڈھا دوں گا۔ مجبورہو گیا اور وحشی بنجمن نیتن یاہو وزیر اعظم اسرائیل کو غزہ کی جنگ کو 20 جنوری اقتدار سنبھالنے سے پہلے جنگ بند کرنے پر مجبور کیا۔آج غزہ آزاد ہے۔ اگر دشمن نے مکر کیا ۔ جنگ بندی معاہدہ توڑا۔ تو پھر حماس نے تل ابیب فتح کر کے اس پر فلسطینی جھنڈے لہرانے ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت حماس نہیںروک سکے گی۔ ان شاءاللہ ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے مظلوم کے مطابق اللہ نے رہے ہیں غزہ کے غزہ کی کے لیے

پڑھیں:

1857 اور طوفان الاقصیٰ!

’’1857 اور طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام سے یہ کالم میں نے 27 نومبر 2023 کو لکھا تھا جب طوفان الاقصیٰ کو شروع ہوئے صرف پچاس دن ہوئے تھے۔ اس وقت دور دور تک اس معرکے کے حتمی نتائج کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کا میڈیا اور تجزیہ کار حماس کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے اور اہل فلسطین کی تباہی و بربادی کے نوحے لکھ رہے تھے۔ تب میں نے لکھا تھا کہ زندہ قوموں کی تاریخ میں 1857 اور 7 اکتوبر 2023 جیسے واقعات ضرور آتے ہیں اور یہی واقعات کسی قوم کی آزادی یا غلامی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کے اقدام کا فیصلہ تاریخ نے کرنا اور آج 470 دن گزرنے کے بعد تاریخ کا فیصلہ 8 ارب انسانوں کے سامنے بکھرا پڑا ہے۔ اس فیصلے کے مزید نتائج آنا ابھی باقی ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسرائیلی میڈیا سمیت دنیا بھر کا میڈیا اسرائیل کی شکست کو تسلیم کر چکا ہے اور حماس واہل فلسطین کے جذبوں نے دیکھنے والی آنکھوں اور سوچنے والے دماغوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ میں پرانی تحریر کو دہرانے پر قارئین سے معذرت خواہ ہوں لیکن نئی خامہ فرسائی سے بہتر تھا کہ تاریخ کی گواہی کو قارئین کے سامنے رکھ دیا جائے۔

1857 کا معرکہ تاریخ کے صفحات پر کس نام سے درج ہے غدر یا جنگ آزادی؟ اگر یہ سوال 1857 یا اس سے ایک دو سال بعد کیا جاتا تو شاید کسی کے پاس اس کا حتمی جواب نہ ہوتا لیکن آج ایک سو چھیاسٹھ سال بعد تاریخ اس قضیے کو طے کر چکی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ یہ معرکہ صرف معرکہ نہیں بلکہ یہ تحریک پاکستان کی شروعات تھی۔ یہ معرکہ صرف معرکہ یا غدر نہیں بلکہ ہندوستان کی آزادی کی پہلی منظم کوشش اور پہلی جنگ آزادی تھی۔ مؤرخ، جج، صحافی، تجریہ کار، سیاستدان، عالم دین اور برصغیر میں رہنے والا عام انسان اس حقیقت سے آگاہ ہے اگر برصغیر کی تاریخ میں 1857 نہ آتا تو شاید ہندوستان آج بھی سلطنت برطانیہ کے زیر نگین ہوتا اور شاید آج پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو الگ ملک بھی نہ ہوتے۔ 1857 کے حوالے سے آج تک جتنا لٹریچر شائع ہوا سب میں اسے جنگ آزادی کا عنوان دیا گیا۔ اگرچہ تاریخ میںکچھ ایسے کردار بھی سامنے آئے جنہوں نے اس معرکے کو جنگ آزادی کی بجائے غدر کا عنوان دیا مگر تاریخ نے ان کرداروں اور ان کے دئیے گئے عنوانات کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔ مثلاً سر سید احمد خان دو قومی نظریہ کے بانیوں میں سے تھے، ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ان کی قربانیوں اور دردمندی کا زمانہ گواہ ہے مگر ان کے نامہ اعمال میں ایک غلطی ایسی تھی جو ہر عہد میں نمایاں رہی اور نہ جانے کب تک ان کا پیچھا کرتی رہے گی۔ 1857 کا معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سر سید احمد خان قلم کاغذ تھام کر اس کے اسباب لکھنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کو غدر کا نام دے دیا اور رسالہ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ کر برطانوی حکومت کو مطمئن کرنے کی کوششیں شروع کر دی۔ انگریز ان کی کوششوں سے تو مطمئن نہ ہوا البتہ اس نے چن چن کر مسلمانوں کو شہید کرنا شروع کر دیا۔ سر سید احمد خان نے اپنے تئیں معاملات کی توجیہ اور وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں وہ انتہا پر چلے گئے اور اس انتہا پر پہنچ کر ان سے وہ غلطی ہوئی جو تاحال ان کا پیچھا کر رہی ہے اور نہ جانے کب ان کے نامہ اعمال میں کھٹکتی رہے گی۔ اس غلطی نے بہت سارے اہل علم کو ان کے بارے میں سوئے ظن مبتلا کر دیا۔ بہر حال ہم واپس آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف، سر سید احمد خان ہوں یا کوئی اور جس نے بھی 1857 کی جنگ آزادی کو غدر کا عنوان دیا تاریخ نے ان کو پذیرائی نہیں بخشی۔

قوموں کی تاریخ میں بعض لمحات ایسے آتے ہیں جب انہیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ انہوں نے طاقت کے سامنے سرنڈر کر کے اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے غلامی کے طوق کو قبول کرنا ہے یا اپنی مقدور بھر طاقت جمع کر کے آزادی کے بھجتی چنگاری کو سلگاتے رہنا ہے۔ اہل فلسطین نے طوفان الاقصیٰ کے عنوان سے جو کیا اس کی حیثیت وہی ہے جو ہندوستان کے لیے 1857 کی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ سے 1857 کو نکال دیا جائے تو ہندوستان کے پاس کچھ نہیں بچتا اور اگر 1857 نہ ہوتا تو آج ہندوستان کا وجود اور جغرافیائی نقشہ کچھ اور ہوتا۔ اسی طرح اگر اہل فلسطین کی تاریخ میں سات اکتوبر نہ آتا تو آج ان کا بیانیہ معدوم ہو چکا ہوتا۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا اسرائیل کے قیام کو جواز بخش چکی تھی، مسلم ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر چکے تھے بلکہ سعودیہ اور یو ای اے جیسے ممالک میں باقاعدہ آمد و رفت شروع ہو چکی تھی، کئی ممالک میں سفارت خانے فعال ہو چکے تھے اور پاکستان جیسے ملک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ بڑھایا جا رہا تھا۔ دنیا بھر میں اسرائیل کا بیانیہ تسلیم کیا جا چکا تھا اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو تاریخ کے صفحات سے محو کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں حماس نے الاقصیٰ نامی طوفان برپا کر کے یہ اعلان کر دیا کہ وہ یہ سب اتنی آسانی سے نہیں ہونے دیں گے۔ حماس اور اہل فلسطین کو اندازہ تھا کہ اس کی انہیں قیمت چکانا پڑے گی، آج وہ یہ قیمت چکا رہے ہیں مگر وہ تاریخ اور اپنے عہد میں دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ ان کا بیانیہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے اور وہ ممالک جو ڈیڑھ ماہ پہلے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے بے چین تھے اپنے مؤقف پر نظر ثانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اہل فلسطین کے لیے یہ فیصلہ اور یہ لمحات مشکل تو ہیں لیکن زندہ قوموں کا شعار یہی ہوتا ہے کہ وہ غلامی کے طوق کو قبول کرنے کی بجائے عزت کی موت کو ترجیح دیتی ہیں، یہی سب کچھ 1857 میں ہوا تھا اور یہی فیصلہ اہل فلسطین نے کیا ہے۔

1857 میں بھی مصلحت پسندوں نے کہا تھا کہ سلطنت برطانیہ جیسی منظم طاقت سے ٹکرانا کوئی عقل مندی نہیں لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ یہی اس عہد کی عقل مندی تھی۔ قوموں کے بعض اقدامات کا فیصلہ وقت نہیں تاریخ کرتی ہے اور 1857 کے اقدام کے درست ہونے کی گواہی آج تاریخ کے صفحات پر بکھری پڑی ہے۔ طوفان الاقصیٰ نے اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں پر جو قیامت ڈھائی ہے اور اہل فلسطین کو اس سے جو فوائد حاصل ہوئے ہیں اس کا فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے اور تاریخ زندہ قوموں کے ایسے اقدامات سے بھری پڑی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ میں بہت سارے مصلحت پسندوں نے حماس اور اہل فلسطین کو مطعون کیا، انہیں اس جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اپنے تئیں یہ فیصلے صادر کیے کہ اہل فلسطین کو اس جنگ سے سوائے لاشوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اہل فلسطین کو اسرائیل کی طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے تھا، انہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ یورپ و امریکہ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اہل فلسطین صبر کرتے اور جب تک اسرائیل جتنی ٹیکنالوجی اور جنگی صلاحیت حاصل نہ کر لیتے اس جنگ میں نہ کودتے۔ ایسے مصلحت پسند 1857 میں بھی غلط تھے، آج بھی غلط ہیں اور تاریخ کے ہر موڑ پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ جنگیں ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے نہیں جذبات سے لڑی جاتی ہیں اور اہل فلسطین نے یہ جنگ جیت لی ہے۔ انہوں نے اس جنگ سے وہ حاصل کر لیا ہے جو اسرائیل اور اس کے ہمنوا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اسرائیل کو پہلی دفعہ اتنے بڑے پیمانے پر فوجی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوؤں کی حقیقت آشکار ہوئی ہے۔ فلسطین کو یہودی ریاست قرار دینے کا بیانیہ دم توڑ گیا ہے اور فلسطینی بیانیہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے۔ زندہ قوموں کو تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے اتنے خطرات مول لینا پڑتے ہیں۔ اگر چند ہزار فلسطینیوں کی شہادت سے اہل فلسطین کا بیانیہ از سر نو زندہ ہو گیا ہے اور دنیا اسرائیل کے بارے اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو گئی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔ سات اکتوبر 2023 کا دن اہل فلسطین کے لیے 1857 کی حیثیت رکھتا ہے اور 1857 کی برصغیر پاک و ہند میں کیا حیثیت ہے اس سے ساری دنیا آگاہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 1857 اور طوفان الاقصیٰ!
  • بھر م بلندی کا…..
  • سفر حجاز: روضہ رسول پر
  • غزہ کے بعد
  • آج کی نسل کل کی قوم۔کس کی ذمہ داری
  • بدلتی دنیا اور ہم
  • صحت کا عالمی ادارہ اور پیرس معاہدہ ٹرمپ کا اگلا نشانہ
  • دو پیسوں کی افیون
  • چین کی معاشی مشکلات ایک دنیا کو الجھا رہی ہیں، امریکی تجزیہ کار