Nai Baat:
2025-04-15@09:40:24 GMT

عروس البلاد میں مسائل ہی مسائل

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

عروس البلاد میں مسائل ہی مسائل

شہر کراچی میں گیارہ سال بعد آیا تو احساس ہوا کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں ہر آنےو الا دن ترقی اور خوشحالی کی نوید لاتا ہے ، ارتقائی دور میں کوئی چیز ایک جیسی نہیں رہتی مگر آنے والے وقت میں ترقی اور خوشحالی، اور شہر کی حالت زارمیں خوشنمائی ایک لازمی امر ہے مگر ایک دہائی کے بعد کوئی خوبصورت شہر کھنڈر میں تبدیل ہوجائے تو پھر اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس شہر کو حکمرانوں، ذمہ داروںکی کرپشن کھا گئی بدعنوانی اس وقت ہوتی ہے جب اقتدار میں لوگ ذاتی فائدے کے لیے اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ کراچی میں کرپشن ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کراچی کے علاقے جہاں مراعات یافتہ لوگ رہتے ہیں وہاں لگتا ہے سب کچھ اچھا ہے ، اور وہاں ”سب کچھ اچھا ہے “ کہ کر زندگی اور نوکری کھڑکانے والے رہتے ہیںوہاں چند شارع ابھی میںیوں کہونگا کہ ابھی زندہ ہیں، باقی شہر کھندرات کا منظر پیش کرتا ہے ، گر د و غبار میں رہنے والے اپنے ہر سانس میں گرد و غبار کو سمونے والے باسی ، سڑکوں پر آمد و رفت میں مشکلا ت برداشت کرنے والے شام کو گھر لوٹتے ہوئے اپنے حکمرانوںکے لئے ”تبرہ “ نہ پڑھیں تو کیا کریں ؟؟اپنے نام نہاد حکمرانوںکو چنتے وقت ، گولی کے خوف اور مستقبل کے سہانے اور جھوٹے خواب دکھانے والوں کو ایک مرتبہ پھر ووٹ ڈال دیتے ہیں اور وہ حکمران بن بیٹھتے ہیں۔ مگر عروس بلاد جو اب کسی بیوہ کا اجڑا چہرہ لگتا ہے ، ہر سڑک کھنڈر کا منظر، آمد و رفت کی الگ الگ شاہراہ ہونے کے باوجود ہر سڑک دونوں جانب سے رواں دواں ہے دکانیں ، خوانچے ، مصروف ، اور کھنڈرات بنی شاہراہ کے درمیان موجود ہوتی ہیں ، پھل ،کھانے پینے کی اشیاءپر مکھیوں، اور گرد و غبار کا راج ہے ، لوگ مجبور ہیں اسی حال میں مہنگے پھل خریدتے، پرائس کنٹرول شعبے کے حکومتی عہدیدار جو صرف تنخواہ لیتے ہیں یاخوانچہ فروشوں سے مفت پھل اور سبزیاںحاصل کرتے ہیں جسکے نتیجے میں وہ عوام کو دیدہ دلیری سے اشیاءفروخت کرتے ہیںاس کا مطلب ہے کہ سرکاری اہلکار رشوت لیتے ہیں یا بے ایمان ہیں۔ دہائیوں سے سنا جاتا ہے کہ کراچی کو درپیش مسائل سے چھٹکارہ دلانے کیلئے حکومت اور
بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے ، بین الاقوامی تعاون تو ہوتاہے اور اس وجہ سے بھاری فنڈز بھی ملتے ہیں جو نوکر شاہی اور زبردستی کے ”منتخب “ نمائندے اپنی عیش و عشرت پر خرچ کرتے ہیں یا انکے بیرونی بنک اکاوئنٹس کی زینت بن جاتے ہیں ۔ غرض 17.

6 ملین افراد کا یہ شہر اپنے حکمرانوں کو منہ چڑا رہا ہے ، اس میں کراچی کے پیدائشی سیاست دان اور صوبے کے اندرونی علاقوں میں پیدا ہونے والے سب ہی شامل ہیں شفافیت، احتساب اور اخلاقی حکمرانی کو فروغ دینے کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ان نامساعد حالات میں ملازمتوں، روزگار کے مواقع کم سے کم ہورہے ہیں جس وجہ سے جرائم اور نشہ لازمی امر ہے ، شہر میںشائد بیس فیصد کی آبادی کے منہ میں صحت کیلئے مضر ”گٹکا “ (جو بھارت کی سوغات ہے) نہ لگا ہو۔ جرائم، پانی اور بجلی کی قلت کچھ بڑے مسائل ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ پورا شہر اس طرح کے جان لیوا مسائل کے نقصان دہ اثرات کے نیچے پھنسا ہوا ہے۔ ان مسائل نے نہ صرف پاکستان کے معاشی حب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے بلکہ کراچی کے بے بس لوگوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ شاید غزہ میں اسرائیل ایسا نہیںکرتاہوگا خدا ناخواستہ پانی ، بجلی سے محروم کسی دن قانون کواپنے ہاتھ میںلے لینگے تو حکمرانوں کو منہ چھپانا مشکل ہوجاے گا ، شرم ہو تو منہ تو ابھی بھی چھپا نا چاہئے ، دوسرے پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر میں ابتر ہوتی پبلک ٹرانسپورٹ نے بھی آگ پر مزید تیل ڈال دیا ہے۔ میٹرو اور گرین بس منصوبے ابھی مکمل ہونا باقی ہیں۔ جس کی وجہ سے ٹریفک جام کی صورتحال اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ کا اچھا اور مہذب نظام ہوتا تو لوگوں کو اس مسئلے کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے کراچی سے غیر قانونی بستیوں اور زمینوں پر قبضے ہر جگہ نظر آتے ہیں سیاسی حمایت یافتہ لینڈ مافیاز بدستور خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ متعلقہ حکام روشنیوں کے شہر کی مٹی سے ایسے مافیا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔وفاق بھی ماشااللہ خوب کام کررہا ہے کراچی وفاقی محصولات کا 60 فیصد پیدا کرنے کے باوجود بمشکل 10 فیصد وفاقی وسائل حاصل کرتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی مشترکہ کاوشیں کراچی کو جرائم، بجلی کی قلت اور بے روزگاری سے نجات دلا سکتی ہیں وقاق اور صوبے کی حکومتوں میں ہمیشہ سے ہی آنکھ مچولی کے کھیل جاری ہے، ایم کیوایم دعویدار ہے کہ کراچی اسکا ہے ، مگر جب ایم کیوایم خود شہر میں برسراقتدار تھی اس نے شہر میںکب چاند ستارے لگائے تھے ؟؟کراچی میں جرائم اور سیکیورٹی سب سے بڑے مسائل ہیں۔ چوری اور ڈکیتی جیسے اسٹریٹ کرائمز بہت ہیں۔ بہت سے لوگ غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں، گروہوں اور منظم جرائم کے مسائل بھی ہیں۔ پولیس کے پاس ہمیشہ اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ فوری مدد فراہم کر سکے۔ پولیس میں بدعنوانی حالات کو مزید خراب کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ اپنی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی کو محفوظ بنانے کے لیے سیکیورٹی میں بہتری اور جرائم پر قابو پانا ضروری ہے۔سڑکیں کھنڈر ہیں اسلئے ٹریفک جام ہونا لازمی امرہے رش کی وجہ سے تاخیر ( وقت کی تو شائد کوئی قیمت نہیںہوتی ہمارے ملکوں میں ) نیز مہنگے پیٹرول کا خرچ ِ؟؟باسی بتاتے ہیں کہ سڑکیں ٹوٹتی ہیں ، مرمت کے ٹینڈر شائع ہوتے ہیں کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ ہوتے ہیں مرمت پر کم نجی اکاﺅنٹس میں زیادہ جاتے ہیں، بلڈوزر پھرتا ہے ، وقتی سڑک ٹھیک ہوتی ہے چند ہفتے بعد پھر وہی سڑک کھنڈر بن جاتی ہے ۔ کراچی میں پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ کئی علاقوں میں پانی تک رسائی نہیں ہے اور لوگوں کو اکثر قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پانی کی فراہمی کا نظام پرانا اور خستہ حال ہے جس کی وجہ سے رساو اور ضیاع ہو رہا ہے۔ کچھ علاقوں میں پانی کے پائپ ہی نہیں ہیں۔ بہت سے لوگوں کو ٹینکروں سے پانی خریدنا پڑتا ہے جو مہنگا ہے۔ ناقص انتظام اور غیر قانونی کنکشن بھی دستیاب پانی کو کم کر دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں رہائشیوں کو پینے، کھانا پکانے اور صفائی ستھرائی کے لیے صاف پانی تک رسائی کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ کراچی میں بجلی کی کمی ایک مسئلہ ہے۔ اکثر اور کئی گھنٹوں تک بجلی کی بندش۔ اس سے لوگوں کے لیے کام کرنا، پڑھنا، کاروبار بھی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ انہیں مسلسل بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کا نظام پرانا ہے اور طلب کو پورا نہیں کر سکتا۔ کچھ علاقوں کو دوسروں سے زیادہ بجلی ملتی ہے، جو کہ مناسب نہیں ہے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کراچی میں کی وجہ سے لوگوں کو کرتے ہیں بجلی کی سے لوگ کے لیے

پڑھیں:

جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی: رانا ثنا اللہ

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیر اعظم کے مشیر اور مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی۔سماء کے پروگرام ’ ریڈ لائن ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگی رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے معاملات میں بری طرح الجھتی جارہی ہے اور جب تک یہ جماعت الجھی رہے گی پاکستانی سیاست کو بھی الجھائے رکھے گی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے ان کو کوئی منزل نہیں ملے گی۔

  کوئی رانا ضد پر اَڑ جائے تو رانی بھی اسے منا نہیں سکتی، میری کیا حیثیت ہے، دل پر پتھر رکھتے ہوئے کہا”قبول ہے۔ قبول ہے۔ قبول ہے“

مشیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے ہم نے اپنے مسائل اسٹیبلشمںٹ سے بات چیت کر کے حل کرنے ہیں، یہ مسائل ایسے حل نہیں ہوں گے ، جب سیاسی قیادت سر جوڑے گی حل ہوں گے لیکن بانی پی ٹی آئی کہتے ہیں میں نے اسٹیبلشمںٹ سے ہی بات کرنی ہے۔ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ مذاکراتی کمیٹیز میں جو گفتگو ہوئی سب کو پتا ہے کہ وہاں سے کون چھوڑ کر بھاگا تھا؟ یہ لوگوں کے گھروں تک جا کر ذاتی طور پر زچ کرتے ہیں، عون عباس کو جس طرح گرفتار کیا گیا میں نے اس کی مذمت کی تھی۔رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ جہاں سے راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں وہاں سے نہیں ملے گا، پی ٹی آئی دور میں ہر طرح کے مسائل موجودہ دور سے زیادہ تھے، اگر سیاسی مسائل بھی حل ہوں تو جو معاملات ایک سال میں حل ہوں ایک ماہ میں ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں تقاریر اور خطابات میں بڑی بڑی باتیں ہوجاتی ہیں، میرا یقین ہے جب تک سیاسی جماعتیں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی اور ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تو موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی۔

بچپن کی ایک اور یاد جو ذھن کے حافظہ سے محو نہیں ہوئی وہ آپاں اور بی بی جی کی سنائی کہانیاں تھیں،ایسے ہی نہیں کہتے نانیاں دادیاں سیانی ہوتی تھیں 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کی پانی ضائع کرنے والوں کو سزا اور جرمانے کی تجویز
  • ایک اور میثاق جمہوریت تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی. رانا ثنا اللہ
  • جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی: رانا ثنا اللہ
  • ہم ایران کیساتھ مسائل کو حل کریں گے، ڈونلڈ ٹرامپ
  • بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی، فری لانسرز اور صنعتی صارفین کو کتنا فائدہ ہوگا؟
  • حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں؛ مسرت جمشید چیمہ
  • ٹریفک کے مسائل پر توجہ دیں
  • کراچی کے مسائل پر ایم کیو ایم اور اے این پی ہم آواز، مسائل انتظامی مسئلہ قرار
  • پنجاب اور سندھ کا پانی کا جھگڑا آج کا نہیں 150 سال سے چل رہا ہے: سعید غنی
  • سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کا جھگڑا آج کا نہیں 150 سال پرانا ہے، سعید غنی