ایک کہاوت ہے کہ کام کے نہ کاج کے؟دشمن اناج کے‘ آج کل جہاں بھی چلے جائیں ایک ہی بحث چل رہی ہوتی ہے کہ حالات ٹھیک ہیں اور اس بحث‘ تکرار میں ہم کئی بار حدیں پھلانگ لیتے ہیں‘ رشتے داری خراب کر لیتے ہیں دوستی تعلقات میں دراڑیں ڈال لی جاتی ہیں لیکن دوسری طرف انہی حالات کا رونا رونے والوں سے پوچھیں کہ تسی سگریٹ کیوں پیندے او تے جواب آئے گا بس ایویں ای عادت پئی ہوئی اے‘ کسی اور سے پوچھیں کہ بھئی آپ پان کیوں کھاتے ہو تو کہا جاتا ہے کہ بس عادت پڑ گئی ہے اس طرح ہر دوسرا بندا سگریٹ‘ پان و دیگر علتوں کا شکار ہے اور پھر کہتا ہے کہ اخراجات پورے نہیں ہوتے جبکہ روز پانچ سات سو کا انہی علتوں میں پڑ کر خرچہ کرتے ہیں دوسری طرف جیولرز کی دکان پر چلے جائیں تو وہاں بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی‘ کپڑے کی دکان پر چلے جائیں تو وہاں بھی بے جا شاپنگ کی جا رہی ہوتی ہے اسی طرح برگر شوارما کی دکان پر چلے جائیں تو وہاں لائنوں میں لگ کر لوگ زبان کا چسکا پورا کرنے کے لئے بے تاب کھڑے ہوتے ہیں پھر کہتے ہیں حالات ٹھیک نہیں اور یہ رونا مساجد میں گھروں‘ دفاتر میں رویا جاتا ہے آئس کریم کھانے کا دل کر آئے تو آدھی رات کو نیند خراب کر کے بھی اونچی سے اونچی شاپ پر پہنچ جائیں گے پھر کہیں گے یار ملک دے حالات ٹھیک نئیں اور حالات ٹھیک کرنے کے لئے ہم کوشش بھی نہیں کرتے لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں اگر ایک نوکری سے گھر نہیں چلتا تو دوسری نوکری کرنی چاہئیے یہ بھی نہیں کرنا تو پارٹ ٹائم کام کر کے حالات کو بہتر کیا جا سکتا ہے لیکن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ حالات ٹھیک نئیںآج کے جدید دور میں آن لائن کاروبارکا دوردورہ ہے کئی لوگ گھر بیٹھے ماہانہ لاکھوں کما رہے ہیں کہتے ہیں کہ جیہڑے ایتھے بکھے اور لہوروی بکھے اور ایسے لوگوں کی ہمارے ملک میں کمی نہیں جو ہر وقت حالات خراب ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں ان سے کوئی پوچھے کہ کبھی کسی جانور کو بھی روتے دیکھا ہے کبھی کسی پرندے کو بھی ذخیرہ کرتے دیکھا ہے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی پرندہ بھوکا مرا ہو یہ سب خرافات حضرت انسان ہی میں ہیں جو ہر وقت مرگئے مر گئے کرتے رہتے ہیں ‘ حالانکہ حالات تو ٹھیک ہیں ہماری نیت ٹھیک نہیں اگر معاشی حالات خراب ہوں تو ہم سگریٹ کے دھوئیں میں کیوں رقمیں اڑائیں حالات خراب ہوں تو پان کے تھوک کے ذریعے کیوں حق حلال کی کمائی ضائع کریں اگر حالات خراب ہیں تو بیٹھے بیٹھے پیزا‘ برگر اور شوارما کا بخار کیوں چڑھائیں اگر حالات خراب ہیں تو آدھی رات کو آئس کریم کھا کر جیب کا نقصان کیوں کریں‘ماڑے سے ماڑے گھر کی شادیوں میں بھی فضول خرچی کی جاتی ہے ناک اونچی رکھنے کے لئے؟ اور پھر کئی بار ساری عمر قرض اتارتے گزر جاتی ہے اس طرح جیسے غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اور 35‘40لاکھ دے کر بھی وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اگر اپنے ملک میں 35‘ 40 لاکھ لگا کر کام شروع کیا جائے تو چھ ماہ بعد بندہ روزانہ 4‘5 ہزار کما سکتا ہے لیکن ہم نے رٹ لگائی ہو ئی ہے کہ مر گئے رڑ گئے دیار غیر جانے والوں کو کون یہ بات سمجھائے کہ یہاں سب کچھ ہے لیکن ہم جتنی باہر جا کر محنت کرتے ہیں اتنی یہاں نہیں کرتے نہ کوشش کرتے ہیں کہ معاشی حالات بہتر ہوں ہم توشارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں کشتی حادثہ آئے روز ہو رہا ہے جس میں ایجنٹ جان بوجھ کر کشتی میں زیادہ بندے بٹھا کر ڈبوتے ہیں تاکہ جھنجال پورے سے جان ہی چھوٹ جائے اس دھندے میں ایف آئی اے کے اہلکار بھی ملوث ہیں جو ایجنٹوں سے بھاری معاوضہ لیکر لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر ماﺅں کے لخت جگر چھین رہے ہیں مراکش کشتی سانحہ سے پہلے بھی کئی واقعات ہوئے ہر بار ایک دو بندے پکڑے گئے جو عدالتوں کے منہ بند کرکے پھر اس دھندے میں لگ گئے پولیس کو بھی باقاعدہ حصہ دیا جاتا ہے جس سے سہانے سپنے لیکر جانے والے ایجنٹوں کے ہاتھوں لحد میں اتر رہے ہیں ہر واقعہ کے بعد ایک کمیٹی بنتی ہے اور پھراگلے واقعہ تک خاموشی چھا جاتی ہے حیران کن اور پریشان کن بات یہ ہے کہ لاکھوں روپیہ دیکر موت خریدنے والوںکو آخر کب عقل آئے گی اور کب سمجھیں گے کہ ملک میں رہ کر محنت کریں تو حالات زیادہ بہت بہترہو سکتے ہیں روز گارکےلئے بیرون ملک جانا کوئی گناہ نہیں لیکن لیگل طریقے سے جائیں اسی میں ہم سب کا بھلا ہے زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ دیارغیرمیں کام کرنے والوں کی زندگی بڑی خوشحال ہے جس کی وجہ سے نئی نسل میں ملک سے جانے والوں کارجحان بڑھتا جا رہا ہے ،لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک پیسے کی ریل پیل ہے لیکن کہتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے ، کیونکہ حقیقت اس سے مختلف ہے تاہم حکومت کو بھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ لوگ بیرون ملک کیوں بھاگ رہے ہیں اگر اپنے ملک میں بہتر روز گا ر ملے تو کون اپنوں سے دوررہ کر غیروں کے دیس میں دھکے کھائے اوراپنی جانیں بھی کیوں گنوائے افسوس کی بات یہ ہے ملک کو تجربہ گاہ بنانے والوں نے ملک کو معاشی طور پر کھوکھلا کردیا ہے ، ذاتی مفادات کیلئے نوجوانوں کی زندگیوں سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اور مذہب کا نام استعمال کرکے گمراہ کیا جا رہا ہے سے لگتا نہیں کہ وہ اس مکر فریب کو سمجھ سکیں،ہنرمند افراد کیلئے بیرون ممالک قانونی طریقے سے جانا ممکن ہوگا توزرِ مبادلہ ان کے پیاروں اور ملکی معیشت کے استحکام میں بھی معاون ہوگا، کم تنخواہ ہے تو اپنے اخراجات کنٹرول کریں تتر بٹیر نہ کھائیں تو کون سی قیامت آ جانی ہے سبزیوں میں زیادہ وٹامن ہیں آئس کریم برگرشوارما کے بغیر بھی زندگی اچھی گزر سکتی ہے اپنی نیت ٹھیک رکھیں اور پرندوں کو دیکھیں جوبارش آندھی اور طوفان میں بھی اللہ کا ذکر کرتے ہیں کبھی یہ کر کے تو دیکھیں پھر دیکھیں اللہ کیسے اپنی رحمتوں کا نزول کرتا ہے ۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: حالات خراب چلے جائیں بیرون ملک کہتے ہیں کرتے ہیں رہتے ہیں رہے ہیں ہے لیکن اور پھر ہیں اور ملک میں کو بھی رہا ہے ہیں کہ ہے اور
پڑھیں:
’سب کرکے دیکھ لیا آپ مان کیوں نہیں لیتے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے‘ میاں اسلم قبال کا مقتدرہ کو مشورہ
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 12 اپریل 2025ء ) پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء میاں اسلم قبال نے مقتدرہ کو مشورہ دیا ہے کہ آپ مان کیوں نہیں لیتے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ تمام ٹی وی چینلز پر اینکرز روزانہ بیٹھ کر "پی ٹی آئی ٹوٹ گئی، پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر گیا" جیسی باتیں کرتے ہیں، پچھلے ڈھائی سال سے جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہو چکا ہے، ہر طرح کا جبر، فسطائیت، گولیاں، بندوقیں سب کر کے دیکھ لیا، آپ نے زور لگا کر تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو جیلوں میں ڈالا، اغواء کیا سب کچھ کر کے دیکھا، زبردستی پارٹی بھی چھڑوائی لیکن مقتدرہ جواب دے یہ سب کچھ کرنے کے بعد 8 فروری کو عوام نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ 8 فروری کے بعد کیا عمران خان کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے یا اضافہ؟ آپ مان کیوں نہیں لیتے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے اور آپ سیاسی نظریات سے مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔(جاری ہے)
پی ٹی آئی رہنماء نے کہا میرا سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے تمام معاشی معاملات درست ہو گئے ہیں؟ بڑے بڑے ٹی وی چینلز پر بیٹھے اینکرز جو میرے لیے قابل احترام ہیں وہ یہ موضوع گفتگو کیوں نہیں بناتے کہ کسان کی کمر ٹوٹ چکی ہے، گندم کھلے آسمان تلے پڑی ہے اس کو حکومت خریدنے کو تیار نہیں اور کسان 2200 روپے پر بیچنے پر مجبور ہے، پچھلے سال بھی یہی ہوا، گنے کی فصل کے ساتھ بھی یہی ہوا اور اب بھی یہی ہو رہا ہے، شوگر مل مافیا کو تو سب فائدہ ہے، اسحاق ڈار ٹی وی پر بیٹھ کر چینی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں اور اپنی رشتہ داری نبھاتے ہیں، اپنے لیے اربوں روپے کے منافع ہیں اور کسان کا استحصال ہی استحصال ہے۔ سابق صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت ہی تھی جس نے کسان کو پوری ادائیگی کرکے زراعت کو کھڑا کیا مگر ان موضوعات پر بات کرنے کا کسی چینل کے پاس وقت ہی نہیں، یہی حال صنعت کا بھی ہے، صنعت بند پڑی ہے، گروتھ ریٹ منفی ہے، بے شرمی سے "ہم نے کر دکھایا" کی محفل سجا کر عوام کا کروڑوں روپیہ خرچ کیا گیا، بجلی سستی کرنے کے جھوٹے دعوے کیے گئے، توانائی اتنی ہی سستی ہوتی تو ملک میں یوں صنعتی بحران نہ ہوتا، ملک سے brain drain تاریخی سطح پر نہ ہوتا۔ میاں اسلم اقبال کہتے ہیں کہ اس کا کسی کو احساس نہیں کہ عوام پس رہی ہے، لوگوں کے پاس قوت خرید ہی نہیں ہے، دنیا میں تیل کی قیمت 60 سے 65 ڈالر فی بیرل تک گر چکی ہے جو ہمارے دور میں 117 ڈالر فی بیرل تھی اس کے باوجود ہمارے دور میں پیٹرول 150 روپے فی لیٹر تھا جو اب 255 روپے فی لیٹر ہے، ڈیزل 145 روپے تھا، چینی جو ہمارے دور میں 70 روپے کلو تھی آج 170 روپے پر ہے اور پھر بھی کچھ سائنسدان کہتے ہیں کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے، میرا پھر سے دانشوروں اور اینکرز سے یہی سوال ہے کہ ضرور تحریک انصاف پر تنقید کریں آپ کا حق ہے مگر کیا آپ کو یہ بھی منع کر دیا گیا ہے کہ آپ نے غریب آدمی کے ساتھ کھڑے نہیں ہونا؟۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھی ٹی وی پر جاتے ہیں تو ان سے سے پارٹی کے اندرونی معاملات سے متعلق سوالات کرتے رہتے ہیں اور عوام کے متعلق کوئی سوال ہوتا ہی نہیں، جنہوں نے اس حکومت پر تنقید کی اور بہادری سے اس میک اپ زدہ حکومت پر بات کی انہوں نے اپنی نوکریاں بھی گنوائیں، خدا سے ڈریں اور جو اس ملک کو یہاں تک پہنچانے والے ہیں تیس سال سے اس ملک کو چوس رہے ہیں ان کے بارے میں بھی سوال کریں غریب آدمی کے ساتھ کھڑے ہوں۔