Nai Baat:
2025-01-27@17:06:16 GMT

حالات نہیں نیت خراب ہے….؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

حالات نہیں نیت خراب ہے….؟

ایک کہاوت ہے کہ کام کے نہ کاج کے؟دشمن اناج کے‘ آج کل جہاں بھی چلے جائیں ایک ہی بحث چل رہی ہوتی ہے کہ حالات ٹھیک ہیں اور اس بحث‘ تکرار میں ہم کئی بار حدیں پھلانگ لیتے ہیں‘ رشتے داری خراب کر لیتے ہیں دوستی تعلقات میں دراڑیں ڈال لی جاتی ہیں لیکن دوسری طرف انہی حالات کا رونا رونے والوں سے پوچھیں کہ تسی سگریٹ کیوں پیندے او تے جواب آئے گا بس ایویں ای عادت پئی ہوئی اے‘ کسی اور سے پوچھیں کہ بھئی آپ پان کیوں کھاتے ہو تو کہا جاتا ہے کہ بس عادت پڑ گئی ہے اس طرح ہر دوسرا بندا سگریٹ‘ پان و دیگر علتوں کا شکار ہے اور پھر کہتا ہے کہ اخراجات پورے نہیں ہوتے جبکہ روز پانچ سات سو کا انہی علتوں میں پڑ کر خرچہ کرتے ہیں دوسری طرف جیولرز کی دکان پر چلے جائیں تو وہاں بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی‘ کپڑے کی دکان پر چلے جائیں تو وہاں بھی بے جا شاپنگ کی جا رہی ہوتی ہے اسی طرح برگر شوارما کی دکان پر چلے جائیں تو وہاں لائنوں میں لگ کر لوگ زبان کا چسکا پورا کرنے کے لئے بے تاب کھڑے ہوتے ہیں پھر کہتے ہیں حالات ٹھیک نہیں اور یہ رونا مساجد میں گھروں‘ دفاتر میں رویا جاتا ہے آئس کریم کھانے کا دل کر آئے تو آدھی رات کو نیند خراب کر کے بھی اونچی سے اونچی شاپ پر پہنچ جائیں گے پھر کہیں گے یار ملک دے حالات ٹھیک نئیں اور حالات ٹھیک کرنے کے لئے ہم کوشش بھی نہیں کرتے لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں اگر ایک نوکری سے گھر نہیں چلتا تو دوسری نوکری کرنی چاہئیے یہ بھی نہیں کرنا تو پارٹ ٹائم کام کر کے حالات کو بہتر کیا جا سکتا ہے لیکن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ حالات ٹھیک نئیںآج کے جدید دور میں آن لائن کاروبارکا دوردورہ ہے کئی لوگ گھر بیٹھے ماہانہ لاکھوں کما رہے ہیں کہتے ہیں کہ جیہڑے ایتھے بکھے اور لہوروی بکھے اور ایسے لوگوں کی ہمارے ملک میں کمی نہیں جو ہر وقت حالات خراب ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں ان سے کوئی پوچھے کہ کبھی کسی جانور کو بھی روتے دیکھا ہے کبھی کسی پرندے کو بھی ذخیرہ کرتے دیکھا ہے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی پرندہ بھوکا مرا ہو یہ سب خرافات حضرت انسان ہی میں ہیں جو ہر وقت مرگئے مر گئے کرتے رہتے ہیں ‘ حالانکہ حالات تو ٹھیک ہیں ہماری نیت ٹھیک نہیں اگر معاشی حالات خراب ہوں تو ہم سگریٹ کے دھوئیں میں کیوں رقمیں اڑائیں حالات خراب ہوں تو پان کے تھوک کے ذریعے کیوں حق حلال کی کمائی ضائع کریں اگر حالات خراب ہیں تو بیٹھے بیٹھے پیزا‘ برگر اور شوارما کا بخار کیوں چڑھائیں اگر حالات خراب ہیں تو آدھی رات کو آئس کریم کھا کر جیب کا نقصان کیوں کریں‘ماڑے سے ماڑے گھر کی شادیوں میں بھی فضول خرچی کی جاتی ہے ناک اونچی رکھنے کے لئے؟ اور پھر کئی بار ساری عمر قرض اتارتے گزر جاتی ہے اس طرح جیسے غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اور 35‘40لاکھ دے کر بھی وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اگر اپنے ملک میں 35‘ 40 لاکھ لگا کر کام شروع کیا جائے تو چھ ماہ بعد بندہ روزانہ 4‘5 ہزار کما سکتا ہے لیکن ہم نے رٹ لگائی ہو ئی ہے کہ مر گئے رڑ گئے دیار غیر جانے والوں کو کون یہ بات سمجھائے کہ یہاں سب کچھ ہے لیکن ہم جتنی باہر جا کر محنت کرتے ہیں اتنی یہاں نہیں کرتے نہ کوشش کرتے ہیں کہ معاشی حالات بہتر ہوں ہم توشارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں کشتی حادثہ آئے روز ہو رہا ہے جس میں ایجنٹ جان بوجھ کر کشتی میں زیادہ بندے بٹھا کر ڈبوتے ہیں تاکہ جھنجال پورے سے جان ہی چھوٹ جائے اس دھندے میں ایف آئی اے کے اہلکار بھی ملوث ہیں جو ایجنٹوں سے بھاری معاوضہ لیکر لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر ماﺅں کے لخت جگر چھین رہے ہیں مراکش کشتی سانحہ سے پہلے بھی کئی واقعات ہوئے ہر بار ایک دو بندے پکڑے گئے جو عدالتوں کے منہ بند کرکے پھر اس دھندے میں لگ گئے پولیس کو بھی باقاعدہ حصہ دیا جاتا ہے جس سے سہانے سپنے لیکر جانے والے ایجنٹوں کے ہاتھوں لحد میں اتر رہے ہیں ہر واقعہ کے بعد ایک کمیٹی بنتی ہے اور پھراگلے واقعہ تک خاموشی چھا جاتی ہے حیران کن اور پریشان کن بات یہ ہے کہ لاکھوں روپیہ دیکر موت خریدنے والوںکو آخر کب عقل آئے گی اور کب سمجھیں گے کہ ملک میں رہ کر محنت کریں تو حالات زیادہ بہت بہترہو سکتے ہیں روز گارکےلئے بیرون ملک جانا کوئی گناہ نہیں لیکن لیگل طریقے سے جائیں اسی میں ہم سب کا بھلا ہے زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ دیارغیرمیں کام کرنے والوں کی زندگی بڑی خوشحال ہے جس کی وجہ سے نئی نسل میں ملک سے جانے والوں کارجحان بڑھتا جا رہا ہے ،لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک پیسے کی ریل پیل ہے لیکن کہتے ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے ، کیونکہ حقیقت اس سے مختلف ہے تاہم حکومت کو بھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ لوگ بیرون ملک کیوں بھاگ رہے ہیں اگر اپنے ملک میں بہتر روز گا ر ملے تو کون اپنوں سے دوررہ کر غیروں کے دیس میں دھکے کھائے اوراپنی جانیں بھی کیوں گنوائے افسوس کی بات یہ ہے ملک کو تجربہ گاہ بنانے والوں نے ملک کو معاشی طور پر کھوکھلا کردیا ہے ، ذاتی مفادات کیلئے نوجوانوں کی زندگیوں سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اور مذہب کا نام استعمال کرکے گمراہ کیا جا رہا ہے سے لگتا نہیں کہ وہ اس مکر فریب کو سمجھ سکیں،ہنرمند افراد کیلئے بیرون ممالک قانونی طریقے سے جانا ممکن ہوگا توزرِ مبادلہ ان کے پیاروں اور ملکی معیشت کے استحکام میں بھی معاون ہوگا، کم تنخواہ ہے تو اپنے اخراجات کنٹرول کریں تتر بٹیر نہ کھائیں تو کون سی قیامت آ جانی ہے سبزیوں میں زیادہ وٹامن ہیں آئس کریم برگرشوارما کے بغیر بھی زندگی اچھی گزر سکتی ہے اپنی نیت ٹھیک رکھیں اور پرندوں کو دیکھیں جوبارش آندھی اور طوفان میں بھی اللہ کا ذکر کرتے ہیں کبھی یہ کر کے تو دیکھیں پھر دیکھیں اللہ کیسے اپنی رحمتوں کا نزول کرتا ہے ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: حالات خراب چلے جائیں بیرون ملک کہتے ہیں کرتے ہیں رہتے ہیں رہے ہیں ہے لیکن اور پھر ہیں اور ملک میں کو بھی رہا ہے ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

مدینہ منورہ یاد آتا ہے….!

(گزشتہ سے پیوستہ)
مدینہ منورہ سے وابستہ یادوں، باتوں ، جگہوں اور مقامات کا خیال آتا ہے تو سچی بات ہے کہ نبی پاک کا مقدس شہر بہت یاد آتا ہے۔ دل میں کسی حد تک محرومی کا احساس ابھرتا ہے اور یہ فکر دامن گیر ہونے لگتی ہے کہ مدینہ منورہ کے قیام کے دواران مسجد نبوی میں جس طرح حاضری دینی اور روضہِ اقدس پر ہدیہ درود و سلام پیش کرنا چاہیے تھا، اس میں شاید کچھ کمی رہی ہے۔ خیال آتا ہے کہ مدینہ منورہ کی نورانی فضاﺅں اور پر کیف ہواﺅں کے جَلو میں مسجد نبوی کے اندر کے دور دور تک پھیلے محراب در محراب حسن و جمال اور زیبائش و آرائش کے پیکر بر آمدوں اور باہر کے وسیع و عریض صحنوں اور احاطوں جن میں فقید المثال ستونوں پر آویزاں خود کار چھتریاں کھلتی اور بند ہوتی ہیں میں گھوم پھر کر روحانی بالیدگی اور نورِ بصیرت کو سیمٹنا چاہیے تھا، اس میں بھی کمی رہی ہے ۔ دل کرتا ہے کہ ایک بار پھر نبی پاک کے مقدس شہر میں جانے کا موقع مل جائے تو مسجد نبوی ﷺ کے بلند و بالا میناروں اور پر نور گنبد خضرا کو دیکھ کر اپنے مقدر پر رشک کروں۔ مسجد نبوی میں نمازِ تہجد کے ساتھ پنجگانہ نمازیں اد ا کرنے کی سعادت حاصل ہو تو رو رو کر اپنی ، اپنے مرحوم والدین ، اپنے اہل و عیال ، عزیرواقارب ، دوست احباب کی بخشش اور مغفرت کی دعاﺅں کے ساتھ پاکستان کی سلامتی، تحفظ اور اس پر چھائے ادبار کے بادلوں کے چھٹ جانے کی التجائیں کروں۔ روضہِ اقدس پر حاضری نصیب ہو تو لڑ کھڑاتی آواز میں درودِ ابراھیمی کے ساتھ السلام علیک یا نبی کے کلمات ہی زبان پر جاری نہ ہوں بلکہ رو رو کر قلب و روح کی گہرائیوں سے حضورِ اقدس میں روزِ محشر اپنی شفاعت کی درخواست کروں۔ ریاض الجنتہ میں ایک بار پھر نوافل کا موقع ملے کہ اب سال میں صرف ایک بار یہاں داخلے کی پابندی ختم ہو چکی ہے تو وہاں بھی بخشش اور مغفرت کی دعائیں جاری نہ رہیں بلکہ یہاں کے بے مثال ستونوں کے حسن و جمال کو اپنے دل و دماغ میں اس طرح سمیٹوں کے ان کے خوبصورت نقش ونگار ہمیشہ نگاہوں کے سا منے رہیں۔ باہر کونے میں اصحابِ صُفہ کے چبوترے کا نظارہ، نصیب ہو تو ساڑھے چودہ سو سال قبل کے وقت کو اپنے تصور میں لاﺅں کہ کس طرح کچھ بے گھر اور نادار مگر پاکیزہ ہستیاں یہاں قیام کرتی تھیں اور حضورِ اقدس سے دین حاصل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے ہمہ وقت مصروف رہا کرتی تھیں اور پھر ان میں سے کتنے ایسے بھی تھے جو دوسرے قبائل تک دین کی تعلیمات پہنچانے اور تبلیغ کرنے کے دوران شہادت کے رتبے سے سرفراز ہوتے رہے۔
سچی بات ہے مدینہ منورہ یاد آتا ہے تو وہاں کے تاریخی مقامات ، مقدس جگہیں اور ان سے جُڑے واقعات ایک ایک کر کے یاد آنے لگتے ہیں تو اس اس کے ساتھ وہاں کے پُر نور نظارے اور وہاں کی عمارات، گلیاں، بازار سبھی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ کبھی شوال سن3 ہجری میں لڑے جانے والے غزوہِ اُحد کے مقام جبلِ اُحد کا خیال آتا ہے تو اس کا نقشہ اور محلِ وقوع ہی نگاہوں کے سامنے نہیںگھومنے لگتا بلکہ اس سے ملحق تیر اندازوں کے ٹیلے کا سراپا بھی آنکھوں میں جھلملانے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ قدِ آدم جنگلے کے اندر کا وہ احاطہ بھی یاد آنے لگتا ہے جس میں عم رسول سیدالشہدا حضرت حمزہؓ ، حضرت مصعب بن عمیر ؓ اور دوسرے شہدائے اُحد کی قبریں ہیں۔ پھر غزوہِ اُحد کی رِیل نگاہوں کے سامنے ایسے چلتی ہے کہ کفار کے تین ہزار جری لشکر جس میں سات سو آہن پوش گھڑ سوار بھی تھے کے مقابلے میں سات سو فرزندانِ توحید کی دلیری، بہادری اور جانثاری کے واقعات بھی ذہن کے نہاں خانے میں تازہ ہونے لگتے ہیں۔ جبلِ اُحد کا خیال آئے تو اس کے بارے میں نبی پاک کے فرمان مبارک © کہ "احد کا پہاڑ مجھ سے محبت رکھتا ہے اور میں اُحد سے محبت کرتا ہوں” کے ساتھ اور کئی باتیں بھی یاد آ جاتی ہیں۔ اس کے دامن میں اس چھوٹی سی گھاٹی یا غار نما جگہ کا ہیولہ بھی ابھر کر سامنے آ جاتا ہے جہاں غزوہِ اُحد کے موقع پر کفار کے لشکر کی پسپائی کے بعد نبیِ رحمت ﷺ نے زخمی حالت میں کچھ دیر تک آرام کیا تھا۔
مدینہ منورہ کی یاد آئے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ غزوہِ خندق کا مقام اور جگہ اور واقعات یاد نہ آئیں۔ شوال سن 5 ہجری میں ابوسفیان کی قیادت میں مشرکینِ مکہ کے لشکر سمیت عرب کے بعض دوسرے قبائل جن میں یہودی قبائل بھی شامل تھے کے دس ہزار نفوس پر مشتمل بھاری لشکر کی مدینہ منورہ پر چڑھائی کی خبر ملی تو صحابیِ ِ رسول حضرت سلمان فارسی ؓ کے مشورے پر مدینہ منورہ کی شمال مغربی سمت میں جبلِ سلع کو پُشت پر رکھ کر کوہِ عبید اور کوہِ ارتج کے درمیان تقریباً 5 کلومیٹر طویل خندق کھودی گئی۔ اس خندق کے آثار تو اب موجود نہیں ہیں لیکن وہاں بنائی گئی سبع مساجد میں اب بھی موجودہ تین مساجد مسجد فتح، مسجد علیؓ اور مسجد سلمان فارسیؓ غزوہِ خندق کے حالات و واقعات کی یاد دلاتی ہیں۔ مسجد فتح جبلِ سلع کے دامن میں ذرا اونچائی پر اُس جگہ بنی ہوئی ہے جہاں غزوہِ خندق کے موقع پر کفار کے لشکر کے محاصرے کے دوران نبی پاک کا خیمہ تھا۔ مسجد سلمان فارسی ؓ ذرا نیچی جگہ پر ہے تو اُس سے آگے ذرا اونچائی پر مسجدِ علی ؓ اُس جگہ بنی ہوئی ہے جہاں کفار کے لشکر کے ایک سالار عرب کے نامی گرامی پہلوان عمرو بن عبدود کے خندق کو پھلانگ کر اسلامی لشکر کی طرف آنے پر حضرت علیؓ نے جہنم واصل کیا تھا۔
مدینہ منورہ یاد آئے تو مسجد قبا، مسجد جمعہ اور مسجد قبلتین اپنے بلند و بالا میناروں ، اپنے گنبدوں، محرابوں اور قبوں سمیت اپنی نو تعمیر کردہ عمارتوں سمیت نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی ہیں تو اس کے ساتھ ان کے بلند مقام و مرتبے ، ان کی تاریخی حیثیت اور یہاں عبادت کی فضیلت کے بارے میں روایات بھی ذہن کے نہاں خانے میں تازہ ہو جاتی ہیں۔ مسجد قبا جسے اسلام کی پہلی مسجد کادرجہ حاصل ہے اور نبی پاک کی حدیث ِ مبارکہ کے مطابق اس میں دو رکعت نماز پڑھنے کا عمرے کے برابر ثواب ہے تو اسی طرح مسجد جمعہ جو اس کے قریب ہی واقع ہے، وہ مسجد ہے جہاں ہجرت کے بعد نبی پاک نے جمعہ کی پہلی نماز ادا کی تھی۔ مسجد قبلتین جو ان سے ہٹ کر دوسری سمت میں واقع ہے کا بھی بڑا مقام اور تاریخی حیثیت ہے کہ یہاں رجب یا شوال سن 2ہجری میں نبی پاک پر سورة البقرہ کی تحویلِ قبلہ کی آیات نازل ہوئیں اور آپ نے نماز کے دوران ہی اپنا رُخ مسجد اقصیٰ بیت المقدس سے پھیر کر مسجد الحرام مکہ مکرمہ کی طرف کرلیا۔
سچی بات ہے مدینہ منورہ کو یاد کرتے ہوئے وہاں کی گلیوں، بازاروں، سڑکوں ، بلند و بالا عمارات، دکانوں اورشاپنگ مالز کا بھی خیال آتا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہاں کے لوگوں کا حسنِ سلوک اور اندازِ میزبانی و مہمانداری بھی دل کے اندر احساسِ ممنونیت اور سپاس ِ تشکر کو ابھارتا ہے۔ رمضان کا مہینہ نہیں تھا لیکن پھر بھی مسجد نبوی کے قدیمی حصے میں افطاری کے لیے اشیائے خورونوش کے پھیلائے وسیع و عریض دستر خوان یاد آتے ہیں تو مسجد نبوی میں آتے جاتے راستے میں روک کر پانی کی ٹھنڈی بوتلیں اور بریانی سمیت کھانے پینے کی دیگر اشیاءتقسیم کرنے والے بھی یاد آتے ہیں۔ ان کے ساتھ مسجد نبوی کے کھلے بیرونی صحنوں اور احاطوں میں کھجوروں کے ڈبے اٹھائے کھانے کے لیے کھجوریں پیش کرنے والے بھی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ یہ سب منظر ایسے ہیں جو رہ رہ کر یاد آتے ہیں۔ دل کرتا ہے کہ ایک بار پھر عمرے پر جانا نصیب ہو۔ مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کا طواف، حجرِ اسود کو بوسہ، صفا اور مروہ کی سعی، مقامِ ابراہیم پر نوافل اور جی بھر کر آبِ زم زم پینا اور مسجد الحرام کے بلند و بالا اور پر شکوہ میناروں کو دیکھنا نصیب ہو تو نبی پاک کے مقدس شہر مدینہ منورہ کا سفر بھی حاصلِ زندگی بنے۔ دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ کی عنایت اور حضورﷺ کی نظر و کرم سے ان شاءاللہ ایسا ضرور ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں اس وقت آئین پرعمل نہیں کیا جا رہا: عمرایوب
  • بھر م بلندی کا…..
  • اشرف طائی….حکومت سے مدد کی اپیل
  • مدینہ منورہ یاد آتا ہے….!
  • جائیں تو جائیں کہاں ….(2)
  • پرامن حالات خراب کرنے کی سازش ہو رہی ہے، سید علی رضوی
  • عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کیوں ختم کیے؟ بیرسٹر گوہر نے وجہ بتادی
  • یہ ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
  • ماؤں نے مردوں کی تربیت ٹھیک نہیں کی جسٹس محسن اختر