Nai Baat:
2025-04-15@15:22:39 GMT

پلے اور پھر فاﺅل پلے

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

پلے اور پھر فاﺅل پلے

عدالتی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے بلکہ گرم کیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ فاﺅل پلے کے ذریعے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابل جب فریق مخالف فاﺅل پلے کرے گا تو پھر شور اٹھے گا کہ یہ کیا ہو گیا ۔ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور انہی کے تحت کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے سیاست کے میدان کارزار میں ایک فریق مسلسل کھیل کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فاﺅل پلے کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سیاست میں نئی لیکن انتہائی منفی روایات جنم لے رہی ہیں اس لئے کہ اگر ایک فریق منفی سیاست کر رہا ہے تو دوسرے فریق کو نا چاہتے ہوئے بھی مجبوری کے عالم میں فاﺅل پلے کھیلنا پڑے گا جس کی ایک بڑی مثال تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر حکومت کی جانب سے اپنایا گیا غیر آئینی طرز عمل تھا ۔ آئین پاکستان میں بلاکسی ابہام واضح طور پر درج ہے کہ حکومت کے خلاف اگر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی جائے گی تو اس پر تین دن کے بعد اور سات دن کے اندر ووٹنگ کرائی جائے گی لیکن اول تو اس پر آئین میں دی گئی مدت میں ووٹنگ نہیں کرائی گئی اور کم و بیش ایک ماہ بعد اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اس تحریک کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پوری حزب اختلاف غیر ملکی سازش کا آلہ کار بن کر عدم اعتماد کے ذریعے ملک کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ یہ عدم اعتمادکوئی پہلی مرتبہ کسی وزیر اعظم کے خلاف نہیں آئی تھی بلکہ اس سے پہلے1989میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور2006میں جنرل مشرف دور میں شوکت عزیز کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریکیں آ چکی ہیں اور دونوں بار ان پر آئین کے مطابق ووٹنگ کروائی گئی تھی اور دونوں بار یہ ناکام رہی تھیں ۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو اور خاص طور پر جنرل مشرف کے لئے تویہ کام بہت آسان تھا کہ وہ بھی عدم اعتماد کی تحریک کو ایک سائفر لہرا کر غیر ملکی سازش کا بیانیہ بناتے اور اسے مسترد کر دیتے لیکن جنرل مشرف نے جو کام ایک آمر ہونے کے باوجود نہیں کیا تھا بلکہ زیادہ درست یہ ہو گا کہ ایسا نادر خیال ماضی میں کسی کو نہیں آیا کہ وہ پوری حزب اختلاف کو ہی غدار قرار دے کر عدم اعتماد کو مسترد کر دیتے ۔ اس طرح تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا یقینا فاﺅل پلے تھا جسے بعد میں سپریم کورٹ نے بھی غیر آئینی قرار دیا اور اس فاﺅل پلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس عدم اعتماد کی تحریک پر گنتی کرانے کے لئے پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر قیدیوں کی وین پہنچانے جیسے انتہائی اقدامات کرنا پڑے کہ جو نہیں ہونے چاہئے تھے ۔
اس کے بعد کیا ہوا کہ تحریک انصاف کے بانی اور رہنماﺅں کو تھوک کے حساب سے عدالتوں سے ضمانتیں ملنا شروع ہو گئیں تو یہ ماضی کے مقابلے میں ایک غیر معمولی صورت حال تھی یعنی ایک طرف تو تحریک انصاف کے دور میں پوری حزب اختلاف کو اٹھاکر جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا لیکن اس وقت کسی کو ” گڈ ٹو سی یو “ نہیں کہا گیا اور نہ ہی کسی گرفتار رہنما کو ججز والے گیٹ سے سپریم کورٹ میں لایا گیا ہاں البتہ نواز شریف کے خلاف کیس میں ” گڈٹو سی یو “ تو نہیں کہا گیا لیکن ” سیسلین مافیا “ جیسے القاب سے ضرور نوازا گیا ۔ اب ایک جانب سے جب ضمانتوں پر ضمانتیں دی جانے لگیں حتیٰ کہ 63-Aکی تشریح کے نام پر نیا آئین ہی تشکیل دے کر فاﺅل پلے کھیلا گیا اور ایک فریق کو عدالتی آرڈرز کے ذریعے کھڈے لائن لگانے کا کام شروع ہوا تو پھر دوسری طرف سے جوڈیشل آرڈر کے مقابلے میں ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ان احکام کو بے اثر کرنے کا کام شروع ہو گیا جو کہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن انتہائی مجبوری تھی کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پھر کیا کیا جاتا ۔ جمہوریت میں ہر شہری کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن اس حق کی آڑمیں اگر ایک بار نہیں دو بار نہیں بلکہ بار بار ایک صوبہ اپنے پورے سرکاری وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے وفاق پر چڑھائی کرے تو وفاقی حکومت کے پاس پھر دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں ایک یہ کہ انھیں من مانی کرنے دیں اور بات پارلیمنٹ پر حملے تک پہنچ کر آپے سے باہر ہو جاتی اور دوسری یہ کہ اس مسلح ہجوم کو روک کر ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرتی اور جب ایسا کیا گیا تو پھر لاشوں کا پروپیگنڈا کر کے پھر فاﺅل پلے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش اس لئے ناکام ہو گئی کہ لاشوں کی سیاست کے لئے لاشوں کا ہونا بھی ضروری تھا ۔ملکی معیشت اگر دیوالیہ کے خطرے سے نکل کر بہتری کی جانب گامزن ہے تو انتشاری سیاست سے گریز کرنا چاہئے۔
26ویں ترمیم کچھ لوگوں کے لئے یقینا بڑی تکلیف دہ ہو گی لیکن کیا کریں مجبوری ہے کہ آئین کے تحت اگر پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے کوئی قانون بنا دے تو وہ آئین کا حصہ بن جاتا ہے اور آئین ہی کے تحت پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی کسی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تو اب اگر کسی کو 26ویں آئینی ترمیم اچھی نہیں لگتی اور وہ اسے فاﺅل طریقے سے معطل کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر کیا یہ آئین کو سبو تاژ کرنے کے مترادف نہیں ہو گا تو پھر کیا کیا جائے اس لئے کہ عدلیہ کا جو محاذ گرم کیا جا رہا ہے اس میں کچھ مفاد پرست لوگ آئین اور قانون کو پس پشت ڈال کر آئین و قانون کے نام پر آئین اور قانون کے ساتھ ہی کھلواڑ کرنا چاہتے ہیں تو جب ان لوگوں کو آئین و قانون کے تحت ہی شٹ اپ کال دی جاتی ہے تو پھر واویلا کیا جاتا ہے کہ زیادتی ہو گئی تو عدالتی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے بلکہ گرم کیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ فاﺅل پلے کے ذریعے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابل جب فریق مخالف فاﺅل پلے کرے گا تو پھر شور اٹھے گا کہ یہ کیا ہو گیا ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے کے خلاف کی کوشش ہو گیا کے لئے کے تحت ہے اور رہا ہے کیا جا اور اس

پڑھیں:

کانگریس کسی مسلمان کو پارٹی کا صدر کیوں نہیں بناتی، نریندر مودی کی اپوزیشن پر تنقید

نئی دہلی: بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وقف ایکٹ کی مخالفت پر اپوزیشن کی جماعت کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس صرف بنیاد پرست مسلمانوں کو خوش کرتی ہے اور اس ایکٹ کی مخالفت اس کا ثبوت ہے۔

بھارتی وزیراعظم نے پیر کو ہریانہ میں حسار ایئرپورٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ کانگریس کسی مسلمان کو جماعت کا صدر کیوں نہیں بناتی اور مسلمان امیدواروں کے لیے 50 فیصد نشستیں مختص کیوں نہیں کرتی؟
نریندر مودی نے کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن نے طاقت حاصل کرنے کے لیے آئین کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ کانگریس نے بابا صاحب امبیڈکر کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ جب وہ زندہ تھے تو پارٹی نے ان کی کئی مرتبہ بے عزتی کی۔ انہوں نے ان کو دو دفعہ الیکشن ہرایا، وہ ان کو سسٹم سے باہر کرنا چاہتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد کانگریس نے ان کی تعلیمات کو مٹانے کی کوشش کی۔ بابا صاحب مساوات کے لیے کھڑے ہوئے، لیکن کانگریس نے ملک بھر میں ووٹ بینک سیاست کا وائرس پھیلایا۔‘
نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ’میں ووٹ بینک کے بھوکے رہنماؤں سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کو مسلمانوں کی فکر ہے تو ان کو پارٹی کا صدر کیوں نہیں بناتے، لوک سبھا میں مسلمانوں کو 50 فیصد ٹکٹ دیں۔ اگر وہ جیتتے ہیں تو اپنا نقطہ نظر سامنے رکھیں گے، لیکن وہ کانگریس میں مسلمانوں کو کچھ نہیں دیں گے۔‘
وزیراعظم کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کانگریس کے صدر ملک ارجن کھارگے نے کہا کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے ہمیشہ تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔ حکومت ڈاکٹر امبیڈکر کے نظریے پر کام نہیں کرتی، لیکن بڑے بڑے دعوے کرتی ہے۔
بی جے پی صرف کانگریس، نہرو جی اور ہم نے اب تک جو کچھ کیا اس کے خلاف بولتی ہے۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ انہوں نے اب تک کیا کیا اور بابا صاحب کے کون سے اصولوں پر عمل کیا؟‘

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • ضم اضلاع کے فنڈز کے پی حکومت کو منتقل نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، بیرسٹر سیف
  • وفاقی حکومت کی کینال منصوبہ ختم کرنیکی پیشکش لیکن پیپلزپارٹی نے کیا جواب دیا؟ تہلکہ خیز دعویٰ 
  • اسٹیبلشمنٹ رابطہ کرتی ہے تو مذاکرات کے لیے جائیں گے، بیرسٹر گوہر
  • کانگریس کسی مسلمان کو پارٹی کا صدر کیوں نہیں بناتی، نریندر مودی کی اپوزیشن پر تنقید
  • نواز شریف کی ہدایت کے باوجود  حمزہ شہباز پارٹی امور میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے؟
  • ایران سے متعلق فیصلہ جلد کریں گے: ڈونلڈ ٹرمپ
  • ضم اضلاع کے فنڈز کے پی حکومت کو منتقل نہ کرنا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے، بیرسٹر سیف
  • پی ایس ایل کی فریاد
  • احتساب کو مئوثر بنانے کے تقاضے
  • اس کا حل کیا ہے؟