اِسلام آباد میں 11اَور 21جنوری 2025ءکو مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم، مواقع اَور چیلنجز کے موضوع پر رابطہ اِسلامی اَور مسلم ورلڈ لیگ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اِس کانفرنس کے آخر میں جو اعلامیہ جاری ہوا ا±س میں کہا گیا کہ شرکاءیہ واضح پیغام دیتے ہیں کہ اِسلام اَور لڑکیوں کی تعلیم کو بدنام کرنا بند کیا جائے۔ شرکاءنے لڑکیوں کی تعلیم صرف مذہبی نہیں بلکہ معاشرتی اِعتبار سے بھی اہم قرار دی۔ شرکاءنے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم میں حائل اِنتہاءپسندانہ خیالات، فتوے اَور نظریات سے خبردار کیا جاتا ہے۔ کانفرنس میں او آئی سی کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔
ایک طرف دیکھا جائے تو یہ کانفرنس ہونا خوش آئندہے کہ اَب اِس موضوع پر سرعام گفتگو ہورہی ہے اَور پوری اِسلامی د±نیا سے مندوبین اِس میں شریک ہوئے ہیں، سوائے افغانستان کے کہ ا±س نے اِس کانفرنس کا بائی کاٹ کیا تھا۔لیکن د±وسری جانب یہ ایک مذاق بھی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم د±نیا کو اِس موضوع پر کانفرنس کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ کیا ہم آج وہاں کھڑے ہیں جہاں د±نیا دو سو سال قبل موجود تھی؟ مسلمان قوم وہ ہے جسے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ ہدایت دی گئی تھی کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اَور عورت پر فرض ہے۔ اگر ا±س قوم کے اَندر یہ کانفرنس کرنی پڑ رہی ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم چودہ سو سال پہلے سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔ ہم عرب کے زمانہ جاہلیت میں زِندہ ہیں یا پتھروں کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔
خواتین کی تعلیم صرف افغانستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان کے اَندر بھی بہت سے لوگ اَیسے پائے جاتے ہیں جن کے نزدِیک خواتین کی تعلیم غیراِسلامی کام ہے۔ چنانچہ ہمارے چاروں صوبوں کے دیہی علاقوں میں اَور بعض جگہ شہری علاقوں میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کو غیر ضروری، بدعت، غیراِسلامی اَور گناہ تک سمجھا جاتا ہے۔ مسئلہ حل کرنے کے لیے پہلے ا±سے سمجھنا ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستان کی حد تک تو یہ مسئلہ دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف یہ معاشرتی مسئلہ ہے کہ ہم جس خطے میں رہتے ہیں وہاں کی رِیت رواج عورتوں کو د±وسرے درجے کا اِنسان سمجھتی رہی ہیں۔ ہم ایک طویل عرصہ ہندوو¿ں کے ساتھ رہے ہیں۔ ا±ن کے نزدِیک عورت کی تخلیق کا مقصد مرد کا دِل بہلانا، ا±س کی سیوا کرنا، ا±س کے لیے بچے پیدا کرنا وغیرہ ہیں۔ اِسی لیے شوہر کے مرنے کے بعد عورت اگر ستی ہوجاتی تو اِسے بہت بڑا فعل سمجھا جاتا کہ یہ شوہر کی چتا کے ساتھ ہی زِندہ جل گئی۔ گویا شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کے زِندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہمارے یہاں بھی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کا دوبارہ شادی کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اَب تک شادی کو صرف جنسی لذت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اِس سے زیادہ ا±ن کے نزدِیک شادی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ مرد اگر د±وسری شادی کرے تو ا±سے بھی ٹھرکی سمجھا جاتا ہے۔ اگر عورت یہ کام کرے تو ا±سے بھی بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے یہاں بیوہ یا طلاق یافتہ عورت بھی زِندہ رہتے ہوئے ستی ہوجاتی ہے یا ا±س سے یہی توقع کی جاتی ہے۔
اِس کا د±وسرا پہلو مذہبی ہے۔ مسلمانوں نے اِسلام کی جو تشریح کی ہے ا±س کے مطابق عورت کا کام گھرمیں رہنا، بچے پیدا کرنا اَور ہانڈی روٹی کرنا ہے۔ جو عورت یہ کام کرے وہ بہت ستی ساوتری سمجھی جاتی ہے۔ جو باہر نکل کر کام کرے، تعلیم حاصل کرے ا±سے لوگ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ جو لوگ زیادہ مذہبی ہوجاتے ہیں وہ تو اَیسی عورتوں سے باقاعدہ نفرت کرتے ہیں۔ ا±ن کے نزدِیک یہ صرف گمراہی ہے اَور شیطانی چال ہے۔ وہ مغربی معاشروں کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں عورتیں گھروں سے باہر نکلیں اَور وہاں فحاشی اَور عریانی کا طوفان کھڑا ہوگیا۔ ا±ن لوگوں کو پاکستان میں زمین کے نیچے ٹھاٹیں مارتا فحاشی کا سمندر نظر نہیں آتا۔ یہاں گھروں کے اَندر جو کچھ ہوتا ہے وہ مغربی معاشرے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے ہی لیڈروں اَور مذہبی رہنماو¿ں نے اِس قسم کی باتیں کی ہیں کہ اگر بازار میں کوئی خوبصورت خاتون نظر آجائے تو اگر مرد کا اِیمان خراب نہ ہو تو ا±س مرد میں کوئی ذہنی یا جسمانی بیماری ہے۔ گویا مردانگی کا اِمتحان یہ ہے کہ خوبصورت عورت کے نظر آجانے پر مرد اَپنے آپے سے باہر ہوجائے۔ جہاں اِس قسم کی سوچ پائی جاتی ہو، جو لوگ یوں عورت کو دیکھتے ہوں، ا±س معاشرے میں زنا کا ہونا ایک عام بات ہے۔ چنانچہ اَیسا ہی ہورہا ہے۔ پاکستان میں جنسی جرائم میں وقت کے ساتھ بے پناہ اِضافہ ہوا ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ آپ اَپنی بیٹی کو ہی نہیں، بیٹے کو بھی باہر اکیلے بھیجتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ نہ جانے کب، کہاں اِسے پکڑ کر اِس کے ساتھ زیادتی کردی جائے گی۔ پھر یہ کہ صرف زیادتی ہی نہیں ہوگی، بعد میں ا±سے قتل بھی کردیا جائے گا تاکہ وہ یہ بتانے کے قابل ہی نہ رہے کہ کس نے یہ کام کیا ہے۔
مسلمانوں کے ایک مخصوص حصے نے قرآن و حدیث کی جو تشریح گزشتہ دو تین سو سالوں میں کی ہے آج ہم ا±س کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ وہ دین جو ہر ایک کو دیکھنے، سوچنے، غوروفکر کرنے کی تلقین کرتا ہے ا±س کے ماننے والے اب یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ زمین ساکن ہے، اِنسان چاند کے بجائے کسی اَور سیارے پر ا±ترا تھا کیونکہ چاند بہت د±ور ہے، علم صرف نماز روزے کے مسائل کو سمجھنے کا نام ہے، لڑکی گھر سے باہر نکلے تو باپ کی ناک کٹ جاتی ہے اَور شوہر بے غیرت قرار پاتا ہے۔ ہمارے علماءنے قرآن سے ہی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف فتوے نکال لیے ہیں۔ آج اگر ہم طالبان کو کوس رہے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ طالبان آسمان سے نہیں ا±ترے۔ یہ اِسی معاشرے سے نکلے ہیں۔ اِنہوں نے یہیں پر یہ تعلیم حاصل کی ہے کہ اِسلام عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہے۔ ا±ن کے نزدِیک یہ سراسر اِسلامی تعلیم ہے کہ علم پر صرف مرد کا حق ہے، عورت مرد کی لونڈی ہے جس کا کام ا±سے جنسی لذت دینا، بچے پیدا کرنا اَور کپڑے دھونا ہے، عورت اول تو گھر سے نکل ہی نہیں سکتی اور اگر نکلے بھی تو اِس طرح کہ وہ سامنے ہوتے ہوئے بھی سامنے نہ ہو۔ یہ تمام خیالات ا±نہوں نے اِسلام کے کھاتے میں ڈالے ہیں۔ یہی حالات پاکستان میں بہت سے علاقوں کا ہے، دِیگر اِسلامی ممالک میں بھی کئی جگہوں پر یہ خیالات پائے جاتے ہیں۔ کیا آج سے چند سال پہلے تک عرب ممالک میں عورت پر یہ پابندی نہیں تھی کہ وہ گاڑی نہیں چلا سکتی یا اکیلی باہر نکل کر سودا سلف نہیں خرید سکتی؟ آج وہی لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ اِقدامات غلط تھے۔ اَب پاکستانی مسلمان مخمصے میں پڑگئے ہیں کہ پہلے والے کام د±رست تھے یا آج کے۔
جن لوگوں نے قرآن اَور حدیث کی غلط تشریح کی ا±نہوں نے گویا اَپنے خیالات اَور نظریات قرآن اَور حدیث میں گھسانے کی کوششیں کیں۔ یہ کام کرنا سراسر اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنا ہے۔ اِس کی نہایت خوفناک سزا ہے۔ قرآنِ حکیم میں کئی جگہ یہ بات کہی گئی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف غلط بات منسوب کرنا جہنم کی آگ خریدنے کے برابر ہے۔ جس نے بھی یہ کام کیا ا±سے بہت سخت سزا ملے گی۔ لہٰذا قرآن و حدیث کا درس دینے والوں پر بڑی بھاری ذِمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ا±ن کی غلط تشریح کرنے سے باز رہیں اَور اللہ تعالیٰ اَور نبی اکرم کے منہ میں اَپنے الفاظ ڈالنے کے جرم سے پرہیز کریں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: لڑکیوں کی تعلیم ا ن کے نزد یک سمجھا جاتا جاتا ہے کے ساتھ جاتی ہے رہے ہیں ا سلامی سو سال ا سلام سے بھی یہ کام ہیں کہ
پڑھیں:
مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوچکا، کسی بھی حوالے سے بات چیت شروع نہیں کرنا چاہتے، شیخ وقاص اکرم
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، ہم کسی بھی حوالے سے ان کے ساتھ مذاکرات شروع نہیں کرنا چاہتے۔
اتوار کو ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں شیخ وقاض اکرم نے کہا کہ اگر حکومت جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کرتی بھی ہے تو جب وہ اعلان کریں گے تب دیکھیں گے لیکن مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے ہم کسی بھی حوالے سے حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع نہیں کرنا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات اوور سمجھیں، حکومتی رویے کو دیکھتے ہوئے مذاکرات سے باہر نکلے ہیں، یہ لوگ مذاکرات سے متعلق سنجیدہ تھے ہی نہیں، ان کا کام جوڈیشل کمیشن بنانا تھا لیکن اس کو کو تعطل کا شکار کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں