Nai Baat:
2025-01-27@17:10:58 GMT

لاہور سے بہاولپور تک !

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

لاہور سے بہاولپور تک !

جنوبی پنجاب کا دورہ جہاں نئی تازگی اور انرجی دیتاہے وہاں اس علاقے کی ترقی نہ کرنے کی وجوہات دکھی کردیتی ہیں۔ اس بار اپنی جنم بھومی بہاولپور کے ایک روزہ وزٹ کے دوران کئی مختصر لیکن بھرپورملاقاتوں نے دل کو تازگی بخشی۔ جی ٹی روڈ کی نسبت اب موٹروے سے سفر زیادہ آرام دہ اور مختصر ہو گیا ہے۔ اپنی گاڑی پر لاہور سے بہاولپور کا سفر ساڑھے 5 گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔پہلے یہ سفر بذریعہ جی ٹی روڈ کم ازکم 7 گھنٹے میں طے ہوتا تھا۔ بہاولپور شہر میں بچپن سے جوانی تک کا گزرا وقت، ایس ڈی ہائی سکول، ایس ای کالج اور اسلامیہ یونیورسٹی میں تعلیمی ادوار کی یادیں، لگ بھگ 6 دروازوں کی قید میں اندرون شہر کے چپے چپے سے واقفیت اورانسیت اب بھی بدن میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔ گو کہ شہر میں پرانی کالونیوں کے علاوہ نئے اور بڑے ٹا¶نز بن چکے ہیں لیکن اندرون شہر کی اپنی ہی بات ہے۔ گذشتہ جمعہ کی شام بہاولپور پہنچا تو شہر میں داخل ہوتے ہی ہر بار کی طرح بہت دکھ ہوا۔ لاری اڈے سے فرید گیٹ تک کی سڑک آج بھی ویسے ہی ہے جیسا کہ آج سے 20 برس پہلے میں چھوڑ کر گیا تھا۔ شام کی مصروفیات پہلے سے طے تھیں۔ دیرینہ دوست اور سینئرصحافی بقا المحسن جو بہاولپور پریس کلب کے تازہ جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے گھر جا کر مبارکباد پیش کی۔ بقا بھائی نے ہمیشہ کی طرح پر تکلف چائے کا اہتمام کیا۔ دیگر لوازمات کے ساتھ گھر کے بنے ہوئے دودھ اور دیسی گھی میں بنے میٹھے ٹِکڑوں نے بچپن کی یادیں تازہ کر دیں۔ ہمارے بچپن میں یہ ٹِکڑے ماں جی (خدا سلامت رکھے) اکثر بنا کر دیتی تھیں۔ جب اسلام آباد میں روہی ٹی وی میں جاب کرتا تھا تو ہر بار ڈھیرسارے ٹِکڑے بنا کردیتیں کہ ناشتہ کر لیا کرنا۔ لیکن یہاں آتے ہی یہ دوستوں میں سوغات کے طور پر بانٹ دیتا۔ بقا صاحب کے ساتھ بہاولپور کی عدم ترقی اور مقامی سیاسی قیادت کی بے حسی پر سیر حاصل گفتگوہوئی۔ پچھلی دو دہائیوں میں طارق بشیر چیمہ، بلیغ الرحمان، سمیع اللہ چوہدری کے پاس صوبائی اور مرکزی وزارتوں کے علاوہ پنجاب کی گورنر شپ بھی رہی ہے۔ اس وقت بھی ظہیر اقبال چنڑ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی ہیں۔ لیکن یہ قیادتیں ان بیس برس میں کوئی بھی قابل ذکر ترقیاتی منصوبہ، کسانوں کو درپیش چیلنجز کا حل،
مقامی سطح پر سوشل اینڈ اکنامک چیلنجز، نوجوانوں کو مقامی سطح پر روزگار کے لئے مواقع فراہم کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی بنا کر پیش نہیں کر سکیں۔ دریائے ستلج کی انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت فروخت سے قبل اور اس کے کچھ عرصے بعد تک بھی بہاولپور اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ اپنی زرخیزی کی وجہ سے سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ بعد ازاں بھارت نے ان پانیوں پر سرہند، بھاکھڑا اور راجھستان کینال جیسی دریا نما نہروں سے اپنے سوکھے مشرقی پنجاب اور راجھستان کے ریگزاروں کو ہریالے کھیت کھلیانوں میں تبدل کر دیا ہے۔ جبکہ جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا ہریالہ ڈویژن بہاولپور چولستان کے ریگزاروں میں تبدیل ہو رہا ہے۔ میرے دوست اور صحافت کے پروفیسر عبدالباسط صاحب کے گھر ڈنر پر انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر شہزاد ملک صاحب، فریڈم کالج کے پرنسپل اجمل ملک، مایہ ناز سوشل ورکر اور میرے چھوٹے بھائی کاشف ڈوگر، پروگریسو زمیندار اور میرے برادر نسبتی چوہدری فرخ بھی موجود تھے۔ ان کے ساتھ بھی انہی موضوعات کا تسلسل رہا۔ باسط صاحب نے بتایا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس سلیب کی تبدیلیوں کے بعد گذشتہ برس ماہانہ تنخواہ سے 8 ہزار روپے کٹنے والا ٹیکس اب 30 ہزار ہو چکا ہے۔ جبکہ ہوشربا مہنگائی نے تنخواہ کو عملاً نصف کر دیا۔ موجودہ ٹیکس سلیب کے بعد بچنے والی سالانہ آمدن گذشتہ برس کے 10ماہ کی تنخواہ کے برابر رہ گئی ہے یعنی حکومت 2 ماہ مفت کام کرائے گی۔ فرخ صاحب نے بتایا کہ زمینداروں کا بہت برا حال ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آرہا کہ کہاں جائیں۔ پچھلے برس گندم کی فصل کی خریداری سے متعلق حکومتی فیصلے نے زمینداروں کو پریشان کردیا ہے۔
ہمیں منڈی کے آڑھتیوں کے حوالے کرنے کی بجائے ٹھوس میکنزم بنائیں تاکہ زمیندار براہ راست اپنی پراڈکٹ خریدار کو بیچ سکیں۔ صرف گندم کی فصل کی درست قیمت نہ ملنے سے خرچے پورے نہیں ہو رہے۔ ٹھیکیداروں نے زمین کاٹھیکہ دینے سے معذرت کر لی ہے۔ پاکستان ڈومیسٹک کامرس سے چلنے والا ملک ہے اور اس کی 60 فیصد سے زائد اکانومی بلا واسط یا بالواسط زرعت سے منسلک ہے۔ زمیندار کے پاس پیسے آتے ہیں تو وہ ٹریکٹر، کاریں اور،موٹرسائیکل خریدتا ہے، بچوں کی شادیاں کرتا ہے۔ مارکیٹ میں سرمائے کی گردش سے سب کو فائدہ ہوتا ہے۔ انڈسٹری کا زیادہ تردارومدار زمیندار کی خرچ کرنے کی صلاحیت سے جڑاہے۔ آج اگر صنعت کار پریشان ہے تو اس کی بنیادی وجہ زراعت سے متعلق ناقص حکمت عملی ہے۔ حکومت پر مہنگائی کنٹرول کرنے کا دبا¶ تھا۔ اس کے لئے آسان ہدف زمیندار طبقہ تھا لہٰذا وقتی طور اشیاءخورونوش کی قیمتوں کوکنٹرول توکر لیا لیکن اس کے دور رس منفی اثرات پوری معیشت کو جھیلنا پڑیں گے۔ ذکر بہاولپور چل رہا تو شاید اب بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ بہاولپور میں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کا ڈرنگ اسٹیڈیم بھی موجود ہے جہاں کرکٹ، ہاکی اور فٹبال سمیت دیگر کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلے ہوچکے ہیں۔ آج کل انٹرنیشنل سپورٹس ایونٹ ملکوں اور شہروں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ پاکستان میں فروری میں ہونے والی کرکٹ چیمیئنز ٹرافی ایک اچھاموقع تھا کہ ہم لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے علاوہ اپنے دیگر شہروں کو بھی موقع دیتے۔ ملتان اوربہاولپور کو نظر انداز کئے جانے کی پوری ذمہ دار یہاں کی مقامی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ جنھوں نے کوشش کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ ان ایونٹس سے شہروں کی ترقیاتی، ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو کام کئی برسوں تک نہیں ہو سکتا وہ چند مہینوں میں ہو جاتا ہے۔ بہاولپور سیاسی طور پر مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے۔ شہریوں نے نواز شریف کے امیدواروں کو ہمیشہ ووٹ تو دیئے ہیں لیکن انھیں اس کا صلہ نہیں مل سکا۔ اب چیف منسٹر محترمہ مریم نواز کی قیادت میں بہاولپور کے لئے ترجیحی پروگرام ترتیب دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ ترجیحی بنیادوں پراسکل بیسڈ ایجوکیشن، جس میں کسانوں کے لئے ڈائریکٹ کنزیومر مارکیٹنگ ٹریننگ بمعہ فروخت سنٹرز، کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے انٹرنیشنل ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل اینڈ اسکلز پروگرام، مقامی زمینداروں لئے جدید فارمنگ اور ویلیو ایڈڈ ایگری پراڈکٹس پروگرام سمیت ایکسپورٹ پراسسیسنگ زون کا قیام، خواتین کے لئے لوکل ہینڈ میڈ پراڈکٹس کی براہ راست فروخت کے لئے ڈیجیٹل سیلنگ سکلز دی جائیں۔ چولستان کینا ل منصوبے کو عملی جامہ پہنانا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے کارناموں میں شمار ہوگا۔صرف پالیسی فریم ورک اور دستیاب وسائل کی بہترین حکمت عملی کے ذریعے بہاولپور پورے صوبے کے لئے ایک رول ماڈل سٹی بن سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے لئے اور اس

پڑھیں:

پلے اور پھر فاﺅل پلے

عدالتی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے بلکہ گرم کیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ فاﺅل پلے کے ذریعے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابل جب فریق مخالف فاﺅل پلے کرے گا تو پھر شور اٹھے گا کہ یہ کیا ہو گیا ۔ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور انہی کے تحت کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے سیاست کے میدان کارزار میں ایک فریق مسلسل کھیل کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فاﺅل پلے کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سیاست میں نئی لیکن انتہائی منفی روایات جنم لے رہی ہیں اس لئے کہ اگر ایک فریق منفی سیاست کر رہا ہے تو دوسرے فریق کو نا چاہتے ہوئے بھی مجبوری کے عالم میں فاﺅل پلے کھیلنا پڑے گا جس کی ایک بڑی مثال تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر حکومت کی جانب سے اپنایا گیا غیر آئینی طرز عمل تھا ۔ آئین پاکستان میں بلاکسی ابہام واضح طور پر درج ہے کہ حکومت کے خلاف اگر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی جائے گی تو اس پر تین دن کے بعد اور سات دن کے اندر ووٹنگ کرائی جائے گی لیکن اول تو اس پر آئین میں دی گئی مدت میں ووٹنگ نہیں کرائی گئی اور کم و بیش ایک ماہ بعد اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اس تحریک کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پوری حزب اختلاف غیر ملکی سازش کا آلہ کار بن کر عدم اعتماد کے ذریعے ملک کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ یہ عدم اعتمادکوئی پہلی مرتبہ کسی وزیر اعظم کے خلاف نہیں آئی تھی بلکہ اس سے پہلے1989میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور2006میں جنرل مشرف دور میں شوکت عزیز کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریکیں آ چکی ہیں اور دونوں بار ان پر آئین کے مطابق ووٹنگ کروائی گئی تھی اور دونوں بار یہ ناکام رہی تھیں ۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو اور خاص طور پر جنرل مشرف کے لئے تویہ کام بہت آسان تھا کہ وہ بھی عدم اعتماد کی تحریک کو ایک سائفر لہرا کر غیر ملکی سازش کا بیانیہ بناتے اور اسے مسترد کر دیتے لیکن جنرل مشرف نے جو کام ایک آمر ہونے کے باوجود نہیں کیا تھا بلکہ زیادہ درست یہ ہو گا کہ ایسا نادر خیال ماضی میں کسی کو نہیں آیا کہ وہ پوری حزب اختلاف کو ہی غدار قرار دے کر عدم اعتماد کو مسترد کر دیتے ۔ اس طرح تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا یقینا فاﺅل پلے تھا جسے بعد میں سپریم کورٹ نے بھی غیر آئینی قرار دیا اور اس فاﺅل پلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس عدم اعتماد کی تحریک پر گنتی کرانے کے لئے پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر قیدیوں کی وین پہنچانے جیسے انتہائی اقدامات کرنا پڑے کہ جو نہیں ہونے چاہئے تھے ۔
اس کے بعد کیا ہوا کہ تحریک انصاف کے بانی اور رہنماﺅں کو تھوک کے حساب سے عدالتوں سے ضمانتیں ملنا شروع ہو گئیں تو یہ ماضی کے مقابلے میں ایک غیر معمولی صورت حال تھی یعنی ایک طرف تو تحریک انصاف کے دور میں پوری حزب اختلاف کو اٹھاکر جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا لیکن اس وقت کسی کو ” گڈ ٹو سی یو “ نہیں کہا گیا اور نہ ہی کسی گرفتار رہنما کو ججز والے گیٹ سے سپریم کورٹ میں لایا گیا ہاں البتہ نواز شریف کے خلاف کیس میں ” گڈٹو سی یو “ تو نہیں کہا گیا لیکن ” سیسلین مافیا “ جیسے القاب سے ضرور نوازا گیا ۔ اب ایک جانب سے جب ضمانتوں پر ضمانتیں دی جانے لگیں حتیٰ کہ 63-Aکی تشریح کے نام پر نیا آئین ہی تشکیل دے کر فاﺅل پلے کھیلا گیا اور ایک فریق کو عدالتی آرڈرز کے ذریعے کھڈے لائن لگانے کا کام شروع ہوا تو پھر دوسری طرف سے جوڈیشل آرڈر کے مقابلے میں ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ان احکام کو بے اثر کرنے کا کام شروع ہو گیا جو کہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن انتہائی مجبوری تھی کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پھر کیا کیا جاتا ۔ جمہوریت میں ہر شہری کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن اس حق کی آڑمیں اگر ایک بار نہیں دو بار نہیں بلکہ بار بار ایک صوبہ اپنے پورے سرکاری وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے وفاق پر چڑھائی کرے تو وفاقی حکومت کے پاس پھر دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں ایک یہ کہ انھیں من مانی کرنے دیں اور بات پارلیمنٹ پر حملے تک پہنچ کر آپے سے باہر ہو جاتی اور دوسری یہ کہ اس مسلح ہجوم کو روک کر ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرتی اور جب ایسا کیا گیا تو پھر لاشوں کا پروپیگنڈا کر کے پھر فاﺅل پلے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش اس لئے ناکام ہو گئی کہ لاشوں کی سیاست کے لئے لاشوں کا ہونا بھی ضروری تھا ۔ملکی معیشت اگر دیوالیہ کے خطرے سے نکل کر بہتری کی جانب گامزن ہے تو انتشاری سیاست سے گریز کرنا چاہئے۔
26ویں ترمیم کچھ لوگوں کے لئے یقینا بڑی تکلیف دہ ہو گی لیکن کیا کریں مجبوری ہے کہ آئین کے تحت اگر پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے کوئی قانون بنا دے تو وہ آئین کا حصہ بن جاتا ہے اور آئین ہی کے تحت پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی کسی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تو اب اگر کسی کو 26ویں آئینی ترمیم اچھی نہیں لگتی اور وہ اسے فاﺅل طریقے سے معطل کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر کیا یہ آئین کو سبو تاژ کرنے کے مترادف نہیں ہو گا تو پھر کیا کیا جائے اس لئے کہ عدلیہ کا جو محاذ گرم کیا جا رہا ہے اس میں کچھ مفاد پرست لوگ آئین اور قانون کو پس پشت ڈال کر آئین و قانون کے نام پر آئین اور قانون کے ساتھ ہی کھلواڑ کرنا چاہتے ہیں تو جب ان لوگوں کو آئین و قانون کے تحت ہی شٹ اپ کال دی جاتی ہے تو پھر واویلا کیا جاتا ہے کہ زیادتی ہو گئی تو عدالتی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے بلکہ گرم کیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ فاﺅل پلے کے ذریعے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابل جب فریق مخالف فاﺅل پلے کرے گا تو پھر شور اٹھے گا کہ یہ کیا ہو گیا ۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور، علامہ سید حسن ظفر نقوی کے اعزاز میں خصوصی نشست
  • پلے اور پھر فاﺅل پلے
  • حکومت صرف لاہور پر توجہ نہ دے: ہمایوں اختر خان
  • لاہور: وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری پریس کانفرنس کر رہی ہیں
  • لاہور، ملی یکجہتی کونسل پنجاب کا اجلاس
  • مریم نواز پنجاب میں انقلابی اقدامات کر رہی ہیں: عظمیٰ بخاری
  • سی ٹی ڈی کے پنجاب میں آئی بی اوز آپریشنز، 10 دہشتگرد گرفتار
  • دہشتگردی کا خدشہ؛ پنجاب کے مختلف شہروں میں 163 آپریشنز میں 10 دہشتگرد گرفتار
  • پنجاب بھر میں موسم خشک، سردی کا دورانیہ کم ہوگیا