دل کی گہرائیوں میں، روح کی پہنائیوں میں …. روشنی بکھیرنے کے اسباب، نسبت کے چراغ ہوا کرتے ہیں۔ کس کو کس سے کیا نسبت ہو جاتی ہے …. کہ وہ کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ …. بندے کو اللہ سے نسبتِ ولایت ہو جاتی ہے، تو وہ ولی اللہ ہو جاتا ہے، ایک عام آدمی کو رسول اللہﷺ سے نسبتِ ایمان ہو جاتی ہے تو وہ مسلمان ہو جاتا ہے، مسلمان کو علی ولی اللہ سے نسبتِ اُلفت ہو جاتی ہے تو وہ مومن ہو جاتا ہے، جس بندہ¿ مومن کی آنکھ کو مشاہدہِ حق سے کوئی نسبت میسر آ جائے، وہ محسن ہو جاتا ہے۔ جب سَر کی آنکھ کو سِرّ کی کسی جہت سے کوئی نسبت مل جاتی ہے درجہِ احسان میسر آ جاتا ہے۔ گویا مسلمان، مومن اور محسن ہونا ….
یہ نسبت ہے جو بے زر کو بُو زرؓ کر دیتی ہے۔ یہ نسبت ہے جو حبشی کو بلالؓ بنا دیتی ہے …. ایک لاکھ بیس ہزار اصحابِ رسول درجہ بدرجہ نسبتوں کی داستان ہیں۔ سابقون الاوّلون کی داستان اور ہے، بدری صحابہؓ کی اور …. اصحابِ صفّہ کی اور …. اور بعد از فتح ِ مکہ اسلام قبول کرنے والوں کی اور ….! نسبت کی داستانیں مقدر ہیں، ازل سے مقرر ہیں، اس میں کسی بحث کا کوئی دخل نہیں۔
شرف الدین کو جب نسبتِ علیؓ میسر آتی ہے تو اسے بُو علی قلندر بنا دیتی ہے۔ جلال الدین کو شمس الدین کی نسبتِ جمال ملتی ہے تو اسے مولائے رومؒ کر دیتی ہے۔ سید عبداللہ شاہ کو نسبت کی عنایت ہی بلھے شاہؒ کر دیتی ہے۔ اسی طرح ملک محمد واصف کو نسبتِ علیؓ کیا ملی کہ وہ قلندر واصف علی واصفؒ ہو گئے۔
نسبتوں کے چراغ سینہ بہ سینہ ہیں …. اور سرِ طورِ سینہ ہیں …. جس دل میں چراغِ نسبت جل اٹھتا ہے، اسے طورِ سینا بنا دیتا ہے۔ عقل، دل کے ہاتھ پر بیعت کر لیتی ہے …. اور منطق کی پُر پیچ وادیوں میں آوارہ گردی سے توبہ کر لیتی ہے۔ جسے زلفِ یار کی خوشبو نصیب ہو جائے، اسے خرد کی گتھیاں سلجھانے کی فرصت نہیں۔ اہلِ خرد جس جنوں دعا کرتے ہیں، وہ تو مجنوں کا جہان ہے جو کسی لیلائے حقیقت کے رخِ روشن سے منور ہے۔
چراغِ نسبت بھی عجب ہے، بے مول کو انمول کر دیتا ہے۔ بے نام کو نام ور کرتا ہے اور بشر کو ماورائے شر کر دیتا ہے۔ ماسوا کو ماورا سے نسبت، ورائے حدث کرتی ہے۔ یہی نکتہ ہے جو قدیم اور حادث کا معمہ حل
کرتا ہے۔ یہ وہ راز ہے جو نگاہوں میں عیاں ہو جائے تو کہیں بھی شرک کا شائبہ نہیں رہتا۔ توحید اپنی جگہ قائم بالذات ہے، توحید سے نسبت کثرت کو وحدت کا رخ عطا کرتی ہے۔ باقی سے نسبت فانی کو بقا عطا کرتی ہے، وگرنہ بقا فی الذات …. فانی کے ہاں کہاں! گو سورج، کرن کرن سورج ہے، لیکن کرن سورج کے دم سے ہے۔ بیج درخت کا نہیں، درخت بیج کا مرہون منت ہے …. خواہ کتنا ہی تن آور اور ثمر آور ہو جائے۔ قطرے کو قلزم سے نسبت ہے، اور بہت خوب نسبت ہے …. لیکن قطرہ، قطرہ در قطرہ …. بہرحال قلزم کا رہین منت ہے۔
نسبت کی باتیں بھی عجب ہیں …. انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں …. پاتال سے اٹھا کر آسمان کمال تک پہنچاتی ہیں۔ باتیں ہی تو ہیں …. لیکن ان باتوں کو نسبت ہے …. وہاں سے، جہاں سے بات کا آغاز ہوا تھا۔ ہر بامعنی بات کو حرف کن کے زیر و بم سے ایک خاص نسبت ہے، خاص تعلق ہے۔ نسبت تعلق ہی کا نام ہے …. نسبت ایک قلبی و روحانی تعلق کو کہتے ہیں۔ ظاہری تعلق …. نسبت کے زاویوں میں قبول نہیں۔
معبود سے عبادت کا تعلق …. عابد بناتا ہے۔ اپنے معبود سے رغبت کا تعلق اسے زاہد بناتا ہے …. زہد دنیا سے بے رغبتی کا نام ہے۔ کسی اور جہان سے رغبت ہی اس جہان سے بے رغبتی کا سبب ہوتا ہے۔ معبود محبوب ہو جائے تو اس تعلق کا نام محبت ہے۔ حضرتِ عشق سے نسبتِ عشق، انسان کو عاشق بناتی ہے …. یہاں دوئی کا پردہ نہیں …. اس لیے عاشق و معشوق کی رمز ایک ہے۔
آج چراغِ نسبت کے بھڑک اٹھنے کی نوبت یوں آئی ہے جناب قاسم کیلانی نے اپنا مجموعہِ مناقب ”چراغِ نسبت“ اس فقیر کو ارسال کیا اور اس پر چند کلمات کے طالب ہوئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب تک طبیعت آمادہ نہ ہو، ایک لفظ تک لکھنا محال ہے۔ اس بات کو ایک برس بیت چکا تھا۔ میں اس مجموعہ کلام کو تقریباً طاقِ نسیاں میں رکھ چکا تھا کہ اچانک پچھلے دنوں نعتیہ مشاعرے میں قاسم کیلانی کی آمد ہوئی۔ مجلسِ فکرِ واصفؒ کے ہاں، درِ احساس لائبریری میں ماہانہ بنیادوں پر ایک نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوتا ہے۔ قاسم کیلانی، ہمارے واصفی دوست احسان مرزا کی دریافت ہیں۔ مرزا صاحب کے ہمراہ قاسم اپنے چند دیگر شاعر دوستوں کے ساتھ تشریف لائے، اور انہوں نے نعتیہ کلام پڑھا۔ نعت سے قبل انہوں نے ایک پنج تنی درود پڑھا …. اور کیا خوب پڑھا۔ صاحبِ لولاک ختم الرسل وجہِ کائنات رسولِ اکرم واکملﷺ کی شان ہدیہ نعت کیا ہی شان دار …. زبانِ شوق پہ تطہیر کی ڈلی کر حضرت علیؓ کی شانِ اقدس میں درود کی بارات ایسی کہ بس سوئے نجف چلی …. سیدہ کائنات حضرت بی بی فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا کی خدمتِ اقدس میں درود سلام کے پھول ایسے خوب پیش کیے کہ بارگاہِ بتولؓ میں ضرور ہی قبول ہوئے ہوں گے۔ سلام بحضور، سید الشہداءامام حسینؓ لکھ کر جنابِ قاسم نے کیا چانن کیا ہے، اپنے ہی نہیں سب کے نین روشن کیے ہیں …. اسی طرح ہدیہِ عقیدت بحضور امام حسنؓ …. باعث توقیرِ ہر سخن ہے۔ کلام شاعر بزبانِ شاعر سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لفظ وہ سب کچھ نہیں کہہ ہی سکتے جو ان لفظوں کے پیچھے محرک جذبہ کہہ چکا ہوتا ہے۔ القصہ، ان کی زبانی مناقبِ اہلِ بیت سننے کا شرف حاصل ہوا تو معلوم ہوا کہ ان اشعار کے پیچھے ایک نسبت کا چراغ جل رہا ہے۔ چنانچہ تقریب کے اختتام سے پہلے ہی ان سے دوبارہ وعدہ کر لیا، اور دل ہی دل میں ایک عزمِ مصمم کر لیا کہ ان کی کتاب پر ضرور کچھ لکھوں گا، تا کہ ان نسبتوں کی روشنی سے ہمارا بھی نام روشن ہو جائے۔ چراغ نسبتوں سے روشن ہوتے ہیں، اور روشنی سے نسبت انسان کو روشن کر دیتی ہے …. روشن ضمیر اور روشن کردار انہی روشن نسبتوں کا فیض ہوا کرتا ہے۔ حسبِ دستور، تمہید طولانی ہو گئی اور حرفِ مدعا مختصر …. اس میں میرا کچھ دوش نہیں، عنوان ہی ایسا کیف آور تھا، کہ اس میں قلم، خیال اور لفظ بہتے چلے گئے۔ بہر طور میرا مقصد اپنے حصے کا چراغ روشن کرنا تھا، تا کہ چراغ سے چراغ جل اٹھیں اور چراغاں ہو جائے۔ کچھ لوگ ساغر کی اقتدا بھی کرتے ہیں….
چراغِ طور جلاو¿، بڑا اندھیرا ہے
اندھیروں میں چراغ جلانے والے لوگ بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ ان کی قدر دانی چاہیے۔ یہ محسنین میں شامل ہوتے ہیں …. اپنے محسنوں کا حق پہچاننا چاہیے، دامے درمے نہ سہی، سخنے کی حد تک تو بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اپنے محسنین کی خدمت میں حرفِ سپاس پیش کرنا، معاشرے پر فرضِ کفایہ نہیں، فرضِ عین ہے۔ احسان مرزا صاحب! ہم نے آپ کے دوست پر احسان نہیں کیا، اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ …. اللہ کرے نورِ محبت اور زیادہ!! اللھم زد فزد!!
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ہو جاتا ہے کر دیتی ہے ہو جاتی ہے ہو جائے ہوتا ہے نسبت ہے
پڑھیں:
محمد آصف پوری دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں‘وزیرِ اعظم
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف چمپئنز کوئسٹ محمد آصف کو چیک دیتے ہوئےاسلام آباد(اسپورٹس ڈیسک)وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ پاکستانی نوجوان کھلاڑی اپنی صلاحیتوں سے پوری دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف سے اسنوکر چمپئن محمد آصف کی ملاقات ہوئی ۔ وزیرِ اعظم نے محمد آصف کو حال ہی میں سری لنکا میں منعقدہ سارک اسنوکر چمپین شپ جیتنے پر مبار کباددی اور محمد آصف کو 25 لاکھ روپے کا انعامی چیک بھی پیش کیا۔وزیرِ اعظم نے محمد آصف سے گفتگومیں کہا کہ آپ نے اسنوکر کی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا، پوری قوم کو آپ پر فخر ہے۔