لیجئے اب یہ سننا باقی رہ گیا تھا بچپن سے یہ سنتے آئے تھے کہ امریکہ دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہے۔ سیاست ہو یا معاشرت، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ترقی ہو یا پھر اقتصادی کامیابی پاکستان میں ایسے دانشوروں کی کبھی کمی نہیں رہی جو قوم کو یہ باور کرانے میں اپنی زیست گزار دیتے ہیں کہ اگر امریکہ بہادر کی تقلید نہ کی تو ہم کبھی ترقی نہ کر سکیں گے۔ ہمارے سیاسی پنڈت تو امریکہ کے سیاسی نظام کے گن گاتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے بھی گریز نہیں کرتے۔
تاہم ہمارے لیے یہ حقیقت کسی مژدہ جانفزا سے کم نہیں کہ جس امریکہ کو ہم انسانی و سیاسی ترقی کی معراج سمجھتے ہیں وہ بھی اندازِ حکمرانی اور سیاسی میدان میں ہم اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ صدمہ تو یہ جان کر اس وقت بڑھا جب یہ معلوم ہوا کہ امریکہ کے اوپر بھی اسٹیبلشمنٹ کی حکمرانی ہے۔ اگرچہ اس اسٹیبلشمنٹ کے خد و خال تھوڑے مختلف ہیں تو پھر بھی یہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ محض ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ وہی بات ہے جو اس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دوسری بار منتخب ہونے والے صدر خطہ ارض کے سب سے مضبوط سمجھے جانے والے شخص ڈونلڈ ٹرمپ نے کہی ہے۔ امریکی صدر نے حکومتی سنسر شپ کو ختم کرنے کا حکم دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 8 سال مجھے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، امریکی تاریخ میں کسی صدر کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، امریکا سے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا قبضہ ختم کرائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ملک کو درپیش چیلنجز سے حقیقت پسندانہ انداز سے نمٹنا ہو گا اور اعتماد کے بحران جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، آج سے امریکا کا زوال ختم ہو گیا ہے۔
محسوس تو نہیں ہوتا کہ امریکہ کسی زوال میں ہے اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد ختم ہو چکا ہے تاہم ان کا انداز بیاں پانی پی ٹی آئی عمران خان کے ”داستان غم گوئی“ سے مختلف نہیں جس میں وہ ہر وقت یہ راگ الاپتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں اس وقت عملاً اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے جس نے امریکہ کی مدد سے ان کی حکومت کو گرایا اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد انہیں پابند سلاسل کر رکھا ہے اگر وہ جلد باہر نہ آئے تو پاکستان کا زوال کبھی ختم نہیں ہو گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اقتدار سے نکالے جانے کے وقت سے لے کر اب تک اسی امر پر زور دے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ مذاکرات کرے باوجود مسلسل منت سماجت کے جب انہیں اسٹیبلشمنٹ کی نظر التفات سے محرومی ہی رہی تو وہ ماضی میں میر جعفر اور میر صادق جیسے القابات سے نوازنے کے بعد ملکی سڑکوں پر ”خجل خوار“ بھی ہوتے رہے تاہم ان کی دال نہ گلی۔ پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے حالیہ غیر متوقع ملاقات سے پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں گویا امیدوں کے دیے جل گئے تو ہم اگلے ہی دن عدالت سے 190 ملین پاو¿نڈ کے مقدمہ میں سزا کے اعلان سے ان چراغوں میں ایک بار پھر روشنی نہ رہی۔ حسرت و یاس کی تصویر بنے اس وقت پاکستان تحریک انصاف اور اس کی قیادت گویا گہرے سمندر میں ہچکولے کھا رہی ہے۔
ایسے میں ایک اور خبر آئی ہے پنجاب میں پتنگ بازی ناقابل ضمانت جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اس حوالے سے بل پاس کر لیا گیا ہے۔ ویسے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دھاتی اور کیمیکل ڈور پر پابندی لگائی جاتی اور اس کے سد باب کے لیے اقدامات کیے جاتے تاکہ پتنگ بازی کا وہ کھیل جو اس خطے میں صدیوں سے جاری ہے اسے انسانی جانوں کے لیے محفوظ بنایا جاتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی سورما آسان ہدف کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ ان کی واہ واہ اور جے جے کار مچی رہے۔ حالانکہ ان کی توجہ کا اصل ہدف وہ واقعہ ہونا چاہیے
کراچی سے ایک اور محنت کش اغوا کے بعد کچے میں پہنچ گیا 18 دسمبر 2024 کو اغوا کیے جانے والے شخص کے اغوا کا مقدمہ شاہ لطیف ٹاو¿ن پولیس نے 19 جنوری کو درج کیا۔ قبل ازیں روزگار کی تلاش میں سکھر جانے والے تین نوجوان کچے کے ڈاکوو¿ں کے ہاتھوں اغوا ہو چکے ہیں۔ خدا کرے کہ پنجاب اسمبلی کی توجہ بھی کچے کے علاقے کی جانب مبذول ہو جہاں اب تک سیکڑوں افراد اغوا ہو چکے ہیں جبکہ ڈاکوو¿ں کے ساتھ مڈ بھیڑ میں کئی پولیس اہلکار بھی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ کچے کا علاقہ آج بھی نو گو ایریا بنا ہوا ہے جہاں افغانستان سے سمگل کر کر لایا گیا امریکی اسلحہ کھلے عام استعمال ہو رہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوو¿ں کا قلع قمع کرنے کے لیے یہاں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ایک مربوط اور سخت آپریشن کیا جائے۔ یہ عمر بھی بہتر ہوگا کہ اگر ایسا کوئی آپریشن کیا جاتا ہے تو یہ ایسے پولیس افسران کے ہاتھوں میں ہو جو اس علاقے اور یہاں کے طرز زندگی کو سمجھتے ہوں اور ماضی میں بھی یہاں کامیاب اپریشن کر چکے ہوں۔ محکمہ پولیس میں ایسے افسران کی کمی نہیں۔ ڈی آئی جی احمد جمال ، ڈی آئی جی طارق عباس قریشی ، ڈی آئی جی افضال کوثر اور ڈی آئی جی راو¿ منیر اس ضمن میں وسیع تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست عبدالعزیز عابد جو کہ جماعت اسلامی کے رہنما بھی ہیں اور خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ذہین و فطین اور قابل لوگوں کی کمی نہیں تاہم جب تک نیک ارادوں کے حامل ان افراد کو آگے بڑھ کر ملک و قوم کی خدمت کا موقع نہیں ملے گا تو پاکستان کیسے ترقی کرے گا؟ ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں موجود اہل لوگوں کو سامنے لا کر امانتیں ان کے سپرد کی جائیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ڈی آئی جی کے بعد ہیں کہ
پڑھیں:
ایسا پلٹ فارم چاہتے ہیں جہاں معاملات پر غور اور مجموعی سیاسی حل سامنے آئے فضل الرحمن
ڈی آئی خان (مانیٹرنگ ڈیسک) امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ملکی سیاست میں ایسا پلیٹ فارم ہو کہ جہاں مل کر تمام معاملات پر تبادلہ خیال کریں اور مجموعی سیاسی حل سامنے آ جائے، بار بار دہرا رہا ہوں کہ موجودہ اسمبلیاں عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں ہیں، حکومت بہر حال اسٹیبلشمنٹ کی ہے، دوسری دنیا کے ساتھ بھی روابط انہی کے ہیں، معاملات وہی چلا رہے ہیں، یہ انہی کے
نمائندے ہیں، یہ عوام کے نمائندے نہیں ہیں۔ ڈیرہ اسمائیل خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس حالت میں جرگہ لے کر میرے پاس تشریف لائے ہیں، جس امید سے وہ آئے ہیں، خدا کرے ہماری ریاست اور ریاستی اداروں کو اللہ وہ آنکھیں عطا کرے، جس سے وہ ان مشکلات کو دیکھ سکیں۔ ہم آگے ایک جرگہ اور کریں گے، اس میں ایک وفد تشکیل دیا جارہا ہے جو پشتون بیلٹ کی سیاسی جماعتیں ہیں، ان کے ساتھ وہ رابطہ کریں، اس کے بعد ہم اگلا لائحہ عمل طے کریں گے۔ سیاسی انتشار سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ریاست کھل کر بات کرے، یہ نہ کہے کہ ہم نے 10 یا 20 سال بعد یہاں تک پہنچنا ہے، کبھی جرگے ہو رہے ہیں، کبھی کیا ہو رہا ہے، ہمیں واضح بتایا جائے کہ عالمی قوتوں کا ایجنڈا کیا ہے اور اسٹیٹ کا ایجنڈا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں 20 سال سے زیادہ عرصہ ایک ہی منطق پر جنگ فوکس کر رہا ہو، خون بہہ رہا ہوں، یہ چیز کسی جغرافیائی تبدیلیوں کی نشاندہی کر رہی ہوتی ہے، میں اس بارے میں پریشان ہوں کہ کہیں ہمارے جغرافیے میں تو کوئی تبدیلی نہیں لائی جارہی، میرا وہم ہے کہ یہ خطرہ موجود ہے، میری خواہش ہوگی کہ میری بات صحیح ثابت نہ ہو۔