Nai Baat:
2025-04-13@19:42:01 GMT

ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں واپسی

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں واپسی

اس وقت پوری دنیا میں امریکہ کے 47 ویں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے چرچے ہیں۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سیاستدان نہ ہونے کے باوجود دو دفعہ امریکہ کے صدر بن چکے ہیں ان کی پوری زندگی تنازعات سے بھرپور ہے۔ انہیں پچھلے دور حکومت میں دو دفعہ مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح دو قاتلانہ حملوں میں بال بال بچ گئے اور تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود صدارت کی کرسی پر تخت نشین ہو چکے ہیں۔
ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں کرگزرتے ہیں امریکا کا اگلا چار سالہ دور غیر روایتی سیاست سے بھرپور رہے گا جس کی پیش گوئی ممکن نہیں کہ نہ جانے ٹرمپ کب کس طرف پلٹ جائیں۔
امریکہ میں صدر کے پاس ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا اختیار انہیں بہت زیادہ طاقتور بنا دیتا ہے۔ وہ کانگریس کی منظوری کے بغیر بھی فیصلہ کر سکتے ہیں گویا ان کا حکم قانون کا درجہ رکھتا ہے عدالتوں اور کانگریس کو ان کے ایگزیکٹو آرڈرز روکنے کا اختیار ہے مگر وہ غیر معمولی صورتحال کے لیے ہوتا ہے۔ امریکی عدالتیں ایسی نہیں ہیں کہ سارے کام چھوڑ کر آئینی مقدمہ بازیوں میں اپنا وقت ضائع کریں۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ صدر کی ایگزیکٹو آرڈرز جاری کرنے کی روایت کو محدود کرنا چاہتے ہیں جس میں مجرموں کو سزائیں معاف کرنے کا اختیار بھی شامل ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں جنگوں کے مخالف ہیں جس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں کہ امریکہ کو دنیا بھر میں لڑائیاں کرنے کی بجائے اپنے ملک پر توجہ دینی چاہیے ڈونالڈ ٹرمپ کو افغانستان سے انخلا کا کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے بڑی عجلت میں انخلا کا فیصلہ کیا تھا جس کی امریکی افواج کو بھاری قیمت چکانا پڑی مگر ٹرمپ نے جو کہا وہ کر دکھایا۔
صدر ٹرمپ کو غزہ میں جنگ بندی کا کریڈٹ دینا چاہیے انہوں نے اسرائیل دوستی کے باوجود نیتن یاہو کو مجبور کیا کہ وہ فلسطینیوں پر حملوں سے باز آجائیں یہ وہ کام تھا جو صدر بائیڈن پچھلے 15 ماہ سے نہیں کر سکے۔ ٹرمپ نے الیکشن جیتتے ہی خبردار کر دیا تھا کہ اگر جنگ بند نہ کی گئی اور قیدی نہ چھوڑے گئے تو "All the hell will pay” اس وقت سمجھا گیا کہ یہ دھمکی حماس یا فلسطینیوں کے لیے ہے مگر حالات نے ثابت کیا کہ انہوں نے اسرائیل کو کہا تھا انہوں نے بعد ازاں یہ بھی کہا کہ اسرائیل ہمارا
دوست ہے تو یہ دوستی کا ہمیں صلہ دے یعنی ہماری امن کی خواہش کا احترام کرے۔ ٹرمپ کے ایک مشیر خاص نے غصے میں نیتن یاہو کو son of a bitch کہہ دیا تھا جو برطانوی اخبار نے لفظ بہ لفظ شائع کر دیا تھا۔ غزہ میں جنگ بند ی کا سارا کریڈٹ ٹرمپ کے ایک اور مشیر Steve witkoff کو جاتا ہے وہ ٹرمپ کے قریبی دوست تھے اور 40 سال تک اکٹھے گولف کھیلتے رہے ہیں وہ تل ابیب جا کر بیٹھ گئے تھے کہ جب تک جنگ بند نہیں ہو گی وہ یہاں سے نہیں جائیں گے کیونکہ ٹرمپ نے چیلنج کیا تھا کہ ان کی حلف برداری سے پہلے پہلے اسرائیل نے جنگ بندی نہ کی تو پھر ان سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
آپ دیکھیں گے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا اگلا ہدف یوکرائن روس جنگ بندی ہے۔ روسی صدر پیوٹن کے خیر سگالی پیغام کے بعد ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریر میں پیوٹن سے ملاقات کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ یوکرائن روس جنگ بندی میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو عملاً یہ ان کی جنگ مخالف نظرئیے کی بہت بڑی فتح ہو گی۔ اگر یہ سلسلہ یہاں بند نہ ہوا تو ٹرمپ پاکستان انڈیا کے درمیان مصالحتی کردار ادا کریں گے۔ وہ اپنے پچھلے دور حکومت میں بھی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے موقع پر انہوں نے انڈیا پاکستان مذاکرات کے لیے ثالثی کی پیش کش کی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے اعلان کے علاوہ مہاجرین کا راستہ روکنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور میکسیکو بارڈر پر سخت بارڈر کنٹرول کے احکامات جاری کیے ہیں ان کا کہنا ہے کہ امریکہ دنیا بھر کے ممالک کے بارڈرز کی حفاظت کرتا ہے مگر ہمارے اپنے بارڈر غیر محفوظ ہیں اور جرائم پیشہ افراد غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔
ہمارے لیے ان کے بیانات سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ ساو¿تھ ایشیا کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں۔ ایک طرف تو انڈین وزیراعظم کو حلف برداری کی دعوت دی گئی اور نریندر مودی نے اپنی جگہ وزیرخارجہ جے شنکر کو بھیج دیا دوسری طرف پاکستان کو ایسی دعوت نہیں دی گئی اور معمول کے مطابق وہاں پاکستانی سفیر نے ہمارے ملک کی رسمی نمائندگی کی، امتیازی سلوک کی ایک وجہ پاکستان کے چائنا سے تعلقات بھی ہیں اگر چائنا امریکہ تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو پوزیشن میں بہتری آئے گی لیکن اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے۔ ایک خاموش ڈپلومیسی چل رہی ہے کہ صدر ٹرمپ برسراقتدار آکر پاکستانی حکومت کو عمران خان کی رہائی کے لیے مجبور کرے گی یہ محض قیاس آرائی نہیں ہے ٹرمپ کے نامزد کردہ مشیران میں سے رچرڈ گرینل کے علاوہ بھی ایسے لوگ ہیں جو عمران خان کی رہائی چاہتے ہیں اور اس کا تحریری اظہار بھی کرتے ہیں۔
پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد پر ایک عجیب بے چینی طاری ہے کیونکہ پی ٹی آئی کا اوور سیز ونگ سب سے زیادہ فعال امریکہ میں یہ بڑے طاقتور لوگ ہیں اور ان کی lobbing & leverage امریکہ کی برسراقتدار پارٹی کی اندرونی صفوں میں کافی گہری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ن لیگی حکومت نے پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں سوشل میڈیا پر خبر آئی کہ وہ ٹرمپ کی حلف برداری میں شریک ہوں گے اس پر امریکہ میں موجود پاکستانیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ٹرمپ کی لابنگ فرم نے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے دنیا بھر کے ایلیٹ کلاس کو آپشن دیا ہے کہ حلف برداری کے دعوت نامے 4 ملین ڈالر کا ڈونیشن دے کر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس میڈیا مہم کے بعد بلاول نے دعوت نامہ حاصل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ البتہ پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی کے بارے میں کلیئر نہیں کہ وہ کس حیثیت میں شرکت کر رہے تھے کیا انہوں نے دعوت نامہ خریدا تھا یا حکومت پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔
ایک اہم بات یہ کہ صدر ٹرمپ نے کیپیٹل ہلز حملہ کیس میں ملوث اپنی پارٹی کے 1500 ورکرز کی سزائیں معاف کر دی ہیں یہ کام انہوں نے ایگزیکٹوآرڈر کے ذریعے کیا ہے۔ اگر پاکستان ہوتا تو یقینا حکومت یہ کام عدالتوں کے ذریعے انجام دیتی۔ یہی فرق ہے امریکہ اور پاکستان کے نظام میں ٹرمپ نے بیورو کریسی میں کرپٹ افراد کے خلاف کریک ڈاو¿ن کا اعلان کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے 2020 اور 2024ءکے انتخابات میں ٹرمپ کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی Establishment ان کے خلاف ہے۔ ذاتی طور پر مجھے ان کا یہ جملہ بہت متاثر کر رہا ہے کہ Scales of justice will be Rebalanced یعنی انصاف کے ترازو کا توازن درست کر دیں گے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ ان کے اس جملے کی پاکستان کو امریکہ سے زیادہ ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پاکستان کے امریکہ میں حلف برداری انہوں نے دنیا بھر سے زیادہ یہ ہے کہ ہے کہ وہ ٹرمپ کے ٹرمپ کی کے لیے ہیں کہ کر دیا بات یہ

پڑھیں:

فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) صدرڈونلڈ ٹرمپ نے نئے محصولات لگائے اور ان کو درست ثابت کرنے کے لیے جھوٹے دعوے کیے۔ ڈی ڈبلیو نے وائرل ہونے والے دو دعوؤں کی جانچ کی ہے۔

دو اپریل کو وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سطح پر محصولات کے ایک نئے دور کا اعلان کیا۔

محصولات کے حساب کتاب، اس کے جواز اور اثرات سے متعلق ان کے بیانات جھوٹے دعووں سے بھرپور تھے اور انہوں نے بہت سی معیشتوں پر ایک ہی وقت میں ضرب لگانے کا اعلان کا۔ ان اعلانات کے خلاف کچھ ممالک پہلے ہی جوابی اقدامات کا اعلان کر چکے ہیں۔

ٹیرف واپس نہ لیے تو چین پر مزید محصولات، ٹرمپ

ٹرمپ کے دو دعوؤں کی حقیقت جانیے ڈی ڈبلیو کی اس فیکٹ چیک رپورٹ میں!

ٹرمپ کا دعویٰ

ایکس پر ایک پوسٹ کے ساتھ شائع ہونے والی ایک ویڈیو، جس کی اشاعت کے بعد اُس پر 1.1 ملین ویوز تھے، میں ٹرمپ کا کہنا تھا،''کینیڈا ہماری بہت سی ڈیری مصنوعات پر 250 تا 300 فیصد ٹیرف لگاتا ہے، دودھ کے پہلے ڈبے، دودھ کے پہلے چھوٹے کارٹن تک قیمت بہت کم رہتی ہے اور اُس کے بعد یہ سلسلہ خراب ہوتا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کے مطابق ٹرمپ کا یہ دعویٰ فسق ہے۔

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کیا کہتا ہے؟

کینیڈا امریکی ڈیری مصنوعات پر محصولات امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے مابین طے پائے جانے والے معاہدے (USMCA) کے تحت لگاتا ہے۔ اس ٹیرف کا اطلاق دودھ، مکھن، پنیر، دہی اور آئس کریم جیسی ڈیری مصنوعات کی 14 اقسام پر ہوتا ہے۔

امریکی محصولات: پاکستان میں عام آدمی پر اثرات کیا ہوں گے؟

اس معاہدے پر ہونے والے اتفاق کے مطابق امریکی ڈیری مصنوعات کی ایک مخصوص تعداد کو کینیڈا کی مارکیٹ میں ٹیرف کے بغیر داخل ہونے کی اجازت ہے۔ جب طے شدہ یہ حد تجاوز کر جائے تو ان پر محصولات میں ان اشیا کے گھریلو پروڈیوسرز کے تحفظ کے لیے ٹیرف کا دیگر حساب کتاب شروع ہو جاتا ہے۔

یہ اضافی کوٹہ ٹیرف 200 اور 300 فیصد کے درمیان ہوتا ہے۔ تاہم، USMCA کے مطابق، کینیڈا نے ضمانت دی ہے کہ سالانہ دسیوں ہزار میٹرک ٹن درآمد شدہ امریکی دودھ پر صفر محصولات ہوں گے۔

ٹرمپ کا دوسرا جھوٹا دعویٰ

اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پر اس پوسٹ میں، ٹرمپ نے وہی چارٹ شیئر کیا تھا، جو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران ''باہمی‘‘ عالمی ٹیرف کا اعلان کرتے ہوئے کیا تھا۔

ٹرمپ کے مطابق، چارٹ میں دیگر ممالک کی جانب سے امریکہ پر لگائے جانے والے ٹیرف اور اس کے جواب میں اب امریکہ کی طرف سے ان ممالک کے خلاف محصولات عائد کرنے کی تفصیلات درج تھیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ چارٹ پر دوسری پوزیشن پر دکھائی دینے والی یورپی یونین امریکہ سے درآمدات پر 39 فیصد محصولات وصول کرتی ہے۔

امریکی پالیسیوں سے ایشیائی ممالک کیسے متاثر ہوں گے؟

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کیا کہتا ہے؟

دو اپریل کو اپنی مذکورہ تقریر میں ٹرمپ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین امریکہ سے درآمدات پر 39 فیصد محصولات وصول کرتی ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا،'' یہ ایک سادہ سی بات ہے، وہ جو ہمارے ساتھ کرتے ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ وہی کریں گے۔‘‘

ٹرمپ نے مزید کہا کہ اس چارٹ میں درج ممالک جتنی محصولات امریکہ سے وصول کرتے ہیں، امریکہ اُس کا آدھا ان سے وصل کرے گا۔ اس لہٰذا اس چارٹ کے مطابق یورپی یونین کے لیے امریکہ کی رعایتی ٹیرف 20 فیصد بنتا ہے۔

امریکہ: غیر ملکی کاروں پر 'مستقل' اضافی محصولات کا اعلان

تاہم ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مطابق، یورپی یونین کے تجارتی حجم پر اوسط محصولات کی شرح 2.7 فیصد ہے۔

سب سے زیادہ اوسط ٹیرف کی شرح، جو یورپی یونین کچھ ممالک سے لیتی ہے، وہ ہے ڈیری مصنوعات پر 30 فیصد۔

امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر کی ایک فیکٹ شیٹ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ باہمی محصولات کا تعین امریکہ اور اس کے تجارتی شراکت داروں کے درمیان تجارتی خسارے کو متوازن کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

متعدد ایشیائی ممالک ٹرمپ کی بھاری محصولات پالیسی کی زد میں

دستاویز کے مطابق باہمی محصولات کا شمار ''امریکہ اور اس کے ہر تجارتی شراکت دار کے درمیان دوطرفہ تجارتی خسارے کو متوازن کرنے کے لیے ضروری ٹیرف میں کیا جاتا ہے۔

اس حساب سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مسلسل تجارتی خسارے ٹیرف اور نان ٹیرف عوامل کے امتزاج کی وجہ سے ہیں، جو تجارتی توازن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ٹیرف دراصل براہ راست برآمدات میں کمی کے ذریعے ہی کام کر سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کا طبی معائنہ، ڈاکٹرز کی رپورٹ سامنے آگئی
  • ٹرمپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کا طبی معائنہ، وائٹ ہاوس نے رپورٹ جاری کردی
  • ٹرمپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کا معائنہ، ڈاکٹرز کی رپورٹ منظرعام پرآگئی
  • امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران
  • ایران امریکہ مذاکرات
  • فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے
  • وائٹ ہاؤس نے ایران، امریکا مذاکرات کو مثبت اور تعمیری قرار دیدیا
  • ٹرمپ کا اصل ہدف کمزور قوموں کے معدنی ذخائر پہ قبضہ ہے، علامہ جواد نقوی
  • صدر ٹرمپ امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنانے کے اپنے مشن میں غیرمتزلزل ہیں .وائٹ ہاﺅس
  •  افغانستان میں امریکہ کی واپسی