ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں واپسی
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
اس وقت پوری دنیا میں امریکہ کے 47 ویں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے چرچے ہیں۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سیاستدان نہ ہونے کے باوجود دو دفعہ امریکہ کے صدر بن چکے ہیں ان کی پوری زندگی تنازعات سے بھرپور ہے۔ انہیں پچھلے دور حکومت میں دو دفعہ مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح دو قاتلانہ حملوں میں بال بال بچ گئے اور تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود صدارت کی کرسی پر تخت نشین ہو چکے ہیں۔
ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں کرگزرتے ہیں امریکا کا اگلا چار سالہ دور غیر روایتی سیاست سے بھرپور رہے گا جس کی پیش گوئی ممکن نہیں کہ نہ جانے ٹرمپ کب کس طرف پلٹ جائیں۔
امریکہ میں صدر کے پاس ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا اختیار انہیں بہت زیادہ طاقتور بنا دیتا ہے۔ وہ کانگریس کی منظوری کے بغیر بھی فیصلہ کر سکتے ہیں گویا ان کا حکم قانون کا درجہ رکھتا ہے عدالتوں اور کانگریس کو ان کے ایگزیکٹو آرڈرز روکنے کا اختیار ہے مگر وہ غیر معمولی صورتحال کے لیے ہوتا ہے۔ امریکی عدالتیں ایسی نہیں ہیں کہ سارے کام چھوڑ کر آئینی مقدمہ بازیوں میں اپنا وقت ضائع کریں۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ صدر کی ایگزیکٹو آرڈرز جاری کرنے کی روایت کو محدود کرنا چاہتے ہیں جس میں مجرموں کو سزائیں معاف کرنے کا اختیار بھی شامل ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں جنگوں کے مخالف ہیں جس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں کہ امریکہ کو دنیا بھر میں لڑائیاں کرنے کی بجائے اپنے ملک پر توجہ دینی چاہیے ڈونالڈ ٹرمپ کو افغانستان سے انخلا کا کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے بڑی عجلت میں انخلا کا فیصلہ کیا تھا جس کی امریکی افواج کو بھاری قیمت چکانا پڑی مگر ٹرمپ نے جو کہا وہ کر دکھایا۔
صدر ٹرمپ کو غزہ میں جنگ بندی کا کریڈٹ دینا چاہیے انہوں نے اسرائیل دوستی کے باوجود نیتن یاہو کو مجبور کیا کہ وہ فلسطینیوں پر حملوں سے باز آجائیں یہ وہ کام تھا جو صدر بائیڈن پچھلے 15 ماہ سے نہیں کر سکے۔ ٹرمپ نے الیکشن جیتتے ہی خبردار کر دیا تھا کہ اگر جنگ بند نہ کی گئی اور قیدی نہ چھوڑے گئے تو "All the hell will pay” اس وقت سمجھا گیا کہ یہ دھمکی حماس یا فلسطینیوں کے لیے ہے مگر حالات نے ثابت کیا کہ انہوں نے اسرائیل کو کہا تھا انہوں نے بعد ازاں یہ بھی کہا کہ اسرائیل ہمارا
دوست ہے تو یہ دوستی کا ہمیں صلہ دے یعنی ہماری امن کی خواہش کا احترام کرے۔ ٹرمپ کے ایک مشیر خاص نے غصے میں نیتن یاہو کو son of a bitch کہہ دیا تھا جو برطانوی اخبار نے لفظ بہ لفظ شائع کر دیا تھا۔ غزہ میں جنگ بند ی کا سارا کریڈٹ ٹرمپ کے ایک اور مشیر Steve witkoff کو جاتا ہے وہ ٹرمپ کے قریبی دوست تھے اور 40 سال تک اکٹھے گولف کھیلتے رہے ہیں وہ تل ابیب جا کر بیٹھ گئے تھے کہ جب تک جنگ بند نہیں ہو گی وہ یہاں سے نہیں جائیں گے کیونکہ ٹرمپ نے چیلنج کیا تھا کہ ان کی حلف برداری سے پہلے پہلے اسرائیل نے جنگ بندی نہ کی تو پھر ان سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
آپ دیکھیں گے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا اگلا ہدف یوکرائن روس جنگ بندی ہے۔ روسی صدر پیوٹن کے خیر سگالی پیغام کے بعد ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریر میں پیوٹن سے ملاقات کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ یوکرائن روس جنگ بندی میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو عملاً یہ ان کی جنگ مخالف نظرئیے کی بہت بڑی فتح ہو گی۔ اگر یہ سلسلہ یہاں بند نہ ہوا تو ٹرمپ پاکستان انڈیا کے درمیان مصالحتی کردار ادا کریں گے۔ وہ اپنے پچھلے دور حکومت میں بھی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے موقع پر انہوں نے انڈیا پاکستان مذاکرات کے لیے ثالثی کی پیش کش کی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے اعلان کے علاوہ مہاجرین کا راستہ روکنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور میکسیکو بارڈر پر سخت بارڈر کنٹرول کے احکامات جاری کیے ہیں ان کا کہنا ہے کہ امریکہ دنیا بھر کے ممالک کے بارڈرز کی حفاظت کرتا ہے مگر ہمارے اپنے بارڈر غیر محفوظ ہیں اور جرائم پیشہ افراد غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔
ہمارے لیے ان کے بیانات سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ ساو¿تھ ایشیا کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں۔ ایک طرف تو انڈین وزیراعظم کو حلف برداری کی دعوت دی گئی اور نریندر مودی نے اپنی جگہ وزیرخارجہ جے شنکر کو بھیج دیا دوسری طرف پاکستان کو ایسی دعوت نہیں دی گئی اور معمول کے مطابق وہاں پاکستانی سفیر نے ہمارے ملک کی رسمی نمائندگی کی، امتیازی سلوک کی ایک وجہ پاکستان کے چائنا سے تعلقات بھی ہیں اگر چائنا امریکہ تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو پوزیشن میں بہتری آئے گی لیکن اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے۔ ایک خاموش ڈپلومیسی چل رہی ہے کہ صدر ٹرمپ برسراقتدار آکر پاکستانی حکومت کو عمران خان کی رہائی کے لیے مجبور کرے گی یہ محض قیاس آرائی نہیں ہے ٹرمپ کے نامزد کردہ مشیران میں سے رچرڈ گرینل کے علاوہ بھی ایسے لوگ ہیں جو عمران خان کی رہائی چاہتے ہیں اور اس کا تحریری اظہار بھی کرتے ہیں۔
پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد پر ایک عجیب بے چینی طاری ہے کیونکہ پی ٹی آئی کا اوور سیز ونگ سب سے زیادہ فعال امریکہ میں یہ بڑے طاقتور لوگ ہیں اور ان کی lobbing & leverage امریکہ کی برسراقتدار پارٹی کی اندرونی صفوں میں کافی گہری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ن لیگی حکومت نے پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں سوشل میڈیا پر خبر آئی کہ وہ ٹرمپ کی حلف برداری میں شریک ہوں گے اس پر امریکہ میں موجود پاکستانیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ٹرمپ کی لابنگ فرم نے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے دنیا بھر کے ایلیٹ کلاس کو آپشن دیا ہے کہ حلف برداری کے دعوت نامے 4 ملین ڈالر کا ڈونیشن دے کر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس میڈیا مہم کے بعد بلاول نے دعوت نامہ حاصل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ البتہ پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی کے بارے میں کلیئر نہیں کہ وہ کس حیثیت میں شرکت کر رہے تھے کیا انہوں نے دعوت نامہ خریدا تھا یا حکومت پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔
ایک اہم بات یہ کہ صدر ٹرمپ نے کیپیٹل ہلز حملہ کیس میں ملوث اپنی پارٹی کے 1500 ورکرز کی سزائیں معاف کر دی ہیں یہ کام انہوں نے ایگزیکٹوآرڈر کے ذریعے کیا ہے۔ اگر پاکستان ہوتا تو یقینا حکومت یہ کام عدالتوں کے ذریعے انجام دیتی۔ یہی فرق ہے امریکہ اور پاکستان کے نظام میں ٹرمپ نے بیورو کریسی میں کرپٹ افراد کے خلاف کریک ڈاو¿ن کا اعلان کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے 2020 اور 2024ءکے انتخابات میں ٹرمپ کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی Establishment ان کے خلاف ہے۔ ذاتی طور پر مجھے ان کا یہ جملہ بہت متاثر کر رہا ہے کہ Scales of justice will be Rebalanced یعنی انصاف کے ترازو کا توازن درست کر دیں گے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ ان کے اس جملے کی پاکستان کو امریکہ سے زیادہ ضرورت ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پاکستان کے امریکہ میں حلف برداری انہوں نے دنیا بھر سے زیادہ یہ ہے کہ ہے کہ وہ ٹرمپ کے ٹرمپ کی کے لیے ہیں کہ کر دیا بات یہ
پڑھیں:
مودی کا ٹرمپ کو فون،صدرکا عہد ہ سنبھالنے کی مبارکباد
نئی دہلی: بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کوٹیلی فون کرکے حلف اٹھانے پر مبارکباد پیش کی۔ بھارتی میڈیاکے مطابق ٹیلی فونک رابطے کے دوران دونوں سرکردہ لیڈروں کے درمیان بھارت اور امریکہ کے تعلقات کو مضبوط بنانے پر بات چیت ہوئی۔ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر بننے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب وزیراعظم مودی اور ٹرمپ نے بات کی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات کی اور انہیں ان کی ‘تاریخی’ دوسری مدت کے لیے مبارکباد دی۔ بتایا جا رہا ہے کہ وزیراعظم مودی اور ٹرمپ کے درمیان دو طرفہ مسائل پر بات چیت ہوئی۔ کواڈ کی اگلی میٹنگ کے ساتھ ساتھ ٹرمپ اور وزیراعظم مودی نے کئی عالمی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت کا آغاز 20 جنوری کو متعدد ایگزیکٹو آرڈرز کے ساتھ کیا، جس کا مقصد امریکی امیگریشن سسٹم کو تبدیل کرنا اور H1-B ویزا میں اصلاحات لانا ہے، جو کمپنیوں کو خصوصی اہلیت کے حامل غیر ملکیوں کو امریکہ لانے کی اجازت دیتا ہے۔ بھارت امریکہ میں لیگل مائیگریشن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لیکن حالیہ برسوں میں ہزاروں بھارتی کینیڈا اور میکسیکو سے سرحدیں عبور کرکے غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوئے ۔