ایک وقت تھا جب خبروں تک رسائی کا واحد ذریعہ اخبارات ہی ہوتے تھے ‘ اخبارات میں شائع ہونیوالی ایک سطر بھی معاشرہ پر گہرا اثر ڈالتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بزرگوں کے علاوہ نوجوان طبقہ بھی بڑے ذوق وشوق سے صبح اخبار کا انتظار کیا کرتے تھے اورہاکر کی جانب سے ”اخبار “ کی صدا کانوں کو بھلی معلوم ہوتی تھی۔ اُس وقت پرنٹ میڈیا میں کام کرنیوالے خبر کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے اور مکمل چھان بین کے بعد مستند اور حقائق پر مبنی خبریں شائع کی جاتی تھیں۔ پروفیشنل ازم کا یہ عالم تھا کہ جس خبر کی سچائی پر ذرہ برابر بھی شائبہ ہوتا اسے روک لیا جاتا تھا کہ کوئی غلط یا جھوٹ پر مبنی خبر شائع نہ ہو جائے‘ اگر احتیاط کے باوجود ایسا ہو جاتا تو اگلے دن معذرت شائع کر دی جاتی تھی۔یہ روایتی زمانہ تھا اور دین ووطن دشمن عناصر کیلئے میڈیا کے محاذ پر پراپیگنڈ ہ کرنا آسان کام نہیں تھا‘ یہی وجہ تھی کہ معاشرہ میں کسی قسم کا انتشار اور فتنہ پھیلانا تقریباً ناممکن تھا اور ایسا کرنے کیلئے دشمن کو لاکھ جتن کرنا پڑتے تھے ۔
اکیسویں صدی کا آغاز ہوا تو الیکٹرانک میڈیا نے اِک انگڑائی لی اور یکے بعد دیگرے بہت سے ٹی وی چینلز منظر عام پر آگئے۔ تاہم یہاں بھی سچائی کی تلاش جاری رہی اور کوشش کی گئی کہ کوئی غلط اور جھوٹی خبر نشر نہ ہو سکے۔ ذاتی مفادت کے حصول کیلئے چند خبریں تو سامنے آتی رہیں لیکن جھوٹ اتنا عام نہیں ہوسکا تھا۔ اسی دور میں جب بریکنگ نیوز دینے کا سلسلہ شروع ہوا تو بھی کوشش یہی رہی کہ سچ اور جھوٹ کے فرق کو بہر حال ملحوظ رکھا جائے ۔ تاہم گزشتہ پانچ چھے برسوں میں سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے جس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت کم کر دی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا نئے دور کا اہم ذریعہ ابلاغ ہے جس میں پیغامات میں الفاظ کے علاوہ مختلف اشکال کی تصاویر، ویڈیوز اور آواز کے ذریعے احساسات کو بھی منتقل کیا جاتا ہے۔ ایسی پوسٹس انسانی ذہنوں اور رویوں پر گہرے اثرات چھوڑرہی ہیں۔ اب ہر شخص کے ہاتھ میں موجود موبائل فون اسے دنیا جہاں کی خبروں کی فوری اطلاع دے دیتا ہے اور آپ کسی خبر پر اپنی مرضی کا تبصرہ بھی کر سکتے ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ ڈیجیٹل میڈیا نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بہت سے معاملات میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ مختلف قسم کے نظریاتی ، غیر نظریاتی،فرقہ پرست، انتہاپسند، مذہبی ، غیرمذہبی، نسلی و لسانی تشدد پسند، جرائم پیشہ گینگز ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں اپنی مرضی کے خیالات انڈیلنے میں مصروف ہیں۔ہر ایک اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے چاہے اس کیلئے اسے جھوٹ کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ ان سب کے درمیان حقائق کہیں کھو رہے ہےں جنہیں دنیا کے سامنے لانا ضروری ہے‘ ڈیجیٹل میڈیا کے اس پہلو یا رخ کو اب دنیا بھر میں محسوس کیا جارہا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں ڈیجیٹل میڈیا پر ٹرولنگ ایک نیا مشغلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ سوشل میڈیا کا سہارا لے کر دوسروں کا تمسخر اڑانا، طنز کرنا اور غیر اخلاقی زبان کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے جو اخلاقی پسماندگی اور غیر مہذب رویوں کو جنم دے رہے ہیں جس کا تدارک جلد نہ کیا گیا تو نفرت کی دیوار ہمارے معاشرہ کو تقسیم کر کے رکھ دے گی۔ سب سے پہلے خبر دینے یا معلومات شیئر کرنے کا رجحان بڑھنے کے باعث صارفین ایسا مواد بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں، جس سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے اخبارات میں کسی مجرمانہ اقدام کی خبر شائع کرتے وقت متاثرہ شخص کے نام کا صرف پہلا حرف لکھا جاتا تھا اور اس کی تصویر نہیں چھاپی جاتی تھی۔ لیکن اب بریکنگ نیوز کی دوڑ میں سوشل میڈیا پر نام کے ساتھ ساتھ پورا بائیو ڈیٹا اور بہت سی غیر مصدقہ معلومات بھی شائع کر دی جاتی ہیں۔ بسا اوقات تو ذمہ دار سینئر صحافی اور اینکرز بھی جلدی کے چکر میں کسی خبر پر تبصرہ ، کوئی تصویر یا ویڈیو شیئر کر دیتے ہیں اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ تصویر، ویڈیو یا خبر جعلی تھی۔اس لیے اس پلیٹ فارم پر انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ آپ کو سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن اب میں دیکھ رہا ہوں کہ غلط خبر یا معلومات پھیلا کر جب اس کا احساس بھی ہو جائے تو ندامت یا شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے الٹا مختلف توجیہات پیش کی جاتی ہیں اور اپنی ناقص معلومات اور جھوٹ پر اظہارِ فخر کیا جاتا ہے۔
میڈیا کے اس نئے دور میں پراپیگنڈہ کرنا بہت آسان ہو گیا ہے ‘ سچ اور جھوٹ کا فرق بڑی تیزی سے مٹ رہا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری نئی نسل ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر ہونیوالے زہریلے پراپیگنڈہ کا شکار ہو رہی ہے اور دشمن نے اسے آسان ہدف سمجھ لیا ہے۔ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے ملک اور ریاست کیخلاف پراپیگنڈہ اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ ایسا کرنیوالوں سے عرض ہے کہ آپ انجانے میں اپنے طرزِ عمل سے ملک کو کمزور اور دشمن کو مضبوط کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں پاکستان ہماری پہچان اور شان ہے اور ہمیں کسی ایسے عناصر کے ہاتھوں نہیں کھیلنا جن کا مقصد ہی ملک و قوم اور ریاستی اداروں کو کمزور کرنا ہے۔ پوری پاکستانی قوم بالخصوص نوجوان نسل جذبات کے بجائے ہوش سے کام لے اور کسی بھی خبر یا معلومات کو آگے پھیلانے سے پہلے اس بات کی تصدیق کر لے کہ آیا یہ خبر مستند اور سچی ہے ۔ اسلام بھی سنی سنائی اور بغیر تحقیق کے بات آگے پھیلانے کوصحیح نہیں سمجھتا ہے۔لہٰذا بحیثیت مسلمان اور پاکستانی آپ کا یہ فرض بنتا ہے کہ سچ کی تلاش جاری رکھیں اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کی لہر میں بہنے کے بجائے دماغ سے کام لیں اور سچ اور جھوٹ کا فرق کرنا سیکھیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل میڈیا سوشل میڈیا اور جھوٹ میڈیا پر رہا ہے
پڑھیں:
ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟
اسلام ٹائمز: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اسکے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کیخلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ تحریر: مھدی جہانتیغی
سٹیو وٹکاف نے عمان میں ایران کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ "ہم نے بہت مثبت اور تعمیری بات چیت کی ہے۔" وائٹ ہاؤس نے بھی عمان میں ایرانی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی بالواسطہ بات چیت کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ "بہت زیادہ مثبت" بیان کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟
ایک: پہلی بات تو یہ ہے کہ بالواسطہ مذاکرات کے آغاز میں ابتدائی مباحثے کو مثبت قرار دینا صرف اسی مرحلے تک مثبت سمجھنا چاہیئے، کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ موقف مذاکرات کے بعد کے مراحل کے لئے ایک مطلق اور عمومی بیان ہو اور صورت جوں کی توں رہے۔ ابھی اہم متنازعہ اور پیچیدہ مرحلے باقی ہیں اور بعد میں میٹنگ کے حالات مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔
دوئم: مذاکرات کے "بہت مثبت" بیان سے کئی دوسرے مقاصد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی فریق اپنے آپ کو مذاکرات کے لیے پرعزم، سنجیدہ اور پرامید ظاہر کرے اور بعد میں کسی وجہ سے انہیں اگر مذاکرات کی میز کو چھوڑنا پڑے تو ایران پر مذاکرات کو ناکام بنانے کا الزام لگا سکیں اور اپنے آپ کو اس الزام سے بچا سکیں کہ انہوں نے مذاکرات کو سبوتاز نہیں کیا ہے۔
تیسرا: ایک اور مقصد جو کہ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی انتخابی مہم میں حالیہ ہفتوں میں اور یہاں تک کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے چار سال میں بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذاکرات کو پہلے مثبت قرار دیکر اس سے تشہیراتی فوائد حاصل کئے جائیں، بعد میں کیا ہوتا ہے، اسے مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ گویا یہ ایک قسم کا پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں جلد عملی جامہ پہن رہی ہیں۔
چوتھا: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اس کے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کے خلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں معاشرتی اور معاشی نقصان کا ماحول پیدا کرکے ایرانی حکام کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ مذاکرات میں مبینہ رکاوٹ ڈال کر یا بے جا مطالبات کرکے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرانے کے لیے ماحول تیار کرنا ہے۔
پانچ: عام طور پر بات چیت کے عمل سے کسی ملک کی خارجہ پالیسی کی ٹیم کے نقطہ نظر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، لیکن امریکی حکومتوں کے بیان کردہ شرائط اور ماضی کا بدنام زمانہ ریکارڈ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کی امید افزائی کو شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھا جائے اور اسے ممکنہ طور پر پروپیگنڈا اور ممکنہ طور پر ایک سوچی سمجھی سازش کر طور پر دیکھا جائے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ متعدد مذاکرات کے عملی تجربات کے نتائج کی روشنی میں جب تک پابندیوں کے خاتمے اور ملکی معیشت پر ان مذاکرات کے حقیقی اثرات سامنے نہيں آجاتے آخری لمحے تک صبر اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی پروپیگنڈے، مسکراہٹ اور مذاکرات کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دینے جیسے دعووں کے فریب اور دام سے بچنے کی ضرورت ہے۔