جارحانہ اور ہنگامہ خیز صدارت
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
دوروز قبل بیس جنوری کو ڈونلڈٹرمپ نے امریکہ کے 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف اُٹھا لیا ہے عام خیال یہ ہے کہ ٹرمپ کی نئی صدارتی مدت خاصی ہنگامہ خیز اور جارحانہ ہوگی کچھ کا خیال ہے کہ رپبلکن کے پاس اقتدار ہو یا ڈیموکریٹس کی حکمرانی، داخلی و عالمی حوالے سے امریکی سوچ یا رویے میں زیادہ تبدیلی نہیں آتی دلیل پہلی مدتِ صدارت کے دوران ٹرمپ کو مقتدرہ کا آزادانہ کام کرنے سے روکناہے یہاں تک کہ پہلی بارجوہری حوالے سے امریکی صدر کے اختیارات پر قدغن لگائی گئی مگر ٹرمپ کی جارحانہ طبیعت کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ پہلی صدارت کے دوران جو نہیں کرپائے وہ سب کچھ موجودہ صدارتی مدت کے دوران کرنے کی کوشش کریں گے اِس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدرہ کو شکست دیکرمنتخب ہوئے ہیں اِس لیے بعیدنہیں کہ وہ مان کر چلنے کی بجائے منواکر چلنے کی کوشش کریں انھوں نے حلف اُٹھانے سے قبل مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے جن خیالات کا اظہارکیا ور قیدیوں کی عدم رہائی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی کا اثرہی تھا کہ اُن کے حلف سے ایک روزقبل ہی 19 جنوری اتوارکے روز حماس اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیافریقین میں قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی جاری ہے اگلے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے ساتھ انتظامی امور جیسے معاملات بھی طے پانے کاامکان ہے دراصل مشرقِ وسطیٰ میں روس اور ایران کی گرفت کمزور ہوچکی ہے اسی لیے امن معاہدہ امریکہ نے ضروری سمجھا تاکہ خطے کامنظرنامہ اپنی مرضی کے مطابق تشکیل دے سکے وگرنہ تو جب تک صورتحال موافق نہ سمجھی تب تک امن کی کوششوں سے گریز کیا گیا ۔
حلف برداری سے قبل ٹرمپ عندیہ دے چکے کہ وہ درآمدات پر ڈیوٹی بڑھائیں گے اِس حوالے سے صدر شی جن پنگ نے ٹرمپ سے بات چیت بھی کی تاکہ مستقبل میں متوقع تجارتی جنگ کے خدشات کم ہوں مگر ٹرمپ ہر صورت عالمی معاشی و تجارتی منظرنامہ امریکہ کے لیے سازگار بناناچاہتے ہیں اور اِس کے لیے وہ ہر حدتک جا سکتے ہیں امریکہ جسے معاشی نمو برقرار رکھنے کے لیے تعلیم ،صحت،زراعت اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں افرادی قوت کی قلت کا سامناہے لیکن ٹرمپ غیر قانونی تارکینِ سے کسی قسم کی نرمی پر تیارنہیں اور بڑے آپریشن کی تیاری کی جارہی ہے مقصدڈالرکی ملک سے باہر ترسیل روکنا ہے لاکھوں کی تعدادمیں امریکہ میں آباد غیر قانونی تارکینِ وطن کو گرفتار اورملک سے بے دخل کرنااُن کا انتخابی وعدہ تھا حلف اُٹھاتے ہی جنوبی سرحدپر قومی ایمرجنسی لگانا،مریخ پر امریکی جھنڈا لہرانے کا منصوبہ،کرپٹ مقتدرہ سے چھٹکارے اورآزادی اظہارکی بحالی جیسے اعلانات سے ظاہرہوتا ہے کہ ٹرمپ کا رویہ پہلے کی نسبت موجودہ دورصدارت میں زیادہ درشت اور بے لچک ہوسکتاہے
ٹرمپ لاکھ طاقتورسہی مگر عالمی منظرنامہ کچھ زیادہ سازگار نہیں جب فرانس کے جیسے طاقتورملک کے وزیرِ اعظم اپنے ملک سمیت یورپ سے مطالبہ کر چکے کہ ٹرمپ کے خلاف کچھ نہ کیا تو یورپ تباہ ہو سکتاہے ڈنمارک ،ہنگری،جرمنی اور اٹلی جیسے ممالک میں بھی پریشانی کی لہرہے ایسے کئی مسائل ہیں جنھیں ٹرمپ اگر حل نہیں کرتے توامریکہ نیٹو میں شامل اتحادیوں سے دورہو سکتاہے شنید ہے کہ نئی مدت کے اولیں سو روز کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ ایران کے حوالے سفارشات مرتب کرنے پر ہے ایسی اطلاعات بھی ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل کے لیے پریشانی کا باعث ہیں کہ عملی طورپر تجربات نہ کرنے کے باوجود ایران جوہری طاقت بن چکا ہے ایران کو مزید جوہری پیش رفت سے روکنے کے لیے امریکہ چاہتاہے کہ جمہوریت کے فروغ کے لیے ایران میں متحرک عناصر سے کام لے اور جمہوریت نواز اور لبرل عناصر کی مالی ضروریات ضبط اثاثوں کے ذریعے پوری کرتے ہوئے مضبوط کیاجائے علاوہ ازیں امریکہ چاہے گا کہ اتحادی اور عالمی شراکت دار ایک مشترکہ اور متفقہ موقف اپنائیں تاکہ ایرانی قیادت کو جوہری پروگرام کے حوالے سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکیا جا سکے بصورتِ دیگر ایک اتحاد کی صورت میں ایران کی دفاعی تنصیبات کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو اگر ٹرمپ کے ہمرکاب اُنھیں قائل کر لیتے ہیں تو ہر انتہائی اقدام کی تو قع کی جا سکتی ہے ۔
ٹرمپ جنگوں کے خلاف ہیں اِس حوالے سے وہ ایک سے زائد بار اظہار کر چکے مگر جس قسم کی کابینہ تشکیل دے رہے ہیں اُس سے خارجہ پالیسی پر انتہاپسندوں کا غلبہ ہو تانظرآتا ہے یہ درست ہے کہ افغانستان سے جلد انخلا میں ایسے ہی لوگوں کا کلیدی کردار تھا لیکن خدشہ ہے کہ یہی لوگ ٹرمپ مخالف لوگوں کے خلاف کارروائیاں کرنے سمیت عالمی تنازعات پر الگ موقف کی طرف جا سکتے ہیں بظاہریہ مداخلت کے قائل نہیں لیکن معاشی و دفاعی مضبوطی کا ایجنڈارکھنے کے ساتھ کسی عملی کارروائی کی طرف جابھی سکتے ہیں مشرقِ وسطیٰ سے فرصت مل چکی اب روس اوریوکرین تنازع ختم کرانے کی کوشش پر توجہ دینے کی ضرورت ہے مگر ڈالر کی بقا اِس میں ہے کہ روس کو شکست ہو اب دیکھنا یہ ہے کہ روس کو شکست دیئے بغیر کیا ٹرمپ اور اُن کے ساتھی ڈالر کی بقاکی جنگ جیت پائیں گے ؟ قرین قیاس یہی ہے کہ ٹرمپ اور اُن کے ساتھیوں کی کوشش ہو گی کہ روس کو برکس ممالک کے ساتھ مل کر نئی کرنسی لانے سے روک جائے وگرنہ یوکرین کے میدان میں ایسی شکست سے دوچار کیا جائے کہ وہ پھرکبھی دوبارہ سنبھل نہ سکے۔
امریکی طاقت کی بحالی ٹرمپ کے پیشِ نظرہے جسے موجودہ حالات میں کئی چیلنج درپیش ہیں جس کے لیے پُرامن بقائے باہمی کی پالیسی اور آزادانہ تجارتی سرگرمیاں ناگزیرہیں مگر ٹرمپ نے ایسا کرنے کی بجائے بیک وقت کئی محاذکھول دیے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ بحراوقیانوس اور بحرالکاہل کے درمیان روابط وتجارت کے لیے استعمال ہونے والے بڑے بحری راستے پانامہ نہر پراختیار امریکہ کے پاس ہو وہ محصولات ختم نہ کرنے کی صورت میں بزورقبضے کا اِرادہ ظاہر کر چکے کیونکہ اِس راستے سے بحری تجارت آسان وتیز ہے وجہ یہ ہے کہ یہ نہر ساڑھے بائیس سو کلومیٹربحری سفرکو ساڑھے نو سوکلومیٹرلانے کا باعث ہے جونصف سے بھی کم بنتاہے قبل ازیں بھی اِس نہری راستے کا اختیار امریکہ کے پاس تھا لیکن1999میں ایک معاہدے کے تحت یہ کنٹرول پانامہ کو منتقل کر دیاگیا یہ بحری راستہ دفاعی نکتہ نظرسے بھی بہت ا ہم ہے اسی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے امریکہ چاہتا ہے اِس راستے پر اجارہ داری پھربحال ہو مگریہ کوشش لاطینی ممالک میں بے چینی کوجنم دینے اور امریکہ مخالف لہرکوقوی تر بنا سکتی ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: امریکہ کے کے دوران حوالے سے یہ ہے کہ کے خلاف کہ ٹرمپ کی کوشش کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ کا حلف مسلم ممالک کیلیے چیلنج ہوگا، تنظیم اسلامی
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ نے کہا ہے کہ نئے امریکی صدر کا ٹرانس جینڈر کی نفی کرنا جبکہ مملکتِ خداداد پاکستان کا اس فتنہ کی بیخ کنی کی راہ میں رُکاوٹیں کھڑی کرنا انتہائی شرم ناک ہے۔ یہ بات انہوں نے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسری مرتبہ بطور امریکی صدر حلف اُٹھانا یقینا پوری دنیا بالخصوص مسلم ممالک کے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو گا، اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں ٹرمپ نے نہ صرف ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے دارالحکومت کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا بلکہ ابراہام اکارڈز کے پر فریب منصوبے کے تحت کئی عرب و دیگر مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، پھر یہ کہ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت ہی میں اسرائیل نے بدترین نسل پرستی اور مذہبی امتیاز کی بنیاد پر بدنامِ زمانہ جیوش نیشن سٹیٹ لا منظور کیا تھا جس کے مطابق صرف یہودی مقبوضہ فلسطین میں اول درجہ کی شہریت کے حامل ہوں گے۔ ٹرمپ کے موجودہ دورِحکومت کے حوالے سے بھی مسلمان ممالک خصوصا عربوں اور پاکستان کو انتہائی ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ امیر تنظیم نے کہا کہ نو منتخب امریکی صدر نے ایک کٹر عیسائی ہونے کے ناطے انتظامی حکم جاری کیا ہے کہ جنس اور صنف کے حوالے سے تفریق صرف مرد اور عورت کی بنیاد پر کی جائے گی۔ دوسری طرف انتہائی دُکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ آخری الہامی کتاب قرآنِ مجید کے حامل مسلمانوں کی عظیم اکثریت پر مشتمل پاکستان کی پارلیمان نے 2018 میں ٹرانس جینڈر قانون کو منظور کرکے ملک بھر میں نافذ کر دیا تھا۔ انہوں نے سوال اُٹھایا کہ 77 برس سے امریکا کی غلامی کرنے والا پاکستان کیا اس معاملے میں بھی اپنے آقائوں کی پیروی کرے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 جیسا سیاہ قانون، جس کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت واضح حکم دے چکی ہے کہ اس کی بیشتر شقیں اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں اور حکومت و پارلیمان کا فرض ہے کہ ایسی تمام شقوں کو قانون سے حذف کیا جائے، اس کے خلاف ریویو پٹیشنز اب تک سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ کے سامنے موجود ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں کی جا رہی۔ اِسی طرح وفاقی شرعی عدالت کا سود کی حرمت کے حوالے سے فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشنز بھی اِسی عدالت کے سامنے موجود اور شنوائی کی منتظر ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمران، مقتدر حلقے اور عدلیہ، اللہ اور اس کے رسولؐ سے جاری جنگ ختم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ صرف ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں، سپریم کورٹ کا شریعت اپیلیٹ بینچ فوری ٹرانس جینڈر اور سود کی حرمت کے حوالے سے دائر اپیلوں کی شنوائی کرے، وفاقی شرعی عدالت کے احکامات کے مطابق جلد دونوں اپیلوں میں فیصلہ کیا جائے تاکہ ہمیں دنیا میں بھی اللہ کی مدد مل سکے اور ہماری آخرت بھی سنور جائے۔