ٹرمپ کی آمد، خدا خیر ہی کرے
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تاریخ رقم کی ہے۔ وہ ایک ٹرم کے بعد دوسری مرتبہ کےلیے منتخب ہوئے ہیں۔
انتخابی مہم میں گولی کھائی، یہ ایک قاتلانہ اقدام تھا جس کی تفصیلات میں جائے بغیر بس اتنا ہے کہ ٹرمپ کو خدا نے ایک نئی زندگی دی کہ گولی اس کا سر کا نشانہ لے کر چلائی گئی تھی۔ گولی بھی نشانے پر تھی لیکن ٹرمپ نے عین وقت پر سر گھما لیا اور گولی اس کے کان کو چھوتی ہوئی نکل گئی۔ اس کے بعد یہ واضح تھا کہ ٹرمپ اب امریکا کا صد ر بنے گا۔
ٹرمپ نے الیکشن میں اسٹبلشمنٹ کے رج کے لتے بھی لیے اور یوں سمجھ لیجیے کہ دنیا بھر کی مخالفت مول لے کر جناب صدر بنے۔ کمیلا نے بھی جم کر مقابلہ کیا اور قریب پہنچ کر ہاری۔ خیر، اب انکل ٹرمپ ایوان صدر میں پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے آتے ساتھ ہی اپنے متنازع آرڈرز پاس کرنا شروع کر دیے ہیں۔
ٹرمپ نے جن نکات پر الیکشن لڑا تھا، اس سے ہی واضح تھا کہ ٹرمپ امریکا کی عالمی چوہدراہٹ کو نیا رخ دے گا، جبکہ کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات سے عالمی چوہدراہٹ ختم ہوجائے گی۔ اگر ہم بغور دیکھیں تو اس وقت کوئی بھی ملک امریکا کی جگہ لینے کےلیے تیار نہیں ہے۔ امریکا کے بعد قریب ترین چین کو ابھی اس مقام تک پہنچنے کےلیے دس سے بارہ سال کا عرصہ چاہیے۔ ٹرمپ امریکا اور دنیا کے ساتھ کیا کرنا چاہ رہا ہے، یہ واضح نہیں ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ مدت صدارت سے کیا سیکھا ہے ، یہ بھی واضح نہیں ہے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں یورپ کے ساتھ پالیسی بیان شئیر کیا ہے۔ ٹرمپ چونکہ کاروباری انسان ہے لہذا اس کی پالیسیاں بھی کم و بیش ایسی ہی ہوں گی۔ اس نے ابھی یورپ سے مطالبہ کیا ہے کہ آپ اپنی جی ڈی پی کا کم ازکم 5 فیصد اپنے دفاع پر خرچ کریں۔ امریکا نے یورپ کو اس مد میں بہت پیسہ اور ٹیکنالوجی دی ہے اور مزید یہ بوجھ برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یورپ میں ایک دو ممالک ہی ایسا کرسکتے ہیں کہ وہ جی ڈی پی کا 5 فیصد خرچ کریں۔ بیشتر کی اکانومی اس بات کو ابھی افورڈ ہی نہیں کرسکتی ہیں۔ لہٰذا اس پالیسی بیان سے اب یورپ میں بھی تکلیف کی لہر ہے۔
ٹرمپ آج سے لگ بھگ 30 سال قبل ایک ٹی وی شو کرتا تھا جس میں اس کا مشہور ڈائیلاگ تھا ’’یو آر فائرڈ،‘‘ یعنی آپ کو نوکری سے برخاست کیا جاتا ہے۔ اس نے مدت صدارت سنبھالتے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔ کئی ایک آفیشلز کو گھر بھیجا ہے اور اب نئی دھمکی دی ہے کہ وہ 50 ہزار سے زیادہ لوگوں کو فارغ کرے گا اور ان کی جگہ نئے لوگ بھرتی ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بھی امریکا کی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہی ہوگا۔
ایسا ہوتا ہے کہ امریکی صدور اپنی مدت ملازمت میں ایڈمنسٹریشن میں اپنے لوگ لگاتے ہیں لیکن ان کی تعداد چند سو یا ہزار ہوتی ہے اور ٹرمپ اس وقت 50 ہزار کی بات کررہا ہے۔ یہ تبدیلیاں اور تعنیاتیاں ڈیفنس، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، سیکرٹ سروسز اور سی آئی اے جیسے اداروں میں ہوں گی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا اندرونی طور پر کن مراحل سے گزرنے لگا ہے۔
ٹرمپ اس کے ساتھ روس کے ساتھ ڈیل کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ خود یہ کہتا ہے کہ میرے نہ کوئی اصول ہیں، نہ کوئی نظریہ ہے۔ مجھے ہدف حاصل کرنا آتا ہے اور مجھے ڈیل کرنی آتی ہے۔ ٹرمپ کی ایک مشہور کتا ب ’’دی آرٹ آف دا ڈیل‘‘ واقعی پڑھنے والی کتاب ہے۔ ٹرمپ واقعی میں ایک زبردست ڈیل میکر ہے۔ اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر اس کو پتا ہو کہ آپ کی جیب میں ایک ملین ڈالر ہے تو وہ آپ سے ڈیڑھ ملین ڈالر کی ڈیل کرلے گا اور اس کی ڈیل ایسی ہوگی کہ آپ اس کو انکار نہیں کرسکیں گے۔
اس کی حالیہ مثال کچھ ایسے ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکا کے مختلف شعبہ جات میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ نے اس ضمن میں شہزادہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں ان سے بات کروں گا کہ وہ اس کو راؤنڈ فگر کرتے ہوئے 1 کھرب ڈالر تک لے جائیں, یعنی اس رقم کا اعلان کیا ہے، اس کے 4 سو ارب ڈالر مزید بڑھائیں اور امریکا میں ایک کھرب ڈالرز کی سرمایہ کاری کریں۔
ٹرمپ کا خیال ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں کم کردی جائیں تو روس اور یوکرین کی جنگ ختم ہوسکتی ہے۔ اس لیے وہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں گرائے گا۔ اس مقصد کےلیے وہ اوپیک اور سعودیہ کو مجبور کررہا ہے کہ وہ تیل کی قیمتیں گرائیں۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ پہلے امریکی پالیسی تھی کہ امریکا اپنا تیل ریزرو میں رکھے گا اور دنیا سے تیل خریدے گا، اس سے تیل کی قیمت ایک خاص سطح پر رہے گی لیکن اب امریکا اس ضمن میں بھی اپنی پالیسی بدل رہا ہے۔ وہ تیل کے حوالے سے کسی حد کا قائل نہیں ہے اور وہ امریکی کمپنیوں کو اس بات کی اجازت دے گا کہ جتنا تیل امریکی سرزمین سے نکل سکتا ہے وہ نکالا جائے۔ اس سے امریکا میں تیل کی امپورٹ کم ہوجائے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑی معیشتوں کو بھی دھمکی دے رہا ہے کہ آپ جو مال ہمیں ایکسپورٹ کرتے ہیں، اس سے ہمارے قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے، لہٰذا اب اگر کام کرنا ہے تو یا تو امریکا میں اپنا سیٹ اپ لگائیں اور یا پھر ہم ٹیکس کی شرح بڑھائیں گے تاکہ ہماری مقامی اشیا کو فروغ ملے۔ ایسی صورتحال میں امریکی مینوفیکچرز قیمت کی بنیاد پر مقابلے پر آجائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر دنیا بھر کی بڑی معیشتوں کو دیگر منڈیاں دیکھنی پڑیں گی اور اس آرڈر کی زد میں چین اور بھارت دونوں ہی آجائیں گے جبکہ اس کے ٹھیک ٹھاک اثرات یورپ کو بھگتنے پڑیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس نے تارکین وطن کو بھی رگڑا لگانے کا اعلان کردیا ہے کہ ہر وہ شخص جو گرین کارڈ کی امید پر غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم ہے، وہ یہاں سے نکلے ورنہ اس کو نکالا جائے گا۔ امریکا اب غیر قانونی تارکین وطن کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ٹرمپ نے امریکا کا یہ قانون کہ امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والا ہر بچہ امریکی شہری ہوگا، بھی بدلنے کا اعلان کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ نے اپنی نظریں کینیڈا، گرین لینڈ اور میکسیکو پر بھی لگا لی ہیں، جہاں وہ اپنے طریقے سے قبضہ جمانے کی بات کررہا ہے۔ اس نے ان افغانیوں کو بھی لینے سے انکار کردیا ہے جو امریکا جانے کی امید پر پاکستان میں مقیم ہیں اور ان کے کاغذات کی تیاری آخری مراحل میں ہے جبکہ اس نے افغان طالبان کو بھی یہ واضح کردیا ہے کہ انہیں جو بلین آف ڈالرز کی امداد سالانہ بنیادوں پر مل رہی ہے ایک طرف اس کا خاتمہ ہوگا اور دوسری جانب جو اسلحہ امریکی وہاں چھوڑ گئے ہیں، وہ بھی واپس لیا جائے گا۔
اگر اس نے کسی بات پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے تو وہ بانی پی ٹی آئی عمران احمد خاں نیازی کی رہائی ہے۔ اس وقت پوری دنیا پریشانی کے عالم میں امریکا کی جانب دیکھ رہی ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے اور دنیا اس ساری صورتحال کو کیسے ہینڈل کرے گی۔ ٹرمپ کی پچھلی مدت صدارت میں جب معاملات حد سے باہر ہونے لگے تھے تو کووڈ آیا تھا، جس کا الزام امریکا نے چین پر لگایا تھا اور چین نے جواباً امریکا کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ اس مرتبہ خدا خیر ہی کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا میں اس کے ساتھ امریکا کی کا اعلان نہیں ہے کہ ٹرمپ ہوتا ہے میں ایک ہے کہ ا گا اور کو بھی تیل کی رہا ہے ہے اور کیا ہے
پڑھیں:
ٹرمپ کی سعودی عرب کو 100 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کی پیشکش کا امکان
امریکا سعودی عرب کو 100 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے ہتھیاروں کے پیکیج (دفاعی معاہدے) کی پیشکش کرنے کے لیے تیار ہے، امریکی صدر کا سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کا دورہ مئی میں متوقع ہے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے سے براہ راست واقف 6 ذرائع نے بتایا کہ یہ پیکیج سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے ریاض کے ساتھ دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دینے کی ناکام کوشش کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے تحت سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا تصور رکھتا ہے۔
بائیڈن کی تجویز میں چینی اسلحے کی خریداری روکنے اور ملک میں بیجنگ کی سرمایہ کاری کو محدود کرنے کے بدلے میں مزید جدید امریکی ہتھیاروں تک رسائی کی پیشکش کی گئی تھی۔
’رائٹرز‘ کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ کی تجویز میں بھی ایسی ہی شرائط شامل ہیں یا نہیں۔
وائٹ ہاؤس اور سعودی حکومت کے مواصلاتی دفتر نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
ایک امریکی دفاعی عہدیدار کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں سعودی عرب کے ساتھ ہمارے دفاعی تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں، ہمارے سیکیورٹی تعاون کو برقرار رکھنا اس شراکت داری کا ایک اہم جزو ہے، اور ہم سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کے ساتھ کام کرتے رہیں گے۔
امریکا طویل عرصے سے سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے۔
سنہ 2017 میں ٹرمپ نے سعودی عرب کو تقریباً 110 ارب ڈالر کی فروخت کی تجویز پیش کی تھی، 2018 تک صرف 14.5 ارب ڈالر کی فروخت شروع کی جاسکی تھی، اور کانگریس نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی روشنی میں معاہدوں پر سوال اٹھانا شروع کیا تھا۔
2021 میں بائیڈن کی قیادت میں کانگریس نے خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کو جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی عائد کی تھی، اور سعودی عرب پر یمن جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا، جس میں بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
امریکی قانون کے مطابق ہتھیاروں کے اہم بین الاقوامی معاہدوں کو حتمی شکل دینے سے قبل کانگریس کے ارکان کو ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
ذرائع میں سے 3 کا کہنا ہے کہ لاک ہیڈ کے ایف 35 طیاروں کے ممکنہ معاہدے پر بات چیت متوقع ہے، جس میں سعودی عرب برسوں سے دلچسپی رکھتا تھا، جب کہ دورے کے دوران ایف 35 معاہدے پر دستخط کے امکانات کو نظر انداز کیا گیا۔
Post Views: 1