امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ سے فلسطینیوں کو بیدخل کرنے کا منصوبہ پیش کردیا۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ کو ڈیمالیشن سائٹ کہہ کر وہاں “صفائی” کی تجویز دیتے ہوئے فلسطینیوں کو مصر اور اردن منتقل ہونے کا مشورہ دیا ہے۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ عرب ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کے لیے مستقل یا عارضی طور پر نئی رہائش گاہیں بنانا چاہتے ہیں، وہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے فلسطینیوں کی منتقلی پر بات کریں گے۔

یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اپنے دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ 19 جنوری کو نافذ جنگ بندی کے دوران، اسرائیل اور حماس نے قیدیوں کا تبادلہ کیا، جس میں 7 اسرائیلی یرغمالی اور 290 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔

امریکی صدر کے اس مذموم منصوبے نے فلسطینیوں کیلئے مزید خدشات کو جنم دیا ہے کیونکہ فلسطینیوں نے مسلسل حملوں، جانی و مالی نقصانات کے باوجود ہمیشہ اپنے آبائی گھر اور زمین چھوڑنے کی تجاویز کو مسترد کیا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کے سخت گیر رہنما اور حال ہی میں جنگ بندی معاہدے کی مخالفت میں استعفیٰ دینے والے قومی سلامتی کے سابق وزیر اتمار بن گویر نے غزہ کو “صاف” کرنے کی ٹرمپ کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔

مصری صدر السیسی نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدامات مصر اور اسرائیل کے درمیان 1979 کے امن معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: امریکی صدر

پڑھیں:

قاہرہ مذاکرات ناکام: حماس نے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا

قاہرہ: غزہ میں جاری اسرائیل-حماس جنگ کو ختم کرنے کے لیے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق، ان مذاکرات کا مقصد جنگ بندی کی بحالی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی تھا، تاہم کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی۔

ذرائع کے مطابق، حماس نے اپنا مؤقف برقرار رکھتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی معاہدے کی بنیاد جنگ کا مکمل خاتمہ اور غزہ سے اسرائیلی انخلا ہونا چاہیے۔ ادھر اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جب تک حماس کو مکمل شکست نہ دی جائے، فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

مصری حکومت نے نئی جنگ بندی تجویز پیش کی جس میں حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم حماس نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ ایک حماس رہنما کے مطابق، "ہم صرف اس صورت میں جنگ بندی پر تیار ہیں جب اسرائیل مکمل طور پر جنگ بند کرے اور فوجی انخلا کرے۔ ہتھیار ڈالنے پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔"

ذرائع نے مزید بتایا کہ مصر کی تجویز میں 45 دن کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کے بدلے غزہ میں خوراک اور پناہ گاہوں کا سامان پہنچانے کی اجازت دی جائے گی۔

حماس کا کہنا ہے کہ 50 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور جنگ بندی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل کی جارحیت کا مکمل خاتمہ ہو۔

 

متعلقہ مضامین

  • قاہرہ مذاکرات ناکام: حماس نے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا
  • مصر کی غزہ جنگ بندی کیلیے نئی حیران کن تجویز؛ حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ
  • صیہونی قیدیوں کی ایک مرحلے میں رہائی کیلئے حماس کی شرائط
  • اسرائیلی شہری بھی غزہ میں جنگ بندی کے حامی، انوکھے طریقے سے احتجاج
  • جنگ کے خاتمے کی ضمانت ملے تو یرغمالیوں کو رہا کر دیں گے، حماس
  • غزہ میں مستقل جنگ بندی کی ضمانت پر یرغمالی رہا کر دیں گے، حماس
  • فلسطینیوں سے یکجہتی: کراچی میں جماعت اسلامی، جے یو آئی کے غزہ مارچ
  • ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی
  • غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا، سعودی وزیر خارجہ
  • غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا.سعودی وزیر خارجہ