Daily Ausaf:
2025-01-27@05:42:56 GMT

پیکا ایکٹ: دفاع یا دبائو؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

دنیا بھر میں جھوٹی خبروں اور میڈیا پروپیگنڈے کے خلاف مختلف ممالک نے سخت قوانین نافذ کیے ہیں تاکہ غلط معلومات کے پھیلا کو روکا جا سکے۔ سنگاپور میں 2019 ء میں ایک قانون متعارف کروایا گیاجسے Protection from Online Falsehoods and Manipulation Act کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ جھوٹی خبروں کو ہٹائے، حقائق درست کرے اور جھوٹی معلومات پھیلانے والوں پرجرمانے عائد کرے۔ جرمنی میں Network Enforcement Act نافذ ہے جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو جھوٹی اور نفرت انگیز معلومات 24 گھنٹوں کے اندر ہٹانے کا پابند بناتا ہے، بصورت دیگر بھاری جرمانے عائد کیےجاتے ہیں۔ فرانس نے 2018 میں ایک قانون بنایا جس کے تحت انتخابات کے دوران جھوٹی خبروں کے پھیلائو پر سخت پابندی عائد کر دی گئی اور عدالتوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسی معلومات فوری ہٹانے کا حکم دے سکیں۔روس میں 2019 میں جھوٹی خبروں کے خلاف ایک قانون منظور ہوا جس کے تحت جھوٹی معلومات پھیلانے پر جرمانے اور قید کی سزا دی جاتی ہے۔ ملائیشیا نے 2018 میں ایک قانون نافذ کیا جس کے ذریعے جھوٹی خبروں کو پھیلانے والوں پر بھاری جرمانے اور قید کی سزا دی جاتی ہے۔ آسٹریلیا میں بھی ایک قانون موجود ہے جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو نقصان دہ اور جھوٹی معلومات کو ہٹانے کا پابند کرتا ہے۔چین میں انٹرنیٹ پر سخت قوانین نافذ ہیں جہاں حکومت جھوٹی معلومات کے خلاف سخت کارروائی کرتی ہے جس میں جرمانے، قید اور آن لائن پابندیاں شامل ہیں۔یہ قوانین جھوٹی معلومات کے پھیلائو کو روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں لیکن بعض ممالک میں ان قوانین کو آزادی اظہار پر پابندی کے لیے استعمال کیے جانے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔پاکستان میں سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹے پروپیگنڈے، فیک نیوز اور الزام تراشی کے خاتمے کے لیے قومی اسمبلی نے حال ہی میں پیکا ترمیمی بل کو منظور کیا ہے۔ یہ بل نہ صرف فیک نیوز کے خاتمے بلکہ ڈیجیٹل میڈیا کے شعبے میں اصلاحات کے لیے ایک اہم اقدام ہے۔ اس قانون کو حکومت اور صحافتی حلقوں کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کی سمت ایک بڑی کامیابی قرار دیاجا رہا ہے۔پاکستان میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لیے قواعد و ضوابط پہلے سے موجود ہیں لیکن ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے کوئی موثر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے یہ پلیٹ فارم ایک بے قابو میدان بن چکا تھا۔ یہاں ہرکوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے اور صحافت کے نام پر اکثر الزام تراشی اور جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ڈیجیٹل میڈیا پر صحافت کے معیار کو بہتر کرنے، جھوٹ اور پروپیگنڈے کی جوابدہی کو یقینی بنانے، اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایک قانونی فریم ورک ضروری تھا۔ پیکا ترمیمی بل اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت ڈیجیٹل میڈیا پرجھوٹے الزامات، کردار کشی اور نفرت انگیزمواد پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکے گی۔پیکاترمیمی ایکٹ کا دائرہ کارصرف ڈیجیٹل میڈیا تک محدود ہے۔ اس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ ان کے لیے پہلے ہی قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈے کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے یہ ایک مثبت قدم ہے۔ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنےوالےصحافی اکثر خودساختہ ہوتے ہیں، جو صحافت کے اصولوں اور اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر نفرت انگیز مواد اورجھوٹےبیانیے پھیلاتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ حقیقی صحافیوں کے لیے مشکلات بھی پیدا کرتی ہیں۔ یہ قانون ورکنگ جرنلسٹس کو موقع فراہم کرے گا کہ وہ آزادی کے ساتھ مگر ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ پلیٹ فارم جہاں مثبت خبروں اور معلومات کے تبادلے کے لیے اہم ہے وہیں فیک نیوز اور نفرت انگیز مواد کے پھیلائو کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے۔سیاسی الزامات کی صورت میں کئی مواقع پر سیاسی شخصیات کےخلاف جھوٹے بیانیے یاجعلی ویڈیوز پھیلائی گئیں، جن سے نہ صرف انکی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ عوام میں انتشار بھی پھیلا۔ وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ جو افراد سوشل میڈیا سے لاکھوں کما رہے ہیں وہ ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنے والے اکثر افراد کسی ضابطے کے تحت کام نہیں کرتے اور ان کی کمائی پر کوئی نگرانی نہیں ہوتی۔ یہ قانون ایسے افراد کو نظام کے تحت لانے میں بھی مدد دے گا اور معیشت میں ان کا حصہ یقینی بنائے گا۔ یہ قانون صحافت کی آزادی اور ذمہ داری کے درمیان توازن قائم کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ اس کے نفاذ سے نہ صرف ڈیجیٹل میڈیا کے معیار کو بہتر بنایاجاسکےگا بلکہ عوامی اعتماد بھی بحال ہوگا۔ پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا کی تیزرفتارترقی کے پیش نظر یہ قانون سازی وقت کی اہم ضرورت تھی ۔ قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کثرت رائے سے منظور کیا۔ بل کی منظوری پر صحافیوں نے واک آئوٹ کیا اورحکومت پر مشاورت کے بغیر قانون سازی کا الزام عائد کیا۔ پی ایف یو جے اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بل کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج اور عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا۔ حالیہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے حوالے سے صحافیوں کی جوائنٹ کمیٹی کا اعتراض یہ ہے کہ انہیں وزارت کی جانب سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں بل کی شقوں پر کوئی اعتراض نہیں مگر ان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے انہیں شامل نہیں کیا گیا اور ان کی قائم کردہ کمیٹی سے منظوری نہیں لی گئی۔یہ اعتراض قدرے جائز محسوس ہوتا ہے اس لیے وزیر اطلاعات کو خود صحافیوں کے نمائندگان سے ملاقات کرنی چاہیےتاکہ کسی قسم کے ابہام یا ناراضگی کا موقع نہ ملے۔ اس طرح نہ صرف صحافتی برادری کا اعتماد برقرار رہے گا بلکہ ایک متفقہ اور مضبوط قانون کا نفاذ بھی ممکن ہو سکے گا، جو ملک میں صحافتی اخلاقیات اور ذمہ داری کو فروغ دے گا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹی خبروں پاکستان میں صحافیوں کے معلومات کے ایک قانون یہ قانون کے خلاف کے لیے کے تحت

پڑھیں:

کوئی قانون سے بالاتر نہیں، ریاست ملک ریاض پر ہاتھ ڈالے گی،ہر صورت پاکستان لائیں گے: وزیر دفاع

کوئی قانون سے بالاتر نہیں، ریاست ملک ریاض پر ہاتھ ڈالے گی،ہر صورت پاکستان لائیں گے: وزیر دفاع Real estate tycoon Malik Riaz waves as he leaves the Supreme Court on his contempt of court case in Islamabad June 21, 2012. Pakistan's top court stopped short of indicting the son of its chief justice and a billionaire businessman, kicking into the long grass corruption allegations that damage its credibility. In a case that has captivated the Pakistani political and media elite, Supreme Court judges asked the attorney general to investigate Arsalan Iftikhar Chaudhry, Malik Riaz and his son-in-law in corruption allegations. AFP PHOTO / Aamir QURESHI (Photo by Aamir QURESHI / AFP) WhatsAppFacebookTwitter 0 24 January, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس )وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعے کو کہا ہے کہ ریاست نے پراپرٹی ٹائیکون اور بحریہ ٹان کے مالک ملک ریاض کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہے تو وہ وقت چلا گیا، اب ریاست ان پر ہاتھ ڈالے گی۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا: اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر (ان ٹچ ایبل) ہے تو وہ وقت چلا گیا، اب ریاست ان پر ہاتھ ڈالے گی۔ ان کے جتنے بھی کاروبار ہیں پاکستان کے اندر، اس میں حکومتی سطح پر ان کو ملک واپس لانے پر بھی کام کیا جائے گا، ہمارا متحدہ عرب امارات کے ساتھ ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ ہے۔

ملک ریاض اور بحریہ ٹان کے حوالے سے میڈیا کوریج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کے حوالے سے ہمارا میڈیا دوہرے معیار کا شکار ہے۔ میں اس موضوع پر بات کرنے لگا ہوں جسے صحافتی زبان میں شجرہ ممنوعہ کہا جاتا ہے۔ میڈیا جس شخص کا نام لینے کی جرات نہیں کرسکتا تھا، اب احتساب کا سلسلہ وہاں تک بھی پہنچ گیا، عوامی مسائل پر فوکس کے لے میڈیا 10 سیکنڈ کا پیغام نہیں چلا سکتا، لیکن دوسروں پر کیچڑ اچھالتا رہتا ہے، خود بہت سے میڈیا مالکان کا دامن صاف نہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان میں دوغلا پن جاری رہے گا تو جمہوریت کا سلسلہ اصل روح کے مطابق نہیں آسکتا۔ صحافت، سیاست اور عدلیہ میں دوغلے پن کا خاتمہ ہونا چاہیے، آج کی پریس کانفرنس میں صحافی اور ان کے کیمرے بھی کم ہیں، معلوم نہیں میری بات سنائی بھی جائے گی، یا نہیں، میری بات چیت کہیں سیلف سینسر شپ کی نذر نہ ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ صحافی حضرات پیکا (ایکٹ) پر تو احتجاج کرتے ہیں، اس بات پر بھی احتجاج کریں کہ میڈیا اداروں کے مالکان کو بزنس دینے والے آدمی کے خلاف بیانات نہیں چلائے جاتے، سیاست دان میڈیا کا سافٹ ٹارگٹ ہیں۔

وزیر دفاع نے بحریہ ٹان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 30 سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا ہے، ایک شخص نے پورے پاکستان میں جو زمینیں خریدی ہیں، سوسائٹیوں کی منظوریاں لی ہیں، اس معاملے میں کئی پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں، ملک بھرمیں بننے والے بحریہ ٹانز کی ٹرانزیکشنز غیر قانونی ہیں، یتیموں، بیواں اور غریبوں کی زمینوں پر قبضے کیے گئے، اب وہ وقت چلا گیا جب ملک ریاض پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ریاست نے ملک ریاض کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے وہ قانون سے بالا ہے تو وہ وقت چلا گیا، اب ریاست ان پر ہاتھ ڈالے گی۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا: القادر ٹرسٹ کو حسن نواز کے کیس سے جوڑا جا رہا ہے، حسن نواز کی پراپرٹی کی بھی این سی اے (نیشنل کرائم ایجنسی) نے تحقیقات کیں، حسن نواز والے معاملے کی تحقیقات میں کچھ نہیں چھپایا گیا، یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ انہیں کسی قسم کا ریلیف ملے گا، ملک ریاض کو پاکستان لایا جائے گا اور ان پر تمام مقدمات چلائے جائیں گے۔خواجہ آصف نے کہا کہ اگر کوئی پاکستانی ملک سے باہر بھی بحریہ ٹان کے کسی منصوبے میں پیسہ لگاتا ہے، تو اسے بھی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا پیسہ ڈوب جائے گا۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ پریس کانفرنس ایک ایسے وقت میں کی ہے، جب 21 جنوری کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بحریہ ٹان کے مالک ملک ریاض کے حوالے سے دھوکا دہی، فراڈ، سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضے کے معاملات پر تحقیقات اور عوام کو بحریہ ٹان کے منصوبوں میں سرمایہ کاری سے تنبیہ کا بیان سامنے آیا۔

نیب کا کہنا تھا: دبئی میں روپوش ملک ریاض کی حوالگی کے حوالے سے دبئی حکام سے رابطے میں ہیں۔ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور دیگر افراد کے خلاف دھوکا دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات زیر تفتیش ہیں، لہذا عوام بحریہ ٹان کے دبئی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہ کریں۔

اس کے اگلے روز ملک ریاض نے ایکس پر اپنے ردعمل میں 190 ملین پانڈز کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک گواہی کی ضد کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہونا پڑا۔ میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا، آج بھی یہ فیصلہ ہے۔ چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا۔ نیب کی پریس ریلیز کو بلیک میلنگ قرار دیتے ہوئے ملک ریاض کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کاروبار کرنا آسان نہیں، سالوں کی بلیک میلنگ، جعلی مقدمے اور افسران کی لالچ کو عبور کیا، نیب کا آج کا بے سروپا پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے۔ میں ضبط کر رہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفان لیے بیٹھا ہوں، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • پیکا ایکٹ پاکستان میں ڈیجیٹل منظر نامے پر حکومت گرفت مزید کرسکتا ہے،ایمنسٹی
  • ترمیم شدہ پیکا ایکٹ سے مسائل مزید بڑھیں گے، وجیہ الدین
  • پیکا بل بنیادی حقوق کو محدود کرتا ہے، انسانی حقوق کمیشن کا قانون سازی پر تحفظات کا اظہار
  • پیکا ایکٹ ترمیمی بل جمہوریت کیساتھ مذاق ہے، قادر مگسی
  • پیکا ایکٹ ترامیم ڈیجیٹل نیشن برباد بل ہے،بیرسٹر سیف
  • کوئی قانون سے بالاتر نہیں، ریاست ملک ریاض پر ہاتھ ڈالے گی،ہر صورت پاکستان لائیں گے: وزیر دفاع
  • پیکا ایکٹ زبانیں بند کرنے کا کالا قانون ہے،  پی ٹی آئی
  • پیکا ایکٹ ترامیم ڈیجیٹل نیشن برباد بل ہے: بیرسٹر سیف
  • پیکا ایکٹ کے بعد صحافیوں کو ہتھکڑیاں لگیں گی، عمر ایوب