سماجی ابلاغ کے طوفان میں لرزتی سماجی روایات
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ یہ تیز اور عجیب بھی ہے۔ اسکی طوفانی آمد نے سب کچھ بدل دیا ہے ۔ وقت بدل گیا ہے۔ رواج اور مزاج بدل گئے ہیں۔ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے سب کو موبائل فون کی ڈبیا میں بند کردیا ہے۔ اس ڈبیا کے دلفریبی نے اکثریت کو اسیر بنا لیا ہے۔ اس کے دامن کی رنگینی ،رونق اور روشنیوں نے چشم و اذہان کو جکڑ لیا ہے ۔بظاہر حقیقی دنیا میں موجود انسان دراصل ذہنی طور پر اک الگ دنیا میں رہنے لگا ہے۔حقیقی دنیا میں اس نے اک ورچوئل یا مصنوعی دنیا بنا لی ہے ۔ جس کی کشش اور گہرائی میں اکثریت غرقاب رہتی ہے۔ حقیقی ماحول پر مصنوعی ماحول چھا گیا ہے جس میں کھو کر انسان دنیا مافیہا سے بالکل بےخبر اورلاتعلق ہوجاتا ہے۔ گردش وقت کا احساس تک مٹ جاتا ہے۔ مجمع اور محفل میں موجود لوگوں میں آپسی ربط و ارتکاز نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ وجودحاضر جبکہ روح سوشل میڈیا کی وادیوں میں بھٹک رہی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے انہیں کئی بار پکارنا پڑتا ہے۔ ایسی دماغی عدم موجودگی اور عدم دلچسپی باہمی کلام کے حسن اور ادبی تقاضوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا کی لت اک لعنت بنتی جارہی ہے ۔ اک مہلک نشہ کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ اک خطرناک طوفان بن گیا ہے جس نے ہماری روایات اور سماجی اقدار کے شجر اکھاڑ دئیے ہیں۔ سماجی تقریبات اور میل جول کے خوبصورت پھول جھڑ گئے ہیں ۔گھر کے آنگن میں گونجنے والے قہقہے اور رات گئے تک گپ شپ کی خوبصورت رسم و ریت مٹتے جا رہے ہیں ۔ ستم تو یہ ہے کہ اس کے نقصانات کو جانتے ہوئے بھی ہم دھڑادھڑ اس کا استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث تیزی سے ہمارے صدیوں پرانے آداب اور سلیقے متاثر ہو رہے ہیں ۔
ڈیڑھ دہائی پہلے کے دور میں پاس بیٹھے شخص کی بات کو پوری توجہ سے نہ سننا انتہائی برا اورخلاف آداب سمجھا جاتا تھا۔ گھر میں مہمان کی آمد اور موجودگی کے دوران غیر ضروری مصروفیات چھوڑ کر اس کو توجہ دی جاتی تھی ۔ اس کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اس کو بھرپور وقت دیا جاتا تھا۔ گفت و شنید میں اسے انگیج رکھا جاتا تھا۔ بزم میں شامل ہر کوئی اپنے ہونے کااحساس دلاتاتھا ۔جب محفل میں کسی موضوع پہ بات ہوتی تو سب اس طرف متوجہ ہوجاتے تھے ۔ اس دوران آپسی کھسر پھسر کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔خلاف آداب عمل مانتے ہوئے اسکو ناپسند کیاجاتا تھا ۔ احترام محفل کی حالت یہ ہے کہ کوئی بھی ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس کرتا ہےاور نہ پرواہ۔ اب تو یہ چلن ہی معمول عام بن چکا ہے۔پرانی روایات اورتکلفات تقریباً غیر اہم اور غیر ضروری سمجھے جانے لگے ہیں ۔ مجھے ایک روز تین گھنٹوں پر محیط سفر پہ جانا تھا ۔ ڈرائیور کو کہا گاڑی باہر نکالو ۔ اسی اثنامیرا ایک نو عمر عزیز ملنے آ گیا۔ اس کی خواہش جان کر میں نے اس کو ساتھ لے لیا۔ سوچا گپ شپ میں سفر اچھا گزر جائے گا ۔ گاڑی چلنے کے ساتھ ہی موصوف کے موبائل پہ میسج کی اطلاعی گھنٹی بجنے لگی ۔ اک ایک بعد دوسرا میسج ۔ درمیان میں کبھی کال بھی آجاتی ۔میں صبر اورخاموشی سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرتا رہا ۔ اللہ اللہ کر کے کافی دیر کے بعد میسجز اور کالز کا سلسلہ کچھ تھما ۔ میں نے اس سے بات چیت کا آغاز کیا ۔ ابھی چند جملے ہی بولے تھے کہ پھر اس کے موبائل پہ کوئی میسج آ گیا ۔مجھ سے توجہ ہٹا کراس نے وہ پڑھنا شروع کردیا ۔ میں جاری گفتگو کا آدھا حصہ حلق میں روکے اس کا منہ تکنے لگا ۔ سارا سفر خیر سےہمارا ایسا ہی گزرا ۔مجال ہے تین گھنٹے کے سفر میں ہم نے کوئی گپ شپ کی ہو ۔ منزل پہ پہنچے تو گاڑی سے نکلتے ہوئے بڑی خوشی اور اطمینان سے کہتا ہےکہ سفر کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ بجائے کچھ ندامت محسوس کرنے کہ راستہ بھر اس نے مجھے وقت اور نہ وقعت دی اوپر سے کمال اطمینان سے سفر کے خوش گزرنے کا اظہار کر رہا تھا ۔
سکول سے بچے واپس آتے ہیں تو اکثر دل چاہتا ہے ان سے ان کے دن کا حال جانا جائے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ہیلو ہائے کے بعد کہیں سے موبائل یا ٹیبلٹ اٹھا لیتے ہیں ۔ یونیفارم اتارنے کی بھی تکلیف نہیں کرتےجس کے لئے ماں بار بار کہہ رہی ہوتی ہے ۔ کسی گیم یا کارٹون مووی میں اسقدر محو ہو جاتے ہیں کہ چیختی ماں کی آواز بھی ان کو سنائی نہیں دیتی ۔ مجبوراً بازو سے پکڑ کر یونیفارم بدلنے اور کھانا کھانے کےلئےانہیں اٹھانا پڑتا ہے۔اس دوران ان کا ردعمل انتہائی سست اور مزاحمتی ہوتا ہے ۔نظریں موبائل پر جمائے لڑکھڑاتے ، چیزوں سے ٹکراتےگھر کےاندر چل رہےہوتے ہیں۔ ان کی توجہ اور ارتکاز بری طرح متاثر ہو گیا ۔ اس سارے بگاڑ کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے ۔ خاص طور پر ماں جو دور شیر خواری سے ہی بچے کو چپ کرانے کے لئے اس کو موبائل دے دیتی ہے ۔ جب بچہ چار پانچ سال کا ہوتا ہے تو وہ موبائل کا پکا عادی بن چکا ہوتا ہے ۔ یہی وہ مرحلہ ہے جب بچے کی مزاج سازی میں خرابی ہوتی ہے۔ گردو پیش اور قریبی رشتوں سے بےخبر اور دور رہتا ہے ۔ ان کی اہمیت ، عزت اور احساس محبت سے نابلد اور محروم رہتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ خلا مزید بڑھ جاتا ہے ۔ ان میں اپنوں میں بیٹھنے اور مکالمہ کرنے کی خواہش اور نہ عادت پنپتی ہے ۔ روائتی اپنائیت اور چاہت کی چاشنی سے وہ بےخبر ہی رہتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے کا ہر فرد ساتھ رہتے ہوئے بھی الگ دنیا میں بس رہا ہوتا ہے ۔ حقیقی دنیا سے صرف اسکا ظاہری سا تعلق محسوس ہوتا ہے ۔ اس کی ذہنی تسکین اور تشفی مکمل طور پر سوشل میڈیا کے مواد سے مشروط ہے ۔ جس معاشرے میں سوشل میڈیا کا جادو اتنا بری طرح لوگوں کے ذہنوں، عادات اور طرز زندگی پہ اثرانداز ہو جائے پھر وہی ہوتا ہے جو سفر کے دوران میرے نو عمر عزیز نے مجھ سے کیا تھا ۔ اس روش کو روکا اور بدلا نہ گیا تو خاندانی نظام اور باہمی محبت اور مروت کے رشتے بکھر جائیں گے ۔ اس سے پہلے کہ یہ بھیانک صورتحال پیدا ہو نئی نسل کی پرورش اور تربیت کو اپنی شاندار اخلاقی، سماجی و مذہبی اقدارکی سطور پرکریں ۔ ترجیحات بدلیں ،بچے کو خوش کرنے کےچکر میں آسان لگنے والے مضر نفسیات طریقوں سے اجتناب کریں ۔ پھر نہ کہنا کسی نے بتایا نہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا جاتا تھا دنیا میں ہوتا ہے ہوتی ہے
پڑھیں:
آپ کی پرانی شادی کو نئے دور میں خطرہ ہے
اگر آپ بے فکر ہیں کہ آپ کی شادی پرانے زمانے میں ہو چکی تھی اور نئے زمانے کی علیحدگیوں کے رجحان کا آپ کے رشتے پر کوئی اثر نہیں پڑےگا، تو آپ غلطی پر ہیں۔ میرا مقصد ہرگز آپ کو خوفزدہ کرنا نہیں ہے۔ لیکن ممکنہ خطرات کو جان لینا بھی ایک احتیاطی تدبیر ہو سکتی ہے۔
ایک دو دہائیاں پہلے سمجھا جاتا تھا کہ شادی جوں جوں پرانی ہوتی جاتی ہے اس جوڑے میں علیحدگی مشکل ہوتی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ 5 سال گزرنے کے بعد تو کنفرم کر دیا جاتا تھا کہ اب شادی محفوظ ہے۔ اور اس تعلق کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
شادی شدہ زندگی کی ایک اور انشورنس بچوں کی شکل میں ہوتی تھی۔ یوں سمجھا جاتا تھا کہ ایک بار بچے ہو گئے تو والدین ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو جائیں گے اور پھر شادی چل جائے گی۔
پچھلے چند سالوں میں کئی مشہور جوڑوں کی شادیاں ختم ہوئیں، جنہوں نے لوگوں کو چونکا دیا۔ ان جوڑوں کی شادیوں کے طلاق پر اختتام نے پوری دنیا پر اثر کیا ہے اور لوگ اب شادی کی ضرورت پر سوال کرنے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:تنہا زندگی کے مثبت و منفی پہلو
ان طلاقوں نے یہ بھی ظاہر کیا کہ چاہے تعلقات کتنے ہی مثالی کیوں نہ نظر آئیں، ذاتی اختلافات اور زندگی کے چیلنجز کسی بھی رشتے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
ان علیحدگیوں کی کچھ مثالیں دیکھیے!
بل گیٹس اور میلنڈا گیٹسبل گیٹس اور میلنڈا گیٹس کی شادی 1994 میں ہوئی تھی، اور 27 سال کے ساتھ کے بعد 2021 میں ان کی طلاق کا اعلان ہوا۔ یہ جوڑا دنیا کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن، کا بانی تھا اور ایک مضبوط پارٹنرشپ کے طور پر جانا جاتا تھا۔
ان کی علیحدگی کی وجوہات مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں، لیکن انفرادی اختلافات کو اس کا سبب بتایا گیا۔ اس طلاق نے عالمی سطح پر بہت زیادہ توجہ حاصل کی۔
جیف بزوس اور میکینزی اسکاٹ (ایمازون کا مالک)جیف بزوس اور میکینزی اسکاٹ کی شادی 1993 میں ہوئی تھی، اور 25 سال بعد 2019 میں دونوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ ان کا تعلق طویل عرصے تک کامیاب سمجھا جاتا تھا، خاص طور پر ایمازون کی کامیابی میں دونوں کی شراکت داری کی وجہ سے۔ تاہم ذاتی اختلافات اور زندگی کے مختلف راستے اپنانے کی خواہش نے ان کی شادی کے اختتام کی بنیاد رکھی۔
شعیب ملک اور ثانیہ مرزاشعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی 2010 میں ہوئی تھی، اور یہ جوڑا 13 سال کے طویل ساتھ کے بعد 2023 میں علیحدہ ہوگیا۔ یہ شادی پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتی تھی۔
ان کی علیحدگی کی وجوہات واضح طور پر بیان نہیں کی گئیں، لیکن یہ خبر کھیل اور شوبز کی دنیا میں نمایاں رہی۔
جسٹن ٹروڈو اور سوفی گریگوئیر ٹروڈوکینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو اور سوفی گریگوئیر ٹروڈو نے 2005 میں شادی کی تھی۔ 18 سال کے کامیاب ازدواجی تعلق کے بعد 2023 میں دونوں نے علیحدگی کا اعلان کیا۔
یہ جوڑا اکثر عوامی تقریبات میں ایک خوشگوار تعلق کی مثال کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ انہوں نے علیحدگی کے بعد اپنے بچوں کی مشترکہ پرورش کی یقین دہانی کرائی۔
ہریتھک روشن اور سوزین خانہریتھک روشن اور سوزین خان کی شادی 2000 میں ہوئی تھی، اور 14 سال بعد 2014 میں ان کے تعلق کا اختتام ہوا۔
دونوں نے طویل عرصے تک اپنے تعلقات کو قائم رکھنے کی کوشش کی، لیکن اختلافات نے اس رشتے کو ختم کر دیا۔ ان کی علیحدگی نے بولی ووڈ کے مداحوں کو مایوس کیا۔
کرشمہ کپور اور سنجے کپورکرشمہ کپور اور سنجے کپور کی شادی 2003 میں ہوئی تھی، لیکن 13 سال بعد 2016 میں ان کی علیحدگی ہو گئی۔ ان کے درمیان اختلافات اور زندگی کے مختلف نظریات اس شادی کے اختتام کی بڑی وجوہات بنے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا کامیاب کیریئر کامیاب شادی کی گارنٹی ہوتا ہے؟
یہ تمام کہانیاں اس بات کا مظہر ہیں کہ موجودہ دور میں شادی شدہ زندگی کی طوالت اس کے مضبوط ہونے کی گارنٹی نہیں ہے۔ جدید دور کے رجحانات بھی شادی کے ادارے پر اس قدر اثرات ڈال رہے ہیں کہ شادیاں برقرار رکھنا دن بدن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
یہ علیحدگیاں ہو کیوں رہی ہیں؟ڈاکٹر جان گوٹمین انسانی تعلقات کی سائنس میں ایک اتھارٹی ہے۔ اس کی شادی شدہ زندگی پر ریسرچ کو ایک دنیا مانتی ہے۔ گوٹمین کے مطابق شادی شدہ زندگی میں 7 غلطیاں ایسی ہیں جو آپ کی طویل عرصہ پر مشتمل شادی کو بھی ختم کر سکتی ہیں۔
یہ 7 غطیاں کیا ہیں؟
محبت اور توجہ کی گہرائی کو نہ سمجھنااگر آپ اپنے شریکِ حیات کے جذبات، خوابوں اور زندگی کے اہم لمحات سے بے خبر رہتے ہیں تو آپ کا تعلق سطحی ہو جاتا ہے۔ ایک شوہر اپنی بیوی کی سالگرہ بھول جاتا ہے، اور وہ یہ سمجھے کہ یہ ایک چھوٹا معاملہ ہے۔ لیکن بیوی کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کی زندگی اور جذبات کو اہمیت نہیں دیتا۔ وقت کے ساتھ یہ لاپروای تعلقات میں فاصلے بڑھا سکتی ہے۔
تعریف اور عزت نہ کرنااگر آپ اپنے شریکِ حیات کے اچھے پہلوؤں پر توجہ دینے کے بجائے صرف ان کی غلطیوں پر نظر رکھتے ہیں تو عزت اور محبت کمزور پڑ سکتی ہے۔ ایک بیوی اپنے شوہر کی محنت اور قربانیوں کو کبھی نہیں سراہتی بلکہ ہمیشہ اس پر تنقید کرتی ہے۔ شوہر کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں، جس سے ناچاقی اور علیحدگی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ایک دوسرے کی جانب توجہ نہ دینااگر آپ شریکِ حیات کی طرف سے توجہ کو نظر انداز کرتے ہیں، تو وہ خود کو غیر اہم سمجھنے لگتے ہیں۔ شوہر بیوی کی جانب سے بات چیت کی کوششوں کو اکثر موبائل پر مصروف رہ کر ٹال دیتا ہے۔ بیوی کو لگتا ہے کہ اس کی باتوں کی کوئی قدر نہیں اور یہ احساس تعلقات کو سرد کر دیتا ہے۔
شریکِ حیات کی رائے کو نظرانداز کرنااگر آپ اپنے شریکِ حیات کی رائے اور خیالات کو اہمیت نہیں دیتے، تو یہ تعلقات میں طاقت کی غیر مساوی تقسیم پیدا کر دیتا ہے۔ ایک شوہر اپنی بیوی کے بجٹ کے مشورے کو نظرانداز کرکے اپنی مرضی سے خرچ کرتا ہے۔ یہ رویہ بیوی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اس رشتے میں غیر اہم ہے، جو کہ ناراضی اور دوری کا باعث بنتا ہے۔
مسائل کو حل کرنے کی بجائے نظر انداز کرنااگر آپ چھوٹے مسائل کو وقت پر حل نہیں کرتے تو وہ بڑے تنازعات میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ بیوی شوہر کو وقت پر بل ادا کرنے کی یاد دہانی کراتی ہے، لیکن وہ اسے ٹالتا رہتا ہے۔ جب بل نہ ادا ہونے کی وجہ سے بجلی کٹ جاتی ہے، تو جھگڑا شروع ہو جاتا ہے، اور اس طرح کے رویے تعلقات میں دراڑ ڈال سکتے ہیں۔
پائیدار مسائل کو نظر انداز کرنا
کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کا مکمل حل ممکن نہیں، لیکن ان کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے نقطہِ نظر کو تسلیم نہ کرنے سے تلخی بڑھ سکتی ہے۔ شوہر بچوں کی تعلیم کے لیے سرکاری اسکول چاہتا ہے جبکہ بیوی نجی اسکول کو ترجیح دیتی ہے۔ دونوں اس مسئلے کو سمجھنے کے بجائے ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہراتے ہیں، جس سے رشتہ زہر آلود ہو جاتا ہے۔
مشترکہ مقصد کی کمیاگر آپ کی شادی میں کوئی مشترکہ مقصد یا مقاصد نہ ہوں، تو وقت کے ساتھ تعلق بوجھل اور بے معنی لگنے لگتا ہے۔ شوہر اور بیوی ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی اپنی الگ الگ دنیا بسا لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کم وقت ساتھ گزارتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا تعلق جذباتی طور پر کمزور ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر جان گوٹمین کا کہنا ہے کہ یہ اصول آپ کے ازدواجی تعلقات کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں، لیکن ان پر عمل نہ کرنے سے رشتہ کمزور اور خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اگر آپ پاکستانی معاشرے کے مطابق ان اصولوں کا جائزہ لیں تو ہمیں پاکستان میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگتی ہے۔
یاد رکھیے! آپ کی شادی نئی ہے یا پرانی، اگر اس میں کوئی ایک فریق بھی اوپر بیان کیے گئے نکات میں سے کسی ایک میں زیادتی کر رہا ہے یا زیادتی سہہ رہا ہے تو ایسا رشتہ ہر وقت علیحدگی کے خطرے سے جڑا رہتا ہے۔
اب آپ کے کرنے کا کام یہ ہے کہ فوری طور پر اپنے رشتوں کا جائزہ لیجیے، اور دیکھیے کہ کہیں جانے انجانے میں آپ ان اصولوں میں سے کسی ایک اصول کو نظر انداز تو نہیں کر رہے جس کی وجہ سے آپ کا جیون ساتھی مشکل زندگی گزار رہا ہے۔ اور کسی بھی موقعے پر آپ کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے۔
اور اگر آپ اور آپ کے شریک حیات کے درمیان ان 7 باتوں کو لے کر کبھی جھگڑا نہیں ہوا، یا کبھی سنجیدگی سے اعتراض نہیں کیا گیا اور آپ کا مشترکہ فیملی ٹائم ایک خوشگوار وقت گزاری بن جاتا ہے تو آپ کا یہ رشتہ مضبوط ہے اور اس کو جدید زمانے کی ہواؤں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
محمود فیاضمحمود فیاض ہمہ جہت لکھاری ہیں۔ سماجی و سیاسی موضوعات پر پچھلے 10سال سے لکھ رہے ہیں۔ ایک کتاب "مرد و عورت" کے مصنف ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا پر ان کی 12ہزار کے قریب تحاریر موجود ہیں۔ سماجی تعلقات اور ازدواجیات پر انکی بیشمار تحریریں وائرل ہوتی رہتی ہیں۔
بل گیٹس ثانیہ مرزا جسٹن ٹروڈو جیف بزوس شادی طلاق شعیب ملک علیحدگی کرشمہ کپور ہریتھک روشن