امام ابو یوسف بن ابراہیم الانصاریؒ
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دنیائے فانی سے پردہ فرما( 11ہجری ، 632 عیسوی) لینے کے ٹھیک 102 سال بعد 113 ہجری ،731 میں عراق کے شہر کوفہ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونےوالے یوسف بن ابراہیم الانصاری ایک ذہین و فطین اور نابغہ روزگار شخصیت کے حامل تھے ۔ایسا ہونا ان کی والدہ محترمہ کی محنت اور پیہم جستجو کا نتیجہ تھا کہ مستقبل میں ایک عظیم فقیہ ہی نہیں قاضی القضاء کے منصب جلیلہ پر بھی متمکن ہوئے اور امام ابو یوسف کے نام سے مصحف تاریخ میں سنہری حروف میں ان کا ذکر ملتا ہے ۔
امام ابو یوسف چھوٹی عمر میں قرآن اور ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امام ابو حنیفہؒ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے ، یوں ان کے دروس کو بہت توجہ سے سنا اور انہیں حرزجاں بنایا۔ اللہ نےکمال ذہانت عطا فرمائی تھی جس کےسبب پلک جھپکتے میں بات سمجھ لیتے اور جو چیز سمجھ نہ آتی اس کے پوچھنے میں کبھی عار محسوس نہ فرمائی اور پورے ذوق و شوق سے اسباق کو سنتے ۔ان کی زندگی کا سب سے بڑا حاصل یہ تھا کہ ان کی ذہانت کا اندازہ فرماتے ہوئے امام ابو حنیفہؒ نے انہیں اپنی کفالت میں لے لیا اس طرح ابو یوسف کے لئے زندگی کی راہیں آسان ہو گئیں۔
امام ابو یوسف کے امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ اسی قرب خاص کا شاخسانہ تھا کہ انہوں نے فقہ حنفی کی تدوین و ترویج میں باکمال کردار ادا کیاکہ اپنے مربی کی تعلیمات کو چہار دانگ پھیلا دیا۔یہ امام ابو یوسف کی شب و روز کی محنت تھی کہ فقہ حنفی آج بھی عالم اسلام کی محبوب فقہ ہے ۔
امام ابو یوسف نے فقط اپنے عظیم استاذ کی فقہ کی تدوین کا کام ہی سرانجام نہیں دیا بلکہ دنیا پر یہ ثابت کیا کہ وہ خود بھی اپنے عہد کے فقہا و محدثین میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ایک ایسا محدث جس نے اپنے تلامذہ کو فقہ کی باریکیوں سے حد سے زیادہ روشناس کرایا۔ان کے عجوبہ روز گار تلامذہ میں ایک نام امام محمد بن حسن شیبانی کا بھی ہے جنہوں نے اپنے استاذ امام ابویوسف ہی کی طرح امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کو عروج تک پہنچانے میں کمال تگ ودوکی۔
امام ابویوسف کو خلیفہ ہارون الرشید نے قاضی القضا کے منصب کی پیشکش کی تو انہوں نے اپنےمربی امام ابوحنیفہ کی طرح اس پیشکش کو مسترد کرنےکی بجائے قبول کرلیا۔جس کی وجہ یہ تھی کہ امام ابوحنیفہؒ حکمرانوں کے دبائو سے آزاد رہ کر علمی و فقہی امور پر کام کرنے کے حق میں تھے اور حکومتی ایوانوں سے دور رہ کر دین کی خدمت کرنے کو زیادہ مامون گردانتے تھے تاکہ ان کے فیصلوں پر حکمرانوں کی چھاپ نہ ہو ۔وہ جو فتاوے جاری کریں ان میں خلیفہ وقت کا عمل دخل نہ ہو۔وہ اپنے ہر عمل کو سیاسی آلائشوں سے پاک رکھنے کے قائل تھے جبکہ امام ابو یوسف ریاست کے سیاسی امور میں عملی طور پر حصہ لینے کے تصور پر یقین رکھتے تھے کہ اس طرح وہ اپنے اجتہادی علم کے ذریعے خلافت و مملکت کے عدالتی نظام میں بہتر اصلاحات کر سکیں اور عدل و انصاف کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے حکومتی اقدام کا حصہ بن کر اپنے علمی کردار کا عملی مظاہرہ کریں، جبکہ امام ابو حنیفہؒ نے خلیفہ منصور کے دورمیں قاضی بننے سے اس لئے انکار کیا کہ منصور فیصلے کروانے میں قاضی پر دبائو ڈالنے میں سختی کرتا تھا۔خلیفہ منصور کا یہ معمول تھا کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے علماء فقہاء اور قاضی القضاء کو استعمال کرتا تھا اور امام ابوحنیفہؒ کا یہ مزاج نہیں تھا کہ ایسے خلیفہ کے زیر نگیں کام کرتے ۔جبکہ امام ابو یوسف کے دورمیں خلافت کی باگ ڈور ہارون الرشید کے ہاتھ میں تھی جو آزاد عدل کو پسند کرتا تھا اور علمی و ادبی شخصیات کی حد سے بڑھ کر عزت کرتا تھا ۔یوں امام ابو یوسف کو آزاد ماحول میں فیصلے کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ امام ابو یوسف نے قاضی القضاء بن کر حق سچ پر مشتمل فیصلے کرنے کی روش اپنائی ،جس کی وجہ سے معاشرتی عدل و انصاف کو پنپنے کی راہ ہموار ہوئی۔
امام ابو یوسف کی مشہور تصنیف ’’کتاب الخراج‘‘ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ وہ حکومت کے مالیاتی اور عدل و انصاف سے متعلق قواعد و ضوابط کو بہتر طور پر منظم کر نے کے لئے کوشاں رہے۔ دراصل یہ درس بھی ابو یوسف کو اپنے عظیم استاذ امام ابوحنیفہؒ سے ملا کہ وہ اپنے تلامذہ کو فقہ و اجتہاد کے بارے آزادانہ رائے رکھنے کا حق تفویض فرماتے تھے اور ان پر کبھی اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔
امام ابو یوسف کے اجتہادی فیصلوں نے فقہ اسلامی کی تدوین کی عملی راہیں متعین کیں ۔ امام ابو یوسف کی کتب تاریخ اسلامی کے ابتدائی دور کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور قانونی مسائل کے لئے بہت سودمند ثابت ہوئیں بلکہ آج بھی اسلامی ریاستی ڈھانچے کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے اپنے اندر بھرپور سکت رکھتی ہیں ۔اپنے استاذ امام ابو حنیفہ ؒ سے فلسفہ اور سیاست میں اختلاف رکھنے کے باوجود ان کی فکر کے فروغ میں انتہائی اہم اور لازوال کردار ادا کیا۔امام ابو یوسف 798 میں فوت ہوئے اور بغداد میں آسودہ خاک ہوئے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: امام ابو یوسف کے کرتا تھا وہ اپنے کہ امام کے لئے تھا کہ
پڑھیں:
سوناکشی سنہا نے اپنے مسلم شوہر کی تضحیک کرنے والے کا دماغ درست کردیا
سوناکشی سنہا کی اپنے مسلمان شوہر ظہیر اقبال سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور وہ سوشل میڈیا پر اپنے شوہر کے بارے میں کوئی منفی کمنٹ برداشت نہیں کرتیں۔
بھارتی فلم انڈسٹری کے سپر اسٹار شتروگھن سنہا کی بیٹی سوناکشی سنہا نے ایک مسلمان لڑکے سے محبت کی شادی کی ہے لیکن یہ انتہاپسند ہندوؤں کو بالکل پسند نہ آیا۔
بھارتی انتہاپسند اپنے نفرت آمیز جذبات کا اظہار سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں اور شادی کو کافی عرصہ گزرنے جانے کے باوجود یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
حال ہی میں سوناکشی سنہا نے اپنے شوہر ظہیر اقبال کے ساتھ تصویر شیئر کی جس پر اپنی فطرت سے مجبور انتہاپسندوں نے منفی کمنٹس کیے۔
ایسے ہی ایک سنی کمار نامی صارف نے پوسٹ پر لکھا کہ امید نہیں تھی اس پاگل شخص سے شادی کرو گی۔
سوناکشی سنہا کو اپنے شوہر ظہیر اقبال کی تضحیک ایک آنکھ نہ بھائی اور انھوں نے اس صارف کو منہ توڑ جواب دیا۔
سوناکشی سنہا نے کہا کہ "ابے تو ہے کون؟ جو تیری امید کے مطابق اپنی زندگی گزاروں؟ بے روزگار، چل بھاگ یہاں سے۔
خیال رہے کہ یہ پہلی بار نہیں جب سوناکشی نے کسی انتہاپسند کو ظہیر اقبال سے متعلق منفی کمنٹ پر کرارا جواب دیا ہو۔
اس سے قبل بھی سوناکشی سنہا نے بارہا یہ بات واضح کرچکی ہیں کہ لوگوں کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور دوسروں کی نجی زندگی میں جھانکنا بند کردینا چاہیے۔