Daily Ausaf:
2025-04-15@06:30:04 GMT

انسانی حقوق کا مغربی فلسفہ اور امتِ مسلمہ

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
مگر یہ بات تاریخی طور پر طے شدہ ہے کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات اور عام شہریوں کے حقوق اور ان کی بنیادی ضروریات کی طرف مغرب کے معاشرتی انقلاب سے صدیوں پہلے جناب نبی اکرمؐ نے حقوق کی بات کی اور عورتوں، غلاموں، بچوں اور ماتحتوں کے حقوق کی نشاندہی کر کے ان کی ادائیگی اور بحالی کو اسلام کے عادلانہ نظام کا حصہ بنا دیا۔
انسانی اور شہری حقوق کے حوالے سے مغرب کے اس یکطرفہ دعوے کا چند اور حوالوں سے بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ مثلاً:حکومت کا قیام جبر کی بجائے عوام کی رائے پر ہو، اس کا عملی نمونہ سب سے پہلے جناب رسول اکرمؐ نے پیش کیا کہ اپنا جانشین نامزد کرنے کی بجائے امت کی اجتماعی رائے پر اعتماد کیا اور آپؐ کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ نے باہمی بحث و مباحثہ کے ذریعے حضرت ابوبکرؓ کو خلیفہ اول کے طور پر منتخب کیا۔
حاکم وقت کا رائے عامہ کے سامنے جوابدہ ہونے کا تصور بھی اسلام نے دیا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبے میں عوام کو یہ حق دینے کا اعلان کیا کہ اگر میں صحیح طریقے سے حکومت کروں تو میرا ساتھ دو اور اگر غلط رخ پر چلنے لگوں تو مجھے پکڑ کر سیدھا کر دو۔ چنانچہ دنیا نے یہ مناظر دیکھے کہ حضرت عمرؓ جیسے با رعب حکمران کو بھی ایک عام آدمی خطبہ جمعہ کے دوران ٹوک دیا کرتا تھا۔
شخصی یا گروہی حکومت کی بجائے دلیل اور قانون کی حکومت کا تصور بھی ہمیں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اس اعلان سے ملتا ہے کہ میں قرآن و سنت کے مطابق حکومت کروں گا، اگر میں اس دستور و قانون کا پابند رہوں تو تم پر میری اطاعت واجب ہے، اور اگر میں قرآن و سنت کی خلاف ورزی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں ہے۔ شخصی حکمرانی کی بجائے قانون اور دستور کی حکمرانی کے لیے حضرت ابوبکرؓ کا یہ تاریخی اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام دلیل اور قانون کی حکمرانی کا قائل ہے، اور مغرب میں دستوری حکومتوں کا آغاز ہونے سے ایک ہزار قبل دنیا نے اس کا عملی مشاہدہ کر لیا تھا۔
قانون کے سامنے سب کے برابر ہونے اور حکمرانوں کے عدالتی نظام کا پابند ہونے کی بات بڑے فخر کے ساتھ کی جاتی ہے، مگر یہ خوشگوار منظر بھی تاریخ کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال قبل دیکھ چکی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ امیر المومنین ہونے کے باوجود قاضی شریع کی عدالت میں ایک فریق کے طور پر پیش ہوئے اور مقدمہ گواہی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ہار گئے۔
حکمرانوں اور عوام کے مل کر رہنے اور ان کے معیار زندگی میں یکسانیت کی بات بھی کی جاتی ہے۔ جبکہ اس سلسلہ میں بھی اسلامی خلافت کو سبقت حاصل ہے کہ خلیفہ منتخب ہونے کے بعدجب بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ طے پایا کہ مدینہ منورہ کے ایک متوسط شہری کے معیار زندگی کو سامنے رکھ کر خلیفہ کا وظیفہ مقرر کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے پوری خلافت کے دوران اسی وظیفے پر گزارا کیا۔ جبکہ حضرت عمرؓ نے خلافت سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ ان کا کوئی افسر باریک لباس نہیں پہنے گا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا، ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا، اور گھر کے باہر ڈیوڑھی نہیں بنائے گا۔ یہ باتیں اس دور میں معاشرتی امتیاز اور اسٹیٹس سمبل سمجھی جاتی تھیں، چنانچہ حضرت عمرؓ نے یہ اعلان کر کے اصول بتا دیا کہ ایک اسلامی ریاست کے حکمران عام شہریوں سے امتیاز رکھنے والا معیار زندگی اختیار نہیں کریں گے اور عام لوگوں جیسی زندگی گزاریں گے۔
یہ چند مثالیں اس لیے ہم نے عرض کی ہیں کہ مغرب کا یہ کہنا کہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تصور کا آغاز وہاں سے ہوا ہے، اسے مغربی ممالک کی حد تک تو تسلیم کیا جا سکتا ہے، لیکن دنیا کی باقی اقوام بالخصوص اسلام پر اس پس منظر کا اطلاق کرنا اور تاریک صدیوں کے ردعمل میں تشکیل پانے والے مغربی فلسفے کو عالم اسلام پر مسلط کرنے کی مہم سراسر نا انصافی ہے۔ اس لیے کہ اسلام اس سے بہت پہلے سے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بات کر رہا ہے، حتٰی کہ امت مسلمہ کی تاریخ میں جن حکمرانوں کو خلافت کی بجائے ملوکیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان کے ادوار حکومت میں بھی عوام کو ان کے حقوق عام طور پر حاصل رہے ہیں، بالخصوص عدلیہ کا آزادانہ کردار تو بدنام ترین مسلم حکمرانوں کے دور میں بھی پورے وقار اور اعتماد کے ساتھ جاری رہا ہے۔ جبکہ انقلاب فرانس سے پہلے مغربی معاشروں میں عورتوں، مزدوروں، کسانوں اور عام شہریوں کو جس اندوہناک صورتحال کا صدیوں تک سامنا رہا ہے وہ صورتحال مسلم خلافت کے کسی دور میں بھی اس درجے پر نظر نہیں آتی۔
پھر یہ امتیاز بھی اسلامی تاریخ کا حصہ ہے کہ ملت اسلامیہ میں مذہبی قیادت کا ادارہ بحیثیت ادارہ ہمیشہ عوام کے ساتھ رہا ہے اور ظلم و جبر کے خلاف مسلم علماء کی قربانیاں تاریخ کے ایک اہم باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے مغرب کی تاریک صدیوں کے حوالے سے مغرب کے پس منظر اور ردعمل کو مغرب کی حد تک تسلیم کرتے ہوئے ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مغرب کے پس منظر کو عالم اسلام کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے اور اس کا ردعمل مسلم امہ پر مسلط کرنے کی روش پر نظرثانی کی جائے، کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے مغرب کے انقلاب سے بارہ سو سال قبل نسل انسانی کو حقوق، انصاف اور علم کی شاہراہ پر گامزن کر دیا تھا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کی بجائے مغرب کے کے ساتھ میں بھی بھی اس کی بات رہا ہے

پڑھیں:

امت مسلمہ کو حکمرانوں کی پروا کیے بنا اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، مولانا فضل الرحمان

کراچی:

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مسلمان حکمرانوں کو فلسطین کے حوالے سے غیرت سے عاری قرار دیتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ کو حکمرانوں کی پروا کیے بنا اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔

کراچی میں اسرائیل مردہ باد ملین مارچ سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام نے عظیم الشان پروگرام منعقد کرکے عالم اسلام کو حوصلہ دیا اور فلسطین اور اہل غزہ کو مدد کا پیغام دیا ہے۔

فلسطین کے عوام کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ مظالم کے وقت میں آپ تنہا نہیں خون کے آخری قطرے تک آپ کے شانہ بشانہ رہیں گے، یہ اجتماع اسلامی حکمرانوں کو حمیت کا پیغام دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایک ملین عوام نے جمع ہو کر آپ کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے، عوام احساس دلانا چاہتے ہیں آپ اپنا فرض پورا کریں، غزہ کے 60ہزار افراد کی شہادت بھی حکمرانوں کو نہیں جگا سکی، فلسطین میں 20 ہزار بچوں اور 20 ہزار خواتین کی شہادت حکمرانوں کو نہیں جگا سکی، تو آپ کا یہ اجتماع بھی انہیں نہیں جگا سکے گا، یہ حکمران غیرت سے عار ہوچکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ امت مسلمہ کو حکمرانوں کی پروا کیے بنا اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، آپ نے لبیک کہہ کر کراچی میں تاریخ رقم کر دی ہے، عوام نے اہل فلسطین کو حوصلہ دیا ہے، خون کے آخری قطرے تک فلسطینی عوام کے ساتھ رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف سیلاب بن کر کھڑا ہونا ہوگا، اسرائیل کوئی ملک نہیں اس نے سرزمین فلسطین پر قبضہ کیا ہے، اسرائیل ایک خنجر ہے اس کی کوئی قانونی، سیاسی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور یورپ نے ظالم کے حق میں اپنا مؤقف لیا ہوا ہے، اسرائیل نے عرب سرزمین پر قبضہ کیا ہے، اسرائیل عربوں کی پیٹھ میں ایک خنجر ہے جو گھونپا گیا ہے،77 سال ہوگئے عالمی قوتیں اسرائیل کو ایک ایسے عمل میں تائید دے رہے ہیں، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ ایک صدی پہلے تک کرہ ارض پر اسرائیل نامی کسی مملکت کا وجود نہیں تھا، پروپیگنڈا کیاجاتا ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی زمین یہودیوں کو فروخت کی۔

انہوں نے کہا کہ 1917 میں صرف 2 فیصد علاقے پر یہودی آباد تھے، پھر کیسے کہا جاتا ہے کہ فلسطین نے اپنی زمین فروخت کی، 1948 میں صرف 6 فیصد حصے پر یہودی فلسطین میں رہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی عادت رہی ہےکہ وہ خطے میں تنازع چھوڑ کر جاتا ہے، کشمیر بھی اس کی مثال ہے، جیسے برصغیر میں کشمیر کی صورت تنازع چھوڑا ایسا ہی تنازع عرب دنیا میں اسرائیل کی صورت میں چھوڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : جماعت اسلامی کا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلیے 22 اپریل کو ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان

اسرائیل مردہ باد ملین مارچ سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے علمبردار افغانستان اور سعودی عرب میں سزائے موت پر احتجاج کرتے ہیں لیکن مسئلہ فلسطین پر خاموش ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں 60ہزار افراد کو لقمہ اجل بنا کر بھی یورپ کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی، یورپ اور امریکا کی نظر میں مسلمانوں کا خون سستا کیوں ہے، دنیا کروٹ بدل رہی ہے جلد دنیا کی معاشی قوت ایشیا کے ہاتھ میں آئے گی، اب بہت ہوگیا امریکا نے مسلمانوں کا بہت خون بہا لیا، اگر افغانستان سے سبق حاصل نہ کیا تو جلد امریکا پاش پاش ہوجائے گا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایشیا کی معیشت اور وسائل پر یورپ نے قبضہ کیا لیکن اب حالات بدل رہے ہیں، معیشت ایشیا کے ہاتھ میں آئے گی، امریکا نے عرب دنیا میں مسلمان بھائیوں کا بہت خون کرلیا، امریکا اپنی معاشی اور دفاعی قوت کھو بیٹھے گا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل بنا تو قائداعظم نے اسے برطانیہ کا ناجائز بچہ کہا، اسرائیل کے پہلے صدر نے خارجہ پالیسی بیان میں کہا تھا کہ ایک نوزائیدہ اسلامی ریاست کا خاتمہ ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی اسرائیل کوتسلیم کرنے کا سوچ رہا ہے تو ذہن سے نکال دے، اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہمیں سب سے بڑا خطرہ پاکستان سے ہے، پاکستانیوں کی تکبیر کے نعرے سے صہیونی قوتیں لرز رہی ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کچھ لابیز کو بنانا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خواب پورا نہیں ہوگا، اسرائیل سے معاشی تعلقات قائم کرنا کسی کے لیے آسان نہیں ہوگا۔

 

انہوں نے کہا کہ جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے فضا بنارہے تھے ہم نے ان کا نظریہ رد کردیا، کوئی قادیانیوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرواسکتا، بیوروکریسی اسٹیبلشمنٹ سیاست دان جاگیردار صنعت کار ہوں یا کوئی مفاد پرست طبقہ کسی کے کہنے پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ ایوان فروخت ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے لیے یہ مسئلہ نہیں ہے، اب ایوان نہیں میدان ہمارے ہاتھ میں ہے، مقتدر قوتوں اور سول بیوروکریسی، جاگیر دار اور صنعت کار کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسرائیل، امریکا اور یورپ کی غلامی سے کام نہیں چلےگا اور سب کو عوام کے جذبات کا احترام کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ جو کچھ موم بتیاں ہمارے خلاف بات کر رہی ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، دھاندلی کرکے ایوان سے ہمیں باہر کیا جاسکتا ہے لیکن دھاندلی کے ذریعے ہمارے اجتماعات نہیں روکے جاسکتے۔

مولانا فضل الرحمان نے 27 اپریل کو لاہور میں فلسطین مارچ کا اعلان کر دیا۔

https://www.facebook.com/expressnewspk/videos/673891478837562

 

متعلقہ مضامین

  • ترکیہ: کردستان ورکرز پارٹی کے یکطرفہ اعلان جنگ بندی کا خیرمقدم
  • آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا مغربی فلسفہ
  • امت مسلمہ کو حکمرانوں کی پروا کیے بنا اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • امت مسلمہ حکمرانوں کی پرواہ کیے بغیر اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، مولانا فضل الرحمان
  • سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
  • امت میں تفرقہ پھیلانے کی سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا، علامہ محمد حسین اکبر
  • عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے
  • طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
  • امریکہ کی جانب سے مغرب سے شمال یمن تک نئے فضائی حملے
  • فلسفہ بیگانگی اور مزدور کا استحصال