اے ابن آدم خود غرض نے ہمارے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے تمام ریاستی ستونوں کو بے غرض ہونا چاہیے مگر تمہارے ملک کی سیاست خود غرضی سے ہی شروع ہوتی اقتدار ملنے سے پہلے قوم سے بڑے بڑے وعدے کرنے والے حکمران اقتدار ملنے ہی خود غرضی کے عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ سندھ خاص طور پر کراچی پیپلز پارٹی کی خود غرضی کی نذرہوچکا ہے بقول نواب منور حسین غوری ایک بڑے لکھاری ہیں وہ کیا خوب لکھتے ہیں کہ خود غرض، انسان کے دل و دماغ پر ایسی دھند طاری کرتی ہے جو اس کی بصیرت کو ماند کرکے اسے محض اپنے محدود مفادات تک مرکوز کردیتی ہے۔ یہ ایک ایسی کینسر نما بیماری ہے جو انسان کی فطری نزاکت اور شرافت کو کھا کر اسے ایک بے حس اور خود پسند فرد بنادیتی ہے۔ خود غرض انسان اپنی ذات میں اتنا مگن ہوجاتا ہے کہ اسے دوسروں کے احساسات اور ضروریات سے کوئی غرض نہیں رہتی۔ تو وہ اپنے دل کو پتھر کی مانند سخت بنالیتا ہے اس کی نظر میں دوسرے انسان محض اس کے خود غرضانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے موجود ہیں۔ یہی خود غرض انسان کو اس حد تک بے رحم بنادیتی ہے کہ وہ اپنے خونی رشتوں کو نظر انداز کرنے لگتا ہے۔ اس کے لیے ذمے داری اور محبتیں محض وقتی سودے بازی بن کر رہ جاتی ہے۔ جن کی قدر اس وقت تک ہے جب تک ان سے ذاتی مفاد حاصل ہوسکے۔ اس کی نظر میں دوسروں کے جذبات اور قربانیاں ایک بھاری بوجھ کی مانند ہیں۔ جنہیں وہ صرف اس وقت تک برداشت کرتا ہے جب تک ان سے کوئی فائدہ ہوتا رہے۔ لالچ اور حسد کے احساسات اس کے دل و دماغ پر اس قدر حاوی ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنی اصل شناخت بھول بیٹھتا ہے۔ ایسے لوگ وہ ہی پسند کرتے ہیں جو ان کی جی حضوری کریں اور ان کے دل میں کسی دوسرے انسان کی حقیقی قدر و منزلت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ دولت کا لالچ اس انسان کو اس قدر اندھا کردیتا ہے کہ اسے اپنے عزیز و اقارب کی خوشیاں تک نظر نہیں آتیں وہ ان کی خوشیوں کی قیمت پھر اپنی ذاتی جاہ و حشمت میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی انسان اپنے قریب ترین افراد کے دلوں کو چکنا چور کرتا ہے، صرف اس لیے کہ وہ دولت کے جال میں پھنس کر اپنے دیگر تمام رشتے داروں کو ناپسند سمجھنے لگتا ہے۔ ایسے افراد کی زندگی میں جو حسد اور لالچ کے سائے میں ڈوبے ہوتے ہیں، نہ خوشی کا کوئی تصور ہوتا ہے اور نہ ہی دوسروں کی خوشیوں کا خیر مقدم کرپاتے ہیں۔
وہ اپنی مصنوعی مسکراہٹ کے پیچھے کینہ و بغض کے درد کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن ایک حقیقت ہے کہ ان کے پاس جو کچھ موجود ہوتا ہے آہستہ آہستہ زائل ہونے لگتا ہے۔ دولت، جاہ و مقام کی لذتیں وقتی اور عارضی ہوتی ہیں جو چیزیں وہ ہمیشہ کے لیے پانے کا خواب دیکھتے ہیں وہ ان سے دور ہوتی جاتی ہے۔ اگر یہی لوگ اپنے مال و دولت میں سے کچھ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا شروع کردیں، تو ان کے دلوں کی سختی نرم پڑ سکتی ہے اور ان پر وہ رحم و کرم کی صفات بیدار ہوسکتی ہیں جو انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ جب یہ لوگ زکوٰۃ، صدقات اور مدد کی صورت میں اپنی دولت کو دوسروں کی خوشیوں میں شامل کریں گے تو ان کا دل نرم ہوگا بلکہ یہ معاشرے میں ایک خوشحال ماحول کے قیام میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔ ابن آدم یاد رکھنا انسانیت کا اصل پیمانہ یہ نہیں کہ آپ کتنی دولت یا جاہ و حشمت رکھتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ نے دوسرے انسانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ جب انسان اپنے دل میں خلوص، محبت اور ہمدردی کو جگہ دے گا تو وہ نہ صرف خود خوشحال ہوگا بلکہ پورے معاشرے کو خوشحال بنانے کی طاقت بھی حاصل کرے گا۔ یہ تو تھا ایک فلسفہ ابن آدم مگر کوئی سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ ہے جانتے تو سب ہیں اللہ کو بھی مانتے ہیں مگر آج اللہ کی ماننے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ اللہ کہتا ہے مجھ سے تجارت کرو مگر ہم کرپشن کرنا شروع کردیتے ہیں، اُوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن اور خود غرضی کا بازار گرم ہے آج ہی کی خبروں کو لے لیں قومی اسمبلی اراکین کی تنخواہ میں 200 فیصد تک اضافے کی تجویز یہ خالی تجویز نہیں بلکہ چند روز میں یہ بل بھاری اکثریت سے منظور ہوجائے گا اور مقروض ملک اور مقروض ہوگا اور یہ قرض عوام کو ہی ادا کرنا ہوگا۔ دوسری ایک اہم خبر FBR کے فیلڈ افسران کے لیے 6 ارب روپے کی 1010 گاڑیاں خریدنے کافیصلہ کیا گیا ہے مجھے تو ملک کے اداروں پر حیرت ہوتی ہے کہ ان کو FBR میں برسوں سے جاری کرپشن کیوں نظر نہیں آتا، وہاں ایسا کون سا افسر ہے جس کے پاس نئی ماڈل کی گاڑی نہ ہو ایک سے ایک بڑا فرعون آپ کو FBR کے محکمے میں نظر آئے گا اس ادارے کی تنخواہیں اور مراعات بے حد شاندار ہیں مگر حلال کو تو لوگوں نے اپنی زندگیوں سے ختم کردیا ہے بات بڑی سیدھی سی ہے کہ FBR کا کام ہے کیا ؟جی عوام سے ٹیکسوں کو وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرانا جو افسر اپنا ریکوری کا ٹارگٹ پورا نہیں کرے اس کی چھٹی کردینی چاہیے، سرمایہ دارانہ نظام میں تو یہ ہی ہوتا ہے ہمارے ملک میں بھی سرمایہ دارانہ نظام چلتا ہے مگر افسوس کے سفارشی کلچر نے جہاں ملک کو تباہ کیا ہے وہاں ادارے بھی زوال پذیر ہیں۔ میںہمیشہ سے ایک بات کہتا ہوں جو جس کا کام ہے وہ ایمانداری سے سرانجام دے۔
ایک اور خبر ضلع جیکب آباد میں 20 لاکھ روپے ماہانہ رشوت دے کر 40 ڈاکٹرز کئی سالوں سے کام پر نہیں آرہے ہیں۔ جیکب آباد میں پولیو کا پانچواں کیس جس یوسی سے رپورٹ ہوا اس کے رورل ہیلتھ سینٹر کا 19 ویں گریڈ کا ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ 2021ء سے غیر حاضر ہے مذکورہ سینٹر کا دیگر عملہ بھی غیر حاضر بتایا جاتا ہے ایک طرف تو حکومت اربوں روپے پولیو کے خاتمے کے لیے خرچ کرتی ہے۔ دوسری طرف سیاسی سفارشی کلچر اداروں کو تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے، اس ڈاکٹر اور عملے کو تو اس خبر پر فوری فارغ کردیا جانا چاہیے مگر ایسا ہوگا نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں انصاف ہوتا کب ہے، پولیو ورکرز کو 10 دن محنت کے عوض 12 ہزار روپے دیے جاتے ہیں فیلڈ میں کام کرنے والی خواتین ہی اصل کام سرانجام دیتی ہیں، ایک ایک گھر پر جاتی ہیں یہ معاشرتی ناہمواری نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟ ان کو کم از کم 37 ہزار ملنے چاہییں، ان کے پیچھے بے شمار مراعات یافتہ کلچر آگیا ہے جس NGO کو کراچی میں یہ پروجیکٹ دیا گیا ہے اس کے پیچھے بھی ایک سفارش ہے موجودہ حکومت نے سرکاری خرچے کم کرنے کا صرف اعلان ہی کیا ہے اس پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ آپ ہزاروں سرکاری ملازمین کو نکالنے کے بجائے کرپٹ سرکاری ملازمین کو فارغ کریں دوسری طرف اربوں روپے کے غیر ضروری منصوبے شروع کردیے جاتے ہیں تا کہ تعمیراتی کاموں میں کرپشن کی جائے، من پسند لوگوں کو نوازہ جائے اور ان کے ذریعے اپنا حصہ بھی وصول کیا جائے، پہلے ایک سڑک بنائی جاتی ہے پھر اکھاڑ کر دوبارہ بنائی جاتی ہے، پرانے نالے توڑ دیتے ہیں پھر اس کی جگہ نئے نالے بنائے جاتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے کہ جس ٹھیکے دار کو سڑک بنانے کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔ اس سے باقاعدہ حلف نامہ لیا جائے کہ 10 سال تک سڑک نہیں ٹوٹے گی اگر ٹوٹ گئی تو ٹھیکے دار بغیر کسی اضافی رقم کے سڑک کو دوبارہ تعمیر کرنے کا پابند ہوگا۔ ابن آدم کہتا ہے کہ ریاست کے مالک عوام ہیں مگر ہمارے ملک میں عوام کو کیڑے مکوڑے تصور کیا جاتا ہے۔ میں سوشل میڈیا پر ایک خبر دیکھ رہا تھا جسٹس (ر) فقیر محمد کھوکھر لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ مقرر کردیے گئے، ان کی عمر 80 سال ہے وہ اس وقت سروسز اسپتال لاہور میں زیر علاج ہیں، اللہ اُن کو صحت دے، یہ اُن کے ساتھ زیادتی ہے، لاپتہ افراد کا کیس ریاست کا اہم ترین کیس ہے اس کو تو سپریم کورٹ میں ہنگامی بنیادپر چلنا چاہیے۔ دعا ہے کہ میرا وطن اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے حکمران، بیوروکریٹس، اسٹیبلشمنٹ مل کر قوم کو قرضوں سے نجات دلائیں، سیاست کو ریاستی اداروں سے دور رکھا جائے۔ سفارشی کلچر کو ختم کیا جائے، نوجوانوں پر توجہ دی جائے ،کوٹا سسٹم کو ختم کیا جائے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جاتے ہیں جاتی ہے ہے کہ ا کے لیے
پڑھیں:
چھ ہاتھوں والا بڑا بُت مکھی بھی نہیں پکڑ سکتا!
کونسٹین ٹائن برونزٹ (Konstantin Bronzit) چھوٹی اینی میشن فلموں کے ممتاز روسی ڈائرےکٹر ہےں۔ اُن کی مشہور فلموں مےں or The Round-About Merry-Go-Round، At the Ends of the Earth، Alosha اور Lavatory Lovestory شامل ہیں۔ اپنی پاپولر تخلےقات کے سلسلے مےں وہ تقریباً 70 ایوارڈز بھی حاصل کرچکے ہےں۔ اُن کی فلم Lavatory Lovestory کو اعلیٰ ترےن Best Scenario Award ملا اور اسی فلم کو جےوری نے 2009ءکی مختصر اینی میٹڈ فلموں کی کیٹگری میں ”اکیڈمی اےوارڈ“ کے لیے نامزد بھی کےا۔ ان کی اےک اور 4منٹ 17سےکنڈ کی اینی میٹڈ فلم ”The god“ ریلیز ہوئی۔ اس فلم مےں دےوتا شےوا سے ملتا جلتا اےک مکےنےکل بت دکھاےا گےا ہے جس کے چھ ہاتھ ہےں۔ وہ اپنی قوت اور توازن کے اظہار کے لیے اےک ٹانگ پر کھڑا ہے۔ دوسری ٹانگ اُس نے L کی صورت مےں موڑ کر کھڑی ٹانگ کی ران پر ٹکائی ہوئی ہے۔ اس کے تےن ہاتھ دائےں اور تےن ہاتھ بائےں مضبوط مشےنوں سے جڑے ہوئے ہےں جو طاقت کی علامت ہےں۔ وہ بہت اونچی چٹان پر تانبے کے ایک بڑے سے گول دائرے مےں کھڑا ہے جہاں سے پوری دنےا اس کے قدموں مےں نظر آتی ہے۔ اُسے بڑی محنت اور دلجمعی سے بناےا گےا ہے۔ اُس کے جاہ و جلال اور رعب سے پورا ماحول متاثر ہے۔ اس کی حکومت کی خاموشی سے فرمانبرداری کے اصول کو توڑتے ہوئے اچانک اےک مکھی کی بھن بھن سنائی دےتی ہے۔ مکھی اڑتی ہوئی اس کے دائےں گال پر آکر بےٹھتی ہے، ناک تک پہنچتی ہے، دوبارہ گال پر آتی ہے، پھر اڑ کر اس کے دائےں ہاتھوں مےں سے اےک پر جاتی ہے۔ ےہ بت اب تک مکھی کی حرکات سے بے خبر ہوتا ہے ےا اُسے غےراہم جان کر نظرانداز کرتا ہے۔ مکھی ہاتھ سے اڑ کر جب اس کی کہنی پر بےٹھتی ہے تو وہ ہلکی سی جھرجھری لےتا ہے جس سے متعلقہ بازو سے کچھ گرد اڑتی دکھائی دےتی ہے۔ اس طرح وہ پہلی مرتبہ مکھی کا نوٹس لےتا محسوس ہوتا ہے۔ مکھی بازو سے اڑ کر دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی پر جا بےٹھتی ہے۔ وہ اپنی مشےنی انگلی کو آہستہ آہستہ ہلاتا ہے۔ مکھی شہادت کی انگلی کو چھوڑ کر ران پر ٹکے اس کے پاﺅں کے تلوے پر جا بےٹھتی ہے۔ اب وہ
اپنے چہرے کو دائےں اور پھر بائےں موڑتا ہے جس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ مکھی اڑانے جےسے معمولی کام کے لیے اردگرد سے کسی کو بلانا چاہتا ہو لےکن ماےوس ہوکر واپس اپنی پہلی والی پوزےشن پر آجاتا ہے۔ مکھی چھوٹی سی فلائٹ لےتی ہے اور دوبارہ اسی تلوے پر آجمتی ہے۔ اب کے مکھی کو اےک اور مشغلہ مل جاتا ہے۔ وہ تلوے پر چہل قدمی شروع کردےتی ہے۔ تلوے کی جلد پر مکھی کے چلنے سے بت کے جسم مےں جھرجھرےاں شروع ہو جاتی ہےں۔ اس کے ساتھ ہی چھ ہاتھوں والے بت کے سر پر روشنی کی چمک دکھائی دےتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بت مکھی کے معاملے کو اب سنجےدگی سے لےنے لگا ہے۔ جس پاﺅں کے تلوے پر مکھی بےٹھی ہوتی ہے وہ اس پاﺅں کی انگلےوں کو دو تےن مرتبہ اوپر نےچے کرتا ہے۔ مکھی نہےں اڑتی۔ تب وہ پاﺅں کو زور زور سے جھٹکے دےتا ہے جس سے مکھی اڑ کر اس کے اےک اےسے ہاتھ کی ہتھےلی پر جا بےٹھتی ہے جو تمام ہاتھوں مےں مرکزی حےثےت رکھتا ہے۔ اس ہاتھ کی ہتھیلی پر اےک آنکھ ہوتی ہے۔ مکھی اس آنکھ کی کالی پُتلی پر جا چمٹتی ہے۔ بت پرےشانی اور جھنجھلاہٹ کے عالم مےں اپنے باقی پانچوں ہاتھ اُس ہاتھ کی ہتھےلی پر اکٹھے دے مارتا ہے۔ بت مکھی کو پکڑنے ےا مارنے کی اپنی اس کوشش کا نتےجہ جاننے کے لیے ہاتھوں کو باری باری اٹھاتا ہے۔ جب وہ مرکزی ہاتھ کے اوپر سے آخری ہاتھ اٹھاتا ہے تو مکھی اےک دم سے اڑ جاتی ہے۔ بت مکھی کی اس چالاکی پر احمقوں کی طرح چاروں طرف اپنا سر گھماتا ہے او ر گھبراہٹ مےں اپنے سب ہاتھ اِدھر اُدھر چلانا شروع کردےتا ہے۔ اس عمل سے اُس کے چھ کے چھ ہاتھ آپس مےں الجھ جاتے ہےں اور انہےں گرہ لگ جاتی ہے۔ مکھی اب اس کے ہونٹوں پر جا پہنچتی ہے۔ بت کے ہاتھ الجھے ہونے کے باعث ناکارہ ہوتے ہےں۔ وہ اپنے چہرے کو نےچے جھکاتا ہے تاکہ ہاتھوں کے قرےب کرسکے لےکن بے سود۔ مکھی نہےں اڑتی بلکہ اوپر کی طرف اپنا سفر شروع کردےتی ہے اور سےدھی اس کی ناک مےں جا گھستی ہے۔ اس سے بت کو زور کی چھےنک آتی ہے جس سے وہ سارے کا سارا ہل جاتا ہے اور اس کے الجھے ہوئے ہاتھ خودبخود کھل جاتے ہےں۔ بت اب وحشی ہو جاتا ہے۔ مکھی دائےں طرف تانبے کے فرےم پر جابےٹھتی ہے۔ وہ پوری قوت سے اپنے سارے ہاتھوں کے پنجے اس پر مارتا ہے۔ مکھی صاف بچ نکلتی ہے اور فرےم کے بائےں طرف جا بےٹھتی ہے۔ بت غصے سے آگ بگولا ہوکر اٹھی ہوئی ٹانگ سے اس پر زور سے کک مارتا ہے۔ مکھی کو تو کچھ نہےں ہوتا البتہ تانبے کا فرےم ٹےڑھا ہو جاتا ہے۔ مکھی اڑ کر اس کی ناک کے سوراخ مےں چلی جاتی ہے اور دوسرے سوراخ سے نکلتی ہے۔ مکھی کو ےہ کھےل پسند آتا ہے۔ وہ اےک سوراخ مےں داخل ہوتی ہے اور اندر ہی اندر ہوتی ہوئی دوسرے سوراخ سے نکل کر پھر پہلے سوراخ مےں گھس جاتی ہے۔ بت مکھی کی ان حرکات سے پاگل ہو گےا ہوتا ہے۔ وہ دونوں سوراخوں کو اپنی انگلےوں سے بند کردےتا ہے۔ کچھ دےر بعد جب وہ اےک انگلی ہٹاتا ہے تو مکھی اڑ کر دوبارہ فرےم پر جا بےٹھتی ہے۔ بت اس پر مکا اور اپنا سر مارتا ہے جس سے اسے اچھی خاصی چوٹےں لگتی ہےں۔ مکھی پھر بچ نکلتی ہے اور اس کے اردگرد اڑنا شروع کردےتی ہے۔ بت اپنے جسم کا اےک ٹکڑا توڑتا ہے اور مکھی کو دے مارتا ہے مگر نشانہ خطا ہوتا ہے۔ بت اپنے سارے ہاتھ ہوا مےں گھما گھما کر اڑتی ہوئی مکھی کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اچانک مکھی اس کے اےک ہاتھ مےں آجاتی ہے۔ وہ مٹھی بند کرلےتا ہے۔ بت اس انٹرنےشنل کامےابی پر جھوم اٹھتا ہے اور مست ہوکر ناچنے لگتا ہے۔ ناچتے ناچتے وہ قےدی مکھی کو فاتحانہ انداز سے دےکھنے کے لیے مٹھی کھولتا ہے اور عےن اسی وقت مکھی اس کے ہاتھ سے فرار ہو جاتی ہے۔ بت کے لیے ےہ اےک ناقابلِ ےقےن شکست ہوسکتی ہے۔ اس لیے وہ مکھی کو پکڑنے کے لیے آگے لپکتا ہے۔ اےک پاﺅں پر کھڑا، چھ ہاتھوں والا، متوازن، طاقتور بت اپنا توازن کھو دےتا ہے اور نےچے گمنام گہرائےوں مےں جاگرتا ہے۔ بت کے گرجانے سے فرےم کے اندر خلاءپےدا ہوتا ہے جہاں اےک مکڑی نمودار ہوتی ہے، اپنا جالا بُنتی ہے اور وہی شرارتی خودسر مکھی جونہی اس جالے پر بےٹھتی ہے، مکڑی اسے اپنے منہ مےں دبوچ لےتی ہے۔ مکھی کی سسکےاں سنائی دےتی ہےں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ ےوں فلم ختم ہوتی ہے۔ حکمران جتنے بھی مضبوط ہوں، اُن کے چاروں طرف جتنی بھی انٹرنےشنل سپورٹ موجود ہو، ان کے طاقتور ہاتھ جتنے بھی زےادہ ہوں، وہ اگر دوسروں کے بنائے ہوئے ہےں، اپنی دھرتی اور عوام سے دور ہےں تو اےک مکھی کو بھی کےفرِکردار تک نہےں پہنچا سکتے کےونکہ چھوٹی سے چھوٹی شے کو بھی پکڑنے کے لیے جاندار ہونا ضروری ہے۔ بت تو بت ہوتا ہے، خواہ کتنا لمبا چوڑا اور مضبوط ہی کےوں نہ ہو، اس مےں جان نہےں ہوتی جبکہ چھوٹی سی مکڑی اپنے شکار کو آسانی سے پکڑ لےتی ہے کےونکہ مکڑی جاندار ہے۔