Jasarat News:
2025-01-27@04:04:22 GMT

لوگو! چوکیدار نہ رکھنا

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

لوگو! چوکیدار نہ رکھنا

میں: تم آج پھر کسی خطرناک موڈ میں لگ رہے ہو؟

وہ : نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں،بس آج اس چوکیداری نظام پر گفتگو کرلیتے ہیں جو دنیا میں صدیوں سے رائج ہے۔

میں: تو پھر کیوں نہ پہلے یہ کھوج لگائی جائے کہ اس چوکیداری نظام کا آغاز کب ہوا اوروہ کون تھا جسے دنیا میں سب سے پہلے اپنی جان بچانے اور جائیداد وگھر وغیرہ کی حفاظت کے لیے کسی محافظ کی ضرورت پیش آئی ہو؟

وہ : میرے خیال سے اس اولین فرد کو تاریخ کے گم شدہ اوراق میں تلاش کرنا مشکل کام ہے لیکن فطری طور پہلی بار یہ ضرورت خوں خوار جانوروں اوروحشی درندوں سے انسانوںاور ان کی بستیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے پڑی ہوگی۔اورجیسے جیسے سماج میں تہذیب وتمدن کی بنیادیں مستحکم ہوئی ہوں گی توویسے ویسے انسانوں کوجانوروں کے ساتھ ساتھ اپنے جیسے انسانوں سے محفوظ رہنے کے لیے بھی اس پہرے داری کی ضرورت پڑتی گئی ہوگی۔

میں: خطرناک اورموذی جانوروں سے بچنے کے لیے تو یہ تدبیرٹھیک اورضروری بھی ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ایک انسان کواپنے جیسے انسان سے محفوظ رہنے کے لیے محافظ کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب دنیا کے مختلف علاقوں میںتہذیب وتمدن کی بنیادیں استوارہوچکی تھیں یا رکھی جارہی تھیں۔

وہ : خیریہ بات تو انسان کی زمین پر آمد کے شاید کچھ ہی سال بعد واضح ہوگئی تھی جب قابیل نے ہابیل کوقتل کیا تھا،اگر اس وقت ہابیل کی حفاظت پرکوئی محافظ مامور ہوتا توشاید صورت حال اس کے برعکس ہوتی اورہابیل کے بجائے قابیل کی زندگی کا خاتمہ ہوجاتا۔

میں:تمھاری بات بالکل درست ہے کیوں کہ محافظ کی بنیادی ذمہ د اری یہی ہے کہ وہ اپنے مالک اوراس کی املاک کی حفاظت کے لیے اپنی جان دائو پر لگانے سے بھی دریغ نہ کرے، اور اگر معاملہ ان محافظین کا ہو جو ملک کے اندرونی امن امان کی حفاظت اورسرحدوںکی نگرانی کے انتہائی اہم منصب پر فائض پاسبانوں کے لیے دشمن کی سرگرمیوں اورچالوں پر نظر رکھنے کے حوالے سے یہ فرضِ منصبی اوربھی دگنا ہوجاتا ہے۔اور ان فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے محافظین اورمجاہدین کی قربانیاںنہ صرف عوام کے دلوں میں زندہ رہتی ہیں بلکہ ریاست بھی انہیں ہمیشہ اعزاز واکرام کے ساتھ یاد رکھتی ہے۔

وہ: اور یہ بھی ایک فطری امر ہے کہ ہر معاشرے کے عوام اورریاست دونوں ہی ان خدمات کے صلے میں محافظین کے حق ِپاسبانی(چوکیداری کی تنخواہ) کو ادا کرنے میں کبھی پس وپیش نہیں کرتے۔لیکن سماج میں بگاڑ اس وقت شروع ہوتا ہے،جب پہریدار فرائض کی بجاآوری کے لیے کاندھے پر ٹنگی بندوق اورسینے پر سجے پھولوں اورتمغوں کے زور پراپنی متعین تنخواہ کے علاوہ گاہے بگاہے سرکار کے بجائے عوام سے رقم کا مطالبہ کرنا شروع کردے۔اوریہ صورت حال اور بھی تکلیف دہ ہوجاتی ہے جب عوام اپنی حفاظت پر متعین محافظوں سے ہی خوف کھانے لگیں،اپنے اوپر ہونے والے ظلم وزیادتی پر نہ زبان سے شکایت کریں اورنہ ہی اس کی رپورٹ درج کرائیں۔ حال تویہ ہے کہ رشوت کے بغیر کسی شخص کی کچی اورپکی کوئی بھی شکایت درج ہوہی نہیں سکتی اب وہ شکایتی کوئی مفلوک الحال ہو یا کوئی ساہوکار۔ بچپن میں یہ تحریر کسی دیوار پر پڑھی تھی ـ’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی ‘لیکن یہ مدد حاصل کرنے کے لیے پہلے آپ کو پولیس کی مد د کرنی ہوگی اوریہ بات تو ڈھکی چھپی نہیں کہ پولیس کی یہ مدد آپ کو رشوت کی شکل میں کرنی ہوگی، ظاہر ہے کہ آپ کسی ہتھیار یا زرہ بکتر کی شکل میں تو یہ مدد کرنے سے رہے ۔

رہی بات محافظین کے درجہ ء اول کی تو انسان گناہ سے صرف دو ہی صورتوں میں بچنے کی کوشش کرتا ہے ،یا تو اس کے دل میںآخرت میں جواب دہی کی وجہ سے خدا کا ڈر موجود ہویا پھر اس دنیا میں قانون کی گرفت میں آجانے کا خوف۔لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہویعنی قانون خود ہر وقت اسی اندیشے اورخوف میں رہے کہ کہیں میرے کسی قدم یا حکم پر مجھے ہی گرفت میں نہ لے لیا جائے توایسے ماحول میں ریاست کے اندر ریاست والی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے،جسے کسی گرفت کسی شکنجے میں آنے کا ذرا برابر بھی ڈر اورخوف نہیں ہوتا اوررہ گئے بیچارے عوام توا ب اس نظام میں ان کے لیے نہ امن کی ضمانت ہے نہ جان کی امان ۔یہ دونوں چیزیں صرف محافظ چھائونیوں اورعسکری کالونیوں کے مکینوں کا حق ہے، اگر آپ عزت، چین اورسکون کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو مال خرچ کریں اورآجائیں گوشہء عافیت میں۔یعنی جان کی امان پانی ہے تواس کے لیے رقم خرچ کرنا ہوگی،یا اسی رقم سے کوئی لائسنس یافتہ ہتھیار

خرید لیںتاکہ بوقت ضرورت کم از کم اپنا اوراپنے بچوں کا دفاع توکرسکیں۔ورنہ ایک تیسری صورت بھی ہے ،وہ یہ کہ محافظین کی جانب سے یہ بات کئی بار دہرائی جاچکی ہے کہ آپ یعنی عوام کسی لٹیرے یارہزن کے سامنے بالکل بھی مزاحمت نہ کریں ،جیسا کہے اورجومانگے وہ دے کر اپنی جان بچائیں۔ اور بیچارے عوام نہ جانے کتنے برسوں سے اسی حکم کی بجا آوری میں لگے ہیں، جیسا کہاجارہاہے خاموشی سے بالکل ویسا ہی کرتے جارہے ہیں۔شاید اسی لیے چوکیداری کا مجموعی نظام عوام اورپہرے داروں کے باہمی تعاون کی بدولت اس قدر مستحکم اورمنظم ہوچکا ہے کہ اب شاید ہی کوئی ادارہ اورمحکمہ ایسا بچا ہوا جو نگہبانی کے اس حصار سے باہر ہو،اور شاید ہی دنیا کے کسی اورخطے میں اتنی محنت ،جستجو اورمستقل مزاجی کے ساتھ ریاست اورعوام کے تحفظ کی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔

میں: مجھے ایسا لگتا ہے کہ اول اوردوم دونوں درجے کے محافظین نے نگہبانی کے اس انتہائی اہم ترین فریضے کوایک صنعت کا درجہ دے دیا ہے۔اورشاید یہ واحد صنعت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ خوب پھل پھول رہی ہے۔

وہ : اس موقع پر نہ جانے کیوں خالد علیگ مرحوم یاد آگئے، آج کی یہ گفتگو ان کے اس شعرکے نام کرتے ہیں۔ؔ

اپنی حفاظت کرنا آپ ،اس میں ہرگز عار نہ رکھنا
گھر پر قبضہ کربیٹھے گا،لوگو !چوکیدار نہ رکھنا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی حفاظت اپنی جان کے ساتھ ہے کہ ا کے لیے

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
جانے والے جا کر آنا بھول گئے
خوشبو ٹھہری، ہاتھوں آئے پھول گئے
کالے بادل ہم نے خود ہی تان لیے
اونٹوں والے چھوڑ کے اجلی دھول گئے
کیسے لوگوں کے پہلو میں بیٹھے تھے
لوگ وہ اجڑے، اپنے سب معمول گئے
تب تھا اس جانب کو تکنا بار تجھے
اب کیا ہو گا دن تھے وہ معقول، گئے
پیاسے تھے جو تم سے  ملنے آئے تھے
ہم نے دیکھا تم جو ہو مشغول، گئے
پاگل کرنے والی رت ہے ساون کی
اپنی بانہیں، تیری جان کے جھول گئے
 اس نے قتل کیا ہے پھر سے ارماں کا
دے کر وعدوں کو وہ اپنے طول گئے
اک اندر تھا، اک باہر سیلاب نہ پوچھ
جو تحویل میں نامے تھے منقول، گئے
حسرتؔ کتنے کچّے یار ہیں اب دیکھو
ایک ذرا سی بات ہوئی اور پھول گئے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)

...
غزل
چشم سے نکلے ہوئے ہیں کس طرح چشمہ و سیلاب دیکھ
اور ہر سیلاب میں اٹھتے ہوئے گرداب دیکھ
جو بھی نکلے سربکف نکلے، سحر دم شہر میں
اِس عجب شہرِ تمنا کے عجب آداب دیکھ 
کیا خبر کیا ہو پسِ گل ہائے مہر و التفات
پردۂ شیریں دہن میں تلخیٔ زہراب دیکھ
اے مری شوریدگی مجھ کو ذرا سستانے دے
آ مرے پائے شکستہ، آ مرے اعصاب دیکھ
نیند بستہ آنکھ میں پھر سے نئی تعبیر ڈھونڈ
روزنِ چشمِ تصور میں سہانے خواب دیکھ
سوزؔ ایسے بھی سلجھتی ہیں کہاں یہ گتھیاں
عشق کے عنوان سے پہلا خودی کا باب دیکھ
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)

...
غزل
چھپا لی اپنی صورت کیوں دکھا کر
مریض عشق پر کچھ تو دیا کر
ملی آخر ہے بس اک گھونٹ نفرت
زباں پر سچ میں آیا تھا سجا کر
مسیحا عشق کو سمجھا ہے دل نے
مسیحا، درد کی میرے دوا کر
ملے گا خاک میں اک دن تو وہ بھی
جو خوش ہے، میری ہستی کو مٹا کر
کوئی تو عرش پہ، پہنچے گی آخر
دعا کر، بدگماں دل، بس دعا کر 
چلے آئے ہیں لے کے درد پیہم
گئے تھے اس گلی، یہ دل منا کر 
تپش یادوں کی گھٹتی ہی نہیں ہے
گیا تھا کوئی اپنے، خط جلا کر
(عامرمعانؔ۔ کوئٹہ)

...
غزل
اجنبی سے کب تحفے میں گلاب لیتے ہیں 
اس طرح کی صورت ہو تو حجاب لیتے ہیں
خودکشی پہ مائل لگتے ہیں قافلے والے 
تشنگی ہے تو کیوں راہِ سراب لیتے ہیں
ایک شخص مجھ کو ڈھیروں دعائیں دیتا ہے 
فجر سے سویرے جب آفتاب لیتے ہیں
وہ زمانے کے خال و خد میں کام آئے گی
چل، امام سے اک مٹھی تراب لیتے ہیں
عشق چھوڑ کر تجھ سے صرف دوستی کر لوں؟ 
کب سمندروں کے عادی،چناب لیتے ہیں
یہ چراغ تو مدعو کرتے ہیں قزاقوں کو 
اس لیے ہوا اکثر ہم رکاب لیتے ہیں
ہم نے آبلے بے توقیر کر لیے ساگرؔ
لوگ تو ارادے کا بھی ثواب لیتے ہیں
(ساگر حضورپوری۔ سرگودھا)

...
غزل
بہت تھوڑا سا اسبابِ سفر رکھے ہوئے ہے
جبھی وہ اپنی گاڑی تیز تر رکھے ہوئے ہے
میں دن ڈھلنے سے پہلے گھر پہنچنا چاہتا ہوں 
یہی خواہش مجھے محوِ سفر رکھے ہوئے ہے
مرے دشمن، اسے سکھلا تعاقب کا سلیقہ
ترا جو آدمی مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے
وہ اچھا تیرنے والا ہے لیکن اُس بھنور میں
بمشکل خود کو سطحِ آب پر رکھے ہوئے ہے
ہمارے ساتھ چل سکتا ہے جو بھی چلنا چاہے
مگر وہ شخص جو راہ ِ مفر رکھے ہوئے ہے
پریشاں دیکھ کر عزت سے پیش آتی ہے دنیا
ترا غم مجھ کو کتنا معتبر رکھے ہوئے ہے
تمہی اذنِ سفر دینے سے کترانے لگے ہو
حسن تو اپنا ساماں باندھ کر رکھے ہوئے ہے
(وقار حسن۔ خوشاب)

...
غزل
اک کردار کہانی سے 
بھاگ آیا آسانی سے 
بات کروں کس سے آخر 
ریت سے یا پھر پانی سے
تم انسان نہیں لگتے 
آنکھوں کی ویرانی سے 
جل پریوں نے گیت سنے 
ریگستان کی رانی سے 
بھول گیا وہ چہرہ بھی 
کیسے خوش امکانی سے 
ایک ستارہ جھانکتا ہے
نور بھری پیشانی سے 
مٹی کے پُتلے ہیں آخر 
بِکتے ہیں ارزانی سے 
کوئی بات نہیں سنتا
کہہ دو گر حیرانی سے 
( زاہد خان ۔تحصیل پہاڑپور، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان)

...
غزل
مصیبت آن پڑتی ہے کہ جب کوئی نہیں رہتا
تو پھر ایسے میں جینے کا سبب کوئی نہیں رہتا
یہ میرے جسم کا زنداں ہے خالی ایک مدت سے
یہاں رہتا تھا پہلے میں پر اب کوئی نہیں رہتا
ضرورت ہو دلاسے کی تو کاندھے روٹھ جاتے ہیں
دعا کی گر ضرورت ہو تو لب کوئی نہیں رہتا
مری آنکھیں اسے دیکھیں تو سجدے میں چلی جائیں
کہا کس نے محبت میں ادب کوئی نہیں رہتا؟
ارے ارباب چاہت میں نہیں مرتا کوئی مانا
مگر یہ بات ہے جینے کا ڈھب کوئی نہیں رہتا
(ارباب اقبال بریار۔واہنڈو، گوجرانوالہ)

...
غزل
حیراں ہوں پریشاں ہوں نہ ہاتھوں کو ملوں ہوں 
اپنا ہی بدن لے کے سرِ دار چلوں ہوں
رہوار مری خاک ہے سوچیں ہیں علا تک
صدقے انہی سوچوں کے جہنم میں جلوں ہوں 
کیوں دیکھوں کسی سمت میں اے جاذبِ ہستی  
میں خود بھی تری یاد کے ٹکڑوں پہ پلوں ہوں
ہر سمت سے ہی رسوا ہوں وللہ میں کروں کیا 
گر رنج کو بھایا ہوں تو خوشیوں کو کھلوں ہوں
ہووے نہ کسی اور سے جو میں نے کیا ہے 
کیوں در پہ ترے بیٹھوں میں ٹالے نہ ٹلوں ہوں
(علی رقی۔ فیصل آباد)

...
غزل
تکتے رہتے ہیں لکیریں دست کی
ہم سے بنتی کیوں نہیں ہے بخت کی
ہم ہیں راضی با رضا ہر حال میں
دل میں حسرت کب ہے تاج و تخت کی
دل اچھل کر پھر حلق تک آگیا
اس نے یونہی بات چھیڑی رخت کی
جان سے پیارے تھے اس کو ہم کبھی
بات لیکن ہے یہ بیتے وقت کی
اس کا ملنا ہی مقدر میں نہ تھا
دیر سے ہم بات سمجھے بخت کی
اس کی آنکھیں اس قدر ویران تھیں
جیسے کوئی سرزمیں ہو دشت کی
ایرے غیرے کو سمجھ آتی نہیں
بات گہری ہے قلندر مست کی
وہ سمے کے ساتھ چلتا ہے میاں
جو سمجھتا ہو طبیعت وقت کی
گھر کی ساری برکتوں کو کھا گئی
تو تو، میں میں، ہرگھڑی، ہر وقت کی
دل ہجوم شہر سے اکتا گیا
پھر ڈگر راحلؔ پکارے دشت کی
(علی راحل۔ بورے والا، پنجاب)

...
غزل
مرا خیال دل بے ضمیر پر اگتا 
یہ کوئی زخم نہ تھا جو سریر پر اگتا
تری توجہ کے دریا کہاں ضروری تھے
میں وہ شجر تھا جو آنکھوں کے نیر پر اگتا
تمھارے بعد بجھا ہوں سو کیسی حیرانی 
میں دن نہیں تھا جو شب کے اخیر پر اگتا
یہ شکر ہے کوئی تہمت نہیں ملی ورنہ 
یہ موتیا بھی مزارِ فقیر پر اگتا
یقیں کریں نہ کریں پر سبھی نے دیکھا تھا
کسی کے ہاتھ میں سورج غدیر پر اگتا
(حسیب الحسن۔ خوشاب)

...
غزل
میں تو محبوب تیرا غم بھی گوارا کرتا 
کاش کہ تو بھی مجھے غم میں پکارا کرتا 
یہ تیری شوخ ادائیں ہی تیری دشمن تھی  
میں تو ہر وقت تیری نظر اتارا کرتا
میں نے جب ساتھ نبھانے کی قسم کھائی تھی 
میں تو ہر حال سے اس دل کو گزارا کرتا 
تم سے پہلے بھی بہت درد سہے ہیں میں نے 
ہر نیا زخم پرانوں کو ابھارا کرتا 
تب بھی ارسلؔ مجھے ان سے ہی جدا ہونا تھا 
گر میں اس پیار کو ارسل جو دوبارہ کرتا 
(ارسلان شیر ۔ کابل ریور ،نوشہرہ)

...
غزل
اس کو دل میں بسا دیا میں نے 
یوں دل اپنا گنوا دیا میں نے 
بااثر شخص بے وفا نکلا 
دل جلا کر جلا دیا میں نے 
اب میرے سر پہ چھڑ گیا پاگل 
جس کو سر پر چڑھا دیا میں نے 
مسکرا کر کسی سے یوں بولے 
اس کو پاگل بنا دیا میں نے
بس یہی جھوٹ روز کہتا ہوں 
اس کو سچ مچ بھلا دیا میں نے
( عاطف خان ۔ڈھکی خورہ آباد، ضلع چارسدہ)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

متعلقہ مضامین

  • ریاست عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کررہی،ایمل ولی خان
  • نواز شریف سے کوئی ناراضی نہیں، نہ غلط فہمی ہے، شاہد خاقان
  • کوچۂ سخن
  • علماء اور عوام کا عاملوں پر شکنجہ کسنے کا مطالبہ، بحث کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا
  • مختلف نظریات اور ان کا مفہوم
  • ٹیکسٹائل کی صنعت رواں رکھنا ضروری ہے، پٹیاسہیل پاشا
  • شہرمیں مسائل کا ذمہ دار مینڈیٹ پر قابض ٹولہ ہے ، سیف الدین
  • کراچی کی تباہی کا ذمہ دار عوامی مینڈیٹ پرقابض ٹولہ ہے: سیف الدین ایڈوکیٹ
  • کراچی سے لڑکی کے لاپتا ہونے کا ڈراپ سین، چوکیدار سے متعلق بیان بھی سامنے آگیا