حیدرآباد: لطیف آباد میں پھیلا ہوا کچرا حکومتی نا اہلی کا منظر اور عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

آزادیٔ اظہار پر نئی حکومتی پابندیاں

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں پر ذرائع ابلاغ کی تعمیری تنقید حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بہت ضروری ہے، حکومت اور ذرائع ابلاغ کے مابین اعتماد کا رشتہ ہے، حکومت ذرائع ابلاغ کی تعمیری تنقید کا خیر مقدم کرتی ہے۔ ایوان وزیر اعظم سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وفد سے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران کیا۔ وزیراعظم نے اس ملاقات میں دعویٰ کیا کہ اس وقت ملک میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے اور حکومت ذرائع ابلاغ کے ریاست کا چوتھا ستون ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ ’’ اڑان پاکستان‘‘ ملکی ترقی کا مقامی طور پر تیار کردہ منصوبہ ہے جس کو ذرائع ابلاغ اور تمام دیگر متعلقہ فریقوں کے تعاون سے کامیاب بنائیں گے۔ محترم وزیر اعظم کے برقی ذرائع ابلاغ کے مالکان کے روبرو یہ دل خوش کن ارشادات اپنی جگہ، تاہم دوسری جانب حقائق کی دنیا کی صورت حال کچھ یوں ہے کہ قومی اسمبلی سے جمعرات کے روز حکومت نے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر ایک ترمیمی بل منظور کرایا ہے،یہ ترمیمی بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا۔ جبکہ صحافیوں اور اپوزیشن نے پیکا ترمیمی بل کے خلاف ایوان زیریں سے واک آؤٹ کیا۔ سائبر کرائم قوانین میں تبدیلیوں کا تازہ ترین مسودہ جس کا عنوان الیکٹرونک جرائم کی روک تھام (ترمیمی) بل 2025ء تھا کو ایک روز قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ اپوزیشن جماعت جے یو آئی (فضل الرحمن) کے ارکان نے بھی بل کی مخالفت کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پارٹی کے بانی عمران خان کی نظر بندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پہلے ہی ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر چکے تھے۔ علاوہ ازیں صحافیوں کی مختلف تنظیموں نے اپنے الگ الگ بیانات میں پیکا ترمیمی بل کی مذمت کی ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) سمیت صحافیوں کے حقوق کے گروپوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں اس ترمیم کی مذمت کی گئی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی پیکا کی کسی بھی ایسی ترمیم کو مسترد کرتی ہے جو میڈیا اداروں کے ساتھ مشاورت کے بغیر منظورکی گئی۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ روز پیکا ایکٹ ترمیمی بل2025ء قومی اسمبلی میں پیش کیا تھاجس کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جھوٹی خبر پھیلانے والے شخص کو 3 سال قید یا20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔پیکا ایکٹ ترمیمی بل2025ء کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کئے جائیں گے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہوگی جبکہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلق اداروں کو غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔ سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد24 گھنٹے میں درخواست دینے کا پابند ہوگا۔ قومی اسمبلی سے ترمیمی بل کی منظوری سے قبل قائمہ کمیٹی سے بل کی منظوری حاصل کی گئی جہاں تحریک انصاف کی رکن زرتاج گل نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کیا جب کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے بھی بل کی مخالفت کی تاہم یہی بل جب قومی اسمبلی کے ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو ان دونوں جماعتوں کے ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ جس سے ان جماعتوں کے دہرے کردار کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے تازہ ترامیم کا دفاع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ ترمیمی بل سماجی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ہے‘ جس سے عامل صحافیوں کو تحفظ ملے گا، پارلیمنٹ ہاؤس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ کے متعلق قواعد و ضوابط پہلے سے موجود ہیں جبکہ ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ کے بارے میں قواعد وضوابط وقت کی ضرورت ہیں، یہاں صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے کیونکہ جھوٹ اور پروپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں، ترمیمی ایکٹ میں سماجی ذرائع ابلاغ کی تعریف کی گئی ہے‘ برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ اس ایکٹ سے متاثر نہیں ہوں گے، سماجی ذرائع ابلاغ سے لاکھوں کمانے والے ٹیکس بھی نہیں دیتے، جو انتہا پسندانہ نقطۂ نظر کہیں بیان نہیں ہو سکتا وہ سماجی ذرائع ابلاغ پر زیادہ مقبولیت حاصل کرتا ہے‘ وفاقی وزیر اطلاعات نے اپنے مؤقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر الزام تراشی اور کردار کشی ہوتی ہے مگر اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا، ترمیمی بل سے ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ ملے گا، عامل صحافیوں کو موقع ملے گا کہ اپنا روزگار محفوظ بنا سکیں، سماجی ذرائع ابلاغ کے نام پر خود ساختہ صحافی نفرت پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم مشاورت پر یقین رکھتے ہیں اس لیے تمام صحافتی تنظیموں کو دعوت ہے کہ وہ آئیں اور بیٹھ کر بات کریں…!

وزیر اعظم ہوں یا وفاقی وزیر اطلاعات ان کی باتیں بظاہر بہت دل خوش کن ہیں اور ان میں کسی حد تک وزن بھی محسوس ہوتا ہے مگر حقائق ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں۔ جناب محمد شہباز شریف نے براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وفد کے ارکان سے گفتگو زمینی حقائق اور دعوؤں کی نفی کرتے ہیں، جتنی سخت پابندیاں موجودہ دور میں صحافت اور اہل صحافت کو برداشت کرنا پڑ رہی ہیں ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی، صحافیوں کو نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا، بے بنیاد مقدمات اور قید وبند کی جو صعوبتیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیںجس کا آمرانہ ادوار میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وزیر اعظم اور ان کے وزیر اطلاعات کیا نشاندہی کر سکتے ہیں کہ مملکت کی گزشتہ تاریخ میں ملک کی ایک مقبول سیاسی جماعت کے سربراہ کا نام برقی ذرائع ابلاغ پر زبان یا ورقی ذرائع ابلاغ پر نوک قلم پر لانے پر پابندی عائد کی گئی ہو اور انہیں بانی، والد فلاں یا شوہر فلاں وغیرہ کی اصطلاحات اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے استعمال کرنا پڑی ہوں۔ جہاں تک متنازع ترمیمی پیکا ایکٹ کا تعلق ہے، وفاقی وزیر اطلاعات کے بعض خدشات یقینادرست ہوسکتے ہیں مگر ان کی بنیاد پر آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کی اجازت کسی بھی حکومت کو بہرحال نہیں دی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے تمام صحافتی تنظیموں اور مدیران جرائد کی انجمن نے اس ایکٹ کو ناقابل قبول قرار دے دیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ حکومت اس قانون کی منظوری کے ضمن میں وعدہ خلافی کی مرتکب ہوئی ہے۔ صحافیوں کی مشترکہ مجلس عمل نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے اور عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اب بھی ہوش کے ناخن لے اور ایوان بالا سے بل کی منظوری کو مؤخر کر کے صحافتی تنظیموں، سول سوسائٹی اور دیگر متعلقہ فریقوں کو اعتماد میں لے کر ان کے اطمینان کے مطابق مزید پیش قدمی کرے تاکہ ملک میں رہی سہی آزادی اظہار، آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق اور حکومت کی بچی کھچی ساکھ کا تحفظ کیا جا سکے… ورنہ مولانا الطاف حسین حالیؔ کے الفاظ میں حقیقت اس سے مختلف نہیں کہ:

اک دسترس سے تیری، حالی بچا ہوا تھا
اس کے بھی دل کو تو نے چرکا لگا کے چھوڑا

متعلقہ مضامین

  • شہدادپور،مغل الائنس پاکستان کی جانب سے پریس کلب کے نومنتخب عہدیداران کے اعزازمیں دیے گئے عشائیہ کا منظر
  • حیدرآباد ،لطیف آباد کے مکین انسداد تجاوزات کے عملے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں
  • حیسکو افسران اپنی نا اہلی اور کرپشن چھپانے کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں، فنکشنل لیگ
  • آزادیٔ اظہار پر نئی حکومتی پابندیاں
  • حیدرآباد: لطیف آباد نمبر 12 میں سیوریج کا جمع ہونے والا پانی راہگیروں اور رہائشیوں کے لیے مشکلات پیش کر رہا ہے
  • اربوں روپے لگا کر سالڈ ویسٹ کو بحال کیا، شرجیل میمن
  • حکومت بغیر مشاورت فیصلے کرکے اپنے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے،بلاول بھٹو
  • امریکی صدر ٹرمپ کا امریکی تاریخ کے 3 اہم قتل کی رپورٹس منظر عام پر لانے کا حکم
  • ٹرمپ نے امریکی تاریخ کے 3 اہم قتل کی رپورٹس منظر عام پر لانے کا حکم دے دیا